قزاقی کا طوق

محمد بلال اعظم

لائبریرین
(یہ مضمون ایک سائٹ پہ پڑھا تھا، اب اس کی حقیقت کیا ہے)
لنک
تحریر
منصور آفاق
فیض نے ایک اور دلچسپ کھیل یہ دکھایا ہے کہ وہ بڑے مزے سے اور بڑے وقار و دبدبے سے دوسرے شعراءکے مصرعے بلکہ بعض اوقات دو دو شعر اپنی نظم میں ڈال لیتے ہیں اور واوین تک نہیں لگاتے جن سے پتہ چلے کہ یہ کسی دوسرے شاعر کا مصرع یا شعر ہے جسے شاعر نے اپنے عجزو کوتاہی ءبیان کے باعث جوں کا توں برت لیا ہے کہ وہ اپنا مافی الضمیراس خوبصورت انداز میں بیان نہیں کر سکتا تھا ۔ جیسے دوسرے شاعر نے کر دیا ہے ” واوین “ نہ لگانا یہ دعوٰی کرنا ہے کہ یہ شعرا سکے اپنے ہیں یہ سرقہ نہیں ڈاکہ ہے ایسے نظائر بکثرت ان کے کلام میں مل جاتے ہیں۔میں قزاقی کا طوق فیض کے گلے میں ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہا صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ اگر ایسا کام فیض کے علاوہ کوئی کرتا تو اس کے خلاف تھانے میں باقاعدہ مقدمہ درج کرایا جاسکتاتھا مثال کے طور پرانہوں نے اپنی نظم ”ہم تو مجبورِ وفا ہیں“میں مرزامحمد رفیع سوداکے دو اشعارشامل کئے ہیں بغیر واوین کے۔اور ایک دنیا یہی سمجھتی ہے کہ یہ اشعار فیض ہیں ۔
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
جو مجھ پہ گزری مت اسکو کہو ہوا
سو ہوا مبادا ہو کوئی ظالم ترا گر یباں گیر
لہو کے داغ تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا
فیض نے ایک غزل سودا کی زمیں میں کہی اس پر اتنا کرم کیا کہ اس کے اوپر لکھ دیا ”نذر سودا“ لیکن اس میں ایک مصرعہ جو سوداسے لیا اس پر واوین ڈالنا بھول گئے ،سودا کا مصرعہ ہے ”ذکرِمرغان گرفتار کروں یا نہ کروں “۔۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دستِ صبا کے پہلے ایڈیشن میں اس مصرعے پر واوین موجود تھیں جو بعد میں ہٹا دی گئیں” دل من مسافرمن“ فیض کی آخری ادوار کی نظموں میں سے ایک ہے اس نظم میں کل انیس مصرعے ہیں جن میں سے نو مصر عے فیض کے اپنے ہیں اور باقی دس مصرعے سرقہ/توارد کے زمرے میں آتے ہیں۔ نظم دیکھئے ۔ ان کے اپنے مصرعے یہ ہیں ۔
مرے دل مرے مسافر۔۔
ہوا پھر سے حکم صادر۔۔۔
کہ وطن بد رہوں ہم تم ۔۔۔
دیں گلی گلی صدائیں ۔۔
کریں رخ نگر نگر کا ۔۔
کہ سراغ کوئی پائیں ۔۔
کسی یا ر نامہ برکا ۔۔
ہر اک اجنبی سے پوچھیں ۔۔
جو پتہ تھا پنے گھر کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے بعد اگلے چار مصرعے وہ مصحفی کی غزل سے اڑا لیتے ہیں ۔ مصحفی کی غزل کے مطلع کو توڑکر یہ چار مصرعے لکھ دیئے گئے ۔ ان میں ایک لفظ بھی فیض کا اپنا نہیں ۔
سر کوئے نا شنا ساں ۔۔ہمیں دن سے رات کرنا ۔۔۔
کبھی اس سے بات کرنا ۔۔۔کبھی اس سے بات کرنا ۔۔
اس کے بعد اگلے مصرعے غالب سے چھین لیئے گئے ہیں ۔ ۔۔
” تمہیں کہا کہوں کہ کیا ہے ۔۔۔غالب کا مصرع تھا ( کہوں کس سے میں کہ کیا ہے)۔۔
شبِ غم بری بلا ہے ۔۔
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت ۔۔جوکوئی شمار ہوتا ۔۔
ہمیں کیا برا تھا مرنا ۔۔اگر ایک بار ہوتا ۔۔۔۔۔۔
فیض کی کتاب ” شہریا راں “ میں ایک نظم ہے ” سجاد ظہیر کے نام “فیض نے اس میں اپنے مصرعوں سے مربوط کرکے ایک فارسی شعر لکھتے ہیں ۔
بنا م ِ شاہد ناز ک خیالاں ۔۔۔۔بیا د ِ مستی چشمِ غزالاں
اس شعر کو اتنی چابکدستی سے اپنے اشعار میں ڈیزالوDesolve کرلیا گیا ہے کہ ہر قاری سمجھتا ہے کہ یہ شعر بھی فیض کا ہے لیکن یہ شعر فارسی کے بہت بڑے شاعر غینمت کنجا ہی کا ہے ۔ غالب اور مصحفی سے شعر لیتے ہوئے فیض نے کم از کم اتنا کیا تھا کہ دو مصرعوںکو چار مصرعوں میں بدل دیا تھا مگر یہاں یہ بھی نہیں کیا۔یہ ”لوٹ “کا تصور ہماری معاشرت میں بہت گہرائی تک اترا ہواہے صرف اسی سے اندازہ لگائیے کہ کٹی ہوئی تپنگ کوپکڑا نہیں لوٹا جاتا ہے اور اس کی واپسی کا کوئی تصور نہیں 1947میں تقسیم ہندوستان کے وقت اتنا کچھ لوٹا گیا ہے کہ پرانے بزرگ ان دنوں کو یاد کریں تو کہتے ہیں ”لوٹی کے دنوں میں یہ ہوا تھا“میرا خیال ہے یہ کرپشن کی آخری حد ہے ۔سوری! اس وقت صرف ادبی لوٹ مار کی بات کی جارہی تھی ۔ اس صورت حال سے ایک اور بات کھل کر سامنے آتی ہے فیض کوئی صاحب اسلوب شاعر نہیں تھے اگر سودا، مصحفی اور غالب کے اشعار ان کے اشعار ہو سکتے ہیں تو پھر فیض کا اسلوب کہاں ہے یعنی فیض کی شاعری مختلف شاعروں کے اسلوب کا ایک خوبصورت اجتماع ہے کہیں فیض کا رنگ غالب جیسا ہے تو کہیں سودا جیسا ، کہیں وہ مصحفی بن جاتے ہیں تو کہیں اقبال کا اسلوب اپنا لیتے،اقبال کے اسلوب کے حوالے سے فیض کا ایک مصرعہ دیکھئے
”جہان دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں “۔۔
یہ مصرع دیکھ کر فوراً اقبال کا یہ مصرع ذہن میں انگڑ ائیاں لینے لگتا ہے ۔
”غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیر یں نہ تدبیریں “۔۔
یعنی ہر واردات میں فیض کی انگلیوں کے نشانات موجود ہیں صرف عکس اٹھانے کی دیر ہے،اقبال کا ایک اورمصرعہ بھی” نسخہ ہائے وفا “کے الہامات میں موجود ہے ۔شاید فرشتہ ءسروش کو یاد نہیں رہا تھا کہ وہ پہلے یہ مصرعہ اقبال کےلئے بھی غیب سے لا چکا ہے
”خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں “۔۔
فیض نے اس میں اتنی سی ترمیم کی ہے کہ خداوندا کو اٹھا کر آخر میں لگادیا ہے
”یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں خداوندا ۔۔۔شیخ محمد ابراہیم ذوق کا مشہور شعر ہے ۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مرکے بھی چین نہ پایا تو کد ھر جا ئیں گے فیض کہتے ہیں ۔
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں مر جائیں گے
فیض نے بہر حال ذوق کے مصرعے میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں ۔”اب تو “ کی جگہ ”لاکھ “ کا لفظ لگایا ،”ہیں “ اور ”کہ “ کی جگہ ”رہیں “ لگانے کی زحمت فرمائی اتنی کے بعد کیسے ممکن تھا کہ فیض اس کے اردگرد ”واوین “ ڈال دیتے ۔اسی طرح غالب کے ایک مصرعہ میں جہاں ”نشہ“ کا لفظ تھا وہاں ” مے “کا لفظ لگا دیا اور مصرعے کی آخری ”ہے“حذف کردی ،غالب کا مصر ع ہے ”نشہ باندازہئِ خمار نہیں ہے “۔فیض نے اسے کچھ یوںاپنا یا ہے۔۔ مےَ باندازئِ خما رنہیں “۔کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ فیض نے تو صرف غالب سے ”باندازہ خمار “ لیا ہے باقی ”نہیں “ تو ردیف کی وجہ سے آگیا ہے اور ”مے “کا لفظ مصرعے کی ضرورت تھامگر ان ساری باتوں کے باوجود یہ سوال تو اپنی جگہ سلگ رہا ہے کہ اس مصرعے میں فیض کہاں ہے ۔فیض نے غالب کی ایک اور زمین ”وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے تھے“پر ایک غزل کہی ہے، مجھے اس زمین میں غزل کہنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر جب ہم کسی زمین غزل کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اس غزل کی بحر ، قافیہ ،اور ردیف کو اپنے تصرف میں لا رہے ہیں ،یہ نہیں کہ اس کا خیال بھی اٹھا اور مصرعہ کے باقی الفاظ بھی جیسا فیض نے کیا ہے۔کہتے ہیں ۔ کسی گماں پہ تو قع زیادہ رکھتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے مصحفی کی اس زمین میں کچھ لکھا۔۔”ہے ہر کسی سے گرمیء بازار دیکھنا“۔۔تو ایک مصرعہ یوں کہہ دیا ”ہم آگئے تو گرمی ءبازار دیکھنا“۔۔یہ کسی کی زمین میں لکھنا نہیں ہل چلاناہوتا ہے ،بالکل یہی کاروائی فیض نے شیفتہ کے ساتھ بھی ہے شیفتہ نے کہا تھا”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی “۔۔فیض نے فرمادیا”ہے میکدے میں آگ برابر لگی ہوئی“۔۔غالب کا شعر ہے ناکر دہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب یہ اگر کر دہ گناہوں کی سزا ہے ۔ فیض کا مصر ع ہے ۔۔”وہ رنج جو ناکر دہ گناہوں کی سزا ہے ۔ “ساغر صدیقی نے کسی فٹ پاتھ سے آواز لگائی تھی آﺅ اک سجدہ کریں عالم ِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدایاد نہیں فیض فرماتے ہیں آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی ،ہم جنہیں رسم ِ دعا یاد نہیں ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا، کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں غالب کا شعر ہے
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
بلاشبہ یہ خیال عام ہے حافظ شیراز ی نے کہا تھا
واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبرمی کنند
چوں بخلوت می روند ایں کا ردیگر می کنند
مگر غالب کے تیکھے انداز بیان اور تجاہل عارفانہ کی زیر لب تبسم کی ہلکی شوخی نے خیال کو بہت خوبصور ت بنا دیا ، فیض اسے غالب سے ہی لیتے ہیں مگر خیال کو اس طرح بلند نہیں کر سکتے کہتے ہیں ۔ تمہیں کہو رند و محتسب میں ہے آج شب کون فرق ایسا
یہ آکے بیٹھے ہیں میکدے میں وہ اٹھ کے آئے ہیں میکدے سے
فیض نے پہلی کتابوں میں اگر کسی مصرع میں کسی دوسرے شاعر کے کسی مصرع کا کوئی ٹکڑا بھی شامل کیا ہے تو بڑے اہتمام سے واوین لگا کر اسکی نشاندہی کر دی گئی ہے مگر آخر میں آکر قلم بد لگام ہوگیا ہے ۔کچھ واوین فیض کے بعد ان کے چاہنے والوں نے بھی لگائے
پہلی مرتبہ جب ”برابر لگی ہوئی “ والی غزل شائع ہوئی تھی تو اس شعرپر واوین نہیں تھے
لائوتو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر ِ محضر لگی ہوئی
مگر بعدکی شائع شدہ کتابوں میں اس شعر پر واوین موجود ہیں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بعد کی کتابوں میں وزن کی یا زبان و بیان کی غلطیاں بھی اسی لئے آگئیں کہ فیض کو انکی مقبولیت نے اس زعم میں مبتلا کر دیا تھا کہ” مستند ہے میرا فرما یا ہوا “اور دوسروں کے مصرعے یا اشعار لے کر انکی نشاندہی نہ کر نے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے ۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہ تو ہر قاری کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اس مضمون سے یہ بات تو بہرحال ثابت نہیں ہوتی کی فیض نے جان بوجھ کر واوین نہیں لگائے۔ یہ بعید از قیاس ہے کیونکہ فیض جیسے پڑھے لکھے انسان کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ واوین نہ لگانا plagiarism کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اتنے نامی گرامی شاعر اور اتنے پڑھے لکھے آدمی سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اگر میں اور آپ اس طرح کا کام کریں تو سمجھ بھی آتی ہے کہ ہم لوگ اس معیار کی شاعری نہیں کر سکتے جس کی فیض میں صلاحیت تھی اور وہ ان کی تخلیقات سے عیاں ہے۔ ان کو بھلا کیا ضرورت تھی یہ سب کچھ کرنے کی۔
دوسرے شاعروں کے مصرعے اپنی نظموں میں شامل کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ عام طور پر ان مصرعوں کے نئے معانی اور نئے پہلووں کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی ظاہری خرابی نہیں ہے۔
اس بنا پر ان کو ڈاکو کہنا کافی ذیادتی معلوم ہوتی ہے۔
اصل حقیقت تو مزید تحقیق سے ہی سامنے آ سکتی ہے لیکن مین اس تحریر کو من و عن قبول نہیں کر سکتا۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ تو ہر قاری کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اس مضمون سے یہ بات تو بہرحال ثابت نہیں ہوتی کی فیض نے جان بوجھ کر واوین نہیں لگائے۔ یہ بعید از قیاس ہے کیونکہ فیض جیسے پڑھے لکھے انسان کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ واوین نہ لگانا plagiarism کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اتنے نامی گرامی شاعر اور اتنے پڑھے لکھے آدمی سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اگر میں اور آپ اس طرح کا کام کریں تو سمجھ بھی آتی ہے کہ ہم لوگ اس معیار کی شاعری نہیں کر سکتے جس کی فیض میں صلاحیت تھی اور وہ ان کی تخلیقات سے عیاں ہے۔ ان کو بھلا کیا ضرورت تھی یہ سب کچھ کرنے کی۔
دوسرے شاعروں کے مصرعے اپنی نظموں میں شامل کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ عام طور پر ان مصرعوں کے نئے معانی اور نئے پہلووں کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی ظاہری خرابی نہیں ہے۔
اس بنا پر ان کو ڈاکو کہنا کافی ذیادتی معلوم ہوتی ہے۔
اصل حقیقت تو مزید تحقیق سے ہی سامنے آ سکتی ہے لیکن مین اس تحریر کو من و عن قبول نہیں کر سکتا۔

یہی چیز تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے، میں بھی انہی باتوں کی وجہ سے اس تحریر کو درست نہیں مان رہا، اور الجھن کا شکار ہوں۔


اسی طرح کی کچھ اور تحریریں جو اس بلاگ پہ موجود ہیں، وہ بھی پوسٹ کر رہا ہوں، یہ بھی دیکھ لیجیے اور میری رہنمائی کریں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تحریر
منصور آفاق
اکثر شعراءکے ہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ کسی شاعر کا کوئی خیال پسند آیا ہے تو اسے اپنا لیتے ہیں۔ اس میں کوئی ایسی زیادہ قباحت نہیں سمجھی جاتی مگر کوشش یہ کی جاتی ہے کہ یا تو اس خیال کو بلند تر کیا جائے ۔ یا اسے اسطرح ادا کیا جائے کہ شعر ایک طرح سے طبعز اد معلوم ہو مطلب یہ کہ الفاظ کے در و بست میں بہت زیادہ حسن وجمال آجائے۔ مثال کے طور پر شاعر وں نے اپنی نازک خیالی سے سوچاکہ عام سے بیج سے خوبصورت اور متنوع پھول کس طرح پیدا ہوجاتے ہیں نظیر اکبر آبادی نے کہا
یہ غنچہ جو بے درد گل چیں نے توڑا
خدا جانے کس کا یہ نقش دہن تھا
غالب نے بھی یہی خیال لیا ہے مگر حسن و شوکتِ الفاظ کے ساتھ خیال کو تر فع اور وسعت عطا کی اور اسے اپنا نادر خیال بنا دیا ۔ غالب کہتا ہے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
بہرحال خیال کا توار د کہیں یا حسن تقلید و تر فعِ فکر یہ چیز شعراءکے ہا ں پائی جاتی ہے ۔ بڑے شعراءکے یہاں کم اور عام شعراءکے ہاں زیادہ مگر ان شرائط کے ساتھ جو بیان کی گئی ہیں اگر وہ شرائط نہ ہوں اور دوسرے کا خیال اپنا نے والاشاعر اسے اس طرح بیان کرے کہ نیا شعر پہلے شعر سے کمتر ہوجائے تو اسے صاف صاف سر قہ کہا جاتا ہے فیض اس طرح تو سرقے کی سولی نہیں لٹک رہے جس طرح کاآج کے نوجوان شاعروں سے وطیرہ اپنا رکھا ہے مگر فیض کے ہاں غزلیات میں بالخصوص یہ چیزآگئی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ وہ خیال کو بلند نہیں کر سکے ہیں ایک مثال دیکھئیے میر تقی میرکہتے ہیں۔
ایسے ہم اسکی بزم سے اٹھے ۔
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
فیض کہتے ہیں ۔
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر ۔۔۔۔
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
حکیم مومن خان کا شعر ہے ۔
تم ہمارے کسی طرح نہ ہو ئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
فیض کہتے ہیں ۔
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
دوسرا مصرع پورے کا پورا لے لیا گیا ہے صرف ایک لفظ ہوتا ہٹا کر ”باقی “ لگا دیا گیا ہے پہلے مصرع میں ایک تو مو من کے وسیع خیال کو محدود کر دیا گیا دوسرے ” دید چھن گئی “ روز مرہ کے خلاف اور انتہائی کمزور مصرع ہے ۔یہ کہا جا چکا ہے کہ دوسرے کا خیال اپنا لینا شاعری کا معمول ضرور ہے لیکن بعد میں آنے والا شاعر کو شش کر تا ہے کہ خیال کو رفیع تر کرے یا الفاظ اور انداز بیان میں ندرت اور نیا پن لائے اسکی ایک آدھ مثال فیض کے ہاں بھی مل جاتی ہے غالب کا شعر ہے ۔
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک میں اور گر یبان کے چاک میں
شاید عہد غالب میں دلی کے معاشرتی لباس وہ قمیض پہنی جا تی ہے جو عربی پہنتے ہیں اور ٹخنوں تک لمبی ہوتی ہے ۔ اس وقت کی حالت میں آدمی دوڑ تا ہوگا ﺅ
اور پائوں سے ملے ہوئے دامن پھٹ جاتے ہونگے دامن سے گر یبان تک بڑا فاصلہ ہو تا ہوگا اس لئے غالب نے اسے انتہائے جنوںکہ دامن کے چاک اور گر بیان کے چاک کا درمیانی فاصلہ مٹا دیا جائے لیکن فیض کے دور میں لمبائی میں بہت چھوٹی (آج کے مقابلہ میں بھی بہت چھوٹی ) قمیضیں پہنی جاتی تھیں۔ ان میں تو دامن اور گر بیان کے درمیان بمشکل ایک بالشت کا فاصلہ ہوتا تھا اور دامن ذرا چاک کیا جاتا تو گر بیان سے مل جاتا تھا یہ چیز فیض نے سوچی ہوگی وہ اپنی بات اگر اسی طرح کر دیتے جیسے غالب نے کی تھی تو شعر مضحکہ بن جاتا اس لئے انہوں نے سو چا اور پھر یہ شعر کہا۔
جو ش و حشت ہے تشنہ کا م ابھی
چاکِ دامن کو تا جگر کر دے
یقینا چاک دام کو تا جگر کرنے کے الفاظ سے خیال میں رفعت آگئی ہے اور فیض کا شعر غالب کے شعر سے بلند ہوگیا ہے ہم ایسی صورت میں دوسرے شاعر کا خیال اپنا لینے کو جائز اور کسی حد تک مستحسن سمجھتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ایسی مثالیں فیض کے ہاں بہت کم ملتی ہے ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تحریر
منصور آفاق


ترقی پسند اد ب میں فیض کے پیش کردہ بہت خیال پہلے سے موجود تھے اور فیض کی نظم ’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘ڈنمارک کے معروف ترقی پسند شاعراوفی ہارڈر کی لائن ’’میٹھے خواب اوردوپہر کا اندھیرا‘‘کی یاد دلاتی ہے ۔۔۔۔سیاہ روشنی ، کالا سورج یا اندھیروں سے بھری ہوئی صبح کے استعارے فرانسیسی شاعری میں بہت زیادہ ملتے ہیں یہ تصور پہلی بار بائیبل کی Book of Revelation میں Apoclypseکی نمائندگی کرتے ہوئے نظرآتا ہے ، فرانسیسی شاعرNervalکے 1853میں لکھے گئے ایک سانیٹ EL DESDICHADOمیں پژمردگی کے کالے سورج کی علامت بہت مشہورہوئی۔
’’گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں ‘‘ پڑھ کرفیض کا ہم عصرنارویجن شاعر لارش سوبیئے کرسٹن سن یاد آجاتا ہے جس نے کہا تھا ’’دریچوں نے صلیبیں ہی صلیبیں تان رکھی ہیں ۔دریچے میں صلیبوں کو دیکھتے ہوئے جی کے چسٹرٹن بھی ذہن میں لہرا جاتا ہے جس نے کہا تھا
میرے باغ میں گاڑی ہوئی سولی
بہت ہی صاف ستھری اور نئی ہے
فیض احمد فیض کی مشہور ترین نظموں میں ایک نظم ’’رقیب سے ‘‘ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ و ہ ’’ رقیب ‘‘ جسے شاعری میں ہمیشہ دشمن سمجھا جاتا ہے فیض نے اسے گلے لگا کر بالکل نیا مضمون پیدا کیا ہے۔ جہاں تک اردو شاعری کا تعلق ہے تو یہ بات بہت حد تک درست ہے لیکن شاعری میں یہ قطعاً کوئی نیا خیال نہیں تھا، صو فیا ئ کے ہاں یہ تصور ہمیشہ موجود رہا ہے کہ عشق خدا وندی میں یہ حیران کن کر شمہ ہے کہ اس راہ
پر چلنے والوں کا محبوب چونکہ ایک ہوتا ہے اسلیئے عام تصور کے مطابق وہ ایک دوسرے کے ’’ رقیب ‘‘ توہوتے ہیں مگر آپس میں بلا کی محبت کر تے ہیں ۔ بلکہ وہ اپنے سینئر رقیب کے یعنی کسی ولی االلہ کے مرید ہوجاتے ہیں ۔شیخ فخر الدین عراقی کہتے ہیں ۔
عجب عشقے کہ درراہ طریقت رقیبت شد عزیز ہمچو رفیقت
﴿عجیب عشق ہے کہ طریقت کے رستے میں تیرے رقیب بھی تجھے تیرے رفیق کی طرح عزیز ہوگئے ﴾۔یہ اور اس قسم کے بیسیوں اقوال نظم و نثر میں صو فیائ سے منقول ہیں ۔
مومن نے بھی کہا تھا
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
سترہویں صدی عیسوی کی انگلش شاعری میں بھیmetaphysical پہلودر آیا تھا ۔ فلسفیانہ تخلیقات نہایت صوفیانہ رنگ لئے ہوئے تھیں ۔ قیامت، موت ، زندگی ، دن ، رات اور محبت جیسے مضامین ما بعد الطبیعات میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اِسی دور کے ایک معروف شاعر Sir John Suckling کی نظم My dearest Rival, منظرِ عام پر آئی ۔ اِس نظم میں سر جان سکلِنگ اپنے رقیب سے مخاطب ہوکر اُسے غمِ الفت کے مشترکہ معاملات سمجھاتے ہوئے اپنی محبت کا رُخ جاودانیت کی طرف موڑنے کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے رقیب سے اپنے محبوب کے حسن و جمال کی مدح میں اپنے محبوب کی ساحرانہ آنکھیں ، ہونٹ ،ہاتھ، تصور اور کشِش کی یاد دلائی ہے بالکل اُسی طرح جیسے فیض نے اپنے رقیب سے مخاطب ہوکر کہا ہے
تونے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جِس کے تصور میں لُٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحرآنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
یہ اور بات ہے کہ جان سکلِنگ کی نظم موضوع کے اعتبار سے نہایت مرکوز ہے انہوں نے گریز کرتے ہوئے اپنی محبت کو دوام دینے کی سعی فرمائی ہے جب کہ فیض نے گریز سے کام لیتے ہوئے اپنی محبت کوغریبوں کی حمایت کی طرف مبذول کیا ہے۔ تاہم یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ سکلِنگ کی نظم اورفیض کی نظم میں عنوان سمیت بنیادی خیال ایک ہے مگر جان سکلِنگ کی نظم فیض احمد فیض کی پیدائش سے کئی سو برس پہلے کی تحلیق ہے۔
رقیب سے تو ارل برنی بھی اپنی نظم ’’وداعیہ ‘‘میں مخاطب ہوئے ہیں اور اُسے عزیز ترین بھی قرار دیتے ہیں ۔ اُن کی نظم کا آغاز کچھ ایسے ہوتا ہے
مرے عزیر ترین رقیب
تم نے اپنے آغاز بہار میں
میرے برف آبادتک میرے ساتھ چلنے کیلئے
مجھے اپنے بازوئوں کا سہارافراہم کیا
جہاں تک فیض کی نظم کے خیال کے تسلسل کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں ایک دو باتیں زیر غور لاتے ہیں۔پہلے چار بند میں تو انہوں نے رقیب کو پچھلے واقعات یا دو لائے ہیں اور محبوب کے حسن اور اسکی عنایات کا ذکر کیا ہے۔ پانچویں بند میں کہتے ہیں
ہم پر مشتر کہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنوا ئوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
جز تر ے اور کو سمجھا ئوں تو سمجھانہ سکو ں
یہاں سے واضح ہو اکہ غم الفت نے شاعر اوراس کے رقیب پر ایک جیسے اثرات چھوڑے ہیں ۔اگلے تین بند میں شاعران اثرات کی تفصیل بتاتا ہے کہ اس عشق نے دونوں کو عاجزی سکھائی ، غربیوں کی حمایت سکھائی ، زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سکھا یا ، استحصالی طبقوں کی چھینا جھپٹی سمجھائی اور بتایا کہ مزدور پردہ ظلم ہو رہا ہے ۔ جیسے اس کا گو شت سر باز ار بیچا جا رہا ہو وغیر ہ وغیرہ۔ اب یہ سو چنے کی بات ہے کہ کیا ’’غم الفت ‘‘ ہر عاشق کو یہی چیز یں سکھاتا ہے اگر ایسا ہوتا تو جو بھی عشق میں ناکام ہوتا وہ فیض صاحب کی طرح انقلابی ہو جاتا۔ مگر ظاہر ۔ ایسا ہر ناکامِ محبت کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کچھ عاشق ناکام ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں کچھ زہر غم پی کر گریبان سی لیتے ہیں اور جیتے رہتے ہیں کچھ ’’ تم نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی ‘‘ کہ کر چل نکلتے ہیں پھر فیض صاحب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کا رقیب بھی انکی طرح انقلابی ہو گیا ہے۔ انہیں ’’ ہم ‘‘ کی بجائے ’میں‘کہنا چاہئے تھا اور غالباً نظم کے آخر ی شعر میں فیض کو اچانک اِس اعتراض کا خیال آگیا اور انہوں نے ’ ’’ ہم‘‘ کو چھو ڑ کر ’’ میں ‘ ‘ کہہ کر یہ سمجھ لیا کہ یہ اعتراض دور ہوجائے گا۔
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلشی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابوہی نہیں رہتا ہے
مگر انہیں احساس نہیں ہوتا کہ اس ایک شعر میں انہوںنے ساری نظم کا تارو پود بکھیر دیا ہے ۔کا ش انہوں نے سوچ لیا ہوتا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ اصل میں انکی نظم پہلے چار بند میں ہی ختم ہورہی ہے ۔ اسکے بعد ’’گر یز ‘‘ کا مرحلہ وہ خود پیدا کر نے کی اور اسے طے کر نے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی مر حلہ کبھی وہ سلیقے سے طے نہیں کر سکے ۔پھر فیض جہاں گریز کیا ہے وہاں نظم شاعری کی بزم سے نکل کر نعرہ بازی کے جلسہ گاہ میں آگئی ہے ۔
عاجزی سیکھی ، غربیوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرماں کے ، دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ، رخ زرد کے معنی سیکھے
اور پھر جب یہاں پہنچتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یکم مئی کے کسی جلسے میں کوئی جیالا تقریر کر رہا ہے
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غربیوں کا لہو بہتا ہے
فیض صاحب بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں اس لئے ابتک کی تمام بحث کا محور انکی نظم گوئی ہی رہی ہے۔ فیض کی چند نظموں بہت اچھی ہیں اور وہ زیادہ تر رو مانوی ہی ہیں مگر انکی تعداد زیادہ سے زیادہ ستائیس ہو سکتی ہے ان میں سے بھی بعض ایسی ہیںجن کا کوئی نہ کوئی حصہ کمزورہے جیسے ابھی ہم ’’ رقیب سے ‘‘ پر بحث کر چکے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ نظم کی قربان گاہ پر فیض سارا کچھ کر بھی شرمندہ نہیں ،زنداں کے موضوع پر انہوں نے بڑی بڑی یادگار نظمیں کہی ہیںانہوں نے اپنی اسیری کے دنوں میںزندان کی شاعری کی ہے جوان کاسرمایہ ئ حیات ہے ۔لیکن ایسی شاعری اردو ادب میں پہلی بار نہیں ہوئی تھی بلکہ زنداں کی شاعری اردوغزل کی روایت کا ہمیشہ سے ایک حصہ چلی آ رہی تھی اور اُس کیلئے شاعر کا قید ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہ شاعری اپنی جگہ ایک الگ اور بہت بڑا موضوع ہے ۔
مشرقی شعرائ میںیہ روایت غالباً مسعود سلیمان سے شروع ہوئی اورپھرتقریباً ہر شاعر نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی کوشِش کی۔ میر نے کہا
زنداں میں بھی شورِش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے پریشاں نظری کا
مصفحی نے بھی اس موضوع پر بہت سے شعر کہے
ہم اسیران ِ قفس لطفِ چمن کیا جانیں
کون لے جاتا ہے ہم کو گل و گلزار کے پاس
خبر تو لیجو کوئی خستہ مر گیا تو نہ ہو
کہ آج آتی ہے آوازِ نوحہ زنداں سے
فصلِ بہار آئی ،گئی، اب قفس کے بیچ
پھڑکیں ہیں طائران ِ گرفتار کس لئے
یہ تو آوازِ ہم صفیر ہی ہے
اس قفس میں کوئی اسیر ہی ہے
ایک اور کسی استاد شاعر کا مصرعہ یا د آر ہا ہے دیکھئے زنداں کی کوٹھری کا نقشہ کس طرح کھینچ دیا ہے
تنگ ہے خانہ ئ زنجیر سے زنداں اپنا
رند کا ایک شعر دیکھئے
کھلی ہے کنجِ قفس میں مری زباں صیاد
میں ماجرائے قفس کیا کروں بیاں صیاد
مغرب میں بھی بہت سے شعرائ زندان سے متعارف رہے۔ وہ تمام آزادی پسندلوگ جِن کا جرم حق گوئی اور بیبا کی تھا اُنہیں سلاخوں کے پیچھے سے اُبھرتے سورج اور چاند کو دیکھتے دیکھتے اپنے زخم زخم خواب کاغذوں کی نذر کرنے کی عادت سی ہو گئی۔مگر پابندِ سلاسل ہوکر بھی اُن کے حوصلے گرفتار نہ ہوسکے،اُن کی ہمت بلند رہی اور اپنی کبھی کبھار کی گر یہ وزاری میں بھی اُن کی امید کی کرن خورشید کی طرح چمکتی رہی، چراغ کی صورت لو دیتی رہی، اُن کی آوازقیدخانوں کی دیواروں کا سینہ چیرتی ہوئی دُنیا بھر میں ارتعاش پیدا کرتی رہی، اُن کی استقامت میں لر زش نہیں آئی ۔ غالب نے تو ایک قانونی جرم میں سزاپائی تھی ۔ انہوں نے فراخدلی سے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا اور سزا کو گو یا ٹھٹھے میں اڑا دیا تھا ۔
قرض کی پیتے تھے کے لیکن سمجھتے تھے ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
غالب باقاعدہ زندانی ہوئے چاہے کچھ عرصہ کیلئے ہی سہی ۔اور اس موضوع پر یادگار شعر کہے
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
کاش کے ہوتا قفس کا در کھلا
فارسی اور اردو کے تقریبا ً تمام شعرائ خیالی طور پرقفس کے دائرے میں گھومتے رہے قیس کو اپنا علامتی نمائندہ (symbol) بناکرکہ اُس پر جب جنوں کا دورہ پڑتا تھا تواُسے زنداں میں ڈال دیا جاتاتھا کیونکہ صحرا نور دی میں اس کے کھوجانے کا اندیشہ لاحق ہو تاتھا۔ غالب بہر حال بہت بڑے شاعر تھے اور انہوں نے اِس مضمون میں بھی اپنا رنگ دکھا یا
احباب چارہ سازی ئِ و حشت نہ کر سکے
زندان میں بھی خیال بیاباں نور دتھا
احباب کی طرح وہ حکومتیں بھی جویہ سوچتی ہیں کہ انقلابی خیالات رکھنے والے لوگوں کو قید کردیا جائے تاکہ ایک تو وہ خود مر عوب ہوجائیں اور جیل کی سختیوں سے گھبرا کر انقلا بیت کا جنوں سرسے نکال کر تا ئب ہوجائیں اور دوسرے یہ کہ ِاس طرح سے اِنقلابی خیالات دوسروں تک نہ پہنچ سکیں گے ۔اگرچہ غالب کو ایسی صورت درپیش نہیں تھی لیکن انہوں نے یہ بتا دیا تھا کہ جسم کو پسِ زندان کرنے سے خیا لات کو قیدنہیںکیا جا سکتا جوایک انقلابی شاعر کیلئے بڑی حوصلہ افزا بات ہے۔
میرا خیال ہے کہ فیض نے زندان کے موضوع پر جو شاعری کی ہے اس میںاردو شاعری کی روایت کے علاوہ ہوچی من کی زندان کی نظموں کا بڑا کردار ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ فیض یقیناً ہوچی من سے متاثر تھے۔ ہوچی من ویتنام کے وہ کمیونسٹ ہیرو ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک حصہ جیلوں میں گزارا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سلاخوں کے پیچھے کہی گئیں ہوچی من کی دو نظمیں ’’زنداں کی شفاف صبح‘‘ اور’’ زنداں کی سرد رات ‘‘ فیض کی دستِ صبا کی دونظموں ’’زنداں کی ایک صبح ‘‘ اور ’’ زنداں کی ایک شام ‘‘ کی بنیاد بنی ہیں۔ویسے قید میں کہی گئی ہو چی من کی نظموں کی مختلف لائنیں فیض کی زنداں کی شاعری میں بکھری پڑی ہیں۔ ہوچی من کی نظم’’زنداں کی شفاف صبح ‘‘ کا ترجمہ فیض کی نظم کی مصرعوں میں تھوڑے سے ردّوبدل کے ساتھ یوں قریب تر ہے
مرے زنداں کی وہ دیوار کے اوپر آکر
مجھ سے سورج نے کہا ’’جاگ سحر آئی ہے
رات کے سایوں کے پھرنے لگے بیزار قدم
اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہے ہیں یہ اسیر
جن کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر
خاک پر زیست سے مخمور ہوائیں جاگیں
صحن ِ زنداں میں رفیقوں کے کھلے پھرچہرے
فیض کی دوسری نظم ’’زنداں کی شام ‘‘پر ہوچی من کے اثرات اتنے گہرے نہیں مگر ان کی ساری نظم عزیز لکھنوی کے اس شعر سے نکلی ہوئی ہے
اس نے بجھا دیا ہے چراغِ قفس تو کیا
وہ جل اٹھا ہے دیدہ ئ مہتاب بام پر
فیض کی نظم کی آخری لائنیں یوں ہیں
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
چاند کو گل بھی اچھا نہیں لگا ویسے یہ روزمرہ کے خلاف ہے
فیض کی نظموں میںجو پرانے سماجی اور معاشی نظام کی بوسیدگی اور خاتمے کی امید نظر آتی ہے۔اس سے فیض پہلے تخلیق ہونے والا مختلف زبانوںکا ادب بھرا پڑا ہے۔ خاص طور پر روسی اور چینی ادب میںان سب موضوعات پربہت کچھ لکھا جا چکا تھاسو اسے سرقہ کہاجائے گا نہ توارد ، یہ استفادہ ہے اور فیض کی ترقی پسندانہ شاعری اسی استفادہ کا پیش نظر ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فیض نے شعر کو نیا مزاج اور اردو شاعر ی کو نیا موڑ دیا ہے اور یہ کہ یہ مزاج ترقی پسندانہ ہے ۔مگر سچ یہ ہے کہ نہ تو فیض کی شاعری کا مزاج مکمل طور پر ترقی پسندانہ ہے اورنہ ہی انہوں نے اردو شاعری کو کوئی نیا موڑدیا۔آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ کس حد تک ترقی پسند ادب کی تحریک کے اغراض و مقاصد فیض کی شاعر ی سے پورے ہوتے ہیں ۔ اس تحریک کا منشور جو سامنے آیا تھا ۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ۔
’’ ہماری انجمن ترقی پسند مصنفین کا مقصد یہ ادب اور آرٹ کو ان رجعت پسندطبقوںکے چنگل سے نجات دلانا ہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطا ط کے گڑھوں میں دھکیل دینا چاہئے ہیں۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لا نا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستبقل کی تعمیر کا مئو ثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہندو ستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضو ع بنائے ‘‘
بے شک فیض کے ہاں ترقی پسندی موجودہے مگر وہ ہے بڑی عجیب طرح کی ۔ وہ اگر انسانی دکھوں کے مو ضوعات چھیڑتے بھی ہیں تو انکے ہاں کوئی انقلاب آفریں پیغام نہیں ابھرتا وہ تھکے تھکے لہجے میں بات کر تے ہیں اور انکی نظم کسی جد و جہد کے لئے ابھارنے والی رجز کی بجائے محض آشوب نامہ اور انقلابی روحوں کا مرثیہ بن جاتی ہے اور کہیں تو وہ صاف کہ دیتے ہیں کہ انسانی مصائب اور زیر دستون کے آلام مو ضوعات تو ہیں مگر ایسے نہیں کہ شاعر اپنے آپ کو ان کے لیئے وقف کئے رکھے شاعر کی طبع کا اصل وطن کچھ اور ہے نقش فریادی میں شامل انکی نظم موضوع سخن کا مطالعہ کیجئے ابتدائ بڑے رومانی انداز میں ہوتی ہے ۔ حسن دل آرائ کی سج دھج کی باتیں ہوتی ہیں ۔ آنکھ ، کاجل رنگ رخسار ، غازہ ، صند لی ہاتھ ، حناکے تذکر ے ہوتے ہیں اور صاف کہ دیا جاتا ہے
اپنے افکا ر کی اشعار کی دنیا ہے یہی
جان ِ مضمون ہے یہی شاید معنیٰ ہے یہی
پھر جیسے کوئی انکا کندھا تھپتھپا کر ان کی گردن انکی کومٹ منٹ کی طرف موڑ تا ہے ۔ وہ اس طرف دیکھتے ہیں انہیں سرخ و سیاہ صدیو ں میں سلسکتی ہوئی اولاد ِ آدم و حوا نظر آتی ہے کھیت مزدور وں کی بھوک دیکھتے ہیں ۔ مخلوق کے خوابون کی قتل گاہوں کا احساس جا گتا ہے مگروہ فوراً ان منا ظر سے اکتا کر پھر اسی شوخ جسم کی طرف لو ٹ آتے ہیں اور اس کے دل آویز خطوط میں کھو کر فیصلہ سنا دیتے ہیں ۔ نظم کا یہ آخری بند دیکھئے
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضمون ہونگے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کم بخت دل آویز خطوط
آپ ہی کہیئے کہیں ایسے بھی افسوس ہو نگے
اپنا مو ضوع سخن ان کے سوا اور نہیں
طبع ِ شاعر کا وطن ان کے سوا اور نہیں
ہر نظم کے بین الطور میںیہ فضا ملتی ہے کہیں انقلاب اور انسانی مصائب کی بات آتی ہے تو ایسے جیسے شاعر کچھ دیر کے لئے جلا وطن ہو گیا ہے اور اسے انتظار ہے کہ کب جلا وطنی ختم ہو اور وہ اپنے وطن لوٹ جائے ۔ ایسی رومانی شاعری اس وقت بہت سے لوگ کر رہے تھے خاص طور پر اختر شیرانی تو رومانی شاعر تھے اور اس شاعری میں بھی بڑے منفرد لہجے کے مالک تھے انہوں نے بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے کی گھٹی گھٹی فضا میں سلمیٰ و عذر اکی محبتوں کی ایسے رسیلے گیت گائے کہ لوگ انہیں اردو کا کیٹس کہنے گے ، خو د ترقی پسند شعرائ اس میدان میںبھی جوہر دکھارہے تھے ۔ اور اسی نظمیں تخلیق کر رہے تھے جن میں رومانویت کے ساتھ مقصدیت کی طرف گریز فیض کی طرح کا بد نما گریز نہیں جیسے مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ ‘‘ میں یاد وسری نظموں میں آجاتا ہے ساحر لدھیانوی کی تاج محل دیکھئے کس غضب کا خیال ہے اور کس طرح ایک رو مانوی خیال میں دوسرے غریب انسانوں کے دکھ سمولئے گئے تھے ۔ فیض کی تمام نظموں کو دیکھ جائیے سوائے آجائو ایفر یقا‘‘ کے اور کوئی ایسی نظم نہیں جس میں انقلابیوں کی رجز بننے کی توانائی ہو۔
۔فیض جس غم دوراں اور غم جاناں کے امتزاج سے ایک نئی ٓواز پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ وہ غالب کی عطا ہے
غالب نے کہا تھا
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دھر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تحریر
منصور آفاق

غالب ایک عہد آفریں شاعر ہے نمعلوم اس نے کس عالم کشف میں یہ باتیں کہی تھیں کہ

ناز دیوانم کہ سر مستِ سخن خوا ہد شدن

این مے از قِحطِ خریداری کہن خوا ہد شدن

کو کبم رادر عدو او ج قبولی بودہ است

شہرت ِ شعرم بگیتی بعد ِ من خوا ہد شدن

یہ باتیں حرف بحرف صحیح ثابت ہوتی رہیں ، مختلف ادبی تحریکات اٹھتی اور گم ہوتی رہیں زمانہ بد لتا رہا ادبی نظریات بدلتے رہے لیکن غالب کی مقبولیت بر ابر بڑھتی گئی اور بڑھتی آرہی ہے اسکی فکر نے حیرت انگیز طریقے سے مختلف زمانوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس طرح وہ جیسے ہر تحریک کا مقتدائے اول چلا آرہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد آنے والا ہر شاعر کسی نہ کسی طرح سے اثر پذ یر ہوا ہے اقبال نے اپنے لئے قطعی مختلف میدان کا انتخاب کیا غالب انسان کا شاعر تھا اقبال نے مسلمان کا شاعر بننا پسند کیا غالب بین الاقوامی شاعر تھا اقبال نے قومی شاعر بننے کی تنگنا ئے قبول کر لی تاکہ اسکی کسی طرح انفرادیت قائم رہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا بلکہ اس نے اپنی تنگنائے میں سمندر سمیٹ لئے لیکن یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو غالب کے سحر سے آزادنہ کر سکا ۔ اسکی لفظیات ، اسکی تشبہیات و استعارات کا در و بست اور اس کا فکری و تخئیلی نظام کسی حد تک غالب سے متاثر رہا لیکن اس نے اپنا مجموعی اسلوب اتنا مختلف کر لیا تھا کہ اس کے ہاں غالب واضح طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ فیض بھی غالب سے متاثر بلکہ شدید متاثر ہے لیکن اقبال کے برعکس فیض میں غالب صاف نظر آتا ہے پھر فیض نے غالب کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی، اسکی کتابوں کے نام کچھ اور بھی ہوسکتے تھے مگر اس نے غالب سے اپنی وابستگی کے اعتراف کے طور پر غالب ہی سے نام مستعار لئے ،نقش فر یاد ی، دست تہ سنگ ، غالب ہی کی دین ہے اور یہ کوئی غلط بات نہیں صرف کتابوں کے ناموں تک بات محدود نہیں نظام فکر کی ترتیب میں بھی اس نے غالب سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے میں اسے عیب کہنے کی بجائے فیض کا استفادہ ئِ حسن سمجھ کر اسکے اوصاف میں شمار کرتا تھا لیکن اسے کیا کہا جائے کہ وا بستگان ِ فیض نے ایسی چیزوں کو فیض کی اپنی ندرتِ تخلیق اور جد تِ فکر قرار دے لیا ہے ۔ میںاس کی بھی ایک دو مثالیں پیش کئے دیتا ہوں۔ترقی پسند تحریک بلا شبہ ایک عالمی تحریک تھی اور اس نے اس وقت زور پکڑا جب سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی پہلو کھل کر زیر بحث آئے ۔ اس تحریک نے ادیب کو بھی اپنے فرائض سے آگاہ کیا اور اس میں یہ احساس بیدار کیا کہ وہ لوگوں کو صرف عشق و عاشقی کے قصے نہ سنائے انہیں شعور دے کہ انکے بحیثیت انسان بہت سے حقوق ہیں جنہیں استحصال پسند وں نے غصب کر رکھا ہے اسطرح وہ ادبی محا ذ پر لوگوںکو متحرک بھی کرے کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور انقلاب لے آئیں ۔ اردو شاعری کی لائبریری داستان عشق اور وارداتِ عشق تک محدود تھی غالب نے ترقی پسند تحریک سے بہت پہلے یہ مجتہدانہ سوچ دی کہ صرف غم ِ جاناں ہی نہیں غم دوراں بھی ایک مو ضو ع ہے اور بھر پور مو ضوع ہے حقیقت یہ ہے کہ غالب کسی انجانے اور انوکھے جہانِ دانش کا نقیب ہے مسلسل پر یشانیوں اور محرومیوں نے میر تقی میر کو رونا ، رو تے رہنا ، زندگی کی طرف پیٹھ کر کے آنسو بہاتے رہنا اور زندگی کو اپنی بد عا منیوں سے قابل نفر ت بنا نا سکھا یا تھا مگر غالب کو انہی چیزوں نے زندگی سے پیا رکر نا سکھا یا تھا وہ نفی سے اثبات کا درس لیتا رہا اس نے غم کی عظمت کو سمجھا اور زندگی کو غم کے مترادف قرار دیا وہ قید حیات و بندِ غم کو ایک قرار دیتے ہوے غم کا عرفان حاصل کر تا ہے اور اس میں ڈوب کر ابھرنے کا ذاتی تجربہ بیان کر تا ہے وہ بتاتا کہ غم سے نجات پانے کے لئے ہاتھ پائوں مارنا بیکار ہے ۔

رنج سے خو گر انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں اتنی پڑ یں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں

غم کو یوں اساسِ نشاط و عیش بنا لینا اور بجلیوں پر بنیاد آشیاں رکھد لیا اردو تو کجا فارسی غزل میں بھی بالکل نئی بات تھی خیر یہ ایک بہت بڑا اور بہت وسیع موضوع ہے میںبتا نا یہ چاہتاہوں کہ غالب نے شعر کو کھو کھلی لفاظی سے آراستہ کیا نہ آنسوئوں سے لفظ ڈھالے اس کا ہر لفظ اسکے خو نچکاں سینے کے کسی زخم سے ٹپکتا لہو ہے

درد ِ دل لکھوں کبتک جائوں انکو دکھلائوں

انگلیاں فگار اپنی ، سینہ خونچکاں اپنا
یہ وہ بات ہے جسے اقبال نے
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
کے انداز میںکہا ۔ اور اسی شعر کو دیکھ کر فیض نے یہ شعر لکھا
متا عِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میںنے
غالب ہی نے سب سے پہلے اردو شاعر کو کو یہ بتایا کہ غم صرف عشق و عاشقی کا نہیں ہوتا ، اور بھی بہت سے دکھ ہیں بہت سے غم ہیں
غم اگرچہ جاں گسل ہے یہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا ، غم روز گار ہوتا
اس سے بھی صریح الفاظ میں غمِ روزگار کی ترجیحی حیثیت کو یوں واضح کیا
کم جانتے تھے ہم بھی غم ِ عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھا
اور یہ غم روز گا ر وہ ہے کہ اس کے بکھیڑے سکون سے خدا کی عبادت بھی نہیںکرنے دیتے غالب سے بہت پہلے ’’ جہاں گرد ‘‘ اور جہاںساز شاعر سعدی شیرازی نے بھی کہا تھا
خدا وندِ نعمت بحق مشتغل
پر اگندہ روزی پر اگندہ دل
﴿جنہیں نعمتیں حاصل ہیںوہ تو خدا کی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں مگر جن لوگوں کو روزی رزق کی پریشانیاں ہیں انکے قلب و زہن بھی پر اگندہ ہوتے ہیں ﴾
غالب نے اس خیال کو بہت زیادہ رفعت دی اور اسے آسمان پر پہنچا دیا ۔
در عالم بے زری کہ تلخ است حیات
طاعت نتواں کر دی بہ امید ِ نجات
اے کاش زحق اشارتِ صحرم و صلوٰۃ
بو دے بو جود ِ مال ہمچو حج و زکوٰۃ
﴿غربت کے عالم میں نجات کی امید پر طاعت و عبادت کیا ہو کہ غربت میں تو زندگی بہت تلخ ہوتی ہے کاش جس طرح حج اور زکوٰۃ کے لئے مال کو موجودگی ضروری ہے اسی طرح صوم و صلوٰۃ کے لئے ما لدار ہونا ضروری ہوتا کیونکہ افلاس کی پریشانیوں میںیہ عبادت صحیح طریقہ سے نہیں ہوسکتی ﴾
غم جاناں اور غم ِ روز گارکے علاوہ بھی بہت سے دکھ ہیں جو زمانہ کے ہاتھوں کے انسان کو بر داشت کرنا پڑتے ہیں۔ شاعری اگر غم کی یادوسرے لفظوں میں زندگی کی ترجمان ہے تو اسے دوسرے دکھوںکی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے اور انسان کے سارے زخموں کی زبان بننا چاہئے شعر کو صرف غم ِ عشق تک محدود کر لینا اسے زندگی کے بسیط و وسیع تنا ظر سے محروم کرنا ہے ۔ اسی احساس کے پیش نظر غالب محبوب کے مہر بان ہو جانے کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوتا ۔
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کر دہر میں
تیرے سوابھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
فراق نے بہت پہلے کہا
اور بھی غم ہیں زمانے غم الفت کو
اس کی یاد اچھی نہیں اے دل ناکام بہت
فیض غالب کے عقید تمند تھے بلکہ غالب انکے حواس پر چھا یا ہوا تھا اور ان پر غالب کا یہ پہلو بھی منکشف ہوچکا تھا کہ غم عشق ہی سب کچھ نہیں اور انسان پر دھرنے اتنے ستم کئے ہیں کہ محبوب کی وفا سے انکی تلافی نہیں ہوسکتی ادھر ترقی پسند ادب انسان پر ہونے والے انہی امظالم کی نشاندہی کرچکا تھا اور کر رہا تھا ، فیض کے ذہن پر ترقی پسند ادب کے اثر ات مر تب ہورہے تھے ، انہوں نے گو، غالب کے اس شعر کی منظوم شر ح بیان کی اور اس طرح وہ نظم وجود میں آئی جس کا عنوان ہے ’’ مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ اب فیض کا یہ مشہور شعر پڑھئے ۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں اور وصل کی راحت کے سوا
غالب کا ایک اورشعرہے
گلشن میںبندوبست برنگ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقہ ئ بیرون در ہے آج
یہ وہ خیال ہے تقریباً ہر ترقی پسند شاعر نے کسی نہ کسی انداز میں ضرور کہا ہے۔ قمری کا یہی طوق جسے غالب نے حلقہ ئ بیرون در دیکھاوہ کہیں﴿اپنے محل بچا کر سارے دیس کو جیل بنایا﴾کی صورت میں ظاہر ہوا اور کہیں دیوارِ قفس حدِ نظر سے اوجھل ہوئی۔بقول فیض
وہ رنگ ہے امسال گلستاں کی فضا کا
اوجھل ہوئی دیوارِ قفس حدِ نظرسے
فیض نے اپنی نظم یہاں سے شہر کو دیکھو‘‘میں اس خیال کو وضاحت کے ساتھ کہا ہے
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
غالب کو سامنے رکھتے ہوئے آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا فیض اسلوب شاعر ہیں یا نہیں۔اسلوب سازی کے سلسلہ میں دیکھا یہ جا تا ہے کہ کیا ایک شاعرنے نئے الفاظ باندھ کر زبان کو وسعت دی ؟ کی اس نے مر وج اسلوب سے انحراف کر ے اپنا کوئی مخصوص انداز سخن پیدا کیا جو ادب میں اسکی پہچان بن یگا ؟ کیا اس نے نئی تراکیب وضع کیں اور تشبیہات واستعارات میں جد ت پیدا کی؟ یا پھر اس نے قدیم الفاظ سے نئے تلازمات وابستہ کرکے معانی کو نئی جہت دی۔ ہم اس معیار کو سامنے رکھ کر فیض کے کلام نظر ڈالتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ فیض کی پہلے دور کی شاعری جس میں انہوں نے نقش فریاد ی اور دستِ صبا لکھی جد ت ِ تراکیب کے نمو نے مل جاتے ہیں زندان نامہ مین بھی ایسی چیز یں سامنے آجاتی ہیں مگر بعد کی شاعری میں وہ زیادہ تر سپا ٹ ہوجاتے ہیں حالانکہ سجاد ظہیر نے لکھا تھا ۔
’’ فیض کے تمام چاہنے والے ’’ نقشِ فریادی ‘‘ ’’ دست صبا‘‘ اور زنداں نامہ کے شیدائہونے کے باوجود ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے انکی وہ تخلیقیں جو ابھی نہیں ہوئیں ان کے مقابلہ میں جو وہ کر چکے ہیں زیادہ گراں قدر ہونگی‘‘
مگر افسوس ہے کہ سجاد ظہیر کی یہ توقع پور ی نہیں ہوئی فیض کے قدر دانوں میںیقینا اضافہ ہو ا لیکن انکی تخلیق کا گراف کمیت اور کیفیت دنوں لحاظ سے نیچے آتا گیا ۔ فیض نے بلا شبہ بعض نئی تراکیب ترا شیں ’’ غازہ ئِ رخسارِ سحر ‘‘ ’’ شبِ سست موج ‘‘ نجاتِ دید ہ و دل ’’ وادیئِ کاکل ولب ‘‘ ’’ گلگشتِ نظر ‘‘ ’’ آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘ ’’ شعر کے خیمے ‘‘ ’’ نغموں کی طنابیں‘‘ ’’ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت ‘‘ دل ساد ھڑ کتا ہو امید کا ہنگام ‘‘ ’’درد کے بے خواب ستارے ’’ بے صبر نگا ہوں کا مقدر‘‘ ’’ بامِ مینا ‘‘ ’’ مچلی کوئی زنجیر ‘‘ ’’ اترا کسی تالے کے جگر میں خنجر ‘‘ ’’ سر ٹپکنے لگا دریچہ کوئی ‘‘ ’’ ہونٹوں کے سراب ‘‘ سانس کی آنچ ‘‘ ’’ دلدار کی شبنم ‘‘ ’’ دل کے رخسار پہ یاد کا ہاتھ ‘‘ یہ اور اس قسم کی اور ترکیبیں بھی ملتی ہیں یقینا ان میں حسن بھی ہے اور ندرت بھی مگر یہ سب کچھ بعد میں ہوتے ہوتے ختم ہوگیا ۔ اور یہ ترکیبیں اور تشبہیات بھی غالب کے اس دور ے کلام لکھے تا ثر سے وجود میں آئی ہیں جب غالب کو ’’ طرز ستم ریجادی ئِ بید ل ‘‘ پسند آیا ہو ا تھا
ویسے اگر ان تراکیب کے ماخذ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت کچھ مل سکتا جیسے دل کے رخسار پہ یاد کا ہاتھ‘‘ کے پیچھے جھانکا جائے تو کئی مصرعے ذہن میں لہرا جاتے ہیںمصفحی نے کہا تھا’’کیوں ہاتھ گیا گل کے گریباں میں صباکا‘‘اسیر کا مصرعہ ہے ’’عارضِ دل پہ گری پھول کی نازک پتی‘‘نسیم دھلوی نے کہا تھا’’ دستِ خیالِ یار کو چوما ہے آنکھ سے‘‘’’غازہ ئ رخسار سحر‘‘کی ترکیب میں بھرپور تازگی کے پیچھے اس زمین پر غور کیجئے جس پر یہ پھول کھلاکہ ’’ابٹن افق پہ مل لب و رخسار پہ نہیں‘‘اس وقت فیض کے ہم عصر شعرار آختر شیرا نی وغیرہ بھی جدید ترکیبیں ڈھال رہے تھے ۔ غالب اور اقبال نے تخیل کے بہت سے در کھول دیئے تھے اور حسی نے تشبہیات سے بلند ہو کر ذہنی و تخئیلی تشبہیں اور استعارے وجود میں لا ئے جا رہے تھے ، فیض نے قدیم الفاظ سے نئے تلا زمات ت وا بستہ کر کے معافی کوئی جہت دینے کی کوشش کی یا نہیں ؟ یہاں بھی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے جد ید معنویت دی ، فیض نے جب یہ کہاکہ اور نکلیں گے عشاق کے قافلے تو بلا شبہ ’’ عشاق ‘‘ کا لفظ ہمارے عہد کے حالات کے مطابق ایک نئی معنویت لے کر سامنے آیا مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ غالب اس لفظ کو فیض کی معنویت کے انتہائی قریب برت چکے ہیں کہ ’’ عشاق فریب حق و باطل سے جد اہیں ‘‘ عشق اور عقل کو اقبال نے بھی مخصوص اصطلات بنا دیا اور اقبال کی سوچ کے پیچھے بھی رو می کا م کر رہا تھا جس نے جھوم جھوم کرکہا تھا ۔
شاداباش اے عشق ِ خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علتہائے ما
اے دوائے نخوت و نا موس ما
اے تو افلاطون و جا لینو س ِ ما
فیض جب دار و اسن کی آزمائش کو مشقِ سخن میں بدل رہے تھے تو یہ کیسے ممکن ہے انہیں غالب کا یہ پر شوکت مطلع نہ یاد آیا ہو ۔
قدو گیسومیں قیس و کو ہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں وہا ں دار و رسن کی آزمائش ہے
ان تصر یحات کو ذہن میں رکھ کر کلام فیض کا مطالعہ کیا جائے تو اس خیال پر نظرِ ثانی کرنا پڑ یگی کہ فیض ، غالب اور اقبال کی طرح صاحبِ اسلوب شاعرہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہی چیز تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے، میں بھی انہی باتوں کی وجہ سے اس تحریر کو درست نہیں مان رہا، اور الجھن کا شکار ہوں۔


اسی طرح کی کچھ اور تحریریں جو اس بلاگ پہ موجود ہیں، وہ بھی پوسٹ کر رہا ہوں، یہ بھی دیکھ لیجیے اور میری رہنمائی کریں۔

بہرحال میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی بہت زیادہ شعرا کو پڑھا ہے کہ اس پر کوئی رائے دے سکوں۔ میرے ذہن میں جو بات آئی وہی میں نے کہہ ڈالی۔ باقی اس فورم پر کافی پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو کہ informed opinion دے سکتے ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
تحریر
منصور آفاق



فیض نے بھی زندان میں بعض بہت اچھے شعر کہے ہیں

مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں

دل و الوکوچہ ئِ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
مقتل میں جانے کی دھج اور شان و آن کی بات بھی فیض نے غالب سے ہی لی ہے کہ اس نے کہا تھا
عجب نشاط سے جلد دکے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پائوں سے ہے دو قدم آگے
لیکن اسکے باجود بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ اشعار ایک انقلابی کی شان کے شایا ں ہیں سقراط نے اسی دھج سے سا غرِ زہر اٹھا یا ہو گا۔ مسیح (ع) ایس اان بان سے مصلوب ہونے گئے ہونگے اور کر بلا کا سالار اپنی فوج کٹا کر اپنی جان حق پر ور دینے کیلئے اپنے گھوڑے پر سوار زمین و آسمان کو کپکپا دینے والی شانِ بے نیازی سے میدان میں آیا ہوگا۔ لیکن مجموعی طور پر زندان نامہ کی فضا اداس اداس ہے ۔ دل پر گھبر اہٹ قبضہ کر تی نظر آتی ہے امید سحر کا سہارا ساتھ ہے لیکن یہ امید ہے ڈھارس ہے و اہموں کو تار تار کر دینے وا لا یقین نہیں سحر قریب ہے دل سے کہونہ گھبرائے جیسی کیفیت ہے ۔ اگرچہ انہیں مختلف جیلوںمیں اتنی سختیاں برداشت نہیں کر نا پڑیں لیکن ان میں تقریبا ً اپنے ہی دور کے دوسرے قیدی شاعروں کا ساحوصلہ نہیں تھا زندان نامہ کا میجر ا سحاق کا مقدمہ دیبا چہ پڑھ لیا جائے تو انکی اداسی میں گھر ی ہوئی ساری فضا سامنے آجاتی ہے ۔ ادھر دیکھئے تو مولانا حسرت موہانی نے جیل کس طرح گزاری ہے
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
زندان نامہ کی نظم ’’بنیادکچھ تو ہو‘‘ میں بلا شبہ لہجہ دبنگ ہے
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے ، دست و پا
لیکن اس کے پیچھے جو ذہن کا م کر رہا ہے وہ اس شخص کا ہے جس کی ساری اپیلیں خارج ہو چکیں اب اسے قتل بہر حال ہونا ہے اب وہ روئے دھوئے یا قہقہے لگائے کچھ فرق نہیں پڑتا فیض صاحب کا مشورہ ہے کہ وہ ہنس کر پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالے کہ اب کوئی راہِ نجات نہیں انکے اشعار میں یہاں بھی وہ رنگ نہیں آیا جس نے غالب سے یہ شعر لکھوا یا تھا
عشرت ِ قتل گہ ِ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
جیسا کہ میںنے لکھا ہے کہ یہ نظم وہ ہے جو سب اپیلیں خارج ہونے کے بعد زندگی سے مایوس شخص کے لئے بطور مشورہ لکھی گئی ہے وگر نہ تو فیض صاحب نے حسین شہید سہر وردی کی شان میں قصید ہ لکھا جنہوں نے پنڈی سازش کیس میں انکی وکالت کی تھی ، اس قصیدہ کا آخر شعر یہ ہے جس میں ذوق کے مشہور مصرع ’’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ‘‘پر قبضہ کر لیا گیا
ہر دن ہو ترا لطفِ زباں اور زیادہ
اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ
مولانا محمد علی جو ہر نے بھی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند میں گزار ا ۔ ان کا یہ شعر دیکھئے ۔
مستحق دار کو حکم نظر بندی ملا
کیا کہوں کیسی رہا ئی ہوتے ہوتے رہ گئی
فیض صاحب عام قید ﴿جس میں انکو بہت سی آسائشیں حاصل ہوئی ﴾ سے رہائی مانگتے ہیں اور اپنا کیس ہا تھ میں لینے والے وکیل کی مدح میں قصید ہ لکھے ہیں ۔ مگر جو ہر کہتے ہیں ’’ بد بخت جج کو تو چاہئے تھا کہ مجھے سزائے موت سناتا اس نے سزائے قید کیوں سنا دی ؟
اس طرح فیض میں ہمیں وہ انقلابی شاعربھی نہیں ملتا جس کے بعض لوگ بڑے بڑے پو سٹر اٹھائے پھرتے ہیں۔حالانکہ بحیثیت ایک نظریاتی شاعر فیض صاحب خود ترقی پسندوںمیں بھی بڑے شاعر یا مکمل ترقی پسند شاعر نہیں سمجھے جاتے تھے، سابق میجر اسحاق جو انقلابی کا رکن تھے اور جنہوں نے بعد میں مزدور کسان پارٹی بنائی پنڈی سازش کیس میں ماخوذ تھے اور جیل میں فیض صاحب کے ساتھ بلکہ بہت قریب رہے اور جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے زندان نامہ کا طویل دیباچہ لکھا اپنے اسی دیباچے میں لکھتے ہیں ۔
’’ فیض کی شاعری میں ایک صاحب دل کا جوش و جذبہ اس میں قوم کا دل دھڑک رہا ہے لیکن کیا بات ہے کہ شاید اس کے قوم میں پاکستان کے محنت کشوں کے مبارک پسینہ اور خون کی حرارت ابھی تک پوری مقدار میںشامل نہیں سمن و گلاب کو جس چاہت سے یاد کیا ہے اس چاہت اور تفصیل سے اس بد حال و بد نصیب کا ذکر نہیں ہے جس نے سمن و گلاب کو اپنے خو ن ، جگر سے سینچ کر شاداب کی اہے اور جس کو حق پہنچتا ہے کہ وہ بھی ان سمن و گلا ب کی نزا کتوں ، رنگ روپ اور عطر بیزیوں سے مستفید ہو سکے ‘‘
ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں
ان کی شاعری کو ڈر ائنگ روموں ، سکو لوں، کالجوں سے انکل کر سٹرکوں، بازاروں ، کھیتوں ، کار خانوں میں ابھی پھیلنا ہے ۔
سجا دظہیر ترقی پسند ادب کی تحریک کے بانی تھے وہ بھی ان دنوں زندانی تھے میجر اسحاق انہیں فیض کا تازہ کلام بھیجا کر تے تھے میجر صاحب انہیں جیل سے بھیجے ہوئے ایک اور خط میں لکھتے ہیں ۔
’’ زندان نامہ میں فیض صاحب نے حق و باطل کی اس ہو لناک جنگ میں بہادروںکی بہادری کے وا قعات کا تذکرہ شروع کر دیا ہے اس کی ابتدائ وہ دست صبا ہیں ، ایرانی طلبہ کے نام لکھ کر کر چکے ہیں لیکن ابھی تک انکی یہ عادت پوری طرح نہیں گئی کہ وہ آتش فشاں پہاڑ کے دھوئیں کے پہلے مر غولہ کو ہی لے بیٹھتے ہیں اور جب یہ دھواں ہوا کہ جھونکوں سے چشم زدن میں تتر بتر ہو جاتے ہیں اور جب اسے ساحل کی ریت میں جذب ہوتا دیکھتے ہیں تو فرطِ درد سے بے حال ہوجاتے ہیں یا بڑھتے ہوئے لشکر کے سب سے اگلے سکا ئوٹ کھیت ہوجاتے ہیں تو ان کو تڑ پتا دیکھ کر تمام نظام کا ئنات کو آگ لگا دینا چاہتے ہیں ایسے درد کی فرا وانی ہر دل کا خاصہ ہوتی ہے لیکن اگر آتش فشان کی زمیں دوز گرج کر سنا جائے اور اس کے چند لمحوں میں ابلنے والے کر وڑوں من لا وا ہے کا تصور کیا جائے یا پہلی لہر کے پیچھے بپھرے ہوئے بے کنار سمندر کا خیال کیا جائے تو دھو ئیں کے پہلے مر غولہ کے بکھیر ے ہوئے طوفان کی پہلی لہر کے جذب ہوجانے اور سکائوٹون کے مر ٹے میں درد و غم کا جگہ مجا ہدانہ تڑ پ آجاتی ہے ۔ ان تینوں کی موت پر زور دھونے کی بجائے ان کی یادگاربنانے کو جی چاہتا ہے وہ عشق و محبت کے پہلے کشتے ہی نہیں فتح کے بانی بھی ہیں اور ان کی مو ت زندگی کا رس ہے فیض صاحب کا کینوس ذرا اور وسیع ہوجائے تو بلاشبہ ہمارے گور کی بن جائیں گے ‘‘
میجر صاحب کے خطوط کے جواب میں سجاد ظہیر نے مچھ جیل بلو چستان سے جو خط لکھا اس میں وہ فیض کے کلام کی تعریف کرتے ہیں لیکن میجر اسحاق کے اعتراض سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’تم نے اپنے گز شتہ خط میں اس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اب انہیں ہمت کر کے ایک جست لگانے چاہیئے تاکہ انکی شاعری میں خوشبوئوں اور گل بینر یوں کے علاوہ خلق خدا کے اس مبارک پسینے اور خون کو آمیز ش بھی ہو جس سے فی الحقیقت زندگی بنتی ، بدلتی اور سنورتی ہے میں اس خیال سے بالکل متفق ہوں البتہ میںانہیں ایسا کرنے کے لئے دھکا نہیں دینا چاہتا میرا خیا ل ہے وہ خود اس نکتہ کو سمجھتے ہیں ‘‘
سجا د ظہیر فیض کے سینیٹر ساتھی اور استاد تھے وہ فیض کی بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے اسی خط کے آخر میں لکھتے ہیں ۔
’’ شاید چونکہ موسم بہار کا ہے اس لئے ہمیں ’’ گلوں میں رنگ بھرے باد ِ نو بہار چلے ‘‘ والی غزل سب سے اچھی لگی اس شعر کی تعریف نہیں ہوسکتی
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پر آئینگے غمگسا ر چلے
جس غزل کو تم نے وا سوخت کا عنوان دیا ہے وہ بھی اپنے رنگ میں خوب ایک ایک شعر نشتر ہے کس کس کی تعریف کریں خاص طور پر یہ شعر
گر فکرِ زخم کی تو خطا کا رہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدحِ خوبی ئِ تیغِ ادا نہ تھے
اسکی داد تو فیض مرزا نوشہ ﴿یعنی مرزا غالب﴾ سے بھی لے لیتے
آپ سمجھتے یا نہیں کہ سجاد ظہیر نے اس شعر پر مر زا نو شہ یعنی مرزا غالب کا نام کیوں لیا ہے کہا جاسکتا ہے کہ مر زا غالب کا نام لے کر بین السطور وہ یہ بتا نا چاہتے تھے کہ یہ خیال مر زا غالب کا ہے اور اسی خیال کو انداز بدل کر پیش کیا گیا ہے ۔ غالب کا شعر ہے ۔
نظر لگے نہ کہیں اسکے زور بازو کو
یہ لو گ کیوں مر ے زخم جگر کو دیکھتے ہیں
دیکھا آپ نے خیال ہی ہے محبوب زخم لگا تا ہے بڑا گہرا گھائو ہے فیض کہتے ہیں مجھ سے خطا ہوگئی کہ میںنے زخم دیکھ کر فکر کرنے لگا کہ یہ مندمل کیسے ہوگا حالانکہ محبوب کو یہ تو قع تھی کہ مجروح زخم دیکھ کر تلوار کے وار کی تعریف کر یگا ۔ شعر سے فیض کی فطر ی کمزور دلی جھانک رہی ہے مگر غالب کا حوصلہ دیکھئے کہ وہ کہتا ہے کہ زخم اتنی مہارت سے لگایا گیا ہے کہ لوگ مجروح سے ہمدردی کی بجائے زخم لگانے والے کے زور باز و کی تعریف کر نے پر مجبو ر ہوجا ئینگے اور اندیشہ ہے کہ کہیں اس کے زور بازو کو نظر نہ لگ جائے ۔ زخم کی کوئی فکر نہیں یہ اندیشہ ستارہا ہے کہ کہیں اسے تکلیف نہ آجائے اور وہ پھر ایسا زخم لگانے سے عاجز نہ ہوجائے ۔ خیریہ تو ایک ضمنی بات تھی جس سے اس بیان کوتقویت ملی ہے جس میں یہ بتا یا تھا کہ فیض کے ذہن پر غالب چھایا ہوا ہے ۔ہاں تو میں کہہ رہا تھاکہ ترقی پسند ساتھیوں نے بھی فیض کو مثالی ترقی پسند شاعر کا مقام نہیں دیا اور ان سے توقع کی کہ وہ انقلابیوں کا مر ثیہ لکھنے کی ادا سے آگے بڑھ گا مگر میں کہتا ہوں کہ فیض کی اصل شاعری تو نقش فریادی دست صبا اور زندان نامہ میںہی آگئی ہے۔بعد کی شاعری میں تو وہ اپنے آپ کو ہی دہرا تا رہا اس لئے بعد کی شاعری میں بمشکل ایک آدھ نظم ہی خوبصورت ملتی ہے ۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہرحال میں نہ تو شاعر ہوں اور نہ ہی بہت زیادہ شعرا کو پڑھا ہے کہ اس پر کوئی رائے دے سکوں۔ میرے ذہن میں جو بات آئی وہی میں نے کہہ ڈالی۔ باقی اس فورم پر کافی پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو کہ informed opinion دے سکتے ہیں۔

اگر آپ کا یہ حال ہے تو سوچیں کہ میرا کیا ہو گا، میں تو سب سے کم عمر اور کم علم ہوں، نا تجربہ کار ہوں۔
بہر حال پھر بھی مجھے یہ مضامین تنقیدی سے زیادی تنقیصی لگے ہیں۔
استادِ محترم الف عین صاحب
محمد وارث صاحب
فاتح صاحب
احمد بلال بھائی
شاکرالقادری صاحب
طارق شاہ صاحب
محمداحمد بھائی
مزمل شیخ بسمل بھائی
مہدی نقوی حجاز بھائی
syed Zubair صاحب
محمد خلیل الرحمٰن صاحب
سارہ بشارت گیلانی صاحبہ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہیں یار یہ کیا!!! واقعی میں ایسا ہے یا بات کو رنگ دیا گیا ہے؟ مجھے بھی دلچسپی ہے۔ میں بھی تمام شعراء و اساتذہ کی رائے کا منتظر ہوں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ہیں یار یہ کیا!!! واقعی میں ایسا ہے یا بات کو رنگ دیا گیا ہے؟ مجھے بھی دلچسپی ہے۔ میں بھی تمام شعراء و اساتذہ کی رائے کا منتظر ہوں

ہاں جی میں بھی انتظار کر رہا ہوں، اب اساتذہ کا انتظار کرتے ہیں، انہیں ٹیگ کر دیا ہے میں نے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محمد بلال اعظم ان مضامین میں ایسا کیا ہے کہ جنھیں آپ ماننے کو تیار نہیں؟

میرا مسئلہ وہی ہے جو ذیشان صاحب نے بیان کر دیا ہےیعنی ادبی سرقہ اور واوین کا چکر:


یہ تو ہر قاری کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اس مضمون سے یہ بات تو بہرحال ثابت نہیں ہوتی کی فیض نے جان بوجھ کر واوین نہیں لگائے۔ یہ بعید از قیاس ہے کیونکہ فیض جیسے پڑھے لکھے انسان کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ واوین نہ لگانا plagiarism کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اتنے نامی گرامی شاعر اور اتنے پڑھے لکھے آدمی سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔​
اگر میں اور آپ اس طرح کا کام کریں تو سمجھ بھی آتی ہے کہ ہم لوگ اس معیار کی شاعری نہیں کر سکتے جس کی فیض میں صلاحیت تھی اور وہ ان کی تخلیقات سے عیاں ہے۔ ان کو بھلا کیا ضرورت تھی یہ سب کچھ کرنے کی۔​
دوسرے شاعروں کے مصرعے اپنی نظموں میں شامل کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ عام طور پر ان مصرعوں کے نئے معانی اور نئے پہلووں کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی ظاہری خرابی نہیں ہے۔​
اس بنا پر ان کو ڈاکو کہنا کافی ذیادتی معلوم ہوتی ہے۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ تو ہر قاری کا اپنا نقطہ نظر ہے۔ اس مضمون سے یہ بات تو بہرحال ثابت نہیں ہوتی کی فیض نے جان بوجھ کر واوین نہیں لگائے۔ یہ بعید از قیاس ہے کیونکہ فیض جیسے پڑھے لکھے انسان کو بخوبی اندازہ ہو گا کہ واوین نہ لگانا plagiarism کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اتنے نامی گرامی شاعر اور اتنے پڑھے لکھے آدمی سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اگر میں اور آپ اس طرح کا کام کریں تو سمجھ بھی آتی ہے کہ ہم لوگ اس معیار کی شاعری نہیں کر سکتے جس کی فیض میں صلاحیت تھی اور وہ ان کی تخلیقات سے عیاں ہے۔ ان کو بھلا کیا ضرورت تھی یہ سب کچھ کرنے کی۔
دوسرے شاعروں کے مصرعے اپنی نظموں میں شامل کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ عام طور پر ان مصرعوں کے نئے معانی اور نئے پہلووں کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی ظاہری خرابی نہیں ہے۔
اس بنا پر ان کو ڈاکو کہنا کافی ذیادتی معلوم ہوتی ہے۔
اصل حقیقت تو مزید تحقیق سے ہی سامنے آ سکتی ہے لیکن مین اس تحریر کو من و عن قبول نہیں کر سکتا۔
ڈاکو کی بجائے قزاق زیادہ ادبی اصطلاح ہے (y)
 

فاتح

لائبریرین
میرا مسئلہ وہی ہے جو ذیشان صاحب نے بیان کر دیا ہےیعنی ادبی سرقہ اور واوین کا چکر:
واوین نہ لگانا بہرحال چوری ہی کہلاتی ہے لیکن چونکہ ہمیں بچپن سے فیض فیض فیض فیض کا وظیفہ پڑھایا جاتا رہا ہے لہٰذا ہمارا دماغ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں۔
حتیٰ کہ ہم نے بھی منصور آفاق بھائی کے تنقیدی مضامین جب پہلی مرتبہ پڑھے تو ہمارا رد عمل بھی یہی تھا کہ "اماں سٹھیا گئے ہیں یہ منصور بھائی۔۔۔" لیکن جوں جوں غور کرتے گئے یہ حقیقت عیاں ہوتی گئی کہ فیض کے ہاں بے شمار ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو قابلِ گرفت ہیں۔
  • منصور بھائی کی ویب سائٹ پر تنقیدی مضامین کا سیکشن دیکھیں۔
  • مشمولہ علامت، لاہور، جلد دوم، شمارہ دہم، اگست 1991 میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا مضمون "جدید اردو نظم اور فیضؔ" چھپا تھا، جس مین انھوں نے فیض احمد فیضؔ کی بے شمار عروضی اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔
  • محمد باقر شمس کی کتاب "شعور و شاعری" میں بھی دیگر کئی شعرا کے علاوہ فیض احمد فیضؔ کے کلام پر بھی اصلاحیں دی گئی ہیں۔
  • آغا شیدا کاشمیری نے بھی اپنی کتاب "میزانِ شعر" میں بھی کئی شعرائے کرام کی کتب کے اشعار پر اعتراضات کیے ہیں اور ان پر بے طلب اصلاحات دی ہیں، جن میں فیض کی "نقش فریادی" اور "دستِ صبا" سرِ فہرست ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
واوین نہ لگانا بہرحال چوری ہی کہلاتی ہے لیکن چونکہ ہمیں بچپن سے فیض فیض فیض فیض کا وظیفہ پڑھایا جاتا رہا ہے لہٰذا ہمارا دماغ اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہیں۔
حتیٰ کہ ہم نے بھی منصور آفاق بھائی کے تنقیدی مضامین جب پہلی مرتبہ پڑھے تو ہمارا رد عمل بھی یہی تھا کہ "اماں سٹھیا گئے ہیں یہ منصور بھائی۔۔۔ " لیکن جوں جوں غور کرتے گئے یہ حقیقت عیاں ہوتی گئی کہ فیض کے ہاں بے شمار ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو قابلِ گرفت ہیں۔
  • منصور بھائی کی ویب سائٹ پر تنقیدی مضامین کا سیکشن دیکھیں۔
  • مشمولہ علامت، لاہور، جلد دوم، شمارہ دہم، اگست 1991 میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا مضمون "جدید اردو نظم اور فیضؔ" چھپا تھا، جس مین انھوں نے فیض احمد فیضؔ کی بے شمار عروضی اغلاط کی نشان دہی کی ہے۔
  • محمد باقر شمس کی کتاب "شعور و شاعری" میں بھی دیگر کئی شعرا کے علاوہ فیض احمد فیضؔ کے کلام پر بھی اصلاحیں دی گئی ہیں۔
  • آغا شیدا کاشمیری نے بھی اپنی کتاب "میزانِ شعر" میں بھی کئی شعرا کرام کے اشعار پر اعتراض کیے ہیں اور ان پر بے طلب اصلاحات دی ہیں، جن میں فیض کی "نقش فریادی" اور "دستِ صبا" سرِ فہرست ہیں۔


فاتح بھائی اگر ایسا ہے تو (بلکہ ایسا ہی ہوگا) تو پھر یہ سب کیا فیض کی زندگی میں سامنے نہیں آیا، اس دور میں بھی کافی بڑے بڑے نام تو موجود تھے ہی۔ بلکہ آج سے بھی بڑے شعارء موجود اس وقت تو۔
 
Top