800 یتیم بچیوں کی "ایک" ماں

بھارت میں ایک ڈاکٹر ایسی بھی ہیں جنہیں 800 یتیم بچیوں کی ماں ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔​
چالیس سال قبل ڈاکٹر سروجینی اور ان کی 8 سالہ بیٹی منیشا ایک کار حادثے میں شدید زخمی ہوئے لیکن منیشا ہمیشہ کے لئے اپنی ماں سروجونی سے بچھڑ گئی اور اس حادثے نے سروجونی پر ایسا تاثر چھوڑا کہ انہوں نے ان تمام بچیوں کی پرورش کا ذمہ لینے کا سوچا جو ماں کے پیار کو ترس رہی ہیں۔

indain_l01.jpg

بھارت کے مقامی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سروجونی نے بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے ایک گونگی اور بہری بچی کو گود لیا جس کی ماں پیدائش کے وقت ہی چل بسی تھی۔
اس کے بعد انہوں نے 2 اور بچیوں کو گود لیا اس طرح ان کے دل میں لازوال ممتا ایسی بسی کہ انہوں نے 1985 میں ’منیشا مندر‘ کے نام سے یتیم خانے کی بنیاد رکھی۔
سروجونی نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک کے بعد ایک یتیم بچی کو گود لینا شروع کیا اور اب یہ تعداد 800 تک پہنچ چکی ہے۔
سروجونی یتیم بچیوں کے کھانے پینے اور دیگر ضروری اشیاء کا خاص خیال رکھتی ہیں اور انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر غیرنصابی سرگرمیوں کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔
سروجونی کا مزید کہنا تھا کہ وہ ہر یتیم بچی میں اپنی بیٹی منیشا کا چہرہ دیکھتی ہیں اور یتیم بچیوں کی پرورش کرنے سے انہیں دل کا سکون میسر آتا ہے۔
روزنامہ جنگ
 

عرفان سعید

محفلین
یہی لوگ ہیں جن کی انسانیت نے اس زمین کو تھام رکھا ہے۔ وگرنہ ہماری بے حسی اور خود غرضی کے باعث کب کی نیست و نابود ہو چکی ہوتی۔ یہ لوگ انسانیت کا سرمایہ اور ہماری مشترکہ میراث ہیں۔
 
یہی لوگ ہیں جن کی انسانیت نے اس زمین کا تھام رکھا ہے۔ وگرنہ ہماری بے حسی اور خود غرضی کے باعث کب کی نیست و نابود ہو چکی ہوتی۔ یہ لوگ انسانیت کا سرمایہ اور ہماری مشترکہ میراث ہیں۔
بےشک بھائی ان ہی لوگوں کی بدولت دکھی اور مجبور انسانیت کو سہارا ہے۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
سروجینی ایک عظیم خاتون ہیں۔ اللہ ہم سب کو حقیقی معنوں میں خدمت خلق کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
اچھی شراکت ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
عدنان بھائی!میں نے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس میں ہمارے اپنے چھوٹے بڑے سماجی بہبود کے کاموں کا تذکرہ کرنا تھا۔وہ نمود و نمائش کے لئے نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ ہمارے اندر دوسروں کے لئے کام کرنے کی توفیق پیدا ہو۔
 
سروجینی ایک عظیم خاتون ہیں۔ اللہ ہم سب کو حقیقی معنوں میں خدمت خلق کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
اچھی شراکت ہے۔
جزاک اللہ خیرا۔
عدنان بھائی!میں نے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس میں ہمارے اپنے چھوٹے بڑے سماجی بہبود کے کاموں کا تذکرہ کرنا تھا۔وہ نمود و نمائش کے لئے نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ ہمارے اندر دوسروں کے لئے کام کرنے کی توفیق پیدا ہو۔
بہنا آپ تھوڑی وضاحت کریں کس سلسلے کا ذکر کر رہی ہیں۔
 
وہ نمود و نمائش کے لئے نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ ہمارے اندر دوسروں کے لئے کام کرنے کی توفیق پیدا ہو۔
اپنے نیک کاموں کو اگر اس نیت سے بیان کیا جائے کہ دوسروں کو نیکی کی ترغیب ملے گی تو وہ بھی ایک نیک عمل ہے اور اگر کوئی اسے نمود و نمائش کے زمرے میں لیتا ہے تو وہ خود ریاکارہے اور بد گمانی پیدا کرکے اپنا دل اور نامےاعمال کو سیاہ کر رہا ہے۔:)
 
Top