غزل
بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا
ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا
ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا
منیر نیازی
غزل
چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں، مِرے خواب کہاں آتے ہیں
مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو، اب خواب کہاں آتے ہیں
تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر، بھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں
قتیل شفائی
روز رات چھوٹی پڑ جاتی ہے
کام ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتے
روز دن کم لگنے لگتا ہے
کام ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے
میں مسلسل دوڑ رہا ہوں
میرے ہاتھوں میں کئی گیندیں ہیں
جن کو گھمانا بھی ہے
اور ساتھ ساتھ چلنا بھی ہے
اب میں ایسے چلتے چلے جانے کا عادی ہو گیا ہوں
میں نے خود سے عہد کیا ہے
کہ آنے والے پانچ سال میں
آنے والی ساری زندگی کی تقدیر بدل دوں گا۔
اس لئے اب روز رات چھوٹی پڑ جاتی ہے
اور دن کم لگنے لگتا ہے
اور کام ختم ہی نہیں ہوتے
مشاعرہ ہماری تہذیبی روایت ہے۔ یعنی روایت ہے کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا علمبردار ہوا کرتا تھا۔ یہاں دروغ بر گردن راوی کا گھسا پٹا جملہ شاملِ تحریر کر دینا خلاف عقل نہ ہوگا کہ راوی کے نامہٴ سیاہ میں جہاں معصیت کے اتنے انبار لگے ہیں، وہاں ایک اور سہی۔
بھلے وقتوں میں مشاعروں میں جو کلام پڑھا جاتا تھا اس کی کچھ یادگار یوٹیوب پر نہیں ملتی۔ نہ ہی متشاعروں کے دیوان ہی چھپ کر آج کی نسل تک پہنچ سکے۔ رہ گیا استاد شعراء کا کلام تو ایک مشاعرے میں ایک آدھ ہی استاد شاعر (دوسرے اساتذہ سے کرسیِ صدارت کی جنگ جیت …
غزل
دلوں میں زہر تھا کینہ شُمار کرتے رہے
برہنہ لفظ کے خنجر سے وار کرتے رہے
سُخن وری تو فقط بر طرف تکلف تھا
خدنگِ سب و شتم سے شکار کرتے رہے
نہ ہم سفر نہ کوئی دوست تھا نہ ہم سایہ
سو اپنے آپ سے شکوے ہزار کرتے رہے
بچا ہی کیا تھا بجز تار دامنِ دل میں
اُس ایک تار کو ہم تار تار کرتے رہے
کہیں نہیں تھا کوئی جس کو کہ سکیں اپنا
کسے بُلانے کو ہم یار یار کرتے رہے
اثاثہ کوئی نہ تھا ، مُفلسی مسلط تھی
بدن کی مٹّی تھی ہم جس کو خوار کرتے رہے
بچھڑنا ملنا مقدر کا کھیل تھا مسعود
وگرنہ عشق تو ہم بار بار کرتے رہے
…
غزل
کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس
ایک بستی میں کسی شہرِ خوش آثار کے پاس
دِن نِکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ جیسے سورج
صُبحِ روشن کی امانت ہو شبِ تار کے پاس
دیکھیے کُھلتے ہیں کب، انفس و آفاق کے بھید
ہم بھی جاتے تو ہیں اِک صاحبِ اَسرار کے پاس
خلقتِ شہر کو مُژدہ ہو کہ، اِس عہد میں بھی
خواب محفوظ ہیں اِک دِیدۂ بیدار کے پاس
ہم وہ مُجرم ہیں کہ آسودگیِ جاں کے عِوَض
رہن رکھ دیتے ہیں دِل درہَم و دیِنار کے پاس
کسی گُم گشتہ مُسافر کی دُعاؤں کا اثر
منزلیں گرد ہو ئیں جادۂ ہموار کے پاس
دِل کی …
قارئین آج ہم بات کررہے ہیں ناک سے جڑی ایک بہت ہی کامن ڈیزیزسائنو سائٹس سے متعلق ، سائنو سائٹس کیا ہے اس کی علامات کیا ہیں اور اس کا علاج کیا ہوتا ہے
قارئین سائنو سائٹس ایک بہت ہی کامن ڈیزیز ہے، آج کل چاہے بچے ہوں بزرگ ہوں یا مردو خواتین ہوں سب میں یہ ایشو بہت زیادہ کامنلی دیکھنے کو مل رہا ہے ، میرے کلینک میں آپ سمجھ لیں کہ آئے دن دوچار پیشنٹس سائی نس ریلیٹڈ یا الرجک ریلیٹڈ آتے ہی ہیں تو آج میں آپ کو کچھ ڈیٹیل میں بتائوں گا کہ کیا ہوتا ہے سائی نس اور کیا ہوتی ہے سائنو سائٹس اوران کے پیچھے …
سلطنت عمان کا سلطان "قابوس بن سعید رحمۃ اللہ علیہ" کا پروٹوکولز کے بارے میں اپنا خاص نظریہ تھا۔ وہ زندگی بھر کسی شخصیت کے استقبال کیلیئے ہوائی اڈے نہ گئے۔ مگر ان کی یہ عادت اُس وقت ٹوٹ گئی جب انہوں نے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما کا ہوائی اڈے پر جا کر استقبال کیا۔
حکومتی اراکین اور عہدیداران اس بات پر حیران و پریشان تو تھے ہی صحافیوں کیلیئے بھی یہ سب کچھ انوکھا اور حیرت و تعجب کا سبب بن گیا تھا۔
سلطان قابوس انڈین صدر سے اس کے جہاز میں کرسی پر سے اٹھنے سے پہلے ہی جا کر گلے ملے، اس کے ساتھ ہی …
قوس و قزح
سورج کی شعائیں جب آسمان پر موجود پانی کے قطروں سے گزرتی ہیں تو منعکس ہو کر ست رنگی رنگوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ ایسا ہونا تبھی ممکن ہوتا ہے اگر بادل برس کر جا چکے ہوں یا سورج کی شعاؤں کو اند ر آنے کا راستہ دے چکے ہوں۔ ریاضی دانوں نے Mathematical derivationسے اس کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں روشنی ،پانی کے قطروں میں ایک مخصوص angle سے گزر کر شعاؤں کے منعکس ہونے کے عمل سے دھنک کے رنگ تشکیل پاتے ہیں۔
نظام کائنات کی یہی خوبی ہے کہ اس میں داخل ہونے والی روشنی اور خارج ہونے والی …
منجانب فکرستان :غوروفکر کے لئے
زندگی جسم اور روح کا مرکب ہے۔ زمین پر ان دونوں کی موجودگی اسباب سے منسلک ہے ۔ جو کہ ہوا پانی روشنی سے وابستہ ہےجس کے لئے صبح اٹھتے ہیں اور رات گئے سوتے ہیں۔ روح جب تک جسم سے تشنگی لیتی ہے تو زمین سے جڑی رہتی ہے۔ جب وہ اسے قید محسوس کرے تو پھر وہ پرواز کرتی ہے۔ اس کی پرواز ہے کیا۔ سوچنے سمجھنے کے لئے وہ علم کے روائتی فلسفہ کی بجائےحقیقت شناسی کے راستے پر گامزن ہو جاتی ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ زمین سورج کے گرد 365.25 دنوں میں چکر مکمل کرتی ہے۔ چارموسم ہیں، ہر موسم کا الگ الگ پھل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے …
سڑک کنارے کھڑی موٹر سائیکل ایمبولینسیں، لوگوں کا ایک چھوٹا سا ہجوم، اور رُک رُک کر چلتی ٹریفک۔ نہر والی سڑک پر یہ منظر روز مرہ کا معمول ہے البتہ پاس سے گُزرتے ہوئے موٹرسائیکل آہستہ کر کے کسی سے یہ پوچھنا کہ "بندے بچ گئے ہیں؟" بھی ہمارا روزمرہ کا معمول ہی ہے۔
لیکن اُس روز جب ہم ایک ایسے ہی مجمعے کے پاس سے ایسے ہی پوچھ گچھ کرنے کیلئے آہستہ ہوئے تو ہم نے ایک ایسا منظر دیکھا جسکے بعد ہم مجبورا موٹر سائیکل ایک جانب کھڑی کر کے مجمع کا حصہ بن گئے۔
سڑک پر ایک بھیجا دھرا ہوا تھا اور اسکے پاس ایک زخمی …
قرآن میرا مرشد اور قرآن ہی میری رہنمائی ۔ قرآن ہی میرا راستہ اور قرآن ہی بخشش کا ذریعہ۔ قرآن ہی میرا مقصد اور قرآن ہی میرا مطلوب۔قرآن ہی میری نظر اور قرآن ہی میری عنایت۔ قرآن ہی میری دنیا اور قرآن ہی میری آخرت۔قرآن ہی میری رضا اور قرآن ہی میری جزا۔
جب آنکھیں بند کر کے سر جھکا دیا مالک کے حکم پر تو زندگی سے کیا اب بھیک مانگیں۔دنیا کے پاس دینے کے لئے کیا،کتابوں سے اُٹھتا ہوا دُھواں جو خواہشات سے جلتا ہے۔ آنکھیں بند کر کے دل کی طرف رجوع کر کے اللہ کو پکاریں تودل ذکر سے منور ہو۔ جنہوں نے عمل …