Poster

anwarjamal

محفلین
،،، پوسٹر ،،، تحریر ؛ انور جمال انور

معاملہ اتنا گھمبیر تھا کہ ان چاروں کو ٹیوشن کے فوری بعد سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا۔ قریبی سینما ہاوس نے پہلی بار ان کے گاوں کے مین روڈ پراپنا فلمی پوسٹر لگایا تھا۔ اس گائوں کی عورتیں اور لڑکیاں انتہائی پردہ دار تھیں مگر اس انگلش فلم کے پوسٹر پر ایک بے پردہ خاتون اپنے حسن کی بجلیاں ہر راہ چلتے پر گراتی ہوئی ہنس رہی تھی
ان چاروں کے لیے یہ صورتحال ناقابل برداشت تھی ، وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ان میں سے ایک لڑکا توصیف کافی بڑی عمر کا تھا ، اس نے کہا ،، زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں ،، چلو وہیں چلیں اور اس پوسٹر کو پھاڑ دیں ،،
چاروں میں سے ایک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،، مگر کسی نے ہمیں دیکھ لیا تو؟
سینما والوں کو بتا دیا تو ؟
تو کیا ؟ توصیف نے بے خوفی سے پوچھا
ڈرپوک لڑکے نے جواب دیا،، ہم لوگوں کی نظر میں آجائیں گے ،، اس طرح یہ بات ہمارے گھر والوں تک پہنچ جائے گی ، میرے ابو کو پتہ چلا تو بہت ماریں گے
،،، کیوں ماریں گے ؟ توصیف بولا ،، کہہ دینا کے ہم نے نیکی کی ہے ،، سوچو اگر سینما والوں کو ہم نے نہ روکا تو ہر ہفتے وہ اس طرح کے پوسٹر لگائیں گے ،، ہماری مائیں بہنیں انہیں دیکھیں گی ،، یہ بے غیرتی ہو گی اور ہم بے غیرت نہیں ہیں،،
یہ سن کر وہ سب جوش میں آگئے ،، طے یہ پایا کہ رات کے اندھیرے میں وہ پوسٹر پھاڑ دیا جائے
شدت سے رات بھیگنے کا انتظار ہونے لگا ،، توصیف کسی بہانے اپنے گھر سے سیڑھی بھی لے آیا کیونکہ پوسٹر کافی اونچائی پر تھا
وہ چاروں وقت مقررہ پر اس پوسٹر والے کھمبے کے پاس پہنچے،، ایک اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں انہوں نے پوسٹر کا دوبارہ جائزہ لیا ،،
توصیف پوسٹر پر چھپی ہوئی اس عورت کو دیکھ کر ایک بار پھر حیران رہ گیا جسے اپنے گریبان کے چاک ہو جانے کا کوئی غم نہیں تھا الٹا وہ مسکرا مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی
توصیف نے سیڑھی لگائی ،، ایک لڑکا اوپر چڑھا ،، اس نے بڑی بہادری سےاس پوسٹر کو دو تین جگہ سے پھاڑا اور نیچے پھینک دیا
اپنے اس فعل پر ان چاروں کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے اور انہیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ابھی ایک پولیس کی گاڑی آئے گی اور انہیں گرفتار کر کے لے جائے گی ،،،
کام ہوتے ہی چاروں اپنے گھروں کی جانب تیزی سے بھاگے ، توصیف گھر پہنچا توسیڑھی اٹھا کر بھاگنے کے سبب ہانپ رہا تھا ، وہ یہ سوچ کر گھر سے باہر نکل گیا کہ اگر اماں نے دیکھ لیا تو اس سے ہانپنے کی وجہ ضرور پوچھے گی ، وہ گلی میں ایک چبوترے پر بیٹھ کر اپنی سانسیں درست کرنے لگا ،،
کل تک یقینا سینما کے مالک کو پتہ چل جائے گا کہ اس محلے کے لوگ ایسے نہیں ہیں ، یہاں بے حیائی پھیلانے کی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی ،، اس نے سوچا ،، پھر اسے اس پوسٹر والی عورت کا خیال آیا اور وہ خیال دیر تک اسے آتا رہا ،
جب سے اس عورت کو اس نے دیکھا تھا تب سے وہ ذہنی ابتری کا شکار تھااور اب پوسٹر کے ٹکڑے کرنے کے باوجود وہ بے چینی محسوس کر رہا تھا ، وہ اٹھا اور بے مقصد چلنے لگا ، جب وہ کھمبے کے پاس دوبارہ پہنچا تو اپنے آپ سے پوچھے بنا نہیں رہ سکا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے ؟
ممکن ہے دل کے کسی تاریک گوشے سے کوئی آواز ابھری ہو ،، اس نے زمین پر پڑے ہوئے پوسٹر کے ٹکڑوں کو دیکھا اور آگے بڑھ کر اس ٹکڑے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا جس میں اس عورت کی تصویر تھی ۔
اس نے وہ ٹکڑا تہہ کر کے جیب میں رکھا اور چل پڑا
 
Top