6 نومبر :اہل کشمیر پر ظلم و ستم کے ایک نئے دور کی ابتداء

ربیع م

محفلین
6 نومبر ریاست جموں کشمیر کا پاکستان سے الحاق کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے



43395069-ea2e-4a98-bb92-41ddbcb55e93-300x200.jpg

اسلام آباد: محمد نثار خان: 6 نومبر پاکستان اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے لیے تاریخی اعتبار سے بہت اہمیت کا دن ہے ، یہ دن ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان سے الحاق کے حوالے سے اہم ہے ۔
6 نومبر کا دن پاکستان ، آزاد کشمیر ، مقبوضہ کشمیر اور پوری دنیا میں مقیم کشمیری ان شہدا کی یاد میں مناتے ہیں جنہوں نے ںومبر 1947 کے اوائل میں الحاق پاکستان کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی اور پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔
نومبر 1947 میں جب کشمیری عوام نے الحاق پاکستان کے لیے بھرپور جہدوجہد شروع کی تو ڈوگرہ حکومت حواس باختہ ہو گئی اور اس نے جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے خاتمے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا، ریاست جموں و کشمیر کے کئی علاقے مسلمانوں کے خون سے رنگ گئے ، مسلمان بچیوں اور عورتوں کو اغوا کیا گیا ، آچاریہ کرپلانی جو اس وقت آل انڈیا کانگرس کے صدر تھے ، انہوں نے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا۔
جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے قتل عام کے باوجود کشمیری نوجوانوں نے نہایت بہادری سے ہندوئوں اور ڈوگرہ فوجوں کا مقابلہ کیا ،جب مکار ہندوئوں نے دیکھا کہ مسلمان کسی طور پر انکے قابو میں نہیں آ رہے تھے انہوں نے اعلان کیا کہ مسلمانوں کے پاکستان جانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں اس لئے تمام مسلمان پولیس لائن گرائونڈ جموں میں پہنچ جائیں۔
مسلمانوں کے اس وقت کے گورنر جموں سے مذاکرات ہوئے اور یہ طے پایا کہ مسلمان پاکستان ہجرت کر جائیں اور جب جموں میں حالات ٹھیک ہو جائیں تو واپس جموں آ جائیں ، اس دوران مسلمان قافلوں کی شکل میں پاکستان آنے کے لیے اکٹھے ہونے شروع ہوئے ، لیکن پاکستان آنے کے بجائے مسلمان حملہ آوروں سے شہید کرا دیئے گئے ۔
4 نومبر، 5نومبر ، 6 نومبر اور 7 نومبر 1947 کو رایست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا ، 4 نومبر کو تقریبا 4 ہزار مسلمانوں کا ایک قافلہ پاکستان کے لیے روانہ ہوا لیکن ماوا کے مقام پر مسلح افراد نے حملہ کر کے ان مسلمانوں کو شہید کر دیا ۔
اس کے بعد 6 نومبر 1947 کو 70 ٹرکوں پر مشتمل مسلمانوں کا قافلہ پاکستان روانہ ہوا لیکن اس قافلے پر بھی حملہ ہو گیا اور ستواری کے مقام پر مسلح حملہ آوروں نے اس قافلے میں شامل مسلمانوں کا خون بہایا ،7 نومبر کو پھر یہی سب کچھ دہرایا گیا ، 7 نومبر کو ظلم کی انتہا کی گئی ، مسلمان بچیوں اور عورتوں کو اغوا کیا گئے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ، 7 نومبر کو پاکستان کی جانب روانہ ہونے والے کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ، تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
اس سے قبل 20 اکتوبر 1947؁ء کو اکھنور کے مقام پر 14 ہزار مسلمانو ں کو شہید کر دیا گیا لیکن جموں کشمیر کے مسلمانوں نے ہمت نہ ہاری اور الحاق پاکستان کے جہدوجہد جاری رکھی ، نومبر 1947 میں بے پناہ شہادتوں کے بعد بھی مسلمانوں کی الحاق پاکستان کے لیے جہدوجہد تھمی نہیں ہے اور بھارتی فوج کے ہاتھوں لاکھوں مسلمانوں کے شہید ہونے کے باوجود کشمیری مسلمان اپنے دل میں الحاق پاکستان کے لیے خواہش رکھے ہوئے ہیں۔
دراصل کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے ، بانی پاکستان نے یہ بات ویسے ہی نہیں کہی تھی ، 1947 سے لیکر آج کے دن تک الحاق پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے ثابت ہوتا ہے کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہی ، یہی وجہ ہے کشمیری مسلمان الحاق پاکستا کے لیے قربانی مسلسل دے رہے ہیں ، قابض بھارتی فوج اور جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ کشمیریوں کے جزبہ آزادی اور الحاق پاکستان کی خواہش کو دبا نہیں سکی ہے ۔
اللہ کرے کشمیری قوم کو جلد بھارت سے آزادی نصیب ہو اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن سکے، تاکہ کشمیری عوام کی دی ہوئی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں اور کشمیری عوام سکھ کا سانس لے سکیں ۔

بحوالہ:http://www.saach.tv/urdu/56302/
 

ربیع م

محفلین
6 نومبر یوم شہدا جموں
کالم نگار | محمد صادق جرال



news-1446764189-9197.jpg


6 نومبر 1947ء کا دن ریاست جموں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے بہت اہمیت و افادیت کا حامل ہے یہ دن پورے آزاد جموں و کشمیر پاکستان اور پوری دنیا میں ان شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ جنہوں نے ماہ نومبر کے اوائل میں اپنی جانیں آفریں کے سپرد کیں اور یوں پوری دنیا کو بتایا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو اسلامیان جموں و کشمیر نے بے حد خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ 19 جولائی کو مسلم کانفرنس نے ریاست کے پاکستان کیساتھ الحاق کی قرار داد منظور کی اور 15 اگست کو ریاست کے ہر شہر اور ہر قصبہ میں چراغاں کیا گیا۔ جموں اور سرینگر میں پاکستان کے شہدائیوں نے جلوس نکالے اور "نعرہ تکبیر، اللہ اکبر " "نعرہ رسالت ؐ، یا رسول اللہ ؐ، پاکستان زندہ باد" اور قائداعظم زندہ باد کے علاوہ "کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے بلند کئے اس جوش و خروش کو دیکھ کر ہندو اور ڈوگرہ حکومت لرز گئی اور اس نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا اور اودھم پور، ریاسی، کھٹوعہ، رام سو، رام نگر، بانیہادر کوٹلی غرض کہ ہر قصبہ کو مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ ہزاروں دیہاتی باشندوں کو دھوکہ اور فریب سے گھروں سے باہر نکال کر گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ ہزاروں عفت مآب بچیوں اور خواتین کو اغوا کر لیا گیا۔دراصل یہ سب کچھ کانگرسی حکومت کے ایماء پر ہوا اور جب آچاریہ کرپلانی جو اس وقت کانگریس کے صدر تھے انہوں نے جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ چودھری غلام عباس اور جناب اے آر ساغر پس دیوار زنداں تھے اور مسلم کانفرنس بد قسمتی سے انتشار کا شکار تھی قوم کو صحیح قیادت حاصل نہ تھی اور ریاست کے پاکستان کے الحاق یا آزاد خود مختار رہنے کا مسئلہ پیدا ہو چکا تھا۔ جموں کے لیڈروں کو حالات پر قابو نہ تھا۔ یہ وجہ ہے کہ جب جموں جل رہا تھا تو یہ لوگ پاکستان میں آ چکے تھے اور پیش آمدہ مسائل کا اندازہ نہ کر سکے۔ جموں میں ان آشوب دنوں میں میاں نصیر الدین صاحب اور محمد شریف ٹھیکیدار اور منشی معراج الدین احمد نے مسلمانوں کی قیادت کی۔ نوجوانوں کے عبدالمجید بٹ تھے۔ دراصل جموں میں ہندوئوں کا مقابلہ نوجوانوں نے جس بہادری اور شجاعت سے کیا اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان کسی طور پر انکے قابو میں نہیں آ رہے تھے انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان جانے کے انتظامات مکمل کر لئے گئے اس لئے تمام مسلمان پولیس لائن گرائونڈ جموں میں پہنچ جائیں۔ اس موقع پر میاں نصیر الدین کے گورنر جموں سے مذاکرات بھی ہوئے۔ ان میں یہ طے پایا کہ جموں میں حالات سدھر جائیں تو مسلمان واپس ریاست میں آ جائیں۔ پاکستان کے عشق میں دیوانے مسلمان اپنے آبائو اجداد کی وراثتوں کو چھوڑ کر پولیس لائن جموں میں پہنچ گئے۔ یہ لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے رہے۔ اس اثناء میں 5 نومبر کو ایک قافلہ تیار کیا گیا مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کی بجائے کٹھوعہ روڈ پر لے جایا گیا یہاں لاریوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا اور ماوا کا مقام مسلمانان جموں کیلئے قتل گاہ بن گیا۔ اس قافلے میں کم از کم 4 ہزار افراد شامل تھے لیکن شہر میں اس قتل عام کی خبر تک نہ ہوئی۔ دوسرے روز 6 نومبر کو یہ کہانی پھر دُہرائی اس روز 70 ٹرکوں میں لوگوں کو بٹھایا گیااور اس روز سب سے زیادہ خون بہایا گیا۔ یہ سانحہ ستواری کے علاقہ میں پیش آیا۔ 7 نومبر کے قافلہ میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے " نازیت" کی روح بھی کانپ اٹھی اور شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔جموں کے معززین کی کثیر تعداد جام شہادت نوش فرما گئی۔ ہزاروں بچیوں کو اغواء کر لیا گیا۔ یہ امر قبل ذکر ہے کہ 4 نومبر 1947؁ء کو بھارت کے نمائندے کنور دلیپ سنگھ نے مسلمانوں کے وفد کو کہا تھا کہ مسلمانوں کیلئے بہتر ہے کہ وہ جموں کو خالی کر دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ جب انہیں یہ کہا گیا کہ وہ اپنے وطن کو نہیں چھوڑ سکتے تو کیا کانگرس کی یہی سیکولر پالیسی ہے تو انہیں کہا گیا کہ اس وقت کانگریس کی یہی پالیسی ہے۔ اس وقت تک شیخ عبداللہ نے ریاستی حکومت کے اختیارات سنبھال لئے تھے مگر ستم یہ ہے کہ سرینگر میں جموں کے حالات کا کسی کو علم نہ ہونے دیا گیا۔ بہرحال جموں میں سب کچھ بھارت کی نگرانی میں ہوا۔ جموں کے دیہاتوں میں جو ظلم و ستم ہوا وہ ہندوئوں کی بربریت کا زندہ ثبوت ہے۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر لیا گیا تھا اور دیہاتوں کو نذرآتش کرنے کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ جموں، اکھنور، راجپورہ، چینی، ریاسی، کٹھوعہ، سانبہ، اودھ پور مسلمانوں کو مقتل گاہیں بن گئیں۔ یہی عمل کوٹلی میر پور اور دوسرے علاقوں میں دہرایا گیا۔ مواضعات، بیر نگر، سکنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کے قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہو چکا تھا۔ رد عمل تھا کہ جموں کشمیر کے لوگوں نے ہتھیار سنبھال لئے اور ڈوگرہ فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور میدان کا رزار میں نکل پڑے اور مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ 20 اکتوبر 1947؁ء کو اکھنور کے مقام پر 14 ہزار مسلمانو ں کو شہید کر دیا گیا۔ یہ قتل عام اتنا دردناک اور خوفناک تھا کہ پنڈ جواہر نہرو وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ مجھے دلی افسوس ہے اور اس حادثہ میں حکومت ہند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے یہ سب کچھ بھارتی فوج کی نگرانی میں ہوا تھا اور بھارت کی پالیسی کیمطابق خونی ڈرامہ رچایا تھا آج جو کچھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے وہ بھی کسی فساد جموں کشمیر سے کم نہیں ہے۔مسئلہ کشمیر کا حل اس وقت ممکن ہے جب اس وقت مسئلہ کے تینوں فریق پاکستان، بھارت اور کشمیری قیادت مل بیٹھ کر اسکا آبرومندانہ حل تلاش کریں۔
 

ربیع م

محفلین
کشمیریوں نے یوم شہدائے جموں و کشمیر منایا ‘ آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم



لاہور + سری نگر + مظفرآباد (خصوصی رپورٹر + ایجنسیاں) 6 نومبر 1947ء کو سانحہ جموں و کشمیر کی یاد میں کنٹرول لائن کے آر پار اور لاہور سمیت پاکستان بھر میں کشمیریوں نے ’’یوم شہداء جموں و کشمیر‘‘ عقیدت و احترام سے منایا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا تحریک آزادی کشمیر کے شہداء کے مشن کی تکمیل تک جدوجہد آزادی جاری رہے گی۔ اس موقع پر کشمیریوں نے متعدد تقریبات منعقد کیں اور 6 نومبر 1947ء کے شہداء جموں و کشمیر کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مقررین نے کہا کہ 6 نومبر 1947ء کا دلخراش سانحہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مسلح افواج سے نبرد آزما نہتے کشمیریوں پر آئے روز ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں لیکن کشمیری قوم حق خودارادیت ملنے تک جدوجہد جاری رکھے گی جبکہ مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے سے تاریخی حقائق کو نہیں جھٹلایا جا سکتا اور نہ الحاق کو حتمی شکل کہنے سے کشمیر بھارت کا حصہ قرار پائے گا۔ لاہور میں ہونے والی تقریب میں مولانا محمد شفیع جوش، فاروق خان آزاد، مرزا صادق جرال و دیگر نے کشمیریوں کی آزادی تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دھرایا۔ علاوہ ازیں شہدائے جموں کو 66 ویں برسی پر خراج عقیدت ادا کرتے ہوئے لبریشن فرنٹ، پیپلز فریڈم لیگ، ڈیمو کریٹک پولٹیکل موومنٹ، اسلامک پولیٹکل پارٹی، پیپلز لیگ، سالویشن موومنٹ، مسلم خواتین مرکز، مسلم لیگ، لبریشن فرنٹ (حقیقی) اور ماس موومنٹ نے اس سانحہ کو تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا۔ لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا جموں کے مقام پر لاکھوں انسانوں کا قتل عام تاریخ جموں کشمیر کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کی نظیر ملنا بھی دشوار ہے۔ حکمرانوں کے اِیما پر ہونے والایہ قتل عام جموںکشمیر کی تاریخ کا ایک ان مٹ باب ہے۔ آزادی کی خاطر مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ تحریک آزادی کو اس کے اصل مقصد اور منزل تک پہنچانے کیلئے ہماری جدوجہد ہر حال میں جاری رہے گی۔ پیپلز فریڈم لیگ کے چیئرمین محمد فاروق رحمانی نے کہا انسانی حقوق کی پامالی کا بڑا تاریخی سانحہ تھا۔ ڈیموکریٹک پولیٹیکل موومنٹ کے زیر اہتمام سے شہدائے جموں کے موقع پر پارٹی ہیڈ کوارٹرز پر چیئرمین فردوس شاہ کی صدارت میں تقریب بعنوان ’’لہو ہمارا بھلا نہ دینا‘‘منعقد ہوئی۔ فردوس شاہ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ استصواب رائے کے حصول تک ہم اپنی سیاسی جدوجہد جاری و ساری رکھیں گے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید اور حریت کانفرنس کی کال پر یوم شہداء جموں کے حوالہ سے دارالحکومت مظفرآباد میں کشمیر لبریشن سیل اور محکمہ اطلاعات کے اشتراک سے سنٹرل پریس کلب میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام ایک تصویری نمائش کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر جنگلات سردار جاوید ایوب نے کہا کہ تحریک آزادی کشمیر دراصل تحریک تکمیل پاکستان ہے۔ راجہ ساجد خان نے کہا کہ حکومت پرعزم ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی چنگل سے آزاد کرانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اس موقع پر ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا نومبر 1947ء میں جموں میں ڈھائی لاکھ سے زائد نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کو ان کی لازوال قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں جاری بھارت مظالم کی پرزور مذمت کی گئی۔ علاوہ ازیں حریت کے دونوں دھڑوں اور شبیر احمد شاہ نے وزیراعلی کی جانب سے جموں و کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے کو ہوس اقتدارسے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی مفادات کیلئے پینترے بدلنا شیخ خاندان کی پرانی عادت ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ عمر عبداللہ کا پچھلی دفعہ اسمبلی کے فلور سے یہ بیان آیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق عارضی اور مشروط تھا اور یہ کہ اس مسئلے کو اقتصادی پیکج یا زور زبردستی سے حل کیا جانا ممکن نہیں ہے اور آج انہوں نے الحاق کو حتمی اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیکر پینترا بدلا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ موصوف کی طرف سے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے سے تاریخی حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اور نہ الحاق کو حتمی کہنے سے کشمیر بھارت کا حصہ قرار پائیگا۔
 
Top