زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
برادر محمد ریحان قریشی، فیض کاشانی کے مندرجۂ ذیل شعر کا ترجمہ کیجیے:
ای در هوای وصلِ تو گُسترده جان‌ها بال‌ها

تو در دلِ ما بوده‌ای، در جستجو ما سال‌ها
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، شاہنامۂ فردوسی کی مندرجۂ ذیل ابیات کا مفہوم بیان کیجیے:
"به مادر چنین گفت سُهرابِ گُرد

که اکنون ببینی ز من دست‌بُرد
یکی اسپ باید مرا گام‌زن
سُمِ او ز پولادِ خاراشکن
چو پیلان به زور و چو مُرغان به پر
چو ماهی به دریا، چو آهو به برّ
که برگیرد این گُرز و کوپالِ من
همین پهلوانی بر و یالِ من"
 

حسان خان

لائبریرین
باجَناق/باجَناغ/باجَه
ایرانی فارسی میں زوجہ کی خواہر کے شوہر کو 'باجَناق/باجَناغ' کہتے ہیں۔ یہ ایک ترکی الاصل لفظ ہے۔ 'باجناق' املاء ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے، لیکن چونکہ ایرانی فارسی میں 'ق' اور 'غ' ہم آواز ہیں، لہٰذا بعضے اوقات 'باجناغ' بھی نظر آتا ہے۔
ماوراءالنہری فارسی میں اِس کی بجائے 'باجه' استعمال ہوتا ہے۔
اردو میں شاید اِس معنی میں 'ہم زلف' رائج ہے۔
 
آخری تدوین:
برادر محمد ریحان قریشی، فیض کاشانی کے مندرجۂ ذیل شعر کا ترجمہ کیجیے:
ای در هوای وصل تو گُسترده جان‌ها بال‌ها

تو در دلِ ما بوده‌ای، در جستجو ما سال‌ها

اے کہ تیرے وصل کی آرزو میں جانیں اور بال پھیلے ہوئی ہیں۔ تو ہمارے دل میں بسا ہوا ہے۔ اور ہماری جستجو میں بہت سے سال بسے ہوئے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اے کہ تیرے وصل کی آرزو میں جانیں اور بالیں پھیلی ہوئی ہیں۔ تو ہمارے دل میں بسا ہوا ہے۔ اور ہماری جستجو میں بہت سے سال بسے ہوئے ہیں۔
بہتر ترجمہ: اے کہ تمہارے وصل کی آرزو میں (ہماری) جانوں نے (اپنے) بال و پر پھیلائے ہوئے ہیں، تم ہمارے دل ہی میں تھے، اور ہم سالوں جستجو میں رہے۔
 
آخری تدوین:
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ہمدموں میں سے کوئی بھی اس جگہ نہیں دیکھ رہا ہوں۔ میرا دل غصے سے خوں ہوا ساقی تو کہا ہے۔
ترجمہ درست ہے، آفرین بر شما! :)

'غصّہ' فارسی میں 'غم و اندوہ' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ معاصر اردو میں اِس لفظ کا معنی 'خشم و غضب' ہے۔ لہٰذا شعر کے اردو ترجمے میں 'غصے سے' کی بجائے 'غم سے' آنا چاہیے۔

میں اِس شعر کا ترجمہ یوں کرتا:
مجھے ہمدموں میں سے کوئی بھی باقی نظر نہیں آ رہا؛ [اِس] غم سے میرا دل خون ہو گیا ہے، اے ساقی، کہاں ہو؟

برجا/برجای = ثابت، پایدار، برقرار، باقی
(اِس ترکیب کے لفظی ترجمے 'جگہ پر' کو بھی شاید غلط نہیں کہا جا سکتا۔)
 
آخری تدوین:
برادر اریب آغا، شاہنامۂ فردوسی کی مندرجۂ ذیل ابیات کا مفہوم بیان کیجیے:
"به مادر چنین گفت سُهرابِ گُرد

که اکنون ببینی ز من دست‌بُرد
یکی اسپ باید مرا گام‌زن
سُمِ او ز پولادِ خاراشکن
چو پیلان به زور و چو مُرغان به پر
چو ماهی به دریا، چو آهو به برّ
که برگیرد این گُرز و کوپالِ من
همین پهلوانی بر و یالِ من"
سہراب دلیر نے اپنی مادر سے کہا
کہ اب تو میری غارتگری دیکھے گی
مجھے ایک قدم رکھنے والا گھوڑا چاہیے
اسکی نعل سنگ شکن فولاد ہو
وہ زور میں فیل کی مثل ہو اور پرواز میں پرندے کی طرح
پانی میں مثل ماہی شناوری کناں اور زمین پر آہو رفتار
آخری شعر کی وضاحت خود کردیں لطفا
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سہراب دلیر نے اپنی مادر سے کہا
کہ اب تو میری غارتگری دیکھے گی
مجھے ایک قدم رکھنے والا گھوڑا چاہیے
اسکی نعل سنگ شکن فولاد ہو
وہ زور میں فیل کی مثل ہو اور پرواز میں پرندے کی طرح
پانی میں مثل ماہی شتاب کناں اور زمین پر آہو رفتار
آخری شعر کی وضاحت خود کردیں لطفا
بسیار خوب! مفہوم بہت حد تک درستی سے بیان ہو گیا ہے۔

'دست‌بُرد' کا ترجمہ 'دلیری' زیادہ مناسب ہے۔
یہاں 'گام‌زن' کنایتاً 'تیزدَو و تیزرفتار' کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
'کوپال/گوپال'، آہنی گُرز کو کہتے ہیں۔
'همین' یہاں 'نیز' اور 'ایضاً' کے معنی میں کام میں لایا گیا ہے۔

میرا ترجمہ دیکھیے:
سہرابِ پہلوان نے اپنی مادر سے کہا کہ اب تم میری دلیری دیکھو گی۔۔۔ مجھے ایک تیزرفتار اسپ چاہیے جس کے سُم خاراشگاف فولاد سے بنے ہوں، جو زور میں فیلوں جیسا اور پرواز میں پرندوں جیسا ہو۔۔۔ بحر میں ماہی کی مانند اور خشکی میں آہو کی مانند ہو۔۔۔ جو میرے اِن گُرز اور کوپال کو اٹھا سکے، نیز میرے پہلوانی سینے اور گردن کو بھی۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
بی بی سی فارسی کے تاجک صحافی داریوش رجبیان کی آواز میں تاجکستانی فارسی کی موجودہ وضعیت اور روسی بالشیوک استعمار کی لسانی و ثقافتی تخریب کاریوں کی ایک مختصر رُوداد انگریزی میں سنیے:
What did you say?, The Fifth Floor - BBC World Service

ضمناً، میرے دل میں آقائے رجبیان کے لیے فراواں احترام موجود ہے، کیونکہ وہ فارسی کی خاستگاہ ماوراءالنہر میں فارسی کے احیائے نو اور ماوراءالنہری فارسی کے درد کے درمان کے لیے شب و روز اور بہ شدت کوشاں ہیں۔ جو شخص آقائے رجبیان کی طرح میری زبان فارسی کا محب اور ہم درد ہو، اُس کے لیے میرے دل میں سوائے نیک و تعظیمی احساسات کے کچھ نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برادر اریب آغا، سعدی شیرازی کے اِس شعر کا مفہوم بیان کیجیے:
گر بی‌وفایی کردمی، یرغو به قاآن بردمی

کان کافر اعدا می‌کُشَد، وین سنگ‌دل احباب را
 

حسان خان

لائبریرین
اردو کے معروف ترین شاعر مرزا اسداللہ خان غالب نے اپنے ایک اردو قصیدے میں اپنے ممدوح بہادر شاہ ظفر کا تقابل شاہنامۂ فردوسی کے کرداروں اور پہلوانوں سے کیا ہے:
"وارثِ مُلک جانتے ہیں تجھے
اِیرج و تُور و خسرو و بہرام

زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے
گِیو و گُودرْز و بِیژن و رُہّام"
 
برادر اریب آغا، سعدی شیرازی کے اِس شعر کا مفہوم بیان کیجیے:
گر بی‌وفایی کردمی، یرغو به قاآن بردمی

کان کافر اعدا می‌کُشَد، وین سنگ‌دل احباب را
اگر میں بےوفائی کرتا تو قاآن(شاہِ ترکستان) کے پاس دادخواہی کے لئے جاتا۔
کہ وہ کافر دشمن کو قتل کرتا ہے، اور یہ سنگ دل دوستوں کو۔
 

حسان خان

لائبریرین
گناہ اگرچہ ہمارا اختیار نہیں تھا حافظ مگر تو طریق ادب میں داخل ہو کر کہہ کہ میرا گناہ ہے۔
خوب! آپ کے ترجمے سے شعر کا مفہوم بیان ہو رہا ہے۔ :)
"تو طریقِ ادب میں رہ" زیادہ موزوں رہے گا۔
بودن ہونا۔ باش ہو؟
ویسے یہاں رہ ہی بہتر ہے آپ کی بات درست ہے۔
ہم جو کہتے ہیں "ہشیار باش" تو اس کا مطلب ہے ہوشیار رہ۔
فعلِ امر 'باش' عموماً 'ہو' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے اِس کا ترجمہ 'رہ' بھی کیا جا سکتا ہے۔ شعرِ مذکور میں اِس کا ترجمہ 'رہ' مناسب ہے۔

'هوشیار باش' کا ترجمہ 'ہوشیار ہو (جاؤ)' اور 'ہوشیار رہو' دونوں ممکن ہے۔


باشیدن (مصدرِ لازم) (قدیمی) = ۱. بودن. ۲. ماندن. ۳. ایستادن. ۴. اقامت داشتن.
[فرهنگِ عمید]

باش صرف فعلِ امرِ واحد مخاطب کے لئے ہی مستعمل ہے۔جمع مخاطب کے لئے باشید مستعمل نہیں ہوگا۔
نہیں، باشید بھی استعمال ہوتا ہے۔

به لشکر بفرمود پس پهلوان
که بیدار باشید و روشن‌روان

(فردوسی طوسی)

دور باشید از کسی که مدام

کفر دارد نهفته، ایمان فاش
(عطار نیشابوری)

چشم بر احسانِ گردون دوختن دیوانگی‌ست
دانه‌ها، هشیار باشید، آسیا دلّاک نیست

(بیدل دهلوی)

بهار می‌رسد آمادهٔ جنون باشید

ز جوشِ لاله مهیای جامِ خون باشید
(صائب تبریزی)
 
آخری تدوین:
Top