KFC کی کہانی

آپ نے KFC سے چکن تو بہت شوق سے کھایا ہوگا۔یہ ایک امریکی ریسٹورنٹ ہے جو کہ دنیا بھر میں اپنی بھنی ہوئی مرغیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔امریکہ کی ایک گمنام ریاست کنٹیکی سے تعلق رکھنے والے کرنل سینڈرز نے اس کی بنیاد رکھی ۔9 ستمبر1890ءکو ایک غریب گھر میں پیدا ہونے والے سینڈرزکے والد اس وقت انتقال کرگئے جب وہ ابھی چھ سال کے تھے۔لہذا اب اس کی والدہ کو کام کرکے گھر کا چولہا چلانا پڑتا تھا جبکہ سینڈرز گھر میں رہ کر اپنے دوچھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنے لگااور اس دوران وہ مختلف طرح کے کھانے بھی بنانے لگا۔
صرف 10سال کی عمر میں اس نے ایک فارم ہاﺅس پر کام کرنا شروع کیا اور اس کی ماہانہ آمدن2ڈالر (موجودہ55ڈالر) تھی۔ 15سال کی عمر تک وہ گلیوں میں مختلف طرح کے کام کرنے لگااور 16سال کی عمر میں آرمی میں شامل ہونے کے لئے غلط کاغذات بھی بناڈالے۔اسے کیوبا بھیج دیا گیا لیکن صرف تین ماہ بعد اسے نوکری سے فارغ کردیا گیااور وہ ریاست الاباما میں آکر اگلے 20سال تک مختلف طرح کی نوکریاں کرنے لگا۔اس نے ریل روڈ،انشورنس سیلزمین،وکیل، کشتی چلانے والے،ٹائربیچنے والا سیلزمین اور اس طرح کے کام کرتا رہا۔1930ءمیں امریکہ میں مالی بحران کی وجہ سے وہ کافی پریشان ہوا لیکن پھر اپنی فیملی کے ساتھ کینٹیکی کے شہر کوربن آگیا جہاں اس نے شیل کے ایک پمپ پر کام کرناشروع کیاجہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوگیا ۔پٹرول پمپ کی بیشتر سیلز کابڑا حصہ شیل کو چلا جاتا تھا اور اس کے لئے جینا مشکل ہوتا گیا۔چونکہ یہ پمپ ایک ہائی وے پر تھا اس لئے سینڈرزکا کہنا ہے کہ اسے احساس ہوا کہ کئی لوگ اس کے سٹیشن پر بھوکے آتے تھے اور اگر وہ انہیں کھانے کے لئے کچھ دے تو اسے کچھ منافع ہوسکتا ہے لہذا اس نے فرائڈ چکن،انڈے،سٹیکس وغیرہ بنانے لگا اور اسے بہت ۔۔۔۔۔۔زیادہ فائدہ ہونے لگا۔اس کا کاروبار اس قدر تیزی سے ترقی کرنے لگا کہ اس نے نزدیک ہی واقع موٹل کو 142سیٹوں والے ریسٹورنٹ میں تبدیل کردیاجہاں لوگ آکر کھانے سے لطف اندوز ہونے لگے۔بہت زیادہ کسٹمرز کی وجہ سے اس کھانا بنانے میں مشکل پیش آتی تھی لیکن ایسے موقع پر اسے پریشر ککر‘مل گیا اور جس نے اس کے کاروبار کو مزید چمکا دیا۔ اب اس کا ریسٹورنٹ ریاست کنٹیکی کا کامیاب ترین ریسٹورنٹ تھالیکن بدقسمتی سے1939ءمیں اس کے ریسٹورنٹ کو آگ لگ گئی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور صرف ایک سال بعد اس کا ریسٹورنٹ پھر تیار تھا۔لیکن اب اسے ایک نئی مشکل درپیش تھی،جس ہائی وے پر اس کا ریسٹورنٹ تھا،اسے تبدیل کردیا گیا اور لوگ نئی ہائی وے پر گزرنے لگے۔سینڈرز ایک بار پھر مشکل میں تھا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنا تمام سامان فروخت کرکے قریہ قریہ سفر کرنے کے لئے نکل پڑا۔62سال کی عمر میں وہ اپنی گاڑی میں جگہ جگہ سفر کرتا تھا اور مختلف لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ اگر اس کی ریسپی استعمال کی جائے تولوگ کافی اسے پسند کریں گے۔ آخر کاراسے پہلی کامیابی1952ءمیں ہوئی جب ریاست یوٹا کے شہر سالٹ لیک میں Pete Harmonنے سینڈرز سے معاہدہ کیا اور دنیاکی پہلی KFCکی برانچ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔1959ءتک سینڈرز نے امریک اور کینیڈا میں 200سے زائد اسی طرح کے معاہدے کئے۔اس دوران سینڈرز نے موجودہ کپڑوں والی تصویر بنائی جو کہ دنیا بھر میں بہت مقبول ہوئی۔اس کی کمپنی اس قدر مقبول ہوچکی تھی کہ 1964ءمیں اس نے اپنی کمپنی 2ملین ڈالر (موجودہ15ملین ڈالر) میں فروخت کردی۔اس کے بعد وہ دنیا بھر میں سفر کرتا رہا اور اپنی چکن بنانے کی ترکیب پر بات کرتا تھا۔اس کاانتقال90سال کی عمر میں 1980ءمیں ہوا۔
مآخذ
 

ابن توقیر

محفلین
محنت،لگن،مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت یعنی کچھ کرجانے کا جذبہ یا اہلیت،کسی انسان کو دوسروں سےالگ،ایک خاص مقام عطا کرتی ہے۔
 

ابن توقیر

محفلین
لَک بھی لُک کرتی ہے۔۔۔
اور جہاں موقع ملا اپنا کام دکھا دیتی ہے!!!
جی بالکل،پر یہ ہے کہ اپنے حصے کا قدم اٹھانے کے بعد قسمت پر چھوڑ دیا جائے تو بہترین ہے۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ یہاں بغیر کسی خاص محنت یعنی "ایکسٹرا ایفرٹ" کے قسمت پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔سمائلس
 
مجھے اس کہانی میں ابتدائی ناکامیوں کے باوجود کوشش کرتے رہنے کی عادت نے زیادہ متاثر کیا۔ کیونکہ مایوس ہوجانے کے بعد ہمت ہار جانے سے تو کہانی ختم ہوجاتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
مجھے اس کہانی میں ابتدائی ناکامیوں کے باوجود کوشش کرتے رہنے کی عادت نے زیادہ متاثر کیا۔ کیونکہ مایوس ہوجانے کے بعد ہمت ہار جانے سے تو کہانی ختم ہوجاتی ہے۔
لیکن پھر بھی آپ تحریک انصاف کی ناکامیوں سے متاثر نہیں ہیں
 
محنت لگن اور ہمت اور حوصلہ ہی انسان کو بلندیوں تک لے جاتاہے ۔۔اور ادھر ہمارے ملک کے شہزادے ہیں کہ ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور انکا خیال ہوتا ہے کہ آسمان سے سونے کی ٹڈیوں کی بارش ہوگی اور وہ راتوں رات امیر ہو جائیں گے ۔۔بھائی کچھ پانے کے لیے کچھ بننے کے لیے مشقت اٹھانی پڑتی ہے ۔ خیالی پلاؤ پکانے والے اور خیالی محلوں کے تانے بانے بننے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا وقت کی مار پڑتی ہے تو پھر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ۔۔اور پھر انکے دل سے آہیں نکلتی ہیں اور منہ سے صدائیں کاش ہم نے وقت سے فائدہ اٹھایا ہوتا ہم نے بھی تھوڑی مشقت برداشت کی ہوتی ۔۔اور آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی ۔۔۔
 
Top