2050 میں سب سے زیادہ آبادی والے 10 شہر

سارہ خان

محفلین
انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ایک تخمینے کے مطابق 2050 تک دنیا میں لوگوں کی تعداد لگ بھگ 10 ارب کا ہندسہ چھو رہی ہوگی۔
ہم یہ بات تو برسوں سے سن رہے ہیں مگر آبادی میں سب سے زیادہ کن مقامات میں ہورہا ہے؟
آج ٹوکیو دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جہاں 3 کروڑ 80 لاکھ افراد مقیم ہیں۔
اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں افریقہ کا محض ایک (قاہرہ) اور لاطینی امریکا کے 2 (ساﺅ پاﺅلو اور میکسیکو سٹی) شامل ہیں، مگر اگلی 3 دہائیوں میں منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل ہوکر رہ جائے گا۔
ٹورنٹو ینیورسٹی کے گلوبل سیٹیز انسٹیٹوٹ نے انسانی آبادی میں اضافے کے تخمینے کے حوالے سے 2050 تک 10 بڑے ممالک کی پیشگوئی کی ہے جو درج ذیل ہے۔

10۔ میکسیکو سٹی، میکسیکو : دو کروڑ 43 لاکھ افراد

56c759293782d.jpg
رائٹرز فوٹو

9۔ نیویارک، امریکا : دو کروڑ 48 لاکھ افراد

56c75929d07d3.jpg
رائٹرز فوٹو

8۔ کراچی، پاکستان : تین کروڑ 17 لاکھ افراد

56c759297d5b9.jpg
رائٹرز فوٹو

7۔ ٹوکیو، جاپان : تین کروڑ 26 لاکھ افراد

56c7592a6906b.jpg
رائٹرز فوٹو

6۔ لاگوس، نائیجریا : تین کروڑ 26 لاکھ افراد

56c7592a6bf4b.jpg
رائٹرز فوٹو

5۔ کولکتہ، انڈیا : تین کروڑ 30 لاکھ افراد

56c7592a1316a.jpg
رائٹرز فوٹو

4۔ کنشاسا، جمہوریہ کانگو : تین کروڑ 50 لاکھ افراد

56c75927f06b6.jpg
رائٹرز فوٹو

3۔ ڈھاکا، بنگلہ دیش : تین کروڑ 52 لاکھ افراد

56c7592a3bd97.jpg
رائٹرز فوٹو

2۔ دہلی، انڈیا : تین کروڑ 62 لاکھ افراد

56c75929238c5.jpg
رائٹرز فوٹو

1۔ ممبئی، انڈیا : چار کروڑ 24 لاکھ افراد

56c759f0b1946.jpg
رائٹرز فوٹو
ماخذ
 

فہیم

لائبریرین
آخری میں یہ کہیں لکھا نظر نہیں آیا کہ

"یہ ساری کہانیاں من گھڑت ہیں، یہ صرف آپ کے منورنجن کے لیے پیش کی جارہی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہے"
 

سارہ خان

محفلین
کراچی کا نمبر آٹھواں ہے ۔۔۔
9.339 ملین آبادی ہے اس وقت کراچی کی ۔۔
بڑھتی ہوئی آبادی کی ایک وجہ یہاں یہ بھی ہے کہ پورے ملک سے ہجرت کر کے سب سے زیادہ کراچی میں آتے ہیں لوگ ۔۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد بھی آباد ہے۔۔۔

شہر میں کسی بھی پبلک پلیس پر چلے جائیں لوگوں کا رش دیکھ کر وحشت سی ہونے لگتی ہے۔۔ ہاسپٹلز ہوں ۔۔ بازار ہوں ، تعلیمی ادارے ہوں یا تفریحی مقامات ہر جگہ ضرورت سے زیادہ لوگ نظر آتے ہیں ۔۔
ٹریفک کا مسئلہ اتنا زیادہ ہے کہ حد نہیں ۔۔ گاڑی پارک کرنی کی جگہ بہت مشکل سے ملتی ہے۔۔ کے ایم سی والوں کی پارکنگز میں گاڑی پارک کرنے اور واپسی کے وقت باہر لانے میں ہی ایک گھنٹہ ضایع۔۔
تفریحی مقامات یا مارکیٹس میں پارکنگ کے وقت بھی ایک سے دو گھنٹے گاڑی پارکنگ ایریا سے باہر لانے میں لگتا ہے۔۔۔
روڈز پر ٹریفک جام کا مسئلہ بھی اسی وجہ سے بہت زیادہ ہے کہ گاڑیاں بہت زیادہ ہیں ۔۔
آبادی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بزنس بہت زبردست ہے یہاں ۔۔ سب سے زیادہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پیسا ہے ۔۔۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں عوام کو ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

سارہ خان

محفلین
ایک ماہ کے خرچے کا تخمینہ تو درست لگتا نہیں لوگوں سے اور 3 دہائیوں کی آبادی کا لگانے چلے ہیں۔
تخمینہ موجودہ بڑھتی ہوئی آبادی تناسب کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے۔۔۔
اگر مستقبل کی بات نہ کی جائے اور حال دیکھا جائے تب بھی ابادی کے لحاظ سے یہ بڑے شہر ہیں
 

فہیم

لائبریرین
تخمینہ موجودہ بڑھتی ہوئی آبادی تناسب کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے۔۔۔
اگر مستقبل کی بات نہ کی جائے اور حال دیکھا جائے تب بھی ابادی کے لحاظ سے یہ بڑے شہر ہیں
سوچو اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے اور 2 سے 4 ہائیڈروجن بم اِدھر اُدھر مار دیئے جائیں تو آبادی کا کیا حال ہونا ہے۔
 

ناصر رانا

محفلین
سوچو اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے اور 2 سے 4 ہائیڈروجن بم اِدھر اُدھر مار دیئے جائیں تو آبادی کا کیا حال ہونا ہے۔
اگر سوچنا ہی ہے تو ایسے سوچیں کہ اگر پاکستان بہت زیادہ ترقی کر لیتا ہے بہت سے بھی زیادہ۔ تب ادھر ادھر بالخصوص امریکا اور ناروے سے لاکھوں تارکین وطن ہجرت کر کے پاکستان آنا چاہیں گے اس وقت کیا حال ہوگا آبادی کا؟
 
آخری تدوین:

سارہ خان

محفلین
سوچو اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے اور 2 سے 4 ہائیڈروجن بم اِدھر اُدھر مار دیئے جائیں تو آبادی کا کیا حال ہونا ہے۔
بہت جگہ خالی ہوجائے گی اس کے بعد کی آنے والی نسلوں کے لیئے۔۔۔ مگر ماحولیات کے حوالے سے انہیں بہت تحفظات ہونگے بموں والی جنگ کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
آبادی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بزنس بہت زبردست ہے یہاں ۔۔ سب سے زیادہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پیسا ہے ۔۔۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں عوام کو ۔۔۔۔۔
انسانوں کو لوٹنے کا سرمایہ داروں نے یہ بہترین طریقہ ایجاد کیا کہ انہیں گنجان آبادیوں میں دھکیل دیا جائے۔ یوں چھوٹے سے چھوٹے زمین کے ٹکرے، اپارٹمنٹ کی قیمت آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ اور صحت و تعلیم کے مسائل الگ۔
 

فہیم

لائبریرین
اگر سوچنا ہی ہے تو ایسے سوچیں کہ اگر پاکستان بہت زیادہ ترقی کر لیتا ہے بہت سے بھی زیادہ۔ تب ادھر ادھر بالخصوص امریکا سے لاکھوں تارکین وطن ہجرت کر کے پاکستان آنا چاہیں گے اس وقت کیا حال ہوگا آبادی کا؟
پاکستان اتنی ترقی کرلے ایسا ہوتا نظر تو نہیں آتا۔ جبکہ تیسری عالمی جنگ ہونے کی باتیں تو آپ نیوز چینلز سے لے کرسوشل نیٹ ورکنگ تک پر ہوتی دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن پھر بھی آپ کی بات مانتے ہوئے میں معلوم کرلیتا ہوں۔

زیک اگر پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے تو کیا آپ امریکہ چھوڑ کر یہاں سیٹل ہونا چاہیں گے؟
 

arifkarim

معطل
زیک اگر پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بن جائے تو کیا آپ امریکہ چھوڑ کر یہاں سیٹل ہونا چاہیں گے؟
اگر امریکہ تیسری دنیا کا مُلک بن جائےتو یہ عین ممکن ہے۔ لیکن مستقبل بعید میں اسکا کوئی امکان نہیں۔
 
آخری تدوین:

سارہ خان

محفلین
انسانوں کو لوٹنے کا سرمایہ داروں نے یہ بہترین طریقہ ایجاد کیا کہ انہیں گنجان آبادیوں میں دھکیل دیا جائے۔ یوں چھوٹے سے چھوٹے زمین کے ٹکرے، اپارٹمنٹ کی قیمت آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ اور صحت و تعلیم کے مسائل الگ۔
بالکل یہی مسئلہ ہے۔۔ گلی گلی میں چھوٹے بنگلوز میں اسکولزاور وہ بھی کامیاب ۔۔ چھوٹے وہ بھی مہنگے گھروں میں زیادہ افراد کا رہنا ۔۔۔ غذائی قلت اگر نہیں تو غیر معیاری فارمی سبزیاں ، گوشت دودھ و دہی ۔۔ اور بے شمار مسائل ۔۔۔
 

سارہ خان

محفلین
آبادی کے حوالے سے مجھے شوکت تھانوی کا یہ مضمون بہت پسند ہے ۔۔۔۔ پورا مضمون محفل کے کسی پوشیدہ سیکشن میں ہے مل نہیں رہا ۔۔

بات اصل میں یہ ہے کہ نئی اور پرانی دنیا کو ملا کر جو کرہ ارض بنتا ہے اس میں تین چوتھائی تو بحر الکاہل ، بحر الغافل ، بحر الجاہل وغیرہ کی قسم کے بڑے بڑے سمندر ہیں یعنی پانی ہی پانی۔ اب رہ گئی ایک چوتھائی دنیا جو خدا نظرِ بد سے بچائے خشکی ہے اس چوتھائی دنیا میں لق و دق صحرا ، سر بفلک پہاڑ ، ریگستان جن کو انسان سے کوئی تعلق نہیں بس شترستان کہنا چاہیے اور جھیلیں دریا نالے وغیرہ ہیں۔ باقی جو بچی تھوڑی بہت خشکی اس میں کھیت اور باغ وغیرہ سے بچی ہوئی خشکی کو گاوں ، تحصیل ، پرگنہ ، شہر ، ضلع ، صوبہ ، ملک اور برا عظم وغیرہ میں تقسیم کردیا گیا ہے اور یہ ہے وہ مختصر سی گنجائش جس میں اشرف المخلوقات مع چرندوں پرندوں اور درندوں کے رہتے ہیں۔ اس محدود گنجائش میں آبادی کا یہ حال ہے کہ خدا کی پناہ روز روز بڑھتی جا تی ہے۔ دنیا کی وسعتیں محدود ہیں اور نسل انسانی کی ترقی غیر محدود ، اب جو لوگ بیکاری کا رونا روتے ہیں تو آپ ہی بتائیے کہ دنیا کا قصور ہے یا دنیا میں بسنے والوں کا ، ہاں اگر نظامِ فطرت ہوتا کہ ہر انسان کے ساتھ ایک آدھ بیگھ زمین بھی پیدا ہوا کرتی تو واقعی بیکاری کے متعلق ہماری تمام شکائیتیں حق بجانب تھیں مگر اب تو ہر نیا پیدا ہونے والا اس چھوٹی سے دنیا میں گنجائش حاصل کرنا چاہتا ہے جو باوا آدم سے لیکر اب تک یعنی از آدم یا ایں دم ایک انچ بھی نہیں بڑھی ، آپ کہیں گے واہ بڑھی کیوں نہیں ، یہ جو کولمبس نے امریکہ کا پتہ لگا کر اس دنیا میں ایک اور اضافہ کیا وہ کدھر گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پہلے ہی موجود تھا جب تک انسان کی جستجو میں کامیاب ہونے کی صلاحیت پیدا نہ ہوئی وہ پوشیدہ رہا اور اور جب اس کو ڈھونڈا گیا تو وہ مل گیا۔ لیکن اب یہ امید رکھنا کہ کوءی اور امریکہ مل جائے گا غلط ہے اس لئے کہ اب انسان کو بیکاری کے غم نے یا تو اس قدر پست ہمت کر دیا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالنے میں بھی کاہلی سے کام لیتا ہے یا سرمایہ داری نے ایسا دماغ خراب کر دیا ہے کہ مریخ پر حکومت کرنے کی فکر ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی یہ ہوا میں قلعہ بنانے کی جدوجہد میں کامیاب ہو جائے لیکن ابھی تو ہم دنیا سے جا کر مریخ میں آباد ہونے کے لئے تیار نہیں۔​

لاحول و لا قوۃ کہاں سے کہاں پہنچے۔ ہاں تو ہم یہ کہہ رہے تھے کہ انسان کی کثرت نے دنیا میں بیکاری کی وبا پھیلا دی ہے ، بات یہ ہے کہ بڈھے تو مرنے کا نام نہیں لیتے اور بچہ پیدا ہونا بند نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آبادی بڑھتی جاتی ہے۔ اب یہ دیکھئے کہ جہاں پانچ بچے تعلیم حاصل کرتے تھے وہاں اب پانچ ہزار تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ پہلے تو یہ تھا کہ یہ پانچ بچے پڑھنے کے بعد مختلف جگہوں پر ملازم ہو جاتے تھے ، ملازمت کرتے تھے ، پنشن لیتے تھے اور مر جاتے تھے۔لیکن ان کے امیدوار بجائے پانچ کے پانچ ہزار ہیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پانچ تو بدستور برسرِکار ہو جائیں گے ، اب رہے چار ہزار نو سو پچانوے وہ یقینی طور پر بیکار رہیں گے۔ غلطی دراصل حساب کی ہے کہ اب آمد و خرچ برابر نہیں رہا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ ادھر پانچ بچے پیدا ہوئے تو ادھر پانچ بڈھے مر گئے ، ادھر پانچ ملازم ہوئے تو ادھر پانچ ملازموں نے پنشن لے لی ، لیکن اب بڈھوں نے مرنا ترک کر دیا ہے اور بچے برابر پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس صورت میں کوئی بڑے سے بڑا ریاضی دان ہم کو بتائے کہ حساب فہمی کا آخر کیا طریقہ اختیار کیا جائے۔​
تحریر :شوکت تھانوی​
 

یاز

محفلین
کراچی کا نمبر آٹھواں ہے ۔۔۔
9.339 ملین آبادی ہے اس وقت کراچی کی ۔۔
بڑھتی ہوئی آبادی کی ایک وجہ یہاں یہ بھی ہے کہ پورے ملک سے ہجرت کر کے سب سے زیادہ کراچی میں آتے ہیں لوگ ۔۔ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد بھی آباد ہے۔۔۔

شہر میں کسی بھی پبلک پلیس پر چلے جائیں لوگوں کا رش دیکھ کر وحشت سی ہونے لگتی ہے۔۔ ہاسپٹلز ہوں ۔۔ بازار ہوں ، تعلیمی ادارے ہوں یا تفریحی مقامات ہر جگہ ضرورت سے زیادہ لوگ نظر آتے ہیں ۔۔
ٹریفک کا مسئلہ اتنا زیادہ ہے کہ حد نہیں ۔۔ گاڑی پارک کرنی کی جگہ بہت مشکل سے ملتی ہے۔۔ کے ایم سی والوں کی پارکنگز میں گاڑی پارک کرنے اور واپسی کے وقت باہر لانے میں ہی ایک گھنٹہ ضایع۔۔
تفریحی مقامات یا مارکیٹس میں پارکنگ کے وقت بھی ایک سے دو گھنٹے گاڑی پارکنگ ایریا سے باہر لانے میں لگتا ہے۔۔۔
روڈز پر ٹریفک جام کا مسئلہ بھی اسی وجہ سے بہت زیادہ ہے کہ گاڑیاں بہت زیادہ ہیں ۔۔
آبادی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بزنس بہت زبردست ہے یہاں ۔۔ سب سے زیادہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پیسا ہے ۔۔۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں عوام کو ۔۔۔۔۔

اہم چیز یہ ہے کہ شہر کی آبادی کا پیمانہ کیا ہے۔ سٹی پراپر یا اربن ایریا یا گریٹر میٹروپولیٹن ایریا۔
ایک پیمانے کے لحاظ سے کراچی دنیا کا چند بڑے شہروں میں سے ایک بن چکا ہے۔ اس کی آبادی دو کروڑ چالیس لاکھ کو تجاوز کئے ہوئے بھی کافی وقت ہو چکا۔ اب تو اس سے بڑھ چکی ہو گی۔
 
Top