2014 پرانی کتابوں کا اتوار بازار، کراچی- 30 نومبر

الف عین

لائبریرین
دلچسپ!!!
کیا یہ بازار صبح صبح ہی لگ جاتا ہے کہ دوپہر شاید لنچ سے قبل سکان بھی ہو گیا اور اپ لوڈ بھی کر دیا گیا۔ یہاں پرانی کتابوں کا بازار تو 11 بجے سے پہلے نہیں لگتا!!
 

تلمیذ

لائبریرین
دلچسپ!!!
کیا یہ بازار صبح صبح ہی لگ جاتا ہے کہ دوپہر شاید لنچ سے قبل سکان بھی ہو گیا اور اپ لوڈ بھی کر دیا گیا۔ یہاں پرانی کتابوں کا بازار تو 11 بجے سے پہلے نہیں لگتا!!

یہی تو جناب راشد اشرف, کی خوبی اور چمتکار ہے جس کی ایک دنیا دیوانی ہے، محترم اعجاز صاحب۔

راشد صاحب، ’’طرز بیان اور‘‘ پڑھنا شروع کی ہےبہت لطف آ رہا ہے۔ میرا خیا ل ہے آپ کو ہر ایک دو سال کے بعد اس کی اگلی جلد نکالنی پڑے گی۔ لیکن اعادہ سے پرہیز رکھئے گا۔
اللہ پاک آپ کو صحت و تندرستی سے رکھے، آمین۔
 

راشد اشرف

محفلین
دلچسپ!!!
کیا یہ بازار صبح صبح ہی لگ جاتا ہے کہ دوپہر شاید لنچ سے قبل سکان بھی ہو گیا اور اپ لوڈ بھی کر دیا گیا۔ یہاں پرانی کتابوں کا بازار تو 11 بجے سے پہلے نہیں لگتا!!

جی ہاں، علی الصبح سات بجے ہی۔ اور ہم سات بجے سے بھی کچھ پہلے وہاں پائے جاتے ہیں
کئی کتب فروشوں کے بورے ہم ہی کھولتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے
واپسی ساڑھے نو تک۔
اسکیننگ دس بجے تک
اپ لوڈنگ سوا دس بجے
 

راشد اشرف

محفلین
یہی تو جناب راشد اشرف, کی خوبی اور چمتکار ہے جس کی ایک دنیا دیوانی ہے، محترم اعجاز صاحب۔

راشد صاحب، ’’طرز بیان اور‘‘ پڑھنا شروع کی ہےبہت لطف آ رہا ہے۔ میرا خیا ل ہے آپ کو ہر ایک دو سال کے بعد اس کی اگلی جلد نکالنی پڑے گی۔ لیکن اعادہ سے پرہیز رکھئے گا۔
اللہ پاک آپ کو صحت و تندرستی سے رکھے، آمین۔

نوازش، ممنون ہوں جناب۔ مجھے علم ہے کہ آپ کی دعائیں پرخلوص اور آپ کا لہجہ اپنائیت سے بھرپور ہوتا ہے اور وہ بھی مجھ حقیر کے لیے جو درحقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔ پڑھتے پڑھتے کب لکھنا شروع کردیا، یہ محسوس ہی نہ ہوسکا۔ آپ نے کتاب کے پیش لفظ کے آخر میں محمد خالد اختر کی چند سطور لکھی ہیں جو یقینا آُپ نے پڑھی ہوں گی، وہ حقیقت کی ترجمانی کرتی ہیں، دیگر احباب کے لیے یہاں درج کرتا ہوں:
یہاں مجھے محمد خالد اختر کی وہ سطور یاد آرہی ہیں جو انہوں نے اپنی ایک کتاب کے دیباچے میں لکھی تھیں، مجھے اس میں اپنا پرتو نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
” ان تحریروں کو جب میں نے لکھا تو مجھے قطعا ً یہ خیال نہ تھا کہ وہ کبھی ایک کتاب کی شکل میں چھپیں گی۔ مجھے کوئی دعوی نہیں کہ وہ ادبی شاہکار ہیں یا ان میں بیان یا اسلوب کی کو ئی خاص خوبی ہے۔میں نے انہیں اپنے اکیلے اداس لمحوں میں خود کو بہلانے کے لیے لکھا تھا۔ اور جب وہ مدیروں کی فراخ دلی کی بدولت ماہناموں میں چھپے تو مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ چند پڑھنے والوں کو ان کا انداز اچھا لگا۔ ایک کتاب ان گنت غلطیوں کے باوجود مسرت بخش ہوسکتی ہے۔یا ایک بھی بیہودگی کے بغیر بہت روکھی پھیکی اور غیر دلچسپ(بحوالہ آلیور گولڈ اسمتھ)۔ میں تمنا کرتا ہوں کہ پڑھنے والا کم از کم اسے ایک اکتا دینے والی کتاب نہ پائے گا۔ اگر یہ تحریریں کسی کو بھی تھوڑی سے فرحت دے سکیں تو مجھ سا خوش نصیب اور کون ہوگا؟“۔


کتاب 262 کی تعداد میں شائع ہوئی۔ کتاب سرائے کے علاوہ جہلم بک کارنر پر بھی دستیاب تھے۔ خڈا کا کرنا یہ ہوا کہ پچیس روز میں 130 نسخے فروخت ہوگئے، ہندوستان بھی بھیجی۔ آپ کا کہنا درست ہے۔ امکان یہی ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ زور چھاپنی پڑے گی۔

باقی اللہ مالک ہے

چراغ حسن حسرت-ہم تم کو نہیں بھولے" بھی پرسوں انشاء اللہ مل جائے گی۔ اس کتاب پر بہت محنت کی ہے۔ کل شام جامی صاحب اس کے دو نسخے لیتے آئے تھے، ان کی خصوصی توجہ کی وجہ سے نہایت عمدہ طبع ہوئی۔ کتاب بے حد دلچسپ ہے مگر مرتب کا اس میں کوئی کمال نہیں ہے، حسرت کی شخصیت ہی کچھ ایسی باغ و بہار تھی۔
 
Top