زیک

مسافر
تنزانیہ میں سفاری پر جانے کا شوق بہت عرصہ سے تھا۔ پلانٹ ارتھ اور دیگر ڈاکومینٹریز دیکھ دیکھ کر جذبہ بڑھتا گیا۔

دو سال پہلے محفل پر ذکر بھی کیا تھا کہ سیرنگٹی جانا میری بکٹ لسٹ میں شامل ہے۔

اجتماعی انٹرویو - آپ کی بکٹ لسٹ

2016 میں پیرو میں ایمزون کے جنگلات جانے کے لئے ییلو فیور کی شاٹس لگوائی تھیں۔ اس کے بعد سے ارادہ تھا کہ شاٹس کا اثر ختم ہونے سے پہلے مشرقی افریقہ کا بھی چکر لگا لیا جائے۔
 

زیک

مسافر
ریسرچ شروع کی۔ سفاری کے لئے لوگ تنزانیہ، کینیا، بوٹسوانا اور جنوبی افریقہ وغیرہ جاتے ہیں۔ ہمارے دل کی آواز سیرنگٹی تھی لہذا ہم نے تنزانیہ کا انتخاب کیا۔

تنزانیہ میں مشہور ترین شمالی سرکٹ کی سفاری ہے۔ اس میں سیرنگٹی کے علاوہ انگورونگورو کریٹر اور دیگر نیشنل پارک شامل ہیں۔ یہ نیشنل پارک ایسے فاصلے پر ہیں کہ گاڑی پر بھی سفر کیا جا سکتا ہے۔

جنوبی تنزانیہ میں بھی کئی نیشنل پارک ہیں۔ یہاں فاصلے زیادہ ہیں اور اکثر چھوٹے جہازوں پر ایک پارک سے دوسرے تک جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ مغربی تنزانیہ میں آپ چمپینزی دیکھ سکتے ہیں۔ چمپینزی اور گوریلا ٹریکنگ کا مجھے کافی شوق تھا۔ اس کے لئے یوگانڈا، روانڈا اور تنزانیہ کو چیک کیا لیکن تمام جگہوں پر کم از کم عمر 16 سال تھی۔ مزید چند سال انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا گوریلا ٹریکنگ کے پلان کو ڈراپ کرنا پڑا۔

شمالی تنزانیہ کی ایک major attraction ماؤنٹ کلیمنجارو ہے۔ یہ آتش فشاں افریقہ کا سب سے اونچا پہاڑ ہے۔ 5895 میٹر اونچی چوٹی سر کرنا آسان نہیں لیکن اس کے لئے کوہ پیمائی سکلز کی ضرورت نہیں۔ ہائک کر کے آپ کر سکتے ہیں۔ پہلے سوچا کہ اسے بھی ٹرپ میں شامل کیا جائے لیکن altitude sickness سے بچنا ہو تو اسے سر کرنے میں 7 سے 9 دن لگتے ہیں۔ ہمارا چھٹی کا پلان دو ہفتے کا تھا۔ لہذا کلیمنجارو نیشنل پارک کو پلان سے خارج کیا اور مستقبل کے لئے اٹھا رکھا۔
 

زیک

مسافر
پہلا فیصلہ یہ کرنا تھا کہ خود ڈرائیو کیا جائے یا نہیں۔ خود ڈرائیو کا اپنا ہی مزا ہے لیکن اس ٹرپ پر زیادہ تر ڈرائیونگ آف روڈ ہونی تھی کہ نیشنل پارکس میں کوئی پکی سڑک نہیں ہے۔ پھر راستے ڈھونڈنے کے لئے اچھے نقشوں کا بھی انتظام چاہیئے تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ایسی ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ وائلڈ لائف بھی ڈھونڈنی ہوتی اور تصاویر بھی کھینچنا تھیں۔ لہذا بہتر یہی لگا کہ ڈرائیور سمیت فور بائی فور گاڑی لی جائے۔

اس کام کے لئے تنزانیہ میں حکومت سے منظور شدہ سفاری اپریٹر ہیں۔ یہ اکثر all-inclusive پیکج آفر کرتے ہیں یعنی گاڑی، گاڑی، پٹرول وغیرہ کے ساتھ ساتھ ہوٹل یا کیمپنگ اور کھانا بھی۔

عام طور پر مجھے ایسے پیکج پسند نہیں آتے لیکن یہاں یہ آپشن تھی کہ ہوٹل اور کیمپنگ وغیرہ اپنی مرضی کی سیلکٹ کی جائے۔
 

زیک

مسافر
نیٹ پر مختلف سفاری اپریٹرز کے ریویو دیکھے اور ان کے ویب سائٹ چیک کئے۔ ان میں سے آدھ درجن منتخب کئے اور ان سے دس بارہ دنوں کی سفاری کے متعلق پوچھا۔

انہوں نے جو پلان بھیجے وہ ملتے جلتے تھے لیکن اتنا فرق تھا کہ قیمت کا تقابل ممکن نہ تھا۔ لہذا نیشنل پارکس کے متعلق نیٹ اور گائیڈبکس سے معلومات حاصل کیں۔

رہائش کی آپشنز پر ریسرچ کی۔ سب سے سستا پبلک کیمپ سائٹ پر اپنے (سفاری والوں کے) ٹینٹ میں رہنا تھا۔ اس صورت میں کھانے کا انتظام بھی سفاری اپریٹر کی طرف سے ہوتا۔ اس میں ریسٹ روم اور نہانے کا اچھا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بیوی نے اسے رد کر دیا۔

اس کے علاوہ وہاں کچھ ہوٹل بھی ہیں لیکن ہوٹل کے کمرے سے ولڈرنیس کا وہ مزا نہیں آتا۔

تیسری آپشن tented camps and lodges کی تھی۔ یہ عارضی یا مستقل ٹینٹ کیمپ ہیں جس میں آپ ایک بہترین ٹینٹ یا ہٹ میں رہتے ہیں۔ ٹینٹ میں باقاعدہ بیڈ ہوتا ہے۔ کھانے پینے کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ ہم نے زیادہ تر اس کا انتخاب کیا کہ رات کو بھی جانوروں کی آوازیں کافی قریب سے آتی ہیں
 

زیک

مسافر
سفاری کمپنیوں کو پھر ایک ہی پلان بھیجا تاکہ ان کی قیمتوں کا صحیح اندازہ ہو۔ چند مہنگی نکلیں تو انہیں نکال دیا۔ باقی میں سے ایک درمیانی قیمت کی منتخب کی جس سے گفتگو بہتر رہی۔

زیادہ تر کمپنیاں کریڈٹ کارڈ قبون نہیں کرتیں۔ لہذا انہیں ایڈوانس جو کل قیمت کا آدھا تھا وہ وائر ٹرانسفر کرنا تھا۔ وہ بھیجتے کچھ ڈر لگا کہ ان دیکھے اتنے پیسے بھیج رہا ہوں۔ کریڈٹ کارڈ پر تو کچھ پروٹیکشن ہوتی ہے۔

کچھ اپنے پیسوں کی حفاظت کے لئے اور کچھ اس لئے کہ اگر سفاری پر بیمار ہو گئے یا کوئی حادثہ ہو گیا تو اس کے بل کا کیا ہو گا میں نے پہلی بار ٹریول انشورنس لے لی۔ ٹریول بکنگ کرانے کے دو ہفتے کے اندر اندر انشورنس لیں تو وہ زیادہ چیزیں کور کرتے ہیں۔

پھر جہاز کے ٹکٹ دیکھنے شروع کئے۔ ناردن سرکٹ سفاری کے لئے بہترین ائرپورٹ کلیمنجارو انٹرنیشنل ائرپورٹ ہے۔ وہاں کے ایل ایم، ایمیریٹس، قطر، ٹرکش اور ایتھوپین ائرلائن جاتی ہیں۔ رات بہت دیر سے پہنچنے یا لمبے لے اوور کی وجہ سے باقی نکال دیں اور صرف کے ایل ایم اور ایتھوپین بچیں۔ ان میں سے ایتھوپین کا ٹکٹ سستا تھا اور وہ اس روٹ پر نئے 787 چلاتی ہے۔ لہذا اسی کے ٹکٹ لئے۔

اب مہینوں انتظار تھا۔
 

زیک

مسافر
اگلا مرحلہ فوٹوگرافی پر ریسرچ کا تھا۔

اپنا کیمرہ تو لے کر جانا ہی تھا لیکن کھلی جیپ میں لینز بدلنے میں نہ صرف دھول کا مسئلہ تھا بلکہ یہ بھی کہ لینز بدلنے کے دوران جانور کہاں سے کہاں جا چکے ہوں گے۔ لہذا فیصلہ کیا کہ دو کیمرہ باڈیز ہونی چاہئیں تاکہ لینز نہ بدلنا پڑے۔ چونکہ میرے پاس نائکن ڈی 7200 ہے تو اگر دوسری باڈی بھی یہی کرائے پر لی جائے تو کیمرہ سوئچ کرتے ہوئے کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ بلکہ کیمرے کی تمام سیٹنگز ایس ڈی کارڈ پر سیو کر کے دوسری باڈی میں لوڈ کی جا سکتی ہیں۔

میں نے لینڈسکیپ شاٹس، لوگوں کی تصاویر اور قریب موجود جانوروں کے لئے اپنا نائکن کا 16-80 ملی میٹر لینز لے جانے کا فیصلہ کیا۔ دوسرا لینز دور کے جانوروں کے لئے ضروری تھا بلکہ کئی بار چھوٹا جاور قریب بھی ہو تو زوم کرنا پڑتا ہے۔ میرے پاس 55-300 ملی میٹر لینز ہے لیکن اس کا فوکس سلو ہے لہذا یہ اڑتے یا دوڑتے ہوئے پرندے یا جانور کے لئے زیادہ اچھا نہیں۔ دوسرے میں کچھ زیادہ ٹیلی فوٹو چاہتا تھا۔ اس لئے نائکن 80-400 ملی میٹر لینز رینٹ کرنے کا ارادہ کیا۔یہ لمبا اور بھاری لینز ہے۔ اس کے لئے سفاری والے سے پوچھا کہ کیا جیپ میں سٹیبل رکھنے کے لئے کچھ دستیاب ہو گا۔ اس نے بتایا کہ بین بیگ ہو گا جس پر کیمرہ رکھ کر تصویر لینے میں آسانی ہو گی۔

جانے سے دو دن پہلے یہاں کی ایک لوکل رینٹل کمپنی سے میں نے لینز اور کیمرہ باڈی لے لئے۔ اس وقت خیال آیا کہ میرے پاس جو چار پانچ کیمرہ بیگ ہیں ان میں یہ سب پورا نہیں آئے گا۔ لہذا ان سے ایک کیمرہ سلنگ بیگ بھی لیا۔

یہ رہا میرا ایکوپمنٹ:



گھر لا کر لینز وغیرہ کو صاف کیا اور سیٹنگ وغیرہ کی۔ پھر کچھ تصاویر لے کر ٹیسٹ کیا کہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔ دیکھا تو رینٹل کیمرے کی فرم ویر بھی بہت پرانی تھی۔ اسے تازہ ورژن پر اپڈیٹ کیا۔

میرے پاس دو 64 گیگابائٹ کے ایس ڈی کارڈ تھے۔ چونکہ میں را فارمیٹ میں تصاویر لیتا ہوں تو زیادہ میموری کی ضرورت ہوتی ہے۔ دو مزید کارڈ خریدے اور چند پرانے کم سائز کے کارڈ جو میرے پاس پڑے تھے وہ بھی رکھ لئے تاکہ کمی نہ ہو۔

بیٹی کے لئے نائکن کول پکس پی 900 لیا جو 2000 ملی میٹر تک زوم کرتا ہے۔ اس کیمرے کی کوالٹی کم ہے لیکن اس زوم کا کئی جگہ فائدہ ہوا کہ جانور آپ کی مرضی سے نہیں چلتے۔
 

زیک

مسافر
آخر جون 14 آیا تو ہم کپڑوں پر پرمیتھرن چھڑک چکے تھے تاکہ مچھروں اور سیتسی فلائی سے بچت رہے۔

ٹیکسی کو صبح ساڑھے تین بجے بلایا ہوا تھا کہ فلائٹ علی الصبح تھی۔ ائرپورٹ پہنچے، چیک ان کیا اور ساڑھے چھ بجے ٹورانٹو روانہ ہوئے۔

ٹورانٹو سے ایتھوپین ایئرلائن کی فلائٹ ادیس ابابا کی تھی۔ یہ فلائٹ 13 گھنٹے کی تھی۔ ایتھوپین کھانا کافی لذیذ ہوتا ہے اس لئے ہمارا خیال تھا کہ جہاز میں بھی کھانا اچھا ہو گا۔ لیکن افسوس کہ تمام فلائٹس کی طرح بس گزارہ لائق جنیرک کھانا تھا۔

جب ادیس ابابا پہنچے تو ہمارے وقت کے مطابق رات کے بارہ بج رہے تھے لیکن وہاں صبح 7 بجے تھے۔

جہاز سے اتر کر بس میں ائرپورٹ ٹرمینل گئے تو بیٹی کو چکر آنا شروع ہو گئے اور وہ دو دفعہ اس کی وجہ سے کھڑی نہ رہ سکی اور گر گئی۔ جیسے ہی گری فوری طور پر عملہ مدد کو پہنچا۔ انہوں نے اسے ویل چیئر میں بٹھایا اور اس کی نبض اور بخار وغیرہ چیک کیا۔ بیٹی نے قے کی اور پھر بہتر محسوس کرنے لگی۔ عملے نے ہم سے پوچھا کہ ہم کلینک جانا چاہتے ہیں تو ہم نے نہ جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے گیٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ بیٹی نے واش اپ کر کے بہتر محسوس کیا۔
 

زیک

مسافر
اگلی فلائٹ ادیس ابابا سے کلیمنجارو انٹرنیشنل ائرپورٹ کی تھی۔ انٹرنیٹ سے معلوم ہوا تھا کہ فلائٹ میں ماؤنٹ کلیمنجارو نظر آتا ہے اور جہاز کے بائیں طرف ہوتا ہے۔ لہذا میں نے بائیں طرف کی سیٹیں لی تھیں۔ جب جہاز میں سوار ہوئے تو کیا دیکھا کہ ہماری ونڈو سیٹ تو بغیر ونڈو کے ہے۔ بہت دکھ ہوا لیکن جہاز بھرا ہوا تھا کیا کر سکتے تھے۔

خیر اگلی کھڑکی سے ہم نے کچھ حد تک ماؤنٹ کلیمنجارو کو دیکھ ہی لیا جو بادلوں میں سے ابھر رہا تھا۔

 

یاز

محفلین
اگلی فلائٹ ادیس ابابا سے کلیمنجارو انٹرنیشنل ائرپورٹ کی تھی۔ انٹرنیٹ سے معلوم ہوا تھا کہ فلائٹ میں ماؤنٹ کلیمنجارو نظر آتا ہے اور جہاز کے بائیں طرف ہوتا ہے۔ لہذا میں نے بائیں طرف کی سیٹیں لی تھیں۔ جب جہاز میں سوار ہوئے تو کیا دیکھا کہ ہماری ونڈو سیٹ تو بغیر ونڈو کے ہے۔ بہت دکھ ہوا لیکن جہاز بھرا ہوا تھا کیا کر سکتے تھے۔

خیر اگلی کھڑکی سے ہم نے کچھ حد تک ماؤنٹ کلیمنجارو کو دیکھ ہی لیا جو بادلوں میں سے ابھر رہا تھا۔

زبردست۔
اسی سے ہمیں جہاز سے ماؤنٹ ارارات کی تصویر یاد آ گئی۔ کچھ ایسا ہی منظر تھا وہ بھی۔
 

زیک

مسافر
تنزانیہ میں لینڈ کئے اور یوں یہ ہمارا تیسرے سال مسلسل جنوبی نصف کرہ کا ٹرپ ہوا۔ آخر شمالی نصف کرہ پھرتے پھرتے اب برابر بھی تو کرنا ہے۔

پہلا کام ویزہ کا حصول تھا۔ فارم پر کیا اور کاؤنٹر پر گئے۔ وہاں نوٹس لگا تھا کہ باقی لوگوں کے لئے 50 ڈالر اور امریکیوں کے لئے 100۔ دکھ ہوا لیکن فارم اور پیسے دیئے۔ ویزہ چپکوایا اور امیگریشن افسر کے پاس چلے گئے۔ اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو اور مہر لگا کر فارغ کیا۔ سامان جلد ہی آ گیا اور ہم ائرپورٹ سے باہر نکلے۔

وہاں ایک شخص میرے نام کی تختی لئے کھڑا تھا۔ اس کے پاس گئے۔ وہ ہمیں ایک اور شخص کے پاس لے گیا جس نے بتایا کہ وہ ہماری سفاری کمپنی سے ہے اور اس کا نام مائیک ہے۔ اس کے ساتھ ایک سبز رنگ کی سات سیٹوں والی لینڈ کروز میں بیٹھے اور اروشا شہر روانہ ہو گئے۔

بادل چھائے ہوئے تھے اور نہ ماؤنٹ کلیمنجارو اور نہ ماؤنٹ میرو نظر آ رہے تھے۔

شاید دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اروشا پہنچے۔ راستے کی تصویر:

 
Top