محمد بلال اعظم
لائبریرین
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
یہ شعر ہمارے معاشرے میں کچھ زیادہ ہی مشہور ہوا ہے لیکن شاعر کا نام بہت کم لوگوں کو ہی پتہ ہے لیکن ض نوید صاحب کی زبانی معوم ہوا کہ یہ شعر ازہر درانی صاحب کا ہے۔ اس پر اُن سے مکمل غزل کی فرمائش کی، جس پہ انہوں نے مکمل غزل بھی شریک کی۔ محفلین کے لئے غزل جناب نوید صاحب کے نوٹ کے ساتھ شریک کر ہا ہوں۔ نوید ظفر کیانی صاحب محفل کے رکن بھی ہیں مگر محفل والا نام یاد نہ آنے کی وجہ سے ٹیگ نہیں کر پا رہا۔
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
یہ شعر ہمارے معاشرے میں کچھ زیادہ ہی مشہور ہوا ہے لیکن شاعر کا نام بہت کم لوگوں کو ہی پتہ ہے لیکن ض نوید صاحب کی زبانی معوم ہوا کہ یہ شعر ازہر درانی صاحب کا ہے۔ اس پر اُن سے مکمل غزل کی فرمائش کی، جس پہ انہوں نے مکمل غزل بھی شریک کی۔ محفلین کے لئے غزل جناب نوید صاحب کے نوٹ کے ساتھ شریک کر ہا ہوں۔ نوید ظفر کیانی صاحب محفل کے رکن بھی ہیں مگر محفل والا نام یاد نہ آنے کی وجہ سے ٹیگ نہیں کر پا رہا۔
ازہر درانی صاحب نے یہ شعر بزمِ جام اسلام آباد کے طرحی مشاعرے میں کہی گئی اپنی غزل میں پڑھی تھی جس میں میں بھی سامع کی حیثیت سے شریک تھا۔ مشاعرہ کا مصرعِ طرح تھا۔
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی
اُن کی پوری غزل کچھ یوں تھی
مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی
میں دیکھتا ہوں ہر اک سمت پنچھیوں کا ہجوم
الٰہی خیر ہو صیاد کے گھرانے کی
قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو
کہ سرکشی کو تو عادت ہے سر اُٹھانے کی
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی
اسی مشاعرے میں ایک اور شعر بہت پسند کیا گیا جو جناب انور سلیم صاحب کا تھا اور جو کچھ یوں تھا
سلیم ہم بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں
مگر وہ بات کہاں کشتیاں جلانے کی
ماخذ