ضیاءالحق مرحوم کی ایک تقریر

کعنان

محفلین
السلام علیکم

ایک عسکری ان کے لئے دعا ہی کر سکتا ہے، بہت اچھے انسان تھے اللہ سبحان تعالی انہیں جنت میں جگہ دے آمین!

والسلام
 

زبیر مرزا

محفلین
ایک بلاگ میں ضیاءالحق کے بارے میں چند جملے لکھے تھے تو ان پہ جناب افتخاراجمل بھوپال کا تبصرہ اتنا مثبت تھا تب سے سوچ خود اس موضوع پہ لکھوں یا
اُن سے ہی درخواست کروں - ہمارے تو اسکول کا دورتھا اور یقینی طورپر سنہرا :) مجھے خوشی ہوئی فہیم تمھاری پوسٹ کو دیکھ کر-
 

فہیم

لائبریرین
واہ واہ واہ۔ ماشاء اللہ! لبرل تکفیری! بہترین۔ مردِ مؤمن مردِ حق ضیاء الحق ضیاء الحق

ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
آپ نے جس پوسٹ کا اقتباس لے کر یہ لکھا وہ میری پوسٹ نہیں ہے۔
لیکن آپ نے جو اقتباس لیا اس سے وہ میری پوسٹ شو ہورہی ہے۔
تصیح کرلیجئے:)
 

زیک

مسافر
آپ نے جس پوسٹ کا اقتباس لے کر یہ لکھا وہ میری پوسٹ نہیں ہے۔
لیکن آپ نے جو اقتباس لیا اس سے وہ میری پوسٹ شو ہورہی ہے۔
تصیح کرلیجئے:)
محفل پر آپ ہی نے بغیر کسی تنقید وغیرہ کے یہ اقتباس شیئر کیا تھا۔ کیا آپ اب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس اقتباس سے آپ کو اختلاف ہے؟
 

فہیم

لائبریرین
محفل پر آپ ہی نے بغیر کسی تنقید وغیرہ کے یہ اقتباس شیئر کیا تھا۔ کیا آپ اب یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس اقتباس سے آپ کو اختلاف ہے؟
تبھی میں نے سب سے پہلے یہ بات لکھی تھی

"جہاں سے یہ ویڈیو لی وہاں نیچے یہ تحریر تھی۔"​
 

زیک

مسافر
ایک فرضی سوال: اگر کوئی فرضی شخص ضیاء الحق اور پرویز مشرف دونوں کو پسند کرتا ہو تو کیا اسے فوجی آمریت کا مکمل حامی قرار دیا جا سکتا ہے؟
 
بات شاید موضوع سے تھوڑی ہٹ جائے۔ پیشگی معذرت۔
مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک مسلمان کس بنا پر جمہوریت کا حامی ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی کوئی دلیل قرآن سے ملتی ہے؟ کوئی اشارہ ہی میسر آتا ہے؟ حدیث سے کوئی صریح شہادت دستیاب ہوتی ہے؟
یار لوگ بزعمِ خود شورائیت سے جمہوریت کا درس لیتے ہیں۔ حالانکہ خلافتِ راشدہ کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو وہ جمہوریت کی انتہائی نقیض ہے۔ یعنی جمہوریت میں نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے اور پھر اسے عہدہ عطا ہوتا ہے۔ شورائیت میں عہدہ دار پہلے طے ہوتا ہے اور بیعت بعد میں ہوتی ہے۔ وہ بھی الیکشن کی بجائے ریفرنڈم کی صورت میں۔ شورائیت سے آنے والا خلیفہ اصولاً، اگر ظلم پر نہ اتر آئے تو، تاحیات ہوتا ہے۔ یہ تصور جمہوریت کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ اور تو اور، شوریٰ کا الیکٹورل کالج تک الیکٹڈ نہیں ہوتا۔
عملی فرق یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں کبھی فوج اور سیاست جدا نہیں رہے۔ مسلمان سربراہانِ مملکت زبانی کلامی نہیں، حقیقی اور معنوی طور پر فوج کی کمان کرتے رہے ہیں۔ جمہوریت میں جس طرح عسکریت سے معریٰ قسم کی سیاست دانیاں ہوتی ہیں ان کا شائبہ بھی اسلامی نظامِ ریاست میں نہیں ملتا۔ ٹھیٹ مسلمان ریاستوں میں فوجی عہدہ دار ہی بااثر سیاست دان رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کچھ عرب ریاستوں اس کی جھلک اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام کو سب سے بڑی تشکیلِ جدید (reconstruction) کی ضروت فقہ یا الٰہیات وغیرہ میں نہیں بلکہ سیاسیات میں ہے۔
فردِ واحد کا ریاست میں حاکمِ قطعی ہونا اسلامی ریاست کا لازمہ ہے۔ خلیفہ کے معانی ہی نائب یا قائم مقام کے ہیں۔ ایک ہستی کے نائب ایک ہی ریاست میں ایک سے زیادہ ہونے غیرمنطقی ہیں۔
ذاتی طور پر میری نگاہوں کو بھی جمہوریت کی آزادیاں نہایت خیرہ کن لگتی ہیں۔ کون نہ چاہے گا کہ اس پر کوئی شخص، اچھا یا برا، زندگی بھر کے لیے مسلط نہ ہو جائے؟ تاہم جب میں انسانی فطرت اور معاشرتی زندگی کی ساخت پر غور کرتا ہوں تو مجھے آمریت ہی غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ بری جمہوریت بھی سلطنتیں ڈبوتی ہے اور بری آمریت بھی۔ تاہم بری آمریت کا عذاب بری جمہوریت سے کوتاہ تر ہوتا ہے۔ برے آمر کا فتنہ تو اس کی مدتِ عمر کے ساتھ رخصت ہو جاتا ہے۔ بری جمہوریت کے ذمہ دار احمق مرتے مرتے بھی اپنے جراثیم آگے منتقل کر جاتے ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
بات شاید موضوع سے تھوڑی ہٹ جائے۔ پیشگی معذرت۔
مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک مسلمان کس بنا پر جمہوریت کا حامی ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی کوئی دلیل قرآن سے ملتی ہے؟ کوئی اشارہ ہی میسر آتا ہے؟ حدیث سے کوئی صریح شہادت دستیاب ہوتی ہے؟
یار لوگ بزعمِ خود شورائیت سے جمہوریت کا درس لیتے ہیں۔ حالانکہ خلافتِ راشدہ کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو وہ جمہوریت کی انتہائی نقیض ہے۔ یعنی جمہوریت میں نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے اور پھر اسے عہدہ عطا ہوتا ہے۔ شورائیت میں عہدہ دار پہلے طے ہوتا ہے اور بیعت بعد میں ہوتی ہے۔ وہ بھی الیکشن کی بجائے ریفرنڈم کی صورت میں۔ شورائیت سے آنے والا خلیفہ اصولاً، اگر ظلم پر نہ اتر آئے تو، تاحیات ہوتا ہے۔ یہ تصور جمہوریت کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ اور تو اور، شوریٰ کا الیکٹورل کالج تک الیکٹڈ نہیں ہوتا۔
عملی فرق یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں کبھی فوج اور سیاست جدا نہیں رہے۔ مسلمان سربراہانِ مملکت زبانی کلامی نہیں، حقیقی اور معنوی طور پر فوج کی کمان کرتے رہے ہیں۔ جمہوریت میں جس طرح عسکریت سے معریٰ قسم کی سیاست دانیاں ہوتی ہیں ان کا شائبہ بھی اسلامی نظامِ ریاست میں نہیں ملتا۔ ٹھیٹ مسلمان ریاستوں میں فوجی عہدہ دار ہی بااثر سیاست دان رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کچھ عرب ریاستوں اس کی جھلک اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام کو سب سے بڑی تشکیلِ جدید (reconstruction) کی ضروت فقہ یا الٰہیات وغیرہ میں نہیں بلکہ سیاسیات میں ہے۔
فردِ واحد کا ریاست میں حاکمِ قطعی ہونا اسلامی ریاست کا لازمہ ہے۔ خلیفہ کے معانی ہی نائب یا قائم مقام کے ہیں۔ ایک ہستی کے نائب ایک ہی ریاست میں ایک سے زیادہ ہونے غیرمنطقی ہیں۔
ذاتی طور پر میری نگاہوں کو بھی جمہوریت کی آزادیاں نہایت خیرہ کن لگتی ہیں۔ کون نہ چاہے گا کہ اس پر کوئی شخص، اچھا یا برا، زندگی بھر کے لیے مسلط نہ ہو جائے؟ تاہم جب میں انسانی فطرت اور معاشرتی زندگی کی ساخت پر غور کرتا ہوں تو مجھے آمریت ہی غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ بری جمہوریت بھی سلطنتیں ڈبوتی ہے اور بری آمریت بھی۔ تاہم بری آمریت کا عذاب بری جمہوریت سے کوتاہ تر ہوتا ہے۔ برے آمر کا فتنہ تو اس کی مدتِ عمر کے ساتھ رخصت ہو جاتا ہے۔ بری جمہوریت کے ذمہ دار احمق مرتے مرتے بھی اپنے جراثیم آگے منتقل کر جاتے ہیں۔

انتہائی کمال ماشاءاللہ

میرے دل کی ترجمانی کر دی آپ نے
 

عثمان

محفلین
بات شاید موضوع سے تھوڑی ہٹ جائے۔ پیشگی معذرت۔
مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک مسلمان کس بنا پر جمہوریت کا حامی ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی کوئی دلیل قرآن سے ملتی ہے؟ کوئی اشارہ ہی میسر آتا ہے؟ حدیث سے کوئی صریح شہادت دستیاب ہوتی ہے؟
یار لوگ بزعمِ خود شورائیت سے جمہوریت کا درس لیتے ہیں۔ حالانکہ خلافتِ راشدہ کو بنظرِ غائر دیکھا جائے تو وہ جمہوریت کی انتہائی نقیض ہے۔ یعنی جمہوریت میں نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے اور پھر اسے عہدہ عطا ہوتا ہے۔ شورائیت میں عہدہ دار پہلے طے ہوتا ہے اور بیعت بعد میں ہوتی ہے۔ وہ بھی الیکشن کی بجائے ریفرنڈم کی صورت میں۔ شورائیت سے آنے والا خلیفہ اصولاً، اگر ظلم پر نہ اتر آئے تو، تاحیات ہوتا ہے۔ یہ تصور جمہوریت کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا۔ اور تو اور، شوریٰ کا الیکٹورل کالج تک الیکٹڈ نہیں ہوتا۔
عملی فرق یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں کبھی فوج اور سیاست جدا نہیں رہے۔ مسلمان سربراہانِ مملکت زبانی کلامی نہیں، حقیقی اور معنوی طور پر فوج کی کمان کرتے رہے ہیں۔ جمہوریت میں جس طرح عسکریت سے معریٰ قسم کی سیاست دانیاں ہوتی ہیں ان کا شائبہ بھی اسلامی نظامِ ریاست میں نہیں ملتا۔ ٹھیٹ مسلمان ریاستوں میں فوجی عہدہ دار ہی بااثر سیاست دان رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ کچھ عرب ریاستوں اس کی جھلک اب بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسلام کو سب سے بڑی تشکیلِ جدید (reconstruction) کی ضروت فقہ یا الٰہیات وغیرہ میں نہیں بلکہ سیاسیات میں ہے۔
فردِ واحد کا ریاست میں حاکمِ قطعی ہونا اسلامی ریاست کا لازمہ ہے۔ خلیفہ کے معانی ہی نائب یا قائم مقام کے ہیں۔ ایک ہستی کے نائب ایک ہی ریاست میں ایک سے زیادہ ہونے غیرمنطقی ہیں۔
ذاتی طور پر میری نگاہوں کو بھی جمہوریت کی آزادیاں نہایت خیرہ کن لگتی ہیں۔ کون نہ چاہے گا کہ اس پر کوئی شخص، اچھا یا برا، زندگی بھر کے لیے مسلط نہ ہو جائے؟ تاہم جب میں انسانی فطرت اور معاشرتی زندگی کی ساخت پر غور کرتا ہوں تو مجھے آمریت ہی غنیمت معلوم ہوتی ہے۔ بری جمہوریت بھی سلطنتیں ڈبوتی ہے اور بری آمریت بھی۔ تاہم بری آمریت کا عذاب بری جمہوریت سے کوتاہ تر ہوتا ہے۔ برے آمر کا فتنہ تو اس کی مدتِ عمر کے ساتھ رخصت ہو جاتا ہے۔ بری جمہوریت کے ذمہ دار احمق مرتے مرتے بھی اپنے جراثیم آگے منتقل کر جاتے ہیں۔
شائد ہم اور آپ دو مختلف سمتوں سے اس نکتہ پر پہنچتے ہیں کہ واقعی ایک مذہبی ریاست اور جمہوریت کا رشتہ مصنوعی ہے۔ کہ جمہوریت جس میں انسان معاشرتی اور سیاسی اقدار کلی طور پر باہمی مکالمے اور چناؤ سے خود طے کرتے ہیں اس کی گنجائش ایک الوہی نظام ریاست میں ڈھونڈنا ممکن نہیں۔
آپ کا آمریت پر اکتفا آپ کی گردوپیش کے حالات سے بیزاری ہے۔ جبکہ ایک دوسری دنیا میں جمہوری ریاستوں کی شاندار کامیابی ایک عددی حقیقت ہے۔
 

زیک

مسافر
مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ ایک مسلمان کس بنا پر جمہوریت کا حامی ہو سکتا ہے؟ کیا اس کی کوئی دلیل قرآن سے ملتی ہے؟ کوئی اشارہ ہی میسر آتا ہے؟ حدیث سے کوئی صریح شہادت دستیاب ہوتی ہے؟
غلامی ختم کرنے کی کوئی دلیل قرآن سے ملتی ہے؟ کچھ غلام آزاد کرنے کی نہیں بلکہ مکمل طور پر غلامی ختم کرنے کی۔

قرآن اپنے وقت کی کتاب ہے اور حدیث و سنت بھی اسی وقت کے۔ جب آپ ان کو لٹرل معنوں میں لے کر تمام آنے والے وقتوں کے لئے منجمد قوانین بنا دیں گے تو بہت مسائل میں گھریں گے۔
 
Top