آزادی مارچ اپڈیٹس

صائمہ شاہ

محفلین
news-1409690698-4548.jpg

03 ستمبر 2014

آ بیل مجھے مار
دہشت گرد پہاڑوں میں چھپے ہوںتو ”ضرب عضب“ دارلخلافہ میں کھلے ہوں تو ”حسن سلوک“۔۔۔؟ دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا پیمانہ امریکہ سے امپورٹ کیا گیا ہے۔ امریکہ میں غیرملکی باشندہ پٹاخہ بھی چلایا جائے تو دہشت گردی کہلاتا ہے اور گورا بم بھی مارد ے ”ذہنی مریض“ کہلاتا ہے ۔پاکستان کے پہاڑوں میں طاقت کا استعمال دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور شہری آبادی میں دہشت گردی کوسیاسی معاملہ قرار دے دیا جاتا ہے ؟طاہر القادری بیرون ملک سے امپورٹ کیا گیا ،اس کے غنڈوں نے پاکستان کی املاک ،سکیورٹی اور سکون کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن پاک فوج نے ان دہشت گردوں کو بڑے پیار سے بہلا پھسلا کر باہر نکال دیا اور ان مبینہ مجرموں کے خلاف طاقت سے روک دیا ؟دہشت گردی کے مفہوم کی نہ امریکہ سے وضاحت ہو سکی اور نہ ہی اس لفظ کی 13برسوں میں پاک فوج وضاحت کر سکی ۔اسلام آباد وزیرستان بنا ہوا ہے اور فوج نے حکومت کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں؟پاک فوج خود تو گولے بارود ،توپیں ، بم استعمال کرے اور پولیس کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے ؟دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کیلوں والے ڈنڈے ،کلہاڑیاں،آریاں،پتھراور پولیس جوابی کاروائی کرے تو ظالم ؟ دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے فوج کی طرح پولیس بھی مکمل اختیارات مانگتی ہے ۔پولیس کو کمزور اور پسپا ثابت کرنے کے پس پشت “سکرپٹ“ کارفرماہے۔ اسلام آباد جس قسم کی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ،اس نے پاکستان کو کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔ ہم تیس سال سے امریکہ میں مقیم ہیں اور متعدد مظاہروں میں شرکت کا موقع ملا ہے مگر یہاں کے قوانین اس قدر سخت ہیں کہ احتجاج کے لئے بھی پرمٹ کی ضرورت ہے ۔تمام شرائط کی منظوری کے بعد چند گھنٹوں کے لئے احتجاج کی اجازت ملتی ہے اور اس کے لئے بھی مخصوص مقام سے آگے پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں۔ وائٹ ہاﺅس کے سامنے مسلمانوں کا سب سے بڑا احتجاج نوے کی دہائی میں دیکھا۔پورے امریکہ سے لاکھوں کی تعداد میں مسلمان جمع تھے۔وائٹ ہاﺅس کے سامنے منظم طریقے سے نماز عصر ادا کی گئی۔حد نگاہ تک مسلمان دکھائی دے رہے تھے، اشتعال انگیزی تو درکنار وائٹ ہاﺅس کے جنگلے کے قریب بھٹکنے کی بھی اجازت نہ تھی۔یہ ٹرک والی جوڑی مثالیں مغرب کی دیتے ہیں اور حرکات ان کی ” مولا جٹ تے نوری نت“ جیسی ہیں۔سرکاری املاک میں دھاوا بول دیا اور 21روز سے پورے علاقے بلکہ پوری قوم کو یرغمال بنارکھا مگر حکومت اور عوام نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ دہشت گرد کھلے چھوڑ دئے جائیں تو صبر و تحمل کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ دہشت گردی کی آڑ میں ”پرانا پاکستان“ بیچا جا رہا ہے۔”سونامی اورنیا پاکستان “الفاظ ہی منحوس ہیں۔نیا پاکستان بنانے کی بے صبری کی وجہ خان کی شادی ہے ۔ پرانا پاکستان خان نے اپنی نئی دلہن کو ”حق مہر“ میں پیش کرنا ہے۔پاکستانی قوم چہروں سے جلد اکتا جاتی ہے ۔نیا پاکستان کی صورت میں ایک اور نیا چہرہ سامنے آگیا تو ”دس سال“ تک کوئی نیا چہرہ دیکھنے کو ترس جائیں گے۔ ہر ادارے میں چند عناصر ایسے ضرور موجود ہوتے ہیں جو طالبان کی سوچ کے حامل ہیں اور ملک میں جمہوری نظام کے خلاف ہیں۔ قادری جیسے لوگ ”گود لے“ رکھے ہیں۔ الطاف حسین نے بھی بہت دن پہلے بتا دیا تھا کہ وہ فقیر آدمی ہیں، گھر سے بھاگنے والی لڑکی کی خبر دے رہے ہیں۔ یہ سب گھر کے بھیدی ہیں۔ قادری کو بھی خواب آجاتے ہیں جبکہ معصوم خان مکمل طور پر چابی کا کھلونا بن چکا ہے۔ یہ کمبخت ٹرک لفٹر سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ ٹرکوں والی جوڑی نے پوری دنیا کے سامنے پاکستان کی آبرو کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے ہیں۔ ہاتھ میں مائیک پکڑ کر اعلان کر تے ہیں کہ قادری اور خان کے علاوہ پاکستان میں باقی سب ناپاک ہے۔ عمران خان کی روح قادری کے بدن میں حلول کر چکی ہے، خان قادری میں ضم ہو چکا ہے بلکہ اس پر قادری کا دم ہو چکا ہے۔ وزیراعظم بننے کے جنون میں لفٹر سے ایک بار پھر ”لڑک“ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر غلطی نظرانداز کر سکتا ہے مگر بدنیتی کے ساتھ لئے گئے یوٹرن سے نکلنے کے مواقع بار بار مہیا نہیں کرتا۔ باہر بیٹھ کر پاکستانی ٹی وی چینلز دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس دنیا میں سب سے خراب ملک پاکستان ہے۔ اس گندے پرانے پھٹیچر پاکستان کو بیچ کر نیا پاکستان خریدا جا رہا ہے کیوں کہ اس ملک کے صحافی بک چکے ہیں، پولیس کرپٹ ہے، فوج دوغلی ہے، ایجنسیاں بے ایمان ہیں، وزیراعظم ظالم ہے، اسمبلی ناپاک ہے، نظام فرعون ہے، عدلیہ بکاﺅ ہے۔ اس جوڑی نے چودہ اگست کے موقع پر منحوس پروگرام ترتیب دیا،پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا یوم آزادی ہے جس نے قوم سے ان کی حقیقی خوشیاں چھین لیں۔ جاوید ہاشمی جب بھی امریکہ آئے ہم سے ملاقات کا موقع ملا۔ آٹھ ماہ پہلے وطن واپسی پر ہم بھی اسی پرواز میں سوار تھے۔
مسلم لیگ نون سے علیحدگی کے حوالے سے ہم نے کہا کہ بوقت عصر روزہ توڑنا اور اس عمر میں دوسرا سیاسی نکاح کرنا کہاں کی دانشمندی ہے، اس سے بہتر تھا کہ آپ اللہ اللہ کرتے۔ ہاشمی صاحب نے کہا کہ اگر عمران خان میرے گھر چل کر نہ آتا اور مجھے پاکستان کے لئے کام کرنے کی گزارش نہ کرتا، میں کبھی چل کر نہ جاتا۔ میں بیکار بستر پر مرنا نہیں چاہتا تھا، میں نے تمام زندگی جہاد کیا ہے، خان نے مجھے یقین دلایا کہ ان کا اور میرا مشن ایک ہے، ہم نوجوان نسل کو روشنیوں کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ میں خان کے ساتھ چل دیا ۔ہم نے کہا بھی کہ خان ہٹ دھرم اور انا پرست انسان ہیں اور آپ ایک منجھے ہوئے سیاسی رہنماءہیں، وہ میاں نواز شریف کو کمزور کرنے کے لئے آپ کو اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے اس کا فخریہ اعلان بھی کیاکہ ”نواز شریف میں نے تمہاری ایک اور وکٹ گرا دی“ہمیں لگتا ہے کہ آپ خان کے فیصلوں کے ماتحت ہیں۔ ہاشمی صاحب نے کہا ’جس روز مجھے یہ محسوس ہوا کہ خان نے میرے سیاسی تجربے کو انڈر اسٹیمیٹ کیا ہے میں اس کو ٹھوکر مار کر چلا جاﺅں گا۔ اور آج پورے پاکستان نے دیکھا کہ ہاشمی نے خان کو ٹھوکر مار دی۔ خان کے”یوٹرن“ کو آٹھ ماہ کا عرصہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے سفر کا آغاز مخلصانہ اور آزادانہ تھا۔ خان کے جذبے اور خلوص کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا مگر شیطان نے کان میں ڈال دیا کہ مشرف، زرداری کے بعد وزارت اعظمیٰ کے تم ہی حق دار ہو (شیطان کو سب جانتے ہیں) خان صاحب نے اٹھتے بیٹھے ”شیروانی“ کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے، ادھر نواز شریف بھی ”شیر وانی“ سلوا چکے تھے۔ جیت کا اعلان ہوا، خان نے الیکشن قبول کر لئے اور وزیراعظم نواز شریف کو مبارکباد پیش کی۔ لیکن شیخ رشید ،جاوید ہاشمی اور دیگر قیادت پانچ سال کا عرصہ انتظار نہ کر سکتی تھی۔ سب بوڑھے ہیں، نہ جانے کس کی باری پہلے آجائے لہذا دھاندلی کو آلہ کار بنا کے مشکوک سفر شروع کر دیا گیا۔ ہاشمی صاحب نے کہا تھا کہ مشرف اورزرداری کے اقتدار کے بارے میں ان کی پیشگوئی صحیح ثابت ہوئی البتہ نواز شریف مدت پوری نہ کر سکیں گے۔ قریشی اور ہاشمی اپنی سابقہ قیادت سے ناراض تھے جبکہ مشرف کی باقیات بھی ”خیر خیرات“ کی امید پر زندہ ہے۔ شیخ رشید کی ”انٹری“ نے عمران خان کی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا۔ عمران خان بدل گئے۔ معاملات ہاتھ سے نکلتے محسوس ہوئے تو ہاشمی لوٹ گئے۔ ہاشمی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اس سکرپٹ کا رائٹر کون ہے اور نہ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں آنے کا شوق ہے البتہ تاریخی حقائق کے پیش نظر خفیہ ایجنسیوں میں کچھ عناصر کا سیاست میں ہمیشہ سے عمل دخل رہاہے۔ یہ صرف پاکستان کی صورتحال نہیں امریکہ میں بھی ”پینٹا گان“ کا وائٹ ہاﺅس پر مکمل اثرورسوخ ہے لہذا جمہوریت سکیورٹی اداروں کے مرہون منت ہے البتہ پاکستان میں جمہوریت ”آ بیل مجھے مار“ کے مصداق چل رہی ہے۔

http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/03-Sep-2014/326398
پاکستان اور پاکستانیوں کا سب سے زیادہ نقصان اس طرح کی صحافت اور صحافیوں نے کیا ہے فقظ قیاس آرائیاں محترمہ کی کوئی بات مستند نہیں
 
کیا ہوگیا ہے آپ کو؟؟؟؟
ایمل کانسی والا کیس یاد ہے۔۔۔
امریکن اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ گنجا چند ڈالر میں اپنی ماں کو بیچ دیتا۔ اس کو اتنے ڈالر دینے کی کیا ضرورت تھی۔
پھر یہ باتیں کچھ معنی نہیں رکھتیں۔
بھائی جان یہ بات اس نے اکیلے گنجے کے بارے میں نھیں کی تھی، پاکستاینوں کے بارے میں بولا تھا اس نے۔ ذرا تصدیق کرلیں اس بیان کی
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ریکارڈ کی درستگی کے لئے


اسلام آباد (۴ستمبر ، ۲۰۱۴ء) ___ آج ذرائع ابلاغ کی بعض اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے اپنے کام کے معمول میں تبدیلی کی ہے۔ اسلام آباد میں قائم امریکی سفارتخانہ اسلام آباد میں مظاہروں کا بغور جائزہ لے رہا ہے، تاہم سفارتخانہ مقرر کردہ اوقات کار کے مطابق اپنے معمول کے کام جاری رکھنے کے لئے کھلا تھا اور کھلا ہے


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

زرقا مفتی

محفلین
ہر طرف سے اپنی اپنی پسند کے اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اس موضوع پر اگر اسدعمرسےلئے گئے انٹرویوز کو دیکھا جائے تو وہ بھی کہ رہا تھا کہ ایسے شکوک پارٹی میں موجود اور لوگوں کو بھی ہیں،لیکن ایسی کوئی بات ہےنہیں۔
اور ہاشمی تو اس بارے میں زیادہ حساس تھا۔وہ تو دھرنے میں شامل ہونے سے پہلے ہی ناراض ہو کر چلا گیا تھا، پھر عمران کی یقین دہانی پر واپس آیا تھا۔
ویسے ہاشمی نے جس خدشے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ واقعی پورا ہوا ،یعنی کہ تشددہوگا اوروہ ہوا۔اس معاملے میں عمران کی سمجھ ہاشمی سے پیچھے ہی رہی۔
اس کے علاوہ ہاشمی نہیں گیا تھا، عمران نے اس سے کہا تھا کہ اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں۔
یہ ساری چیزیں اگر دیکھی جائیں تو سازش تو کوئی نظر نہیں آتی، ہاں ہاشمی کے اس بیان کے بعد اگر فوج کا موڈ "قوم کی امنگوں " کے مطابق کام کرنے کا تھا بھی، تو وہ انہیں موقوف کرنا پڑگیا۔
برین ہیمریج کے بعد ہاشمی صاحب کی صحت بہت ابتر ہے ۔ وہ بغرض علاج چین جا رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے ناقدین فوج سے رسم و راہ کا بہت ذکر کرتے ہیں
کیا ان میں سے کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ شہباز شریف ہفتے میں دو بار آرمی چیف سے کیوں ملاقات کرتے ہیں۔ کون سا سکرپٹ تیار کرنے جاتے ہیں
کسی اور صوبے کے وزیر اعلی کو تو ایسی ضرورت پیش نہیں آتی
 
بھائی جان یہ بات اس نے اکیلے گنجے کے بارے میں نھیں کی تھی، پاکستاینوں کے بارے میں بولا تھا اس نے۔ ذرا تصدیق کرلیں اس بیان کی
اس نے پاکستانیوں کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔ یہ بات اس نے گنجے کو دیکھ کر ہی کہی تھی۔۔۔
اور ہاں گنجا بیشتر پاکستانیوں کا لیڈر نہیں۔۔ اس لیے یہ بات صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہے جو گنجے کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔۔
 
283812-TalatHussainNEWNEW-1409331862-127-640x480.JPG

http://www.express.pk/story/283812/
حالات اسی طرف گئے جس کا خدشہ تھا۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے نیا پاکستان بنانے کا جو بِیڑہ اٹھایا ہوا تھا اس نے رُخ تبدیل کیا اور اب پاکستان کی صورت تھائی لینڈ یا مصر سے تو ملتی ہے مگر ان دعووں سے بہت مختلف ہے جو تمام ہڑبونگ کے دفاع میں بار بار کیے گئے تھے۔ کیا کہا جا رہا تھا اس کی سمری کچھ یوں ہے۔
نواز شریف بطور وزیر اعظم فارغ ہو جائیں گے۔
حکومت لکڑی کے برادے کی طرح ہوا میں اُڑ جائے گی۔
قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔
صوبائی اسمبلیاں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی جائیں گی۔
عوام خواص میں بدل جائیں گے اور خواص طالبان نما احتسابی عمل کے ذریعے کھمبوں سے لٹکتے نظر آئیں گے۔
ایک نیا آئین تشکیل ہو گا۔
عبوری حکومت بنے گی۔
گہری اصلاحات ہوں گی۔
نئے انتخابات کے ذریعے ایک نیا نظام تشکیل پائے گا۔
نواز شریف،آصف علی زرداری، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمان، آفتاب شیر پائو، اسفند یار ولی کی جگہ نئے چہرے سامنے آئیں گے۔ یعنی چوہدری پرویز الٰہی، شجاعت حسین، سردار آصف احمد علی، غلام مصطفی کھر، شیخ رشید، جہانگیر ترین، جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، نئی نسل کے یہ سیاستدان ملک کو ان عظیم الشان بنیادوںپر چلائیں گے جس طرح پرویز خٹک خیبر پختونخوا چلا رہے ہیں۔ اور ہاں انقلاب کی تصویر کچھ ایسی بننی تھی۔
پاکستان ٹیلی ویژن عوامی تحریک کے قبضے میں۔
وزیر اعظم ہائوس تحریک انصاف کے جھنڈوں اور ڈنڈوں سے لدا ہو۔
پارلیمنٹ میں انقلابی کرسیوں پر براجمان ہوں۔
جج صاحبان کی کرسیوں پر نئے منصف براجمان وغیرہ وغیرہ۔
طاہر القادری نے اپنی انگریزی میں بھرپور تقریر کر کے مغرب کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ جیسے وہ سائبیریا کی جیلیں کاٹ کر ملک میں واپس آنے والے لینن ہیں۔ جس کے ریڈ گارڈز زار کے ونٹر پیلس میں گھس کر جدید دنیا میں اپنی طرز کا واحد انقلاب لانے والے ہیں۔ ذرایع ابلاغ نے یہ تصورات اور وعدے نشر کیے۔ سپریم کورٹ پر لٹکی ہوئی شلواریں، بنیانیں، پٹکے اور چادریں فخر سے دکھائیں اور پھر نشر مکرر کے طور پر نام نہاد تجزیہ نگار کرسیوں پر بیٹھ کر یہ مناظر بار بار دکھاتے ہوئے تعریف اور توصیف کی تسبیحیں ایسے پڑھنے لگے جیسے قبولیت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
کسی نے اس ظلم کو جس کا نشانہ بچے اور عورتیں بنے حقیقت کے تناظر میں نہیں دکھایا۔ کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ شہادت کی پٹیاں ماتھے پر بندھوا نے اور زندہ لوگوں سے اپنی قبریں کھدوانے اور ریاست سے ٹکرانے والوں، مارنے اور مر جانے کی ترغیب دینے والوں کا موازنہ ان گروپوں سے کریں جو معصوم بچوں کو بارود سے بھری جیکٹیں پہنا بھیجتے ہیں۔ ان میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں تھا۔ دونوں کے مقاصد انسانی جانوں کو زیر استعمال لا کر نظام کو تہس نہس کرنا تھا۔ مگر ایک کو انقلابی کہہ دیا دوسروں کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔
مگر اس تمام اہتمام کے باوجود آخر میں جو ہوا وہ آپ سب نے دیکھا، تمام معتبر سیاسی حلقوں کو دھتکارنے، نظام کو للکارنے اور آخری بگل بجانے کے بعد ۔۔۔۔ ایک ٹیلی فون آیا اور کہا گیا کہ اب آپ فوج کی بات سن لیں۔ ایک نے انقلاب موقوف کر دیا دوسرے نے بات چیت کا پھر سے آغاز کر دیا۔ جلدی جلدی کمیٹیاں متحرک ہو گئیں اور آخری خبریں آنے تک استعفوں کے علاوہ وہ تمام مطالبات جو حکومت پہلے ہی مان چکی تھی اور جن پر قومی اتفاق رائے بھی بن چکا تھا بطور حتمی نتیجے کے قبول کرنے کا عمل شروع ہو گیا۔
وہ کون دانش مند تھے جنہوں نے سیاسی حل کے بجائے عسکری ثالثی کو بہتر راستہ گردانا، اس کی تاریخ وقت آنے پر تمام تفصیل کے ساتھ بیان کر دی جائے گی۔ ابھی تجزیوں کی بھرمار ہے، کوئی اس کو حکومت کی کامیابی کہہ رہا ہے اور کوئی جمہوریت کی سبکی۔ کوئی عمران خان اور طاہر القادری کو اس ٹورنامنٹ کا بہترین کھلاڑی قرار دے رہا ہے اور کوئی حیرت زدہ ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھ آخر یہ سب کچھ کیوں کیا۔ کیونکہ حالات غیر یقینی ہیں، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا میں تفصیلی تجزیے سے گریز کر رہا ہوں۔
لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے منظر نامے پر بہر حال میں نے ٹوئٹر کے ذریعے مسلسل خیالات کا اظہار کیا ہے۔ تفصیل آپ پڑھ کر جان سکتے ہیں کہ اس تمام ہنگامے میں حقیقت کیا تھی اور اس کا افسانہ کیا بنایا گیا۔ انقلاب ایک سنجیدہ موضوع ہے تبدیلی دیر پا عمل ہے۔ بہترین جمہوریت کا حصول مشکل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ عوام کے حقوق کی جہدوجہد طاقت اور تشہیر کے پیاسوں کی ترجیع کبھی نہیں بنتی۔ موجودہ نظام جو بدترین خرابیوں اور ناہمواریوں سے بھرپور ہے، دو ہفتوں میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ میں جب اصل پاکستان کے بانیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کی عظمت کو سلام کرنے میں فخر محسوس ہوتا ہے۔
میں قائد اعظم کی دیانت داری اور ہمت کو اپنے سیاسی ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں۔ میرے خیال میں علامہ اقبال کے افکار اس بلند ذہن کی پیدا وار ہے جو صدیوں میں کبھی ایک بار جنم لیتا ہے اور پھر میں ٹی وی اسکرین پر یا میدان میں جا کر نئے پاکستان کے بانیوں کو دیکھتا ہوں، دونوں کا موازنہ کرتا ہوں۔ مجھے ایک لمحے میں سمجھ آ جاتی ہے کہ پاکستان 1947ء میں کیوں کر بن پایا ۔ یقینا اس تمام ہنگامے میں سوچنے سمجھنے اور تھوڑی سی عقل رکھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔
 
اس نے پاکستانیوں کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔ یہ بات اس نے گنجے کو دیکھ کر ہی کہی تھی۔۔۔
اور ہاں گنجا بیشتر پاکستانیوں کا لیڈر نہیں۔۔ اس لیے یہ بات صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہے جو گنجے کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔۔
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
اسلام آباد...... وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ معلوم ہے کہ اعتزاز احسن کہاں سے بول رہے ہیں، سب سے بڑے قبضہ گروپ کے معاون اورترجمان سے ایسے ہی بیانات کی توقع ہے، اعتزاز احسن کا وتیرہ ہے کہ وہ حسین کے نام لیوا ہیں اور یزید کا بھی دم بھرتے ہیں،جو شخص سیاست کو تجارت بنا لے،میرے دل میں اس کی کوئی اہمیت اور عزت نہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ میاں صاحب!چودھری نثارکو سمجھائیں کہ تلخیاں نہ بڑھائیں، ہم معاملات بہتر کرنےکی کوشش کررہے ہیں، چودھری نثار،اعتزاز احسن کے خلاف بیہودہ الزامات لگا رہے ہیں، پیپلز پارٹی جواب بھی دے سکتی ہے لیکن ہم معاملات بگاڑنا نہیں چاہتے۔
http://urdu.geo.tv/UrduDetail.aspx?ID=158821
اعتزاز احسن نے درست کہا تھا بحران ختم ہوتے ہی نون کے وزرا کا تکبر آسمان چھونے لگے گا
ابھی تو بحران ختم بھی نہیں ہوا

چوہدری نثار کے لئے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
 

ظفری

لائبریرین
اسلام آباد...... وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ معلوم ہے کہ اعتزاز احسن کہاں سے بول رہے ہیں، سب سے بڑے قبضہ گروپ کے معاون اورترجمان سے ایسے ہی بیانات کی توقع ہے، اعتزاز احسن کا وتیرہ ہے کہ وہ حسین کے نام لیوا ہیں اور یزید کا بھی دم بھرتے ہیں،جو شخص سیاست کو تجارت بنا لے،میرے دل میں اس کی کوئی اہمیت اور عزت نہیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ میاں صاحب!چودھری نثارکو سمجھائیں کہ تلخیاں نہ بڑھائیں، ہم معاملات بہتر کرنےکی کوشش کررہے ہیں، چودھری نثار،اعتزاز احسن کے خلاف بیہودہ الزامات لگا رہے ہیں، پیپلز پارٹی جواب بھی دے سکتی ہے لیکن ہم معاملات بگاڑنا نہیں چاہتے۔
http://urdu.geo.tv/UrduDetail.aspx?ID=158821
اعتزاز احسن نے درست کہا تھا بحران ختم ہوتے ہی نون کے وزرا کا تکبر آسمان چھونے لگے گا
ابھی تو بحران ختم بھی نہیں ہوا

چوہدری نثار کے لئے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
وطیرہ ۔
 
اس نے پاکستانیوں کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔ یہ بات اس نے گنجے کو دیکھ کر ہی کہی تھی۔۔۔
اور ہاں گنجا بیشتر پاکستانیوں کا لیڈر نہیں۔۔ اس لیے یہ بات صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتی ہے جو گنجے کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔۔
Pakistanis do not sell their mothers for a few thousand dollars, Washington told
A United States prosecutor's comment that Pakistanis would 'sell their mothers for a few thousand dollars' has created much ado between the two countries.

The prosecutor had made the remark during the trial of Ajmal Kansi, who allegedly killed two CIA officials in Washington a couple of years ago.

US Ambassador to Islamabad Thomas Simons was summoned to Pakistan's foreign office and conveyed the official protest. He is believed to have apologised saying that prosecutors appearing in lower courts do not know the niceties and delicacies of diplomatic relations.

Similarly, Pakistan's mission in Washington has also lodged a protest with the US Undersecretary of State Thomas Pickeering.

The Pak government has demanded an apology from the prosecutor.

However, senior US officials claim the prosecutor was not specifically referring to Pakistan. What he had said, they say, was that the people of the region are very poor, particularly in Baluchistan area (to which Kansi belongs).
 

زرقا مفتی

محفلین
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے رہنماءسینیٹر اعتزاز احسن کو ٹیلی فون کر کے آج وزیر داخلہ نثار علی خان کی جانب سے ان پر تنقید پر معذرت کر لی ہے جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنماءاور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے وزیر داخلہ کو سمجھائیں کہ وہ سیاسی ماحول کو مزید تلخ نہ کریں اور الزام تراشی بند کریں ورنہ الزامات کا جواب دینا پیپلز پارٹی کو بھی آتا ہے۔

یاد رہے آج وزیر داخلہ نثار علی خان کی جانب سے سینیٹر اعتزاز احسن کو قبضہ مافیا کا ترجمان قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’حسین‘ کا نام لے کر آتے ہیں مگر ’یزیدیت‘ کو پروان چڑھاتے ہیں اور سیاست کو تجارت کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

http://dailypakistan.com.pk/national/04-Sep-2014/139962

اعتزاز احسن کو ابھی چوہدری نثار کی معذرت کا انتظار ہے وہ کل پارلیمنٹ میں اپنا موقف پیش کریں گے
 
Top