خانہ کعبہ میں سعودی پولیس

پولیس والے بھائی کو خیال کرنا چاہیے۔
مسجد الحرام میں عموماً پولیس والے جوتوں سمیت ہی دیکھے ہیں۔
البتہ روضہ رسول :pbuh: کے سامنے کھڑےپولیس والے کالے موزے پہنے ہوتے ہیں لیکن مسجد نبوی:pbuh: کے اندر سربراہان مملکت کی حفاظت کے لیے جانے والے خصوصی فورسز کے دستوں کو اکثر بوٹوں سمیت ہی دیکھاہے۔
 

x boy

محفلین
مفہوم حدیث،، اللہ اعلم

ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چپل سمیت نماز میں تھے کہ جبرائیل امین علیہ السلام نے ان کو خبر دی کہ انکے چپل میں گندگی لگی ہوئی ہے
نماز کے دوران ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چپل اتارکر ایک طرف رکھ دئے،
اس حدیث کی اصل روایت اگر کسی کو پتہ ہے تو شئر کریں۔۔۔ اور ساتھ میں دلیل بھی ،، جزاک اللہ
 

x boy

محفلین
سوال:
جامع مسجد ميں جوتوں سميت نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے، اور دليل يہ دينا كہ جوتے كھولنے اور بند كرنے مشكل ہيں اور وقت بھى تنگ ؟


جواب:-
الحمد للہ:

جوتوں سميت نماز ادا كرنا مباح امور ميں شامل ہوتا ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہوديوں كى مخالفت ميں اس كا حكم ديا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام اپنے جوتوں سميت نماز ادا كيا كرتے تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو حكم ديا كہ وہ اپنے جوتوں كو ديكھيں كہ كہيں اس ميں گندگى ہى نہ لگى ہو.

اور ايك موقع پر جبريل امين عليہ السلام كے بتانے پر كہ جوتے ميں گندگى ہے دوران نماز ہى جوتا اتار ديا، اور صحابہ كرام نے بھى اپنے جوتے اتار ديے، يہ سب واقعات صحيح احاديث ميں موجود ہيں، اور ذيل كى سطور ميں مستقل فتوى كميٹى كا فتوى بھى بيان كيا جائيگا.

بلاشك اس وقت ان كى مساجد ميں قالين نہ تھے، بلكہ ان ميں ريت اور كنكرياں ہوتى جو جوتے سميت داخل ہونے سے متاثر نہيں ہوتى تھى، ليكن آج كى مساجد ميں قالين بچھا ديے گئے ہيں، چنانچہ جوتوں سميت مسجد ميں جانے سے مسجد ميں گرد وغبار اور گندگى پھيلے گى، اور بعض لوگ اس ميں سستى اور كاہلى سے كام ليتے ہوئے ايسے ہى مسجد ميں داخل ہو جائيں اوران كے جوتوں كو گندگى اور نجاست لگى ہوئى ہو.

اور اگر ہم جوتوں سميت قالين پر نماز ادا كرنے كى اجازت دے ديں تو پھر ہميں صفائى كے ليے مسجد ميں بہت سے ملازم ركھنا پڑينگے، ہم يہ نہيں كہتے كہ ہر روز بلكہ وہ ہر نماز كے بعد مسجد كى صفائى كريں، ہمارے خيال كے مطابق اسے قبول كرنے والا شخص مٹى اور گرد و غبار سے بھرے ہوئے قالين پر نماز ادا كرنے پر راضى نہيں ہو گا، چہ جائيكہ لوگوں كى سستى اور كاہلى سے اس كے علاوہ دوسرى گندگى يا نجاست پر.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

مسجد ميں جوتوں سميت داخل ہونے كے متعلق اختلاف پيدا ہو گيا ہے، چنانچہ اس سلسلے ميں شرعى حكم كيا ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" مسجد ميں جوتوں سميت داخل ہونا اور جوتوں سميت نماز ادا كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے؛ چنانچہ ابو داود رحمہ اللہ تعالى سنن ابو داود ميں اپنى سند كے ساتھ ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كرتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صحابہ كرام كو ايك روز نماز پڑھا رہے تھے كہ دوران نماز ہى جوتے اتار كر اپنى بائيں جانب ركھ ليے، جب لوگوں نے ديكھا تو انہوں نے بھى اپنے جوتے اتار ديے، چنانچہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے:

" تمہيں كس چيز نے اپنے جوتے اتارنے پر ابھارا ؟ "

صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم نے آپ كو جوتا اتارتے ہوئے ديكھا تو ہم نے بھى اپنے جوتے اتار ديے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" ميرے پاس جبريل امين آئے اور بتايا كہ جوتوں ميں گندگى ہے, اور فرمايا: جب تم ميں سے كوئى شخص مسجد آئے تو وہ ديكھے اور اگر اپنے جوتے ميں گندگى لگى ہوئى ديكھے تو اسے زمين پر رگڑ كر ان جوتوں سميت نماز ادا كر لے "

اور ابو داود رحمہ اللہ نے يعلى بن شداد بن اوس عن ابيہ كى سند سے روايت كيا ہے كہ وہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہوديوں كى مخالفت كرو كيونكہ وہ اپنے جوتوں اور موزوں ميں نماز ادا نہيں كرتے "

اور ابو داود رحمہ اللہ نے عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ كى سند سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ننگے پاؤں اور جوتوں ميں نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا "

اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.

ليكن قيمتى قسم كے قالين مسجدوں ميں بچھانے كے بعد مسجد ميں داخل ہونے والوں كو چاہيے كہ اگرچہ جوتے پاك بھى ہوں تو وہ صفائى كو مد نظر ركھتے ہوئے جوتے اتار ليں، تا كہ نمازيوں كو اذيت نہ ہو، اور ہو سكتا ہے جوتوں كے نيچے لگى ہوئى گندگى قالين كو نہ لگ جائے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 213 - 214 )

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:

جوتوں سميت نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" جوتے صاف ہوں تو ان ميں نماز ادا كرنا مستحب ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جوتوں ميں نماز ادا كرتے تھے، اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يہودى اور عيسائى اپنے جوتوں اور موزوں ميں نماز ادا نہيں كرتے چنانچہ تم ان كى مخالفت كرو "

اور جو كوئى ننگے پاؤں نماز كرے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بعض اوقات ننگے پاؤں نماز ادا كرنا ثابت ہے.

اور اگر مسجد ميں قالين وغيرہ بچھے ہوں تو جوتے اتارنا اولى ہيں تا كہ قالين گندا نہ ہو، اور مسلمان اس پر سجدہ كرنے سے نفرت نہ كرنے لگيں " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز

اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور ميں نے اپنے سلفى بھائيوں كو نصيحت كى ہے وہ اس مسئلہ ۔ يعنى مسجد ميں جوتوں سميت نماز ادا كرنا ۔ ميں تشدد سے كام نہ ليں، كيونكہ فرق يہ ہے كہ آج مساجد ميں قالين وغيرہ بچھا ديے گئے ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مسجد نبوى ميں قالين نہ تھے.

ان كے ليے ميں نے سنت نبويہ ميں سے ايك اور قصہ كے ساتھ مقارنہ كيا ہے: يہ كہ اگر دوران نماز كسى كو تھوك يا بلغم وغيرہ آ جائے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے كہ وہ اپنى بائيں جانب يا پھر اپنے قدموں كے نيچے تھوكے، يہ واضح ہے كہ ايسا اس صورت ميں ہو سكتا ہے وہاں زمين ہو ۔ يعنى مسجد كى زمين مٹى والى ہو جہاں تھوكا جائے ۔ جس ميں مٹى اور ريت وغيرہ ہو، ليكن آج مساجد ميں قالين بچھے ہوئے ہيں، تو كيا آپ كہتے ہيں كہ مسجد ميں قالين پر تھوكنا جائز ہے ؟! تو يہ بھى اسى طرح ہے " انتہى

علامہ البانى رحمہ تعالى نے جو كچھ كہا ہے، اس سے قبل امام احمد رحمہ اللہ بھى يہى كہہ چكے ہيں.

چنانچہ ابن رجب رحمہ اللہ تعالى " فتح البارى " ميں بكر بن محمد سے نقل كرتے ہيں:

ميں نے ابو عبد اللہ ۔ يعنى امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ۔ سے كہا:

مسجد ميں ايك شخص تھوك كر اپنے پاؤں كے ساتھ رگڑ دينے كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟

ان كا كہنا تھا: يہ سارى حديث ميں نہيں ، ان كا كہنا تھا: مساجد ميں چٹائياں بچھا دى گئى ہيں، يہ اس طرح نہيں رہيں جس طرح پہلے تھيں.

انہوں نے كہا: زيادہ تعجب يہ ہے كہ اگر وہ نماز كے دوران تھوكنا چاہے تو جب تھوك مسجد كے علاوہ كہيں اور گرے تو اپنى بائيں جانب تھوكے، اور اگر وہ مسجد ميں ہو اور مسجد كے باہر تھوك نہ گرے تو وہ اسے كپڑے ميں تھوك لے " انتہى

البوارى: بنى ہوئى چٹائى كو كہتے ہيں، جيسا كہ القاموس المحيط ميں ہے.

چنانچ انہوں نے بيان كيا ہے كہ مسجد ميں تھوك كر پاؤں كے ساتھ ملنا اس وقت تھا جب مساجد ميں چٹائياں نہيں بچھى ہوتى تھيں.

اور اگر جوتے اتارنے ميں مشكل ہو، مثلا وہ جوتے جو فوجى پہنتے ہيں ان كے ليے جوتے صاف ہونے كا يقين ہونے پر جوتے سميت نماز ادا كرنى جائز ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا مسجد ميں جوتے خاص كر لمبے فوجى جوتوں ميں نماز ادا كرنا جائز ہے ، خاص كر فوجيوں كا كام ہميشہ جوتے پہننے كا متقاضى ہے، يہ علم ميں رہے كہ آج مساجد ميں قالين وغيرہ بچھائے جا چكے ہيں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر جوتے پاك صاف ہوں تو مسجد ميں جوتوں سميت داخل ہونا اور ان ميں نماز ادا كرنا جائز ہے، ليكن مسجد ميں داخل ہوتے وقت يہ خيال ركھنا چاہيے كہ جوتے صاف ہوں اور گندگى وغيرہ نہ لگى ہو " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 215 - 216 )

اس بنا پر اب مساجد ميں جوتوں سميت نماز نہيں كرنى چاہيے، ليكن جس كے ليے جوتے كھولنے ميں مشقت ہو تو وہ ان كے صاف ہونے كا يقين كر لينے كے بعد جوتوں سميت نماز ادا كر لے، اور اپنے ساتھ والے اذيت نہ دے، اور اگر ايسا كرنے سے اختلاف اور بغض اور نفرت پيدا ہوتى ہو تو مسلمانوں كے مابين محبت و الفت پيدا كرنے كے ليے جوتے اتارنا، اور اس سبب كا باعث بننا جس سے دشمنى و بغض پيدا ہوتا ہو ترك كرنا اولى اور بہتر ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى كرتے ہوئے اس سنت پر گھر ميں عمل كيا جا سكتا ہے، جہاں كوئى فساد كا خطرہ نہيں، يا پھر خالى زمين جہاں قالين نہ بچھے ہوں نماز ادا كى جا سكتى ہے.

واللہ اعلم .
 

الشفاء

لائبریرین
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے:
" تمہيں كس چيز نے اپنے جوتے اتارنے پر ابھارا ؟ "
صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم نے آپ كو جوتا اتارتے ہوئے ديكھا تو ہم نے بھى اپنے جوتے اتار ديے.

.

سبحان اللہ۔۔۔ عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔۔۔:)

اللہ عزوجل ہمیں بھی ایسا ہی جذبہ اطاعت فرمائے۔۔۔ آمین۔
 

صرف علی

محفلین
ویسے ان تمام حدیث کا اس تصویر سے کوئی تعلق ثابت کرے
اور کوئی مسلمان جرت کرے کسی وہابیوں کی مسجد میں اس حدیث کے مطابق عمل کرے
 

x boy

محفلین
ویسے ان تمام حدیث کا اس تصویر سے کوئی تعلق ثابت کرے
اور کوئی مسلمان جرت کرے کسی وہابیوں کی مسجد میں اس حدیث کے مطابق عمل کرے
کوئی مسلمان کسی مسلمان کو کچھ ثابت نہیں کرسکتا سوائے عقل و شعور ،، کسی تصویر کو اسطرح اچھالنا اچھی بات نہیں وہ پولیس یا گارڈ 8 گھنٹے وہاں معمور ہے اور مسلسل کوئی بھی کھڑا رہنا وہ بھی 8 گھنٹے مشکل لیکن وہ اس کو نبھارہا ہے اور بد نظمی کو کنٹرول کررہا ہے
حرم میں اگر پولیس یا گارڈ نہ ہوتو بہت بد نظمی ہوجائے گی، جس کی وجہ سے معصوم اور بوڑھے کمزور لوگوں کا طواف کرنا اور حجر اسود کو چھونا یا بوسہ دینا مشکل ہوجائے گا،، صرف علی کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہاں سے گارڈ ہٹا دیے جائے اور اس کی جگہہ احرام باندھا ہوا شخص کڑارہے
ایک چھوٹی سی مثال ،،، جس بلڈنگ میں رہتا ہوں وہا ہر فلیٹ والوں کے لئے پارکنک ہے اور اس کا باقاعدہ نمبر کے ساتھ الاؤٹ ہے کس طرف سے آنا کس طرف سے جانا سب مارکنگ ہے مگر کچھ لوگ جس راستے آنا ہوتا ہے وہ اس راستے سے جاتے ہیں اور جس راستے جانا ہوتا ہے وہ اس سے آتے ہیں بد نظمی ہوتی ہے کیونکہ وہاں کوئی قانون والا گارڈ پولیس کی وردی میں سوٹ بوٹ کے ساتھ کھڑا نہیں ہے اور گمراہ لوگوں کو اس کا ڈر نہیں،،، لیکن راستے میں نکلتے ہی بڑے پابند ہوجاتے ہیں کیونکہ قانون والے 24 گھنٹے گشت پر ہوتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والے کو غراما مطلب فائن پڑسکتا ہے اسی طرح حرم میں چوکنے گارڈ ہوتے ہیں سوٹ بوٹ کے ساتھ جو بدنظمی کو ہونے سے روکتے ہیں،،،

عارف کریم تو ہے ہی اسلام کا دشمن جب بھی اسطرح کی بات چلتی ہے اس کی شیطانی روح کو تشفی ہوتی ہے

عمررضي اللہ تعالی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لائے اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔
 

محمد امین

لائبریرین
بھائی ایکس بوئے صاحب تصویر میں پیغام صرف اتنا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی دیوار پر پیر لگا کر کھڑا ہوا ہے۔۔۔جوتے نہ بھی ہوں تب بھی یہ ایک ملعون حرکت ہے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
سوال:
جامع مسجد ميں جوتوں سميت نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے، اور دليل يہ دينا كہ جوتے كھولنے اور بند كرنے مشكل ہيں اور وقت بھى تنگ ؟


جواب:-
الحمد للہ:

اور شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور ميں نے اپنے سلفى بھائيوں كو نصيحت كى ہے وہ اس مسئلہ ۔ يعنى مسجد ميں جوتوں سميت نماز ادا كرنا ۔ ميں تشدد سے كام نہ ليں، كيونكہ فرق يہ ہے كہ آج مساجد ميں قالين وغيرہ بچھا ديے گئے ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مسجد نبوى ميں قالين نہ تھے.

ان كے ليے ميں نے سنت نبويہ ميں سے ايك اور قصہ كے ساتھ مقارنہ كيا ہے: يہ كہ اگر دوران نماز كسى كو تھوك يا بلغم وغيرہ آ جائے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم ہے كہ وہ اپنى بائيں جانب يا پھر اپنے قدموں كے نيچے تھوكے، يہ واضح ہے كہ ايسا اس صورت ميں ہو سكتا ہے وہاں زمين ہو ۔ يعنى مسجد كى زمين مٹى والى ہو جہاں تھوكا جائے ۔ جس ميں مٹى اور ريت وغيرہ ہو، ليكن آج مساجد ميں قالين بچھے ہوئے ہيں، تو كيا آپ كہتے ہيں كہ مسجد ميں قالين پر تھوكنا جائز ہے ؟! تو يہ بھى اسى طرح ہے " انتہى
.

مسجد میں قالین پر تھوکنا مٹی پر تھوکنے جیسا؟؟ :)
 

صرف علی

محفلین
کوئی مسلمان کسی مسلمان کو کچھ ثابت نہیں کرسکتا سوائے عقل و شعور ،، کسی تصویر کو اسطرح اچھالنا اچھی بات نہیں وہ پولیس یا گارڈ 8 گھنٹے وہاں معمور ہے اور مسلسل کوئی بھی کھڑا رہنا وہ بھی 8 گھنٹے مشکل لیکن وہ اس کو نبھارہا ہے اور بد نظمی کو کنٹرول کررہا ہے
حرم میں اگر پولیس یا گارڈ نہ ہوتو بہت بد نظمی ہوجائے گی، جس کی وجہ سے معصوم اور بوڑھے کمزور لوگوں کا طواف کرنا اور حجر اسود کو چھونا یا بوسہ دینا مشکل ہوجائے گا،، صرف علی کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہاں سے گارڈ ہٹا دیے جائے اور اس کی جگہہ احرام باندھا ہوا شخص کڑارہے
ایک چھوٹی سی مثال ،،، جس بلڈنگ میں رہتا ہوں وہا ہر فلیٹ والوں کے لئے پارکنک ہے اور اس کا باقاعدہ نمبر کے ساتھ الاؤٹ ہے کس طرف سے آنا کس طرف سے جانا سب مارکنگ ہے مگر کچھ لوگ جس راستے آنا ہوتا ہے وہ اس راستے سے جاتے ہیں اور جس راستے جانا ہوتا ہے وہ اس سے آتے ہیں بد نظمی ہوتی ہے کیونکہ وہاں کوئی قانون والا گارڈ پولیس کی وردی میں سوٹ بوٹ کے ساتھ کھڑا نہیں ہے اور گمراہ لوگوں کو اس کا ڈر نہیں،،، لیکن راستے میں نکلتے ہی بڑے پابند ہوجاتے ہیں کیونکہ قانون والے 24 گھنٹے گشت پر ہوتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والے کو غراما مطلب فائن پڑسکتا ہے اسی طرح حرم میں چوکنے گارڈ ہوتے ہیں سوٹ بوٹ کے ساتھ جو بدنظمی کو ہونے سے روکتے ہیں،،،

عارف کریم تو ہے ہی اسلام کا دشمن جب بھی اسطرح کی بات چلتی ہے اس کی شیطانی روح کو تشفی ہوتی ہے

عمررضي اللہ تعالی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لائے اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کوتجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔
اگر آپ صرف مثال میں بھی اس حرکت کو کسی اور فرقہ کے مسلمان کے لئے پیش کرتے تو کیا یہ حضرت حسن ذن رکھ کربھی یہ باتیں اس کے لئے بولتے ؟؟؟؟؟؟؟ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے ۔
 

x boy

محفلین
اگر آپ صرف مثال میں بھی اس حرکت کو کسی اور فرقہ کے مسلمان کے لئے پیش کرتے تو کیا یہ حضرت حسن ذن رکھ کربھی یہ باتیں اس کے لئے بولتے ؟؟؟؟؟؟؟ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے ۔

مثالوں کو ایسے کیسے میں بناؤ جس سے کسی کی توہین ہو،،، بات تو یہاں ڈیوٹی کی ہورہی ہے اس میں ان شاء اللہ کسی کے ساتھ زیادتی یا کمی نہیں پائنگے۔
 
Top