زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
"باش" درحقیقت مصدر "بودن" کا فعلِ امر ہے۔
'باش'، 'بودن' کا نہیں 'بلکہ 'باشیدن' کا مضارع ہے۔ 'بودن' کا مضارع 'بُو' ہے، جس کا ایک صیغہ 'بُوَد' شاعری میں عام ہے۔
'بودن' اور 'باشیدن' فارسی کے دو ہم معنی یا قریب المعنی مصادر ہیں۔ اول الذکر مصدر کا مضارع 'بو' اور ثانی الذکر مصدر اور اُس کا بُنِ ماضی 'باشید' مدتِ دراز سے فارسی میں متروک ہو چکے ہیں۔ معیاری فارسی میں 'بودن' کے مضارع کے طور پر 'باشیدن' کا مضارع 'باش' استعمال میں لایا جاتا ہے۔


باشیدن (مصدرِ لازم) (قدیمی) = ۱. بودن. ۲. ماندن. ۳. ایستادن. ۴. اقامت داشتن.
[فرهنگِ عمید]
 

حسان خان

لائبریرین
اگر میں بےوفائی کرتا تو قاآن(شاہِ ترکستان) کے پاس دادخواہی کے لئے جاتا۔
کہ وہ کافر دشمن کو قتل کرتا ہے، اور یہ سنگ دل دوستوں کو۔
آفرین! آپ کا ترجمہ درست ہے۔ :)
یہاں 'قاآن' سے منگول پادشاہ مراد ہے، کیونکہ 'اعداکُش کافر' وہی تھا۔ شاہانِ ترکستان تو سعدی کے زمانے میں مسلمان تھے۔ کہن فارسی ادب میں یہ لفظ منگولستان و ترکستان و چین کے پادشاہوں کے لقب کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ 'خاقان' بھی اِسی لفظ کی ایک شکل ہے۔
سعدی شیرازی منگول حملوں کے ہم عصر تھے۔ منگولی لفظ 'یَرغُو' اُسی دور کی یادگار ہے۔
 
برادر محمد ریحان قریشی، بیدل دہلوی کے مندرجۂ ذیل شعر کا مفہوم بیان کیجیے:
چشم بر احسانِ گردون دوختن دیوانگی‌ست

دانه‌ها، هشیار باشید، آسیا دلّاک نیست
آنکھیں گردوں کے احسان پر جمائے رکھنا(یعنی احسان کی گردوں سے امید کرنا) دیوانگی ہے۔
دانے ہوشیار ہوجائیں پن چکی(آسیا) مالش کرنے والی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
میری رائے یہ ہے کہ کہنہ اردو ادبیات سے عُمقاً لطف اندوز ہونے کے لیے بھی شاہنامۂ فردوسی اور اُس کی داستانوں سے ذرا آشنائی ضروری ہے، کیونکہ اردو متونِ کہن میں جگہ جگہ شاہنامہ کی اثرپذیری کے شواہد نظر آتے ہیں۔ مثلاً، الطاف حسین حالی اپنی مسدّس 'مدّ و جزرِ اسلام' میں فرماتے ہیں:
کہاں ہیں وہ اہرامِ مصری کے بانی
کہاں ہیں وہ گُردانِ زابُلستانی
گئے پیشدادی کدھر اور کَیانی
مٹا کر رہی سب کو دنیائے فانی
لگاؤ کہیں کھوج کَلدانیوں کا
بتاؤ نشاں کوئی ساسانیوں کا

یہاں 'گُردانِ زابُلستانی' سے رُستم اور اُس کے اجداد مراد ہیں، کیونکہ اُن کا تعلق 'زابُلستان' سے تھا اور یہ شاید غزنی (حالیہ افغانستان) کے اطراف کے منطقے کو کہتے تھے۔ 'گُرد' بہ معنیِ 'مبارز و دلیر و پہلوان' بھی شاہنامۂ فردوسی میں بارہا استعمال ہوا ہے۔
'پیشدادیان' اور 'کَیانیان' دو اساطیری شاہی سلسلوں کے نام ہیں، جو شاہنامہ کی روایت کے مطابق بالترتیب اولین اور دومین ایرانی شاہی سلسلے تھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آنکھیں گردوں کے احسان پر جمائے رکھنا(یعنی احسان کی گردوں سے امید کرنا) دیوانگی ہے۔
دانے ہوشیار ہوجائیں پن چکی(آسیا) مالش کرنے والی نہیں ہے۔
ترجمہ درست ہے۔ :)
روزمرہ اردو میں مالش کرنے والے یا مالش گر کے لیے 'مالِشْیا' استعمال ہوتا ہے۔
 
میری رائے یہ ہے کہ کہنہ اردو ادبیات سے عُمقاً لطف اندوز ہونے کے لیے شاہنامۂ فردوسی اور اُس کی داستانوں سے ذرا آشنائی بھی ضروری ہے، کیونکہ اردو متونِ کہن میں جگہ جگہ شاہنامہ کی اثرپذیری کے شواہد نظر آتے ہیں۔ مثلاً، الطاف حسین حالی اپنی مثنوی 'مدّ و جزرِ اسلام' میں فرماتے ہیں:
میرے ناقص علم کے مطابق تو مد و جزر اسلام مسدس ہے مثنوی نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرزا غالب اپنے ایک اردو مکتوب میں فردوسی طوسی کے بارے میں یہ فرماتے ہیں:
"۔۔۔سنو صاحب، شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں، یہ تین آدمی تین فن میں سردفتر اور پیشوا ہیں۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے۔۔۔"
 

حسان خان

لائبریرین
اِعتِصاب
فارسی میں 'ہڑتال' اور 'بھوک ہڑتال' کے لیے بالترتیب 'اعتصاب' اور 'اعتصابِ غذا(ئی)' کا استعمال ہوتا ہے۔
گُوگل گردی کے دوران یہ مشاہدہ ہوا ہے کہ افغان 'اعتصابِ غذائی' کو جبکہ ایرانی 'اعتصابِ غذا' کو ترجیح دیتے ہیں۔ تاجکستان میں دونوں صورتیں استعمال ہوتی نظر آئی ہیں، لیکن ثانی الذکر رائج تر ہے۔

تینوں فارسی گو ملکوں کے اخبارات سے 'اعتصابِ غذا(ئی)' کے استعمال کی مثالیں دیکھیے:

افغانستان:
"نادیا ساوچنکو افسرِ اردوی اوکراین که نزدیک به دو سال در روسیه زندانی بود، می‌گوید که برای زندانیانِ جنگیِ اوکراین اعتصابِ غذایی می‌کند."
ترجمہ: یوکرینی فوجی افسر نادیا ساوچنکو، جو تقریباً دو سال روس میں قید تھیں، کہتی ہیں کہ وہ یوکرین کے جنگی قیدوں کی خاطر غذائی اعتصاب کریں گی۔

ایران:
"ایرانیان در اعتراض به کیفیتِ بدِ غذا در هواپیما دست به اعتصابِ غذا زدند."
ترجمہ: ایرانیوں نے طیارے میں غذا کی بد کیفیت پر اعتراض میں غذائی اعتصاب کر دیا۔

تاجیکستان:
"صدها دانشجو در میدانِ تیانانمین دست به اعتصابِ غذا زدند و خواهانِ آزادی‌های سیاسی شدند."
ترجمہ: صدہا طَلَبہ نے میدانِ تیانانمین میں غذائی اعتصاب کا آغاز کیا اور سیاسی آزادیوں کا مطالبہ کیا۔

تاجکستان میں اولاً 'اعتصاب' اور 'اعتصابِ غذا' کے لیے بالترتیب 'کارپَرتایی' اور 'گُرُسْنه‌نِشینی' استعمال ہوتے تھے۔ لیکن ایرانی فارسی کے زیرِ اثر الحال وہاں 'اعتصاب' اور 'اعتصابِ غذا' بھی رائج ہو گئے ہیں۔

ضمناً، چونکہ میری نظر میں لفظِ 'اعتصاب'، 'ہڑتال' کے مقابلے میں خوش صدا تر ہے - مجھے شخصاً 'ڑ' کی آواز ناپسند ہے - لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سے اردو لکھتے وقت 'ہڑتال' کی بجائے 'اعتصاب' استعمال کروں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی، سعدی شیرازی کی مندرجۂ ذیل رباعی کا ترجمہ کیجیے:
وه وه که قیامت است این قامتِ راست

با سرو نباشد این لطافت که تُراست
شاید که تو دیگر به زیارت نروی
تا مرده نگوید که قیامت برخاست
 
برادر محمد ریحان قریشی، سعدی شیرازی کی مندرجۂ ذیل رباعی کا ترجمہ کیجیے:
وه وه که قیامت است این قامتِ راست

با سرو نباشد این لطافت که تُراست
شاید که تو دیگر به زیارت نروی
تا مرده نگوید که قیامت برخاست
وہ وہ(شاید واہ واہ ہے) کہ یہ موزوں قامت قیامت ہے۔
سرو کے پاس بھی یہ لطافت نہیں کہ جو تیری ہے۔
شاید کہ تو کسی کی زیارت کے لیے نہیں جاتا۔
جب تک مردہ نہ کہے کہ قیامت اٹھ گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
وہ وہ(شاید واہ واہ ہے)
جی، یہ 'واہ واہ' ہی ہے جو تحسین و تعجب کے لیے بولا جاتا ہے۔
وہ وہ(شاید واہ واہ ہے) کہ یہ موزوں قامت قیامت ہے۔
سرو کے پاس بھی یہ لطافت نہیں کہ جو تیری ہے۔
شاید کہ تو کسی کی زیارت کے لیے نہیں جاتا۔
جب تک مردہ نہ کہے کہ قیامت اٹھ گئی۔
ابتدائی دو مصرعوں کا ترجمہ درست ہے، لیکن اختتامی دو مصرعوں کے ترجمے میں غلطی موجود ہے۔ درست ترجمہ دیکھیے:
مناسب ہے کہ تم اب دوبارہ [قبر کی] زیارت پر نہ جاؤ، تاکہ مردہ [یہ] نہ کہے کہ قیامت کھڑی ہو گئی۔

'شاید' یہاں اپنے قدیم معنی میں مصدرِ 'شایستن' کے صیغۂ مضارعِ غائب واحد کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
شایِستن = سزاوار بودن، لایق بودن، مناسب بودن (مضارع: شای)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
'ہِزَبْر' کا معنی بھی 'شیر' یا 'شیرِ درندہ' ہے۔ میں اِس لفظ کو فارسی الاصل سمجھتا تھا، لیکن بعد میں معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی ایک عربی الاصل لفظ ہے۔ فارسی ادبیات میں اِس لفظ کی مُفرَّس شکل 'ہِژَبر' بھی استعمال ہوئی ہے۔
میر انیس نے یہ لفظ اپنے مرثیوں میں کئی بار استعمال کیا ہے:
"رد کر دیا ہِزَبْر نے ظالم کے وار کو
جولاں کیا تگاورِ آہو شکار کو"
یہ یقیناً شاہنامۂ فردوسی کا لسانی اثر ہے کیونکہ اگرچہ یہ لفظ یقیناً دیگر فارسی متون میں بھی موجود ہو گا، لیکن میں نے اب تک اِس کا استعمال شاہنامہ میں دیکھا ہے اور فردوسیِ مرحوم نے اِسے بار بار استعمال کیا ہے۔ شاہنامۂ فردوسی میر انیس کی ایک پسندیدہ ترین کتاب تھی، لہٰذا بے گمان یہ لفظ اُنہوں نے وہیں سے اخذ کیا ہو گا۔

'تگاوَر/تکاوَر' یعنی 'اسپِ تیزرَو' بھی شاہنامہ کی لفظیات کا حصہ ہے:
"زبانش چو پردخته شد ز آفرین
ز رَخشِ تکاور جدا کرد زِین"


یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ میر انیس اور دیگر اردو نویس و اردو سرا اسلاف کے نزدیک ہر فارسی لفظ و ترکیب بالقوّہ اردو لفظ و ترکیب بھی تھی، اور وہ جس فارسی لفظ یا ترکیب کو مناسب سمجھتے تھے، خواہ وہ فارسی میں بھی کتنی ہی نادر کیوں نہ ہو، اردو میں استعمال کرتے تھے۔ میں بھی اِسی قدیم لسانی روایت کا عامل و حامی ہوں۔
علاو بریں، میر انیس کی شاعری پر شاہنامۂ فردوسی کے اثر سے بھی چشم پوشی کرنا ممکن نہیں ہے۔


میر انیس کے توسط سے اِس لفظ کے استعمال کی ایک اور مثال دیکھیے:
"پایا سجا جو اشہبِ گردوں مقام کو
چمکار کر ہزبر نے تھاما لگام کو"


مرزا غالب نے بھی ایک اردو قصیدے میں لفظِ 'ہزبر' کو استعمال کیا ہے:
"ہزبر پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا
کبھی جو ہوتی ہے الجھی ہوئی دُمِ روباہ"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"نادیا ساوچنکو افسرِ اردوی اوکراین که نزدیک به دو سال در روسیه زندانی بود، می‌گوید که برای زندانیانِ جنگیِ اوکراین اعتصابِ غذایی می‌کند."
ترجمہ: یوکرینی فوجی افسر نادیا ساوچنکو، جو تقریباً دو سال روس میں قید تھیں، کہتی ہیں کہ وہ یوکرین کے جنگی قیدوں کی خاطر غذائی اعتصاب کریں گی۔
لفظِ اردو، کہ پاکستان کی قومی زبان کا نام بھی ہے، افغان و تاجک فارسی میں 'سپاہ و لشکر'، جبکہ ایرانی فارسی میں 'کیمپ' یا 'خیمہ' یا 'خیمہ گاہ' کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ تاجکستان میں بھی یہ لفظ 'خیمہ' اور 'خیمہ گاہ' کے معنوں میں استعمال ہوتا نظر آیا ہے جو شاید ایرانی فارسی کا اثر ہے۔ مثالیں بعد میں پیش کروں گا۔
 
آخری تدوین:
باش صرف فعلِ امرِ واحد مخاطب کے لئے ہی مستعمل ہے۔جمع مخاطب کے لئے باشید مستعمل نہیں ہوگا۔
مجھے مغالطہ ہوگیا تھا۔ درحقیقت صرف "مے" یا "می" کے ساتھ صرف فعلِ امر واحد مخاطب آتا ہے۔ جمع کے صیغے کے ساتھ مے یا می نہیں آتا۔یعنے "می باش" درست ہے جس کا مطلب ہے "ہوتا رہ" لیکن "می باشید" فعلِ امر جمع مخاطب نہیں ہے۔یعنے فعلِ امر واحد مخاطب کے ساتھ جب می آجائے تو وہ ایک کام کے جاری رہنے پر امر کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔جیسے ایک شعر ہے
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
----------------------
تُو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے ، میں تیرا قد پہچانتا ہوں اسلیے میں تجھے پہچان لونگا ۔

مے باشید کا مطلب ہوگا آپ ہوتے ہیں۔جیسے کجا مے باشید؟ کہاں ہوتے ہیں آپ؟
 

حسان خان

لائبریرین
مجھے مغالطہ ہوگیا تھا۔ درحقیقت صرف "مے" یا "می" کے ساتھ صرف فعلِ امر واحد مخاطب آتا ہے۔ جمع کے صیغے کے ساتھ مے یا می نہیں آتا۔یعنے "می باش" درست ہے جس کا مطلب ہے "ہوتا رہ" لیکن "می باشید" فعلِ امر جمع مخاطب نہیں ہے۔یعنے فعلِ امر واحد مخاطب کے ساتھ جب می آجائے تو وہ ایک کام کے جاری رہنے پر امر کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
آپ نے درست فرمایا۔ صرف ایک چیز کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ امرِ مُدامی و استمراری (می‌کن، می‌باش وغیرہ) معیاری فارسی میں متروک ہو چکا ہے اور اب امرِ سادہ (کن، باش وغیرہ) ہی استعمال ہوتا ہے۔ شاعری میں می‌کن وغیرہ کا استعمال گاہے نظر آتا ہے، لیکن وہ بیشتر موقعوں پر صرف وزن قائم رکھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور اُس میں قدامت کا احساس باقی رہتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
دِیروز میں نے تاجکستانی فیس بُکی گروہ 'زبانِ پارسی' اور اپنے بلاگ پر یہ چند فارسی سطریں لکھی تھیں:

درست است که اردو زبانِ مادریِ من است، ولی کسی از من نپرسیده بود که من کدام زبانی را می‌خواهم داشته باشم. این فقط از تصادفِ تولّد بود که زبانم شد اردو. اگر در اختیارِ من بود، حتماً ترجیح می‌دادم که هنگامِ تولّدم زبانِ فارسی را برای خود انتخاب کنم، چون زبانِ روحیهٔ من غیر از زبانِ فارسی نیست، و وابستگی و پیوستگی که به زبانِ فارسی احساس می‌کنم، به هیچ زبانِ دیگر هرگز احساس نمی‌کنم.
حالا من زبانِ فارسی را به اختیارِ کاملِ خود به طورِ زبانِ خود منتخَب کرده‌ام، و اکنون خود را 'فارسی‌زبان' می‌پندارم، نه 'اردوزبان'. و آرزو دارم که به‌زودی فارسی را تا آن حدّی فرا بگیرم که هرچه که بخواهم در نوشته‌های خود به رشتهٔ تحریر بکشم، قادر باشم که برای نوشتنِ آن از زبانِ فارسیِ فاخر استفاده کنم.

فارسی را پاس می‌داریم زیرا گفته‌اند
قدرِ زر زرگر شناسد، قدرِ گوهر گوهری


ترجمہ:
درست ہے کہ اردو میری مادری زبان ہے، لیکن کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ میں کون سی زبان رکھنا چاہتا ہوں۔ یہ فقط حادثۂ ولادت کے سبب تھا کہ میری زبان اردو ہو گئی۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں حتماً ترجیح دیتا کہ اپنے تولّد کے وقت زبانِ فارسی کو خود کے لیے انتخاب کروں، کیونکہ میری روح کی زبان صرف فارسی ہے، اور جو وابستگی و پیوستگی میں زبانِ فارسی سے محسوس کرتا ہوں، وہ کسی بھی دیگر زبان سے ہرگز محسوس نہیں کرتا۔
حالا میں نے زبانِ فارسی کو اپنے کامل اختیار کے ساتھ زبانِ خود کے طور پر منتخَب کر لیا ہے، اور اب میں خود کو 'فارسی زبان' تصور کرتا ہوں، نہ کہ 'اردو زبان'۔ اور میری آرزو ہے کہ بہ زُودی فارسی کو اِس حد تک سیکھ لوں کہ اپنے نوشتہ جات کے اندر جو کچھ بھی رشتۂ تحریر میں کشیدہ کرنا چاہوں، اُس کو لکھنے کے لیے زبانِ فارسیِ فاخر کا استعمال کر سکوں۔

ہم زبانِ فارسی کی پاس داری و احترام کرتے ہیں کیونکہ یہ بات زباں زد ہے کہ زر کی قدر زرگر اور گوہر کی قدر گوہری ہی پہچانتا ہے۔


× دِیروز = گذشتہ روز
× فارسی‌زبان = وہ شخص جس کی زبان فارسی ہو
× اردوزبان = وہ شخص جس کی زبان اردو ہو
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حسان خان بهائی. آپ کو روسی زبان بهی آتی ہے؟
نہیں، روسی زبان بالکل بھی نہیں آتی۔ لیکن روسی رسم الخط آتا ہے جو میں نے تاجکستانی فارسی پڑھ پانے کے لیے سیکھا تھا، کیونکہ تاجکستان و ازبکستان میں متأسفانہ ہنوز فارسی لکھنے کے لیے زیادہ تر روسی خط استعمال ہوتا ہے۔
تاجک فارسی پڑھنا سیکھیے


ماوراءالنہر کے دوست دارانِ فارسی رودکی سمرقندی کی سرزمین ماوراءالنہر میں فارسی گوبوں کی خطِ فارسی کی جانب مکمل بازگشت کے لیے شب و روز کوشاں ہیں اور یہ منزلِ مقصود روز بروز قریب آتی جا رہی ہے۔
 
آخری تدوین:
Top