زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

اردو میں عموماً صرف عاشق و معشوق ہی ایک دوسرے کو 'جان' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ لیکن فارسی گو معاشروں میں دو قریبی دوست بھی اُنس و صمیمیت ظاہر کرنے کے لیے ایک دوسرے کے لیے اِس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اگر میں اپنے محترم دوست اریب آغا کو اریب جان کہہ کر پکاروں تو فارسی گو معاشروں میں یہ ایک بالکل عام بات سمجھی جائے گی۔
متشکرم برادر جانِ من۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بزرگ افراد محبت میں اپنے چھوٹوں کے نام کے ساتھ جان اور گل کا لاحقہ لگاتے ہیں۔
 
شیخ علی حزیں کا ایک شعر ہے

دستش بہ داغِ عشق ، ہمان دور از آتش است
پروانہ ای کہ خویش نزد بر چراغِ ما

ہمان کے معنی یہاں ابھی کے ہونگے؟ وہی کے معنوں میں ہمان غالباََ استعمال ہوتا ہے۔
 
شیخ علی حزیں کا ایک شعر ہے

دستش بہ داغِ عشق ، ہمان دور از آتش است
پروانہ ای کہ خویش نزد بر چراغِ ما

ہمان کے معنی یہاں ابھی کے ہونگے؟ وہی کے معنوں میں ہمان غالباََ استعمال ہوتا ہے۔
شاید خالی وہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اس کا ہاتھ داغ عشق پر ہے وہ آتش سے دور ہے۔ تو پروانہ ہے کہ ہمارے چراغ سے خود کو نہیں ٹکراتا۔
 
شیخ علی حزیں کا ایک شعر ہے

دستش بہ داغِ عشق ، ہمان دور از آتش است
پروانہ ای کہ خویش نزد بر چراغِ ما

ہمان کے معنی یہاں ابھی کے ہونگے؟ وہی کے معنوں میں ہمان غالباََ استعمال ہوتا ہے۔
ہمان کا معنی وہی البتہ یہاں اس کا مطلب اتنا ہی ہے ۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
شیخ علی حزیں کا ایک شعر ہے

دستش بہ داغِ عشق ، ہمان دور از آتش است
پروانہ ای کہ خویش نزد بر چراغِ ما

ہمان کے معنی یہاں ابھی کے ہونگے؟ وہی کے معنوں میں ہمان غالباََ استعمال ہوتا ہے۔
شاید خالی وہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اس کا ہاتھ داغ عشق پر ہے وہ آتش سے دور ہے۔ تو پروانہ ہے کہ ہمارے چراغ سے خود کو نہیں ٹکراتا۔
ہمان کا معنی وہی البتہ یہاں اس کا مطلب اتنا ہی ہے ۔۔
یہاں ہمان قدر کا متبادل ہے
ساخت اور مضمون کے لحاظ سے یہ شعر ذرا پیچیدہ ہے، اور اِسی لیے اِسے سمجھنے میں مجھے دشواری محسوس ہوئی ہے۔ بہر حال، شعر کا جو مفہوم میں لکھ رہا ہوں، اُس میں غلطی کا احتمال موجود رہے گا۔

حسن انوری کی 'فرہنگِ بزرگِ سخن' کی جلدِ ہشتم میں 'ہمان' کا ایک معنی 'ہمچنان' یا 'اُسی طرح' بھی درج ہے۔ اور اِس معنی کی مثال کے طور پر وہاں ناصر خسرو کا یہ شعر دیا گیا ہے:
چونان که به غار شد پیمبر
من نیز همان کنون به غارم

ترجمہ: جس طرح پیمبر (ص) غار میں [مقیم] ہوئے تھے، میں بھی اُسی طرح ابھی غار میں ہوں۔
میرا گمان ہے کہ حزین کے شعر میں بھی 'ہمان' کا یہی معنی مراد ہے۔

دستش به داغِ عشق، همان دور از آتش است
پروانه‌ای که خویش نزد بر چراغِ ما

میرے ذہن میں اِس شعر کا یہ مفہوم بن رہا ہے:
جس پروانے نے خود کو ہمارے چراغ سے نہیں ٹکرایا، اُس کا دست داغِ عشق کا حامل ہوتے ہوئے بھی اُسی طرح آتش سے دور ہے۔ یعنی وہ پروانہ آتشِ عشق کی (سوزش کی) بلاواسطہ آگاہی سے محروم ہے۔

'پروانه‌ای که' میں 'ای' ضمیرِ متصل نہیں، بلکہ یائے تخصیص ہے۔ یعنی 'وہ پروانہ جو۔۔۔۔'
 
آخری تدوین:
فارسی میں لفظ بزرگ کے لئے ایک اور متبادل لفظ کلان بھی مستعمل ہے ۔۔۔ گفتاری فارسی لہجوں میں استعمال ہونے کے علاوہ یہ تحریری رسمی فارسی میں بھی مستعمل ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں لفظ بزرگ کے لئے ایک اور متبادل لفظ کلان بھی مستعمل ہے ۔۔۔ گفتاری فارسی لہجوں میں استعمال ہونے کے علاوہ یہ تحریری رسمی فارسی میں بھی مستعمل ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ لفظ ایران میں متروک ہے اور وہاں گفتاری و نوشتاری زبان میں یہ لفظ مستعمل نہیں ہے۔ لیکن ماوراءالنہر اور افغانستان میں یہ لفظ بہت عام ہے، بلکہ ماوراءالنہر میں (اور شاید افغانستان میں بھی) گفتاری زبان میں 'بزرگ' کی بجائے 'کلان' ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
معاصر اردو میں 'کلان' تو زیادہ استعمال نہیں ہوتا لیکن پنجاب کے کئی دیہات کے ناموں میں 'کلاں' اور اِس کے بالمقابل 'خُرد' کے الفاظ موجود ہیں۔
ایران میں 'خُرد' کی بجائے بھی 'کوچک' استعمال ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دستش بہ داغِ عشق ، ہمان دور از آتش است
پروانہ ای کہ خویش نزد بر چراغِ ما
اِس شعر کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے:
اُس کا دست داغ عشق پر ہوتے ہوئے بھی اُسی طرح آتش سے دور ہے۔
وہ اُس پروانے کی مانند ہے جس نے خود کو ہمارے چراغ سے نہیں ٹکرایا۔
یعنی جس طرح چراغ سے گریز کرنے والے پروانے کا جنون سچا نہیں ہو سکتا، اُسی طرح اُس محبوب کا عشق بھی حقیقی نہیں ہے کیونکہ وہ آتشِ عشق سے دور ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
"ایران ہزاروں برس سے آباد اور متمدن چلا آتا ہے، اور جس طرح اٹلی کو مصوری سے، رومن کو حکومت سے، یہود کو مذہب سے، مصر کو صنعت سے خاص مناسبت تھی، ایران نفاست پسندی، تکلف، اور نزاکت میں ضرب المثل تھا، شان و شوکت کے اظہار کے لیے آج تک کلاہِ کیانی، تاجِ خسروی، مسندِ جم، درفشِ کاویانی سے زیادہ پُرشان الفاظ کسی زبان نے نہیں پیدا کیے، اس بنا پر یہ قطعی ہے کہ فارسی زبان کے الفاظ، دنیا کی اور زبانوں کے مقابلے میں زیادہ لطیف، زیادہ نازک، زیادہ پُرشوکت، زیادہ شیریں ہیں۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ چہارم)
 

حسان خان

لائبریرین
"لطافتِ خیال: ایران کا تمدن اور تنعم نہایت قدیم زمانے کا ہے، اس لیے ہزاروں برس کی مستقل ناز و نعمت کی وجہ سے ہر قسم کے خیالات نہایت نازک اور لطیف ہو گئے تھے، اور چونکہ زبان بھی منجھتے منجھتے نہایت صاف اور لطیف ہو گئی تھی اس لیے اسی لطافت سے وہ خیالات ادا بھی ہو سکتے تھے، عربی بلکہ شاید کسی اور زبان کو یہ لطافتِ خیال نصیب نہیں ہو سکتی۔۔۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ چہارم)
 

حسان خان

لائبریرین
"فلسفہ اور تصوف جس قدر فارسی میں ہے عربی میں نہیں، مولانا روم، فریدالدین عطار، سنائی، سحابی، عراقی، اوحدی، ان کے مقابلے میں عرب کا کون شاعر پیش کیا جا سکتا ہے، ہم ابن الفارض اور شیخ محی الدین اکبر سے ناواقف نہیں، لیکن ان کی شاعری کو اُن بزرگوں سے کیا نسبت۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ چہارم)
 

حسان خان

لائبریرین
"۔۔۔جس قوم میں جس قسم کی قابلیت تھی، اسلام نے اس کو اور چمکایا، ترک شجاع تھے شجاع تر ہو گئے، ایرانی ہمیشہ سے تہذیب، معاشرت اور علوم و فنون میں ممتاز تھے اسلام نے ان کو ممتاز تر کر دیا، بوعلی سینا، غزالی، رازی، طوسی، امام بخاری، مسلم، سیبویہ، جوہری، سب ایران ہی کی خاک سے اُٹھے تھے، آج تمام اسلامی دنیا میں ایران ہی کی تہذیب و معاشرت جاری ہے، ترکوں نے بڑی بڑی پُرزور سلطنتیں قائم کیں، لیکن دفتر کی زبان، اور دربار کے دستور اور آئین سب فارسی ہی رہے۔
ایران کی خاک فنونِ لطیفہ کی قابلیت میں بھی سب سے ممتاز تھی، اور بالخصوص شاعری اِس کا خمیر تھا، اسلام نے اِس خاص جوہر کو زیادہ چمکایا اور اِس حد تک پہنچایا کہ تمام دنیا کی شاعری ایک طرف، اور صرف ایران کی شاعری ایک طرف۔۔۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ اول)
 

حسان خان

لائبریرین
طالب آملی کی ہجو:
شب و روز مخدومنا طالبا
پیِ جیفهٔ دنیوی در تگ است
مگر قولِ پیغمبرش یاد نیست
که دنیاست مردار و طالب سگ است
(شیدا فتح‌پوری)

ہمارا آقا طالب شب و روز دنیا کے لاشے کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے؛ مگر کیا اُسے پیغمبر کا قول یاد نہیں ہے کہ دنیا مردار ہے اور 'طالب' سگ ہے؟
فارسی شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت ضمائرِ متصل کو اپنی اصل جگہ سے اِدھر اُدھر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اِس چیز کو فارسی میں 'پرِشِ ضمیر'، 'رقصِ ضمیر' یا 'جابه‌جاییِ ضمیرِ متصل' کہتے ہیں۔ اِس کا استعمال کہنہ فارسی شاعری میں زیادہ ہوا کرتا تھا۔
مثلاً شیدا فتح پوری کے مذکورۂ بالا قطعے کے مصرعِ ثالث میں ضمیرِ متصلِ مفعولی 'ش' کی اصل جگہ 'یاد' کے بعد تھی، یعنی اگر اِس مصرعے کو نثر میں تبدیل کیا جائے تو یہ یوں ہو گا: مگر قولِ پیغمبر یادش نیست؟ (مگر یادش نیست؟ = مگر او را یاد نیست؟)
امّا وزنِ شعر کی خاطر یہاں 'ش' کو 'پیغمبر' کے ساتھ متصل کیا گیا ہے۔

اِس قاعدے کی چند مزید مثالیں:
باغبانا ز خزان بی‌خبرت می‌بینم
آه از آن روز که بادت گلِ رعنا ببرد
(حافظ شیرازی)

آه از آن روز که بادت گل رعنا ببرد = آه از آن روز که باد گلِ رعنایت را ببرد

طوطی‌ای را به خیالِ شکری دل خوش بود
ناگهش سیلِ فنا نقشِ امل باطل کرد
(حافظ شیرازی)

ناگهش سیلِ فنا نقشِ امل باطل کرد = ناگه سیلِ فنا نقشِ املش را باطل کرد

هرگزم نقشِ تو از لوحِ دل و جان نرود
هرگز از یادِ من آن سروِ خرامان نرود
(حافظ شیرازی)

هرگزم نقشِ تو از لوحِ دل و جان نرود = هرگز نقشِ تو از لوحِ دل و جانم نرود
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی اور اردو میں مستعمل ترکیب 'خاکم بدہن' میں بھی 'پرشِ ضمیر' کے قاعدے کو بروئے کار لایا گیا ہے۔
جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو

(علامہ اقبال)
خاکم به دهن = خاک به دهنم
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
"فلسفہ اور تصوف جس قدر فارسی میں ہے عربی میں نہیں، مولانا روم، فریدالدین عطار، سنائی، سحابی، عراقی، اوحدی، ان کے مقابلے میں عرب کا کون شاعر پیش کیا جا سکتا ہے، ہم ابن الفارض اور شیخ محی الدین اکبر سے ناواقف نہیں، لیکن ان کی شاعری کو اُن بزرگوں سے کیا نسبت۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ چہارم)
ایران کی خاک فنونِ لطیفہ کی قابلیت میں بھی سب سے ممتاز تھی، اور بالخصوص شاعری اِس کا خمیر تھا، اسلام نے اِس خاص جوہر کو زیادہ چمکایا اور اِس حد تک پہنچایا کہ تمام دنیا کی شاعری ایک طرف، اور صرف ایران کی شاعری ایک طرف۔۔۔"
(شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلدِ اول)
شبلی نعمانی سے تقریباً چھے سو سال پہلے امیر خسرو دیباچہ غرۃ الکمال (تقریباً 1315ء) میں لکھتے ہیں:

اگر وہ لطافت ِالفاظ کے باب میں[عرب شاعر] ابیوردی کے آبِ کلام کا پیاسا ہے تو وہ خاقانی کے علوئے الفاظ کو سر اونچا کر کے دیکھے، اُس کے دعوے کی بلندی کی کلاہ سر سے گر پڑے گی۔ اگر اُس کی سکرات متنبّی کے معنی خالص کی رنجش سے ہے، جو بہتے پانی سے زیادہ رواں ہے اور وہ پانی روانی اور تازگی کے ساتھ صرف اُس کی صراحی سے ٹپکتا ہے دوسروں کی صراحی سے نہیں ٹپکتا، تو اُسے (فریق ِمخالف) کو رضی [نیشاپوری]کے پسندیدہ معانی اور انوری کے کلام کے انوار و کمال کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اعترض کرنے والے کی اِس زور سے سرزنش کرنی چاہیے کہ اُس کا سر پارہ پارہ ہو جائے۔ اسے معزّی (کے کلام میں) حسنِ الفاظ اور خوبی ِمعنی کی تحسین کرنی چاہیے۔ سیّد حسن[غزنوی]، نظامی اور ظہیر [فاریابی] کے (کلام میں) لفظ و معنی کا مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ (مدعی ان کی خوبیوں سے) اگاہ اور بذات ِخود انصاف کر سکے۔
۔۔۔
اب میں پھر دلائل سے ثابت کرتا ہوں کہ شاعری کے مزاج کے اعتبار سے اہل ِفارس اہلِ عرب سے بہتر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر عربی زبان کا کوئی فاضل تر اور فصیح تر شاعر خراسان میں وارد ہو تو فارسیوں کی روش پر گھوڑا نہیں دوڑا سکتا اور اُس کی زبان فارسی روزمرّہ پر قادر نہ ہو سکے گی۔ اِسی طرح سے اُسے فارسی شعر کے معنی کی تہ داری، اوزان اور انشا پر قدرت حاصل نہ ہو سکے گی۔ اس کے برعکس اگر فارسی زبان کا شاعر جو اعلیٰ درجے کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو، وہ فارسیوں کی بستیوں میں عربی زبان کے مزاج سے اِس قدر ہم آہنگ ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص جو منصف و دانا ہے اور چالبازی بھی نہ کرے تو صد ہا تحسین کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ اگر وہ شاعر اپنے علم و فضل کے اوصاف کے ساتھ عرب جائے تو فصحائے عرب بیابانوں کی راہ اختیار کریں گے۔ زمخشری (صاحب ِکشّاف) خوارزم میں پیدا ہوا تھا لیکن عرب میں علّامہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا اور سيبویہ نے جن امور کو مجمل بیان کیا تھا اس نے مفصّل بیان کیا۔

(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 

طالب سحر

محفلین
شبلی نعمانی، شعرالعجم
میں نے شعرالعجم نہیں پڑھی ہے ، لیکن مجھے شمس الرحمن فاروقی کے مضمون "ایرانی فارسی، ہندوستانی فارسی اور اردو: مراتب کا معاملہ" (آج، شمارہ 25، صفحہ 74 تا 107) میں اس پر یہ تنقید اہم لگی کہ

"تقریباً بارہ سو صفحے کی اس لاجواب کتاب میں شبلی نے غالب و بیدل کا بمشکل ایک دو جگہ نام لیا، اور سبکِ ہندی کے بیسیوں عظیم فارسی گویوں کا نام تک اس کتاب میں نہیں ملتا، ان کا تذکرہ تو دور کی بات ہے۔اس کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ ہندوستان میں فارسی مطالعات کی فہرستِ استناد میں ان ہندوستانیوں کے نام شامل نہ ہو سکے جنہیں شبلی نے نظرانداز کیا تھا۔ غالب کا معاملہ تو ذرا دیگر تھا، اور بیدل کا نام غالب اور اقبال کی وجہ سے چمکا۔ ان دو کے علاوہ کوئی ہندوستانی فارسی گو ایسا نہیں جو ہمارے فارسی مطالعات کے فہرستِ استناد میں شامل ہو۔ایرانیوں نے ہندوستانی شعرا اور سبکِ ہندی کے ایرانی شعرا کو بھی چنداں لائقِ اعتنا نہ سمجھا تھا۔ ہندوستانیوں نے بھی بالاے طاق رکھ دیا۔ بے چارے نہ وہاں کے رہے نہ یہاں کے رہے۔" (صفحہ 99-100)

"۔۔۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس مجھےتب ہوا جب میں نے شعر العجم میں علامہ شبلی کا یہ بیان دیکھا کہ امیر خسرو نے ایسے بہت سے الفاظ اور محاورے استعمال کیے ہیں جوفارسی کے اہلِ زبان کے یہاں نہیں ملتے۔ شبلی نے مزید کہا کہ ایسےاستعمالات کی بنا پر بدگمانوں کویہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ ہندوستان میں طویل قیام کے باعث خسرو کی فارسی میں ہندوستانی پن ہے۔ شبلی نے خسرو کے نام نہاد ہندوستانی محاوروں کی ایک فہرست تو بنا دی لیکن خسرو کی مدافعت میں کچھ نہ کہا، سواے اس کے کہ میں نے اس پر غور نہیں کیا ہے۔مجھے بڑا رنج اس بات کا ہوا کہ شبلی تو خسرو کے زبردست مداح تھے، اور مجھے خود شبلی اور خسرو سے بےانتہا عقیدت ہے، لیکن شبلی نے خسرو کی مدافعت تو درکنار، قوتِ استدلال کا بھی مظاہرہ نہ کیا کہ خسرو ایسے بڑے شاعر کو زبان میں تصرّف کرنے کا حق کیوں نہ ہوتا۔ پھر یہ بھی دیکھنا تھا کہ کوئی لفظ یا محاورہ کسی ایک دو لغات یا چند ایک شعرا کے یہاں نہیں ملتا تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ اس لفظ یا محاورے کا وجود ہی نہیں ہے۔" (صفحہ 77)​
 

حسان خان

لائبریرین
میں نے شعرالعجم نہیں پڑھی ہے ، لیکن مجھے شمس الرحمن فاروقی کے مضمون "ایرانی فارسی، ہندوستانی فارسی اور اردو: مراتب کا معاملہ" (آج، شمارہ 25، صفحہ 74 تا 107) میں اس پر یہ تنقید اہم لگی کہ

"تقریباً بارہ سو صفحے کی اس لاجواب کتاب میں شبلی نے غالب و بیدل کا بمشکل ایک دو جگہ نام لیا، اور سبکِ ہندی کے بیسیوں عظیم فارسی گویوں کا نام تک اس کتاب میں نہیں ملتا، ان کا تذکرہ تو دور کی بات ہے۔اس کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ ہندوستان میں فارسی مطالعات کی فہرستِ استناد میں ان ہندوستانیوں کے نام شامل نہ ہو سکے جنہیں شبلی نے نظرانداز کیا تھا۔ غالب کا معاملہ تو ذرا دیگر تھا، اور بیدل کا نام غالب اور اقبال کی وجہ سے چمکا۔ ان دو کے علاوہ کوئی ہندوستانی فارسی گو ایسا نہیں جو ہمارے فارسی مطالعات کے فہرستِ استناد میں شامل ہو۔ایرانیوں نے ہندوستانی شعرا اور سبکِ ہندی کے ایرانی شعرا کو بھی چنداں لائقِ اعتنا نہ سمجھا تھا۔ ہندوستانیوں نے بھی بالاے طاق رکھ دیا۔ بے چارے نہ وہاں کے رہے نہ یہاں کے رہے۔" (صفحہ 99-100)

"۔۔۔ لیکن اس سے زیادہ افسوس مجھےتب ہوا جب میں نے شعر العجم میں علامہ شبلی کا یہ بیان دیکھا کہ امیر خسرو نے ایسے بہت سے الفاظ اور محاورے استعمال کیے ہیں جوفارسی کے اہلِ زبان کے یہاں نہیں ملتے۔ شبلی نے مزید کہا کہ ایسےاستعمالات کی بنا پر بدگمانوں کویہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ ہندوستان میں طویل قیام کے باعث خسرو کی فارسی میں ہندوستانی پن ہے۔ شبلی نے خسرو کے نام نہاد ہندوستانی محاوروں کی ایک فہرست تو بنا دی لیکن خسرو کی مدافعت میں کچھ نہ کہا، سواے اس کے کہ میں نے اس پر غور نہیں کیا ہے۔مجھے بڑا رنج اس بات کا ہوا کہ شبلی تو خسرو کے زبردست مداح تھے، اور مجھے خود شبلی اور خسرو سے بےانتہا عقیدت ہے، لیکن شبلی نے خسرو کی مدافعت تو درکنار، قوتِ استدلال کا بھی مظاہرہ نہ کیا کہ خسرو ایسے بڑے شاعر کو زبان میں تصرّف کرنے کا حق کیوں نہ ہوتا۔ پھر یہ بھی دیکھنا تھا کہ کوئی لفظ یا محاورہ کسی ایک دو لغات یا چند ایک شعرا کے یہاں نہیں ملتا تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ اس لفظ یا محاورے کا وجود ہی نہیں ہے۔" (صفحہ 77)​
'شعرالعجم' کے مطالعے کے دوران مجھے یہی نقص محسوس ہوا کہ یہ بہت زیادہ ایران محور ہے۔ ہندی فارسی گو شعراء کا ذکر تو ایک طرف، مصنف نے غزنوی دور کے بعد کے کسی ایک بھی ماوراءالنہری اور افغانستانی شاعر کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ وہاں کے شعراء بھی ایرانیوں کی طرح خود 'اہلِ زبان' تھے۔ بلکہ سمرقند اور بخارا کے شاعروں کے بارے میں اُنہوں نے یہ عجیب چیز لکھی ہے کہ چونکہ وہ ترک نسل کے تھے، اِس لیے اُن کے کلام میں ایرانیوں جیسی لطافت موجود نہیں ہے۔ این چہ حرفیست؟ مصنف کے لاشعور میں یہی بات بیٹھی ہوئی تھی کہ فارسی ایرانیوں ہی کی زبان ہے اور در نہایت اُن ہی کی زبان، اُن ہی کی شاعری اور اُن ہی کے محاورے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شعرالعجم مجھے ایرانی نقّادوں کی کتابوں کی طرح معلوم ہوئی، جنہیں خوانتے (=پڑھتے) ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا پس غزنوی ادوار میں ایران کے باہر کہیں فارسی بولی لکھی ہی نہیں گئی۔ غیر ایرانی شعراء میں سے عموماً صرف خسرو، جامی اور متاخرین میں اقبال کا نام نظر آتا ہے۔ بیدل دہلوی، غالب دہلوی، واصل کابلی، شمس الدین شاہین بخارائی، شوکت بخارائی، سیّدا نَسَفی، محمد فضولی بغدادی وغیرہ کے وہ نام تک نہیں جانتے۔ اور اگر کبھی اتفاقاً کسی غیر معروف غیر ایرانی شاعر کا کہیں ذکر آ بھی جائے تو یوں ذکر ہوتا ہے کہ گویا ایرانیوں کے مقابلے میں اُس کی زبان اور شاعری میں ضعف ہے۔ ایک ماوراءالنہری شاعر کے بارے میں ایک ایرانی نقاد نے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ چونکہ اُس نے 'فارسی کے مراکز' (یعنی ایرانی شہروں) سے دور زندگی بسر کی تھی اِس لیے اُس کی زبان صاف نہیں ہے اور اُس کی شاعری ایرانی شاعروں کی شاعری سے نسبتاً پست ہے۔ مگر ماوراءالنہر میں بھی فارسی نہیں بولی جاتی؟ یا مگر سمرقند و بخارا بھی زمانۂ قدیم سے فارسی زبان و ادب کے مراکز نہیں رہے؟
در اصل، جانبین کے فرقہ وارانہ تعصب اور بدبینی کی وجہ سے صفوی دور کے آغاز کے بعد ایران کا ماوراءالنہر و افغانستان و اناطولیہ سے براہِ راست ادبی تعلق منقطع ہو گیا تھا، اور اگرچہ اِن دیگر علاقوں میں تو ہند کے توسط سے صائب تبریزی جیسے ایرانی شعراء کا کلام پہنچ گیا تھا، لیکن ایران اِن منطقوں کے شعراء و ادباء سے کاملاً ناواقف رہا۔ بعد ازاں، اُنہوں نے سبکِ ہندی کے خلاف ادبی تحریک چلا کر ہند میں پنپنے والے شعراء پر بھی پُشت کر لی۔ نتیجتاً وہاں کے ادبی حلقوں میں اِنزِوائی رجحانات غالب آ گئے اور اُنہوں نے باقی فارسی نویس جہان سے اپنے دیدے بند کر لیے۔ علاوہ بریں، دورِ متاخر میں ماوراءالنہر اور افغانستان سے ہمارے یہاں بھی کوئی کتابیں نہیں آیا کرتی تھیں، بلکہ یہیں کی فارسی کتب وہاں جاتی تھیں، اور اُن کے بالمقابل ایران سے کتب آتی رہتی تھیں۔ اِس لیے ایرانیوں کے طرح یہاں کے ادبی حلقے بھی ماوراءالنہر اور افغانستان کے ادبی تحوّلات سے ناآگاہ رہے۔ شبلی نعمانی نے بھی شعرالعجم کے لیے بنیادی طور پر ایرانی تذکروں ہی کو ماخذ بنایا تھا، لہٰذا اُن سے متاثر ہو کر اُنہوں نے اُسی ایران محوریت کی روایت کو آگے بڑھایا۔
آج بھی یہ صورتِ حال کم و بیش اُسی طرح موجود ہے۔ ماوراءالنہر اور افغانستان کے ادبی حلقوں میں تو کئی ایرانی تصنیفات کا مطالعہ ہوتا ہے، لیکن ایران کے بیشتر مردم افغانستان اور ماوراءالنہری ادیبوں کی نگارشات کے بارے میں اطلاع نہیں رکھتے۔ بلکہ عامۃ الناس کے بارے میں تو یہ بھی کہنا ممکن ہے کہ اُن میں سے کئی تو یہ بات بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ افغانستان اور تاجکستان کی رسمی زبان بھی ایران ہی کی طرح فارسی ہے اور وہاں بھی امروز فارسی بولی اور لکھی جاتی ہے۔

× ایران محور = ایرانوسینٹرک
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان میں 'کام' کا ایک معنی 'تالو' یا 'سقفِ دہان' بھی ہے۔ فارسی میں اگر کوئی مثال نظر آئی تو پیش کروں گا، فی الحال اردو شاعری سے اِس کی ایک مثال دیکھیے:
منہ کھولے شوقِ نعمتِ دیدار میں رہے
باہم کبھی تعارفِ کام و زباں نہ تھا
(منیر شکوہ آبادی)
 
Top