عظیم اللہ قریشی
محفلین
والد صاحب کی ناگہانی وفات پر قلبی کیفیات
نہ میں اس دنیا میں پہلا بیٹا ہوں جو کہ یتیم ہوا اور نہ ہی میرے والد صاحب پہلے باپ ہیں جو کہ اس دنیا میں اپنے بچوں کو تنہا چھوڑ گئے۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا عام لوگوں کی طرح بے شمار لوگوں کے والدین کی نماز جنازہ میں شرکت کی یا کہیں کسی کے بارے میں سنا کہ فلاں کا والد مرگیا تو ایک معمول کے مطابق عام سی بات محسوس ہوئی لیکن 7 مئی بروز جمعرات بوقت چار بج کر 30 منٹ صبح جب میرے والد صاحب اچانک سائلنٹ ایم آئی یعنی دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تو مجھے یوں لگا کہ میری دنیا ہی لٹ گئی۔ زمین و آسمان ایک ہوگئے یوں لگا جیسے قیامت صغریٰ بپا ہوگئی۔ یوں لگا جیسے جون جولائی کی دوبجے کی کڑی دھوپ میں سایہ دار تناور چھتنار درخت کاٹ دیا گیا ہو اور تیز دھوپ مجھ پر براہ راست پڑ رہی ہو۔ یوں لگا کہ اماوس کی کالی سیاہ اندھیری رات جس میں آسمان بھی کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا ہو میری کشتی دریا کے عین درمیان بیچ گرداب کے پھنس گئی ہو۔
تین دن سے سکتے کی کیفیت میں تھا نہ رویا دھویا نہ ہی بین کیئے بس چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھا رہا کون آیا کون گیا کچھ پتہ نہیں ۔ بھائی نے بتایا کہ جب لوگ دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے تھے تو آپ نہیں اٹھاتے تھے ایک شاک کی کیفیت میں تھے۔
آج چوتھے دن جب سب لوگ گھروں کو چلے گئے تو والدہ میرے پاس آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں بیٹا کہ تین دن سے تو گھر نہیں آیا اور مجھے تیرے بھائیوں نے بتایا ہے کہ تو قبرستان میں بھی ایک طرف کھڑا تھا شروع سے آخر تک تونے باپ کا چہرہ نہیں دیکھا ۔ دیکھ تیرا باپ مرگیا ہے تو میرے سَر کا سائیں اس دنیاسے چلا گیا ہے اگر تو اسی طرح کرتا رہا تو میں بھی بہت جلد مرجاؤنگی ۔ دیکھ اب گھر کا بڑا تو ہی ہے بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے اب گھر تونے ہی سنبھالنا ہے یہ کہہ کر والدہ مجھ سے گلے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں تو پھر اچانک میرا دل بھی بھر آیا اور میری آنکھیں بھی ساون بھادوں کی بارش کی مانند برسنے لگیں۔ اللہ باقی
نہ میں اس دنیا میں پہلا بیٹا ہوں جو کہ یتیم ہوا اور نہ ہی میرے والد صاحب پہلے باپ ہیں جو کہ اس دنیا میں اپنے بچوں کو تنہا چھوڑ گئے۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالا عام لوگوں کی طرح بے شمار لوگوں کے والدین کی نماز جنازہ میں شرکت کی یا کہیں کسی کے بارے میں سنا کہ فلاں کا والد مرگیا تو ایک معمول کے مطابق عام سی بات محسوس ہوئی لیکن 7 مئی بروز جمعرات بوقت چار بج کر 30 منٹ صبح جب میرے والد صاحب اچانک سائلنٹ ایم آئی یعنی دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تو مجھے یوں لگا کہ میری دنیا ہی لٹ گئی۔ زمین و آسمان ایک ہوگئے یوں لگا جیسے قیامت صغریٰ بپا ہوگئی۔ یوں لگا جیسے جون جولائی کی دوبجے کی کڑی دھوپ میں سایہ دار تناور چھتنار درخت کاٹ دیا گیا ہو اور تیز دھوپ مجھ پر براہ راست پڑ رہی ہو۔ یوں لگا کہ اماوس کی کالی سیاہ اندھیری رات جس میں آسمان بھی کالے بادلوں سے ڈھکا ہوا ہو میری کشتی دریا کے عین درمیان بیچ گرداب کے پھنس گئی ہو۔
تین دن سے سکتے کی کیفیت میں تھا نہ رویا دھویا نہ ہی بین کیئے بس چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھا رہا کون آیا کون گیا کچھ پتہ نہیں ۔ بھائی نے بتایا کہ جب لوگ دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے تھے تو آپ نہیں اٹھاتے تھے ایک شاک کی کیفیت میں تھے۔
آج چوتھے دن جب سب لوگ گھروں کو چلے گئے تو والدہ میرے پاس آکر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں بیٹا کہ تین دن سے تو گھر نہیں آیا اور مجھے تیرے بھائیوں نے بتایا ہے کہ تو قبرستان میں بھی ایک طرف کھڑا تھا شروع سے آخر تک تونے باپ کا چہرہ نہیں دیکھا ۔ دیکھ تیرا باپ مرگیا ہے تو میرے سَر کا سائیں اس دنیاسے چلا گیا ہے اگر تو اسی طرح کرتا رہا تو میں بھی بہت جلد مرجاؤنگی ۔ دیکھ اب گھر کا بڑا تو ہی ہے بڑے بھائی ہونے کی حیثیت سے اب گھر تونے ہی سنبھالنا ہے یہ کہہ کر والدہ مجھ سے گلے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیں تو پھر اچانک میرا دل بھی بھر آیا اور میری آنکھیں بھی ساون بھادوں کی بارش کی مانند برسنے لگیں۔ اللہ باقی