____ بڑا آدمی____

anwarjamal

محفلین
جب وہ تیسری کلاس میں تھا تو ایک دن اس کے تخیلات کی دنیا میں عظیم حادثہ ہوا
وہ گھر سے پانچ روپے کی دہی لینے نکلا تھا جب اسے پیچھے سے کسی نے پکارا
ارسلان ،،،
اس نے پلٹ کر دیکھا ،اس کا ایک کلاس فیلو سہیل اپنے پاپا کے ساتھ موٹرسائیکل پر آ رہا تھا..
اس پکار کا کوئی مقصد نہیں تھا سوائے یہ کہ سہیل جتانا چاہتا تھا کہ دیکھو میں اپنے پاپا کے ساتھ بائیک پر گھوم رہا ہوں.
بچے تو آخر بچے ہیں ذرا ذرا سی بات پر فخر محسوس کرنے اور کرانے لگ جاتے ہیں ،،

صفحہ نمبر 2

یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر جب سہیل نے کہا ،، پاپا اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیں یہ میرا دوست ہے اور پاپا نے بھی واقعی گاڑی روک دی تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ،،
جلدی آؤ ارسلان ،جلدی بیٹھو ،،سہیل نے اسے بلایا ، بہت مزہ آئے گا ، ،
اسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ بائیک پر کس طرح سوار ہوتے ہیں ،، اس نے گھبراہٹ میں اندھا دھند چڑھنا چاہا اور پھسل کر گرا ،،
بالآخر سہیل کے پاپا نے ایک ہاتھ سے اسے کھینچا اور اپنے پیچھے بٹھا لیا ،

اس دن کے بعد سے اس کا جینا مرنا موٹرسائیکل کے ساتھ جڑ گیا ،،
ماں! ابو سے بولو نا کہ موٹر سائیکل خریدیں ،
وہ ماں کی آغوش میں سر رکھ کر ضد کرتا

بیٹا ہم تو غریب لوگ ہیں ، تمہارے ابو تین ہزار کی سائکل نہیں خرید سکتے تو موٹر سائیکل کیا لیں گے ، ماں افسوس کے ساتھ کہتی

کتنے کی آتی ہے موٹر سائیکل ماں ؟ وہ معصومیت سے پوچھتا

بیٹا یہی کوئی ایک لاکھ کی ہو گی ، ماں کو خود پتہ نہیں تھا ، تاہم اس کا بہترین اندازہ یہی تھا
چل اب سو جا چپ چاپ سے ، صبح اسکول جانا ہے ، ماں اسے پیار سے ڈانٹتی
صفحہ نمبر 3

جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا اس کے اندر ،، بڑا آدمی ،، بننے کی خواہش شدید ہوتی گئی کیوں کہ ماں کی باتوں سے وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ موٹر بائیک صرف بڑے لوگوں کے پاس ہوتی ہے ، وہ لوگ جو کاروباری ہوتے ہیں ، جن کے پاس روپیہ ہوتا ہے ، وہی اس کو چلا سکتے ہیں ،

اب اس نے اپنی ماں سے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا تھا ،، ماں کاروبار کیسے کرتے ہیں ؟ روپیہ کیسے کماتے ہیں ؟ وہ روز پوچھتا

اس کی ماں اپنی سمجھ کے مطابق روز ایک نیا طریقہ بتا دیتی کاروبار کرنے کا ، مگر کوئی ایک بھی طریقہ اس کے ذہن میں نہ سمایا

اس نے رات دن اس مسئلے پر غور کیا اور بالآخر یہاں تک پہنچا کہ کسی بھی طریقے سے اسے موٹر سائیکل چلانا سیکھنا چاہئے ،
اگر وہ اسے چلانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ خود بخود بڑا آدمی بن جائے گا ، پھر اس کے پاس کاروبار بھی ہو گا اور روپیہ پیسہ بھی ،،

اب وہ ہر موٹر سائیکل والے کو غور سے دیکھنے لگا ، کک مار کر گاڑی اسٹارٹ کرنے سے لے کر کلچ چھوڑنے اور ریس دینے تک ایک ایک زاویہ اس نے نوٹ کیا ، اسے محسوس ہوا کہ یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے
صفحہ نمبر 4

وہ رات کو سوتا تو اسے خواب میں اکثر کوئی نہ کوئی بائیک مل جاتی جسے وہ مہارت سے سڑکوں پر دوڑاتا

آخر ایک دن اللہ نے اس کی سن لی

اب وہ کافی قد نکال چکا تھا لہذا اس کے ابو نے اسے ایک ایسے شخص کے حوالے کر دیا جو دکانوں میں مال سپلائی کرتا تھا ،

ارسلان کی خوش نصیبی کہ اس کے پاس ایک موٹر سائیکل بھی تھی مگر بد نصیبی یہ رہی کہ وہ خود تو اس پر بیٹھ کر نکل جاتا اور ارسلان کو بھاری بھاری سامان تھما کر کہتا کہ وہ پیدل جائے اور فلاں فلاں دکان پر یہ سب پہنچا دے ،،

اسے غصہ تو بہت آتا مگر جب کبھی وہ فارغ ہوتا تو نظر بچا کر گودام سے باہر کھڑی ہوئی بائیک پر بیٹھ جاتا اور بغیر چابی کے کک مار مار اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا

ایک دن کیا ہوا کہ گودام کا مالک. بہت تیزی میں آیا اور کچھ سامان لے کر پیدل ہی ایک طرف کو نکل گیا
صفحہ نمبر 5

ارسلان نے گودام سے باہر آ کر دیکھا ،
گاڑی کھڑی ہوئی تھی ،

یکلخت اس کا دل زور سے دھڑکا
چابی بھی لگی ہوئی تھی

اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی ،

اس نے چور نظروں سے اردگرد دیکھا ، مالک کا کہیں پتہ نہیں تھا

وہ جلدی سے اس پر سوار ہوا ، کک لگاتے ہی گاڑی اسٹارٹ ہو گئی ،

اس کا جوش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ، اس نے کلچ دبایا ، وہ گاڑی چلانے کا طریقہ ہزاروں بار دیکھ چکا تھا مگر جیسے ہی اس نے گئیر لگا کر ریس دی اور کلچ چھوڑا ،، گاڑی اڑ گئی اور وہ زمین پر آ گیا

قریب سے گزرنے والے لوگ اس پر ہنسے ، ابے جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو پنگا کیوں لیتے ہو ،، کسی نے جملہ کسا

وہ جلدی سے گاڑی کو اٹھا کر واپس اپنی جگہ پر لایا اور چوٹیں سہلاتا ہوا گودام میں گھس گیا

میں کبھی بڑا آدمی نہیں بن سکتا ،، وہ بڑبڑایا اور ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگا
صفحہ نمبر 6
لگ بھگ بیس سال بعد جب وہ یہاں سے گزرا تو اپنی ذاتی کار ہنڈا سوک میں تھا ، زرق برق لباس میں ملبوس اس کی نئی نویلی بیوی نے پوچھا ،
کیا ہوا ڈارلنگ ، گاڑی یہاں کیوں روک دی ؟ کیا تمہارے ماں باپ یہاں رہتے ہیں ، مگر یہ تو کوئی گودام لگتا ہے ،،

ہاں یہ گودام ہی ہے اسے غور سے دیکھو یہاں ایک بچہ کام کرتا تھا جسے علم نہیں تھا کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے
اس نے جواب دیا اور گاڑی آگے بڑھا دی ،،

_____________
انور جمال انور
 

شمشاد

لائبریرین
واقعی ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ اسی وقت انجام پاتا ہے۔

بہت شکریہ یہ تحریر شریک محفل کرنے کا۔
 
Top