بہرحال بات یہاں پر ختم کردی گئی کہ سائنسدانوں کی باتیں سائنسدان ہی جانیں۔۔۔ عوام الناس کیلئے انکو سمجھنا ٹیڑھی کھیر ہے۔۔
۔ یعنی پہلے ہم فزکس میں پی ایچ ڈی کریں۔۔اور اسکے بعد Godel's incompleteness theorem کے پتھر کو چوم کر واپس لوٹ آئیں
۔۔۔ اور اگر کوئی ہم سے سوال کر بیٹھے کہ کیوں بھئی، سناؤ کسی بات کا پتہ چلا کہ نہیں کوئی سراغ ہاتھ آیا۔ تو ہم صوفیاء کی طرح یہ کہہ کر بات ختم کردیں کہ جس نے چکھا نہیں ، وہ اسے نہیں جان سکتا اور جب تک راہِ سلوک کی منزلوں کو طے نہیں کروگے، حقیقت تک نہیں پہنچ پاؤ گے اور یہ کہ :
بھیکا بات اگھم کی، کہن سنن کی ناہیں
جو جانے وہ کہے نہیں جو کہے سو جانے ناہیں
یعنی بقول غالب۔۔۔
واعظ نہ تم پیو، نہ کسی کو پلا سکو۔۔۔
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی