واقعہ شق القمراور جدید سائنس

سید ذیشان

محفلین
سرپھرا صاحب، میں آپ کی لمبی پوسٹ کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ میں جو بات کر چکا ہوں اس پر ابھی تک قائم ہوں۔ ہاں ایک بات ضرور کروں گا کہ آپ نے پینروز ٹائلنگ پر کہا تھا کہ یہ بے تکا اور بے مقصد چیز ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے سائنس کہاں تک پڑھی ہے لیکن میں بتانا چاہوں گا کہ ریاضی میں اس کام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ قدرت میں بھی ایسے کرسٹل پائے گے ہیں جن کا ایسا سٹرکچر ہے۔

سائنس کائنات کو سمجھنے اور علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اور جو لوگ اس ذریعے سے علم حاصل کرتے ہیں ان کو اور علم حاصل کرنے کی جستجو ہوتی ہے۔چیزوں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ کر، چیزوں کا، ان کے آپس کےتعلق کا مشاہدہ کر کے اور تجربات وضع کر کے انسان کے بہت سے سوالوں کے جوابات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ سب کچھ تو قرآن و حدیث میں ہے اور مجھے معلوم ہو گیا تو اس کے لئے تو ظاہری بات ہے سائنس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ جب علم حاصل کرنے کی جستجو ہی نہیں رہے گی تو علم کے کسی اور ذریعے کی تلاش بالکل بے معنی ہو جائے گی اور ایسے کسی شخص سے بحث کرنا کم از کم میرے لئے تو بے معنی ہوگا۔
 

محمد امین

لائبریرین
شق القمر معجزہ تھا اور معجزہ کہتے ہیں اسے ہیں کہ جو عقل کو عاجز کر دے۔۔ اگر اللہ کے حکم سے حضورِ پاک کے اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو واپس مل کر ویسا ہی ہوگیا ہوگا۔۔۔ احادیث میں تو ایسا بھی ملتا ہے کہ کچھ درخت اپنی جگہ سے چل کر حضور کے پاس آجاتے تھے۔۔۔سائنس تو اس کو ثابت کرنے سے ہی قاصر ہے اور نہ ہی اس چیز کی توجیہہ سائنس میں ڈھونڈی جانی چاہیے۔۔۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنس دراصل مذہب کی گتھیاں سلجھانے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے لیے آسانیاں اور آسائشیں پیدا کرنے کے لیے (اور جنگوں کے لیے بھی) دوام پذیر ہے۔ اگر اس کے علاوہ سائنس کا کوئی مقصد ہوتا تو سائنس کی یہ موجودہ شکل نہ ہوتی۔ سائنس کی بنیاد پر احادیث اور قرآنی آیات کو ثابت کرنا ایک المیہ ہے۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
سائنس بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس نے انسان کے لیے جہاں اتنی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں اس کی بدولت تباہیاں بھی بہت ہوئی ہیں۔

جہاں تک اس کا عمل دخل مذہب میں ہے، تو مذہب کو چھوڑیں یہ آج تک روح کو نہیں سمجھ سکی جو ہر جاندار میں ہے۔
 
میرے خیال میں بھی کسی معجزے کو سائنس سے ثابت کرنا ایک سعی لا حاصل ہے۔ بھائی لوگ ایسی بڑی کوششیں کرتے ہیں لیکن آخر میں ناکام رہتے ہیں۔

معجزہ (اسمِ فاعل مؤنث) عاجز کر دینے والی۔
معجزہ ہے ہی وہ مظہر جہاں عقل (سائنس) عاجز ہو جائے۔ سائنس اشیاء کے مطالعے کا نام ہے، اس میں ریاضی ہو، طبعیات ہو، کیمیا ہو، کچھ بھی ہو۔ مقصدِ حیات کا تعین اور انسان کی ہدایت و نجات کا سامان کرنا سائنس کا کام ہے ہی نہیں، یہ تو شریعت کا کام ہے۔
اللہ کریم سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 

رانا

محفلین
ایک بات کا شعور ہم سب کو ہونا چاہئے کہ اختلاف رائے ایک ناگزیر امر ہے جس سے کسی بھی جگہ مفر نہیں۔ ہمیں اپنے اندر اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے۔ میرے مراسلے پر zeesh بھائی نے اختلاف کیا لیکن سائنسی دلیل کے ساتھ۔ اب میرے پاس اگر ان کی بات کو رد کرنے کے لئے فی الحال کوئی سائنسی دلیل نہیں تو اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اب بحث برائے بحث شروع کردوں اور غصہ نکالنا شروع کردوں کہ کیوں انہوں نے اختلاف کی جرات کی۔ اگر ایک دوسرے کی بات کو تحمل سے سننے کی روش اپنالیں تو غور و فکر کے کئی نئے دریچے کھلیں گے اور آپ اپنا علم بڑھانے پر مجبور ہوں گے جو ایک فائدہ مند بات ہے۔

- دوسری بات یہ کہ سرپھرا صاحب کی بات سے لگا کہ جیسے وہ ڈارون تھیوری کو بندر تھیوری سمجھ رہے ہیں۔ شائد کچھ دوسرے دوستوں کا بھی یہی خیال ہو اس لئے وضاحت کردوں کہ یہ خیال غلط ہے۔ اصل میں ڈارون نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ:
۔ انسان کے متعلق جو خیال کیا جاتا ہے کہ خدا نے اسے اچانک بنا دیا یہ غلط ہے۔ بلکہ انسانی ارتقائی قانون کے تحت کروڑوں سالوں میں جاکر تیار ہوا ہے۔ اسے نظریہ ارتقا بھی کہتے ہیں اور ڈارون تھیوری کا جب ذکر آتا ہے تو اس سے عموما یہی نظریہ ارتقا مراد ہوتا ہے جو کہ بالکل درست ہے اور قران بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ مجھے علم ہے کہ یہاں تقریبا ایک آدھ کو چھوڑ کر سب کو اس بات سے اختلاف ہوگا کہ یہ قران کے مطابق کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن میں نے کہا نا کہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ آپ اسے غلط سمجھتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ اختلاف رائے آپ کا حق ہے لیکن تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے آپ جتنی مرضی اس پر تنقید کریں لیکن اس دھاگے میں نہیں کہ اسے موضوع پر ہی رہنے دیں۔ یہاں صرف اس تھیوری کے حوالے سے جو غلط فہمی پیدا ہورہی تھی وہ دور کرنا مقصد تھا۔
۔ دوسری بات ڈارون نے یہ پیش کی تھی کہ انسان جو اس موجودہ حالت کو پہنچا ہے تو اس نے ایک قسم کے بندر سے ترقی کی ہے۔ کہ مختلف جانور ترقی کرتے کرتے پہلی سے بہتر شکل میں ترقی کرتے گئے اور پھر ایک خاص قسم کے بندر میں سے موجودہ انسان اور بندر پیدا ہوئے۔ اس کے نظریئے کا یہ حصہ بالکل غلط ہے۔ قران سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے مطابق ہی بنا ہے لیکن انسان نے شروع ہی سے بحیثیت انسان ہی ترقی کی ہے۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ پہلے بندر تھے اور پھر اس سے انسان بنے۔ جنہوں نے اس نظرئیے کو پڑھا نہیں بلکہ صرف سنا ہے ان میں سے اکثر اس کے نظرئیے کے ارتقائی حصے سے لاعلمی کے سبب اس کے دوسرے حصے کی بنیاد پر اسے بندر تھیوری تک ہی محدود سمجھتے ہیںِ۔
 
اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ سب کچھ تو قرآن و حدیث میں ہے اور مجھے معلوم ہو گیا تو اس کے لئے تو ظاہری بات ہے سائنس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔
۔
یہ بات کس نے سمجھی کہ سب کچھ (سائنس)قرآن و حدیث میں ہے ؟؟
قرآن و حدیث سائنسی کتاب نہیں ، یہ ہدایت کے لیے ہے ، ہاں ہدایت کے لیے اسی میں سب کچھ ہے
قرآن و حدیث میں ایسے حوالے ، اشارے و واقعات ضرور ہے جسکو سائنسی علم کہہ سکتے ہیں ، لیکن پوری کی پوری کتاب سائنس نہیں بلکہ سائنس تو چھوڑے ، بہت سی ایسی باتیں بھی ہیں جو قرآن و حدیث میں نہیں ہے بلکہ وہ "فقہ" میں ملینگی لیکن وہ بھی قرآن و سنت کی ہی روشنی میں اس سے متصادم یا اس سے ہٹ کر کوئی چیز نہیں ۔۔۔

جب علم حاصل کرنے کی جستجو ہی نہیں رہے گی تو علم کے کسی اور ذریعے کی تلاش بالکل بے معنی ہو جائے گی اور ایسے کسی شخص سے بحث کرنا کم از کم میرے لئے تو بے معنی ہوگا۔
کسی نے ایسا بولا کہ علم حاصل کرنے کی جستجو نہیں کرنی چاہیئے ؟؟؟
بولا ؟؟؟
علم صرف سائنس کا نام ہی نہیں اور بھی بہت سی چیزیں جس پر غور و فکر کرنی چاہئے بلکہ قرآن تو دعوت دیتا ہے غور وفکر کی ۔
مفید علم حاصل کرنا چاہیئے جہاں تک ہوسکے ۔۔۔تاہم ایسا علم جو قرآن و حدیث سے ٹکراتا ہو ، وہی کالا علم ہے اس سے گریز کرنا چاہیئے ۔۔
 
شق القمر معجزہ تھا اور معجزہ کہتے ہیں اسے ہیں کہ جو عقل کو عاجز کر دے۔۔ اگر اللہ کے حکم سے حضورِ پاک کے اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا تھا تو واپس مل کر ویسا ہی ہوگیا ہوگا۔۔۔ احادیث میں تو ایسا بھی ملتا ہے کہ کچھ درخت اپنی جگہ سے چل کر حضور کے پاس آجاتے تھے۔۔۔ سائنس تو اس کو ثابت کرنے سے ہی قاصر ہے اور نہ ہی اس چیز کی توجیہہ سائنس میں ڈھونڈی جانی چاہیے۔۔۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنس دراصل مذہب کی گتھیاں سلجھانے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے لیے آسانیاں اور آسائشیں پیدا کرنے کے لیے (اور جنگوں کے لیے بھی) دوام پذیر ہے۔ اگر اس کے علاوہ سائنس کا کوئی مقصد ہوتا تو سائنس کی یہ موجودہ شکل نہ ہوتی۔ سائنس کی بنیاد پر احادیث اور قرآنی آیات کو ثابت کرنا ایک المیہ ہے۔۔۔
متفق سو فیصد ۔۔
 
سائنس بھی اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس نے انسان کے لیے جہاں اتنی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں اس کی بدولت تباہیاں بھی بہت ہوئی ہیں۔

جہاں تک اس کا عمل دخل مذہب میں ہے، تو مذہب کو چھوڑیں یہ آج تک روح کو نہیں سمجھ سکی جو ہر جاندار میں ہے۔
بالکل بجا فرمایا ، متفق ۔۔
دوسروں کی روح تو دور کی بات ، خود اپنی روح کو سمجھ نہیں سکتے ،
 

سید ذیشان

محفلین
محترم یعقوب آسی صاحب نے جو کچھ کہا ہے میں اس سے سو فیصد متفق ہوں

سو فیصد کیسے متفق ہو سکتے ہیں؟ جب کہ آسی صاحب کے مطابق "معجزہ ہے ہی وہ مظہر جہاں عقل (سائنس) عاجز ہو جائے۔" لیکن آپ نے اوپر جو آرٹیکل پیسٹ کیا ہے، اس میں تو سائنس سے ایک معجزہ ثابت کرنے کی (ناکام) کوشش کی گئی ہے؟
 
۔۔۔۔

۔ انسان کے متعلق جو خیال کیا جاتا ہے کہ خدا نے اسے اچانک بنا دیا یہ غلط ہے۔ بلکہ انسانی ارتقائی قانون کے تحت کروڑوں سالوں میں جاکر تیار ہوا ہے۔ اسے نظریہ ارتقا بھی کہتے ہیں اور ڈارون تھیوری کا جب ذکر آتا ہے تو اس سے عموما یہی نظریہ ارتقا مراد ہوتا ہے جو کہ بالکل درست ہے اور قران بھی اس کی تائید کرتا ہے۔

آپ کی تمام باتوں سے اتفاق ہے
لیکن اس حصے پر میں آپ سے وضاحت طلب کرونگا بحثیت طالب علم کہ کیونکر قرآن نظریہ ارتقاء کی تائد کرتا ہے ۔
اگر یہ ارتقائی نظریہ یہ ہے کہ انسان کی بناوٹ میں پانی اور مٹی کی آمزیش ہے ، پھر انسان کو جمے ہوئے لوتھڑے سے بنایا گیا
اور گوشت پوست چھڑھایا گیا شکل و صورت دی گئی تو یہ سب تو درست ہے
لیکن اگر اسکے علاوہ بھی کوئی ارتقائی مراحل ہیں جن میں کروڑوں سال لگے ، یہ وضاحت طلب ہیں اور یہ کیسے معلوم کہ انسانی ارتقائی کو کروڑوں سال لگے ، کیا کوئی مستند حوالہ مل سکتا ہے قرآن و حدیث سے

نوٹ : اگر مناسب سمجھے تو اس موضوع پر دوسری جگہ تھریڈ اوپن کرکے پوسٹ کیا جائے ۔۔۔عین نوازش ہوگی
کیونکہ میرا مقصد بحث نہیں یہ جاننے کا شوق ہے جو آپ نے بات کہیں
 

شمشاد

لائبریرین
حیرت ہے رانا صاحب نے یہ کیسے کہہ دیا۔

قرآن کی سورۃ التین میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ﴿٤
ترجمہ : یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔

اور سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے، تو ارتقائی کب شروع ہوا اور کب ختم ہوا؟
 
سو فیصد کیسے متفق ہو سکتے ہیں؟ جب کہ آسی صاحب کے مطابق "معجزہ ہے ہی وہ مظہر جہاں عقل (سائنس) عاجز ہو جائے۔" لیکن آپ نے اوپر جو آرٹیکل پیسٹ کیا ہے، اس میں تو سائنس سے ایک معجزہ ثابت کرنے کی (ناکام) کوشش کی گئی ہے؟
میں نے یہ آرٹیکل اس نقطہ ِ نظر سے پیش کیا تھا کہ میں اس بارے میں محفلین کے خیالات جاننا چاہتا تھا آپ کو میں اس لئے پسند کرتا ہوں کہ آپ اگر اختلاف بھی کریں تو شائستگی سے کرتے ہیں سائنس کی کے نظریات انسان ہی قائم کرتا ہے اور خود ہی رد کرتا ہے۔ واقعہ شق القمر ایک معجزہ ہے اور اس پر یقین کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
اور اس کی تصدیق سے لئے ہمیں کسی سائنس کی ضرورت نہیں
 

رانا

محفلین
اس حصے پر میں آپ سے وضاحت طلب کرونگا بحثیت طالب علم کہ کیونکر قرآن نظریہ ارتقاء کی تائد کرتا ہے ۔
اگر یہ ارتقائی نظریہ یہ ہے کہ انسان کی بناوٹ میں پانی اور مٹی کی آمزیش ہے ، پھر انسان کو جمے ہوئے لوتھڑے سے بنایا گیا اور گوشت پوست چھڑھایا گیا شکل و صورت دی گئی تو یہ سب تو درست ہے
لیکن اگر اسکے علاوہ بھی کوئی ارتقائی مراحل ہیں جن میں کروڑوں سال لگے ، یہ وضاحت طلب ہیں اور یہ کیسے معلوم کہ انسانی ارتقائی کو کروڑوں سال لگے ، کیا کوئی مستند حوالہ مل سکتا ہے قرآن و حدیث سے
نوٹ : اگر مناسب سمجھے تو اس موضوع پر دوسری جگہ تھریڈ اوپن کرکے پوسٹ کیا جائے ۔۔۔ عین نوازش ہوگی
کیونکہ میرا مقصد بحث نہیں یہ جاننے کا شوق ہے جو آپ نے بات کہیں

اگر تو مقصد صرف معلومات ہی ہے جیسا کہ آپ نے کہا ہے تو پھر الگ دھاگہ کھولنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں تو یہ بیچارہ اتنا معصوم سا دھاگہ تھا لیکن یہ بھی ابھی مقتل کے کنارے سے واپس آیا ہے۔
الگ دھاگہ کھولنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ مجھے تمام متفرق معلومات کو ایک جگہ کرکے ان کی تلخیص کرنے پڑے گی جس کے لئے وقت بھی چاہئے اور احتیاط بھی کہ طوالت سے بھی بچنا ہے اور اختصار میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ کوئی ضروری بات رہ نہ جائے اور بعض جگہ اختصار سے اصل مطلب اوجھل رہ جاتا ہے۔

بہرحال آسان طریق یہ ہے کہ میں آپ کو براہ راست بعض ضروری کتابوں کے لنک دے دیتا ہوں جن میں اس بات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ زیادہ بہتر رہے گا کہ میں بھی اتنی ٹائپنگ سے بچ جاؤں گا اور آپ کا مقصد جو معلومات محض کی خواہش ہے وہ بھی حاصل ہوجائے گا۔ اور آپ کی یہ الجھن دور ہوجائے گی کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آدم کو پہلا انسان نہیں مانتے اور ارتقا کو مانتے ہیں اور بنیاد بھی قرآن پر ہے جو ظاہر ہے کہ آپ یا دوسرے تقریبا تمام دوستوں سے بہت مختلف رائے ہے۔

یہاں سے سیر روحانی نام کی کتاب پی ڈی ایف ڈاون لوڈ کرلیں۔ پوری پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ تقاریر کا مجموعہ ہے۔ اس کے صفحہ 11 سے صفحہ 55 تک پڑھ لیں۔ ان صفحات میں درج زیل امور کے دلائل قرانی آیات سے پیش کئے گئے ہیں:
- حضرت آدم پہلے انسان نہیں تھے بلکہ پہلے نبی تھے۔ اور ان سے پہلے انسان موجود تھے۔
۔ انسان یکدم پیدا نہیں کیا گیا بلکہ آہستہ آہستہ ارتقائی ادوار سے گزر کر موجودہ حالت کو پہنچا ہے۔
۔ تخلیق انسانی کے بعض بنیادی ادوار کا ذکر قرآن کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
اس بات کا خیال رہے کہ یہ دراصل تقریر ہے۔ اور تقریر کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو اس میں ایک حد تک ہی تفصیل بیان کی جاسکتی ہے لیکن پھر بھی اتنی ہے کہ اوپر کی باتوں کی اچھی خاصی وضاحت ہوجائے گی۔

اس کے بعد یہاں سے الہام، عقل، علم اور سچائی نام کی کتاب کا صرف باب پنجم ڈاون لوڈ کرلیں۔ اس کتاب کے اس باب میں تخلیق انسانی سے متعلق زیادہ جدید تحقیقات کا ذکر قرآن کے حوالے سے کیا گیا ہے اور تخلیق انسانی کے کروڑوں سال کے سفر کے بعض ایسے ادوار کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے جن پر قرآن کی بہت سی آیات وضاحت سے روشنی ڈال رہی ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر آپ نے اس مراسلے میں بھی کیا ہے۔ لیکن اگر مقصد معلومات حاصل کرنا ہے تو جس ترتیب سے میں نے لنکس دئیے ہیں اسی ترتیب سے پڑھیے گا کہ پہلے اوپر والی کتاب کے صفحہ 11 سے 55 تک کے صفحات اور اسکے بعد اگر مزید ثبوتوں کے بارے میں جاننے کی خواہش ہو تو پھر اس کتاب کا یہ باب مطالعہ کیجئے گا۔

بہرحال مجھے امید ہے کہ اختلاف تو آپ کو ضرور ہوگا لیکن جیسا کہ آپ نے کہا کہ صرف معلومات کی غرض سے آپ جاننا چاہ رہے ہیں تو آپ کی یہ تشنگی دور ہوجائے گی۔
نوٹ: ایک بات کا خیال رہے کہ آیت نمبر کا حوالہ اگر چیک کرنا چاہیں تو ہمارے ہاں کیونکہ آیت نمبر بسم اللہ سے شمار ہوتا ہے اسلئے آپ دئیے گئے آیت نمبر سے ایک نمبر پہلے کی آیت دیکھئے گا۔
 
فتوحات مکیہ کے شروع میں شیخِ اکبر محی الدین ابن العربی نے اپنا ایک مشاہدہ تحریر کیا ہے کہ حرمِ مکی میں طواف کے دوران انکی ملاقات کچھ ایسے انسانوں سے ہوئی جو عالمِ مثال میں طواف کررہے تھے اور ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ آدم علیہ السلام سے لاکھوں برس قبل کے لوگ ہیں۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
 

شمشاد

لائبریرین
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی تھے۔
کوئی بھی تقریر کرتا رہے، کوئی بھی کتاب لکھتا رہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
 

شمشاد

لائبریرین
حیرت ہے لوگ قرآن نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے بھی ہیں تو کیوں ایسی بات کرتے ہیں جو اس سے ٹکراتی ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
میرے خیال میں ڈارون کی تھیوری پر ایک نیا دھاگہ کھولنا چاہیے۔ وہاں اس پر بہتر انداز میں بحث ہو سکے گی۔
 

محمد امین

لائبریرین
اگر تو مقصد صرف معلومات ہی ہے جیسا کہ آپ نے کہا ہے تو پھر الگ دھاگہ کھولنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں تو یہ بیچارہ اتنا معصوم سا دھاگہ تھا لیکن یہ بھی ابھی مقتل کے کنارے سے واپس آیا ہے۔
الگ دھاگہ کھولنے میں ایک قباحت یہ ہے کہ مجھے تمام متفرق معلومات کو ایک جگہ کرکے ان کی تلخیص کرنے پڑے گی جس کے لئے وقت بھی چاہئے اور احتیاط بھی کہ طوالت سے بھی بچنا ہے اور اختصار میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ کوئی ضروری بات رہ نہ جائے اور بعض جگہ اختصار سے اصل مطلب اوجھل رہ جاتا ہے۔

بہرحال آسان طریق یہ ہے کہ میں آپ کو براہ راست بعض ضروری کتابوں کے لنک دے دیتا ہوں جن میں اس بات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ زیادہ بہتر رہے گا کہ میں بھی اتنی ٹائپنگ سے بچ جاؤں گا اور آپ کا مقصد جو معلومات محض کی خواہش ہے وہ بھی حاصل ہوجائے گا۔ اور آپ کی یہ الجھن دور ہوجائے گی کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آدم کو پہلا انسان نہیں مانتے اور ارتقا کو مانتے ہیں اور بنیاد بھی قرآن پر ہے جو ظاہر ہے کہ آپ یا دوسرے تقریبا تمام دوستوں سے بہت مختلف رائے ہے۔

یہاں سے سیر روحانی نام کی کتاب پی ڈی ایف ڈاون لوڈ کرلیں۔ پوری پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ یہ تقاریر کا مجموعہ ہے۔ اس کے صفحہ 11 سے صفحہ 55 تک پڑھ لیں۔ ان صفحات میں درج زیل امور کے دلائل قرانی آیات سے پیش کئے گئے ہیں:
- حضرت آدم پہلے انسان نہیں تھے بلکہ پہلے نبی تھے۔ اور ان سے پہلے انسان موجود تھے۔
۔ انسان یکدم پیدا نہیں کیا گیا بلکہ آہستہ آہستہ ارتقائی ادوار سے گزر کر موجودہ حالت کو پہنچا ہے۔
۔ تخلیق انسانی کے بعض بنیادی ادوار کا ذکر قرآن کی روشنی میں کیا گیا ہے۔
اس بات کا خیال رہے کہ یہ دراصل تقریر ہے۔ اور تقریر کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو اس میں ایک حد تک ہی تفصیل بیان کی جاسکتی ہے لیکن پھر بھی اتنی ہے کہ اوپر کی باتوں کی اچھی خاصی وضاحت ہوجائے گی۔

اس کے بعد یہاں سے الہام، عقل، علم اور سچائی نام کی کتاب کا صرف باب پنجم ڈاون لوڈ کرلیں۔ اس کتاب کے اس باب میں تخلیق انسانی سے متعلق زیادہ جدید تحقیقات کا ذکر قرآن کے حوالے سے کیا گیا ہے اور تخلیق انسانی کے کروڑوں سال کے سفر کے بعض ایسے ادوار کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے جن پر قرآن کی بہت سی آیات وضاحت سے روشنی ڈال رہی ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر آپ نے اس مراسلے میں بھی کیا ہے۔ لیکن اگر مقصد معلومات حاصل کرنا ہے تو جس ترتیب سے میں نے لنکس دئیے ہیں اسی ترتیب سے پڑھیے گا کہ پہلے اوپر والی کتاب کے صفحہ 11 سے 55 تک کے صفحات اور اسکے بعد اگر مزید ثبوتوں کے بارے میں جاننے کی خواہش ہو تو پھر اس کتاب کا یہ باب مطالعہ کیجئے گا۔

بہرحال مجھے امید ہے کہ اختلاف تو آپ کو ضرور ہوگا لیکن جیسا کہ آپ نے کہا کہ صرف معلومات کی غرض سے آپ جاننا چاہ رہے ہیں تو آپ کی یہ تشنگی دور ہوجائے گی۔
نوٹ: ایک بات کا خیال رہے کہ آیت نمبر کا حوالہ اگر چیک کرنا چاہیں تو ہمارے ہاں کیونکہ آیت نمبر بسم اللہ سے شمار ہوتا ہے اسلئے آپ دئیے گئے آیت نمبر سے ایک نمبر پہلے کی آیت دیکھئے گا۔

اول تو یہ وضاحت دیگر اراکین کے لیے کردینا ضروری ہے کہ رانا صاحب کے دیے ہوئے روابط کسی اسلامی ویب سائٹ کے نہیں ہیں گو کہ اس ویب سائٹ کا نام اسلام کے نام پر ہی ہے۔۔۔ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔۔۔۔
 
جس نے اپنے نبی ﷺ کے اشارے پر چاند کے دو ٹکڑے کیے وہ اس کو دوبارہ پہلے جیسا کرنے پر بھی قادر تھا۔ اگر کسی کو نبی ﷺ کے منہ سے سننے کے بعد بھی شق القمر کے لیے سائنس کی تصدیق درکار ہے تو وہ اپنے ایمان کا جائزہ لے۔ نہ اسلام سائنس ہے اور نہ سائنس اسلام ہے۔ اسلام کو سائنس سے "اپروو" کروانے کی بچگانہ کوششیں کرنے والے اسلام کے لیے ہنسی ٹھٹھے کا سبب ہی بنے ہیں۔ براہِ کرم اپنی سائنس اسلام پر جھاڑنے کی بجائے سائنس میں جھاڑیں۔
سبحان اللہ۔۔۔ اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے۔۔۔ آمین۔۔۔ ثم آمین۔۔۔

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
وصلی اﷲ علیٰ نورٍ کزوشد نورہا پیدا زمیں اَز حُب ِ اُ ساکن فلک در عشق ِ اُ و شیدا
(درود اُ س نور پہ جس سے ‘ ہوئے سب نور ہیں پیدا زمیں ساکن ہوئی حُب میں‘ ہواہے آسماں شیدا)
محمد ، احمد و محمود (صلی اللہ علیہ وسلم)وَے را خالقش بِسطور کزوُ شد بُود ہر موجود ، از و شد دیدہ ہا بینا
(محمد ، احمد و محمود (صلی اللہ علیہ وسلم) انھیں خالق نے فرمایا کہ جن سے ہر کوئی موجود ، ہوا ہے دیدہ¿ بینا)
اگر نام محمد (
صلی اللہ علیہ وسلم
) را نیاوُردِ شفیع آدم(علیہ السلام) نہ آدم یافت توبہ ، نہ نوح (علیہ السلام) از غرق نجینا
(اگر آدم(علیہ السلام) شفاعت کو محمد (
صلی اللہ علیہ وسلم
)نام نہ لیتے قبول ہوتی نہ یوں توبہ ، نہ نوح(علیہ السلام)پاتے نجات آخر)
دو چشم ِ نرگسینش را کہ مازاغ البصر خانن دو زلف ِ عنبرینش را کہ واللیل ِ اذا یغشیٰ
(وہ اُن کی نرگسی آنکھیں کہ مازاغ البصر خانن وہ اُ ن کی عنبریں زلفیں کہ واللیل ِ اذا یغشیٰ)
زِ سِرّ سینہ اش جامی الم نشرح لک َ بَرخیٰ زِ معراجش چہ می پُرسی کہ سبحان الذی اسریٰ
(ہے اُن کے سینے سے جامی الم نشرح لک برخیٰ جومعراجِ نبی (
صلی اللہ علیہ وسلم
) پوچھے تو سبحان الذی اسریٰ)
 
Top