42 روپے لیٹر میں خریدے گئے پیٹرول کی 81 اعشاریہ 66 میں فروخت

کاشف رفیق

محفلین
کراچی (اسٹاف رپورٹر) حکومت 42.48 روپے فی لیٹر خریدا گیا پیٹرول 81.66 روپے فی لیٹر میں فروخت کررہی ہے۔ نمائندہ جنگ کی تحقیقات کے مطابق 17 جنوری 2008 کو عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 90 اعشاریہ 13 ڈالر تھی اور پاکستان میں پیٹرول کی قیمت 53اعشاریہ 70 روپے جبکہ ڈیزل 32.57 روپے میں فروخت ہورہا تھا۔ آج جبکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 88.21 ڈالر فی بیرل ہے تو ڈالر کی موجودہ قیمت کے تناسب سے اس کی قیمت 42 اعشاریہ 48 روپے فی لیٹر بنتی ہے۔ اس مقصد کیلئے تیل کی موجودہ قیمت کو ڈالر کی موجودہ قیمت 76.58 روپے سے ضرب دی جائے تو پاکستانی روپے میں ایک بیرل کی قیمت 6755 اعشاریہ 121 روپے بنتی ہے۔ عالمی پیمانے کے مطابق ایک بیرل میں 158.99 لیٹر تیل ہوتا ہے۔ اس طرح 6755.121 کو 159 پر تقسیم کیا جائے تو فی لیٹر قیمت 42.48 روپے بنتی ہے۔ عالمی معیار کے مطابق فی لیٹر تیل پر کرایہ اور ریفائنریوں کے اخراجات 8 سے 10 روپے فی لیٹر آتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایکس ریفائنری تیل کی قیمت 50 سے 52 روپے لیٹر تک بنتی ہے لیکن حکومت پیٹرول 81.66 روپے میں فراہم کررہی ہے‘ اس فارمولے کو دیکھتے ہوئے ہائی اسپیڈ ڈیزل پر حکومت کی سبسڈی کا دعویٰ بھی یکسر بے بنیاد اور غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ ڈیزل 68.14 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ ایچ او بی سی کی قیمت 96.08 روپے ہے۔ یکم جولائی 2008ء کو جب عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 140.97 ڈالر فی بیرل تھی اور ڈالر کا ریٹ 68.60 روپے تھا‘ خام تیل درج بالا فارمولے کے تحت 60.82 روپے لیٹر بنتا تھا۔ پاکستان میں اس وقت بھی پیٹرول کی قیمت 75.69 روپے جبکہ ڈیزل 56.50 روپے لیٹر فروخت ہورہا تھا لیکن آج 88 ڈالر بیرل پر تیل آجانے کے باوجود حکومت عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کررہی بلکہ تیل کے ذریعے بھاری روینیو حاصل کرکے حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ 16 ستمبر کو جاری کردہ حکومتی رپورٹ کے مطابق پیٹرول کے ایک لیٹر پر حکومت 15.89 روپے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی‘ 11.26 روپے سیلز ٹیکس جبکہ تقریباً 5 سے 7 روپے کسٹمز ڈیوٹی اور ودہولڈنگ ٹیکس وغیرہ وصول کررہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس وقت ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 9.42 روپے فی لیٹر سبسڈی دے رہی ہے لیکن وہ اس کے ساتھ ہی ڈیزل پر تقریباً ساڑھے 8 روپے سیلز ٹیکس اور 4 روپے کے قریب کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی کا ذکر نہیں کرتی۔

روزنامہ جنگ: 17 استمبر 2008

ڈھٹائی کی حد ہے! کب تک ایسا چلے گا؟:confused:
 
Top