میری تجویز ہے کہ جیسے پاکستان میں ،6 ستمبر یوم دفاع ہے،7 ستمبر یوم فضاءیہ ہے،28 مئی یوم تکبیر ہے، 23 مارچ یوم جمہوریہ ہے ایسے ہی 16 مارچ کو یوم عدلیہ کے طور پر منانا چاہئے۔
16 مارچ کو مشرفی آمریت سے معزول ہونے والے معزز جج عوامی دباو کے نتیجے میں بحال ہوئے اور عدلیہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی اثر رسوخ سے آزاد ہو کر کام شروع کیا اور ملک میں آزاد عدلیہ وجود میں آئی۔
اس لئے عوامی جدجہد اور آزاد عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے 16 مارچ کو یوم عدلیہ کے طور پر منانا چاہئیے۔ سب احباب سے گزارش ہے کہ اس تجویز کو آگے بڑھائیں اور اپنی قیمتی رائے سے نوازیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں ذاتی طور پر اس بات کے خلاف ہوں۔ عدلیہ ابھی تک آزاد نہیں ہوئی۔ اگر آپ ان ججوں کی بحالی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں جو ایک بار مشرف کے پیش کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکے تھے اور دوسری بار اس گناہ سے باز آئے تو انہوں نے اپنے جرم کا کفارہ ادا کیا، نا کہ کوئی کارنامہ سر انجام دیا۔ اگر آپ اس آزاد عدلیہ کے چند ایسے فیصلوں کا حوالہ دے سکیں جن سے عام آدمی کی زندگی آسان ہوئی ہو تو میں ممنون رہوں گا۔ مشرف کے خلاف جب بھی بغاوت کا مقدمہ چلے گا، یہی جج اس کی حمایت کرنے اور آئین سے بغاوت کے مجرم قرار دیئے جائیں گے۔ امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے
یہ رائے میں آپ کی مخالفت یا آپ کے خیال کی مخالفت میں نہیں دی بلکہ جنرلی بات کی ہے کہ ہمیں ہرگز کسی کو اس بات کی شاباش نہیں دینی چاہئے کہ اس نے اپنا فرض درست طور پر انجام دیا۔ یہ اس کا فرض ہے جس کی اسے معقول تنخواہ ملتی ہے۔ جانی قربانی دینے والے میرے نظریئے کے مطابق اس بات سے مستثنیٰ ہیں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
فیس بک پر پیج بنانے کے لئے تو فیس بک پر جا کر اوپر دائیں جانب گول پہیئے پر کلک کریں گے تو مینیو میں ایک آپشن ہے، Create Page۔ اس کی مدد سے پیج بنایا جا سکتا ہے
 
میں ذاتی طور پر اس بات کے خلاف ہوں۔ عدلیہ ابھی تک آزاد نہیں ہوئی۔ اگر آپ ان ججوں کی بحالی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں جو ایک بار مشرف کے پیش کردہ پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکے تھے اور دوسری بار اس گناہ سے باز آئے تو انہوں نے اپنے جرم کا کفارہ ادا کیا، نا کہ کوئی کارنامہ سر انجام دیا۔ اگر آپ اس آزاد عدلیہ کے چند ایسے فیصلوں کا حوالہ دے سکیں جن سے عام آدمی کی زندگی آسان ہوئی ہو تو میں ممنون رہوں گا۔ مشرف کے خلاف جب بھی بغاوت کا مقدمہ چلے گا، یہی جج اس کی حمایت کرنے اور آئین سے بغاوت کے مجرم قرار دیئے جائیں گے۔ امید ہے کہ آپ میری بات سمجھ رہے ہوں گے
یہ رائے میں آپ کی مخالفت یا آپ کے خیال کی مخالفت میں نہیں دی بلکہ جنرلی بات کی ہے کہ ہمیں ہرگز کسی کو اس بات کی شاباش نہیں دینی چاہئے کہ اس نے اپنا فرض درست طور پر انجام دیا۔ یہ اس کا فرض ہے جس کی اسے معقول تنخواہ ملتی ہے۔ جانی قربانی دینے والے میرے نظریئے کے مطابق اس بات سے مستثنیٰ ہیں :)
یہ بات تو صحیح ہے کہ عدلیہ پوری طرح آزاد نہیں ہوئی، لیکن آزادی کی طرف قدم اٹھا چکی ہے۔ افتخار چوہدری کی قیادت میں عدلیہ نے پہلی مرتبہ انتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے تو اس بات کا تصور ہی محال تھا کہ عدلیہ کبھی حکومت کو آنکھیں دکھائے گی۔ آپ یوں کہ سکتے ہیں کہ عدلیہ نے اپنے فرائض پہلی مرتبہ پوری طرح ادا کرنے کی شروعات کی ، جس کی قیادت چوہدری صاحب نے کی۔
اپنے فرض کو اچھے طریقے سے ادا کرنا بھی تو قابل ستائش ہوتا ہے جناب! کیا آپ کو فرض نماز ادا کرنے کا ثواب نہیں ملتا؟ حالانکہ وہ آپ کا فرض تھا!
بحال ہونے والے ججوں نے واقعی اپنے گناہ کا کفارہ ادا کیا لیکن آئندہ ہونے والے ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لئے بھی تو ضابطے بنا دئیے ہیں۔
سپریم کورٹ نے بہت سے فیصلے عام آدمی کی سہولت کے لئے کئے تھے جن میں بہت دفعہ تیل، گیس بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے کو روکا گیا تھا۔ (میں ایک طالب علم ،جمہوری ذہن کا آدمی ہوں میرے نکتہ نظر سے آپ کو اختلاف کا پورا پورا حق ہے۔ :):))
 

قیصرانی

لائبریرین
بحال ہونے والے ججوں نے واقعی اپنے گناہ کا کفارہ ادا کیا لیکن آئندہ ہونے والے ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لئے بھی تو ضابطے بنا دئیے ہیں۔
اسی بات پر زور دے رہا ہوں کہ ان ججز نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے مشرف کے خلاف مقدمے کو شروع نہیں کیا۔ اگر آج بھی یہ مقدمہ شروع ہو تو یہی ہیرو غدار شمار ہوں گے
تاہم عدلیہ کی بطور ادارہ آزادی اہمیت اور معنی رکھتی ہے اور اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے :)
 
اسی بات پر زور دے رہا ہوں کہ ان ججز نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے مشرف کے خلاف مقدمے کو شروع نہیں کیا۔ اگر آج بھی یہ مقدمہ شروع ہو تو یہی ہیرو غدار شمار ہوں گے
تاہم عدلیہ کی بطور ادارہ آزادی اہمیت اور معنی رکھتی ہے اور اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے :)
سر جی مشرف کے احتساب کے لئے دوسرا ٹریبیونل ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل بن چکا ہے، سپریم کورٹ کے پاس تو اس کے احتساب کا کیس ہائی کورٹ سے ہونے کے بعد آئے گا۔;)
 
میری تجویز ہے کہ جیسے پاکستان میں ،6 ستمبر یوم دفاع ہے،7 ستمبر یوم فضاءیہ ہے،28 مئی یوم تکبیر ہے، 23 مارچ یوم جمہوریہ ہے ایسے ہی 16 مارچ کو یوم عدلیہ کے طور پر منانا چاہئے۔
16 مارچ کو مشرفی آمریت سے معزول ہونے والے معزز جج عوامی دباو کے نتیجے میں بحال ہوئے اور عدلیہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی اثر رسوخ سے آزاد ہو کر کام شروع کیا اور ملک میں آزاد عدلیہ وجود میں آئی۔
اس لئے عوامی جدجہد اور آزاد عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے 16 مارچ کو یوم عدلیہ کے طور پر منانا چاہئیے۔ سب احباب سے گزارش ہے کہ اس تجویز کو آگے بڑھائیں اور اپنی قیمتی رائے سے نوازیں۔
میری ناقص رائے میں اس سب کی اہمیت ایک جھوٹے ڈرامے کی سی رہی۔ واللہ اعلم
 
مجھے نہیں لگتا جس کام کے لئے بلاشبہ لاکھوں لوگ سڑک پر نکلے ہوں وہ جھوٹا ڈرامہ ہو۔
دوربین نگاہیں چاہیئں پا جی!
حتیٰ کہ میں 9 اپریل 2007 کی پہلی خبر دیکھتے ہی اپنا نکتہ نظر تیار کر لیا تھا اور آج تو میرے پاس دلائل و شواہد کی بھر مار ہے۔ مٹی پاؤ
 
دراصل جمہوریت کے خالقوں کو پاکستان میں مسلسل ناکامی سے دوچار جمہوریت کو سہارا دینا مقصود تھا۔
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے جس طرح کے کرتوت رہا کرتے ہیں اس میں اگر حقیقی اپوزیشن موجود ہو تو اس حکومت کا دوسرا سال ہی محال ہو جاتا ہے، وہ اپنی کارستانیوں ، اپوزیشن کے + پروپیگینڈے اور تحریکوں کا شکار ہو کر مدت پوری کیے بغیر ہی ڈھیر ہو جاتی ہے۔ اور یہی حال اپوزیشن کی آنے والی حکومت کا ہوتا تھا۔
جمہوریت کی گاڑی چلتی رہنے کے لیے مخلص حکمران چاہیئں ورنہ متحرک اپوزیشن کا کردار انہیں ڈھیر کر دیتا ہے۔ اب اگر اپوزیشن کو بھی لگام دے دی جائے تو ایسے میں بہت بڑا خلاء پیدا ہو جاتا ہے۔حکومت کی کارکردگی سے ناخوش عوام یا تو خود میدان میں اتر آتی ہے اور انقلاب رونما ہوتے ہیں یا پھر فوج تختہ الٹ دیتی ہے۔
اب جمہوریت کے خالق پاکستان کو مخلص لیڈر دینے سے تو قاصر رہے اس لیے انہوں نے اپوزیشن سے بھی سودا بازی کر لی اور اپوزیشن کے خلاء کو پر کرنے کے لیے چیف جسٹس نام کا نعرے لگانے والا اور دھمکیاں دینے والا، ٹوکنے والا، اور حکومت کو اپوز کرنے والا شخص سامنے کر دیا گیا۔ چونکہ جسٹس نام کی نام نہاد اپوزیشن کا مقصد اگلی حکومت نہیں ہو سکتا اس لیے اس سے حکومت کو بھی کوئی خطرہ نہیں رہا، تو جمہوریت پٹھڑی پہ ویسے ہی چلتی رہی جیسی اس کے خالقوں نے چاہی۔ جہاں عوام میں بے چینی محسوس کی گئی وہاں چیف جسٹس نے بھڑک مار دی اور لوگوں نے کہا یہ ہے نا ہمارا مسیحا، یہ ہے مرد کا بچہ ، کیسے للکارتا ہے۔ کیسے عدالتوں میں گھسیٹتا ہے۔ اس للکار سے حکومت کے حامی بھی حکومت کو درپیش چلینجز کو دیکھتے ہوئے حکومت کی حمایت پہ ہی کاربند رہتے ہیں اور حکومت کی مخالف عوام کو اپوزیشن کی عدم موجودگی میں عدلیہ ہی کو اپنا مسیحا سمجھتی ہے اور خود کچھ کرنے سے باز رہتی ہے۔

درحقیقت چوہدری افتخار صاحب کا سارا دور حقیقی عدلیہ کے لیے انتہائی برا رہا کیوں کہ اس سارے دور میں عوامی کیسسز کا عمل انتہائی سست رہا، زیرِ التوا کیسسز کی تعداد دگنی چگنی ہو گئی۔ اور حقیقی عدلیہ اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی اور اپوزیشن اپنی باری کا انتظار۔
افتخار چوہدری صاحب نے کیسسز تو بہت شروع کیے لیکن کسی ایک کو بھی منتقی انجام تک نہیں پہنچایا سوائے گیلانی والے کیس کے کہ جب عوام کو کچھ دینا بہت ضروری ہو گیا تھا۔ اور حکومت کو مزید مستحکم کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ وہ بظاہر حکومت کے خلاف ڈرامہ کر کے وزیرِ اعظم کو معزول کر کے پوری کی گئی۔
 
کئی ریٹائرڈ ججز کے جسٹس افتخار چوہدری کے تھنک ٹینک میں شمولیت کیلئے رابطے

اسلام آباد (آن لائن)کئی ریٹائرڈ ججز نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی تھنک ٹینک میں شمولیت کے لئے رابطے کر لئے۔ان ججز میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے،جسٹس(ر) شاکر اللہ جان سمیت39 ریٹائرڈججز شامل ہیں ۔ذرائع نے آن لائن کو بتایا ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے تھنک ٹینک میں سیاسی افراد کے رابطہ کے بعد اب ریٹائرڈ ججز نے شمولیت کے لئے رابطے کئے ہیں ان کی شمولیت کے حوالے حتمی فیصلے عید کے بعد کیا جائیگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ججوں کا تعلق پنجاب اور بلوچستان سے ہے ۔سندھ اور کے پی کے سے بھی بعض ریٹائر ججز نے رابطے کئے ہیں ۔
 
عدلیہ کی آزادی پر ممکنہ حملے کی تیاری...کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔۔ انصار عباسی

پارلیمنٹ اپنے آپ کو سپریم منوانے کے لیے ایک بار پھر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تعیناتی میں اپنا پلہ بھاری کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے ایک ایسی آئینی ترمیم پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹی کو یہ آئینی حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو رد کر سکے اور ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کی رائے کو حتمی مانا جائے گا۔ ویسے تواس آئینی ترمیم پر کام گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا مگر اُس وقت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خوف سے’’ گو سلو ‘‘ کی پالیسی کو اپنایا گیا۔ سیاستدان سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رخصتی کے بعد وہ پاکستان کی آزاد عدلیہ کوماضی کی طرح ایک بار پھر اپنے قابو میں کر لیں گے۔ وہ شاید بھول رہے ہیں کہ 9 مارچ 2007 کو شروع ہونے والی آزاد عدلیہ کی تحریک نے پاکستان کی عدلیہ میں بہت سے افتخار محمد چوہدری پیدا کر دیے ہیں۔ اُن کے کام کرنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں، وہ مزاج میں ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہوں گے لیکن جس آزادی کا مزہ ہماری عدلیہ چکھ چکی ہے، اُسے اب اُن سے چھیننا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو گا۔سپریم کورٹ تو آج بھی اُن ججوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ مل کر آزاد عدلیہ کے لیے جدوجہد کی، ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کیا اور اس ملک کو نڈر اور بے خوف عدلیہ کی صورت میں وہ تحفہ دیا جس کا ہم نے ماضی میں کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ یہاں تو ہائی کورٹس کے جج حضرات بھی اعلیٰ حکمرانوں، ایجنسیوں، بڑے بڑے بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے پسینے نکال چکی ہے۔ گویا کہ عدلیہ ایک نئی ڈگر پر چل پڑی ہے۔ ڈراور خوف والی عدلیہ کا حال اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں۔ اب تو قانون کی حکمرانی، آئین کی پاسداری ، بنیادی حقوق کا حصول اور میرٹ کا قیام عدلیہ کی منشاء اور منزل ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ہم نے دیکھ لیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومت میں شامل اُس کے اتحادیوں نے کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کے خلاف آزاد عدلیہ کے اقدامات کو جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کے خلاف ایک سازش ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اُس تمام عرصہ میں پاکستان مسلم لیگ ن آزاد عدلیہ کے ساتھ رہی اوراس کے تمام اقدامات کو سراہتی رہی۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد مسلم لیگ ن بھی عدلیہ سے متعلق کچھ بدلی بدلی دکھائی دے رہی ہے اور اشارے بھی مل رہے ہیں کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کی ممکنہ کوشش میں یہ جماعت بھی پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پارلیمنٹ میں موجود کچھ دوسری سیاسی طاقتوں کے ساتھ شامل ہو گی۔ اب تو عمران خان بھی اپنی مرضی کے فیصلے نہ ملنے پر عدلیہ کے متعلق بہکے بہکے بیان دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ہمارے سیاستدان عوامی ووٹ لے کر حق حکمرانی کیا حاصل کرتے ہیںکہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اُن کو ملک ٹھیکے پر دے دیا گیا۔ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اصول، آئین، قانون اور میرٹ کی بات کرتے نہیں تھکتے۔حکومت میں آتے ہی سب کچھ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں،چاہے قانون قاعدہ جو مرضی کہے۔ اب تیاری ایک ایسے کھیل کی ہے جس میںپارلیمنٹ کو سپریم ثابت کرنے کے کے لیے عدلیہ کی آزادی پرایک شدید وار کا خطرہ ہے۔ آزاد عدلیہ کو اپنے رستے کی رکاوٹ سمجھنے والے ہمارے سیاستدان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ججوں کی تعیناتی کو اپنے ہاتھ میں لے کر وہ عدلیہ کو قابو میں لا سکتے ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ عدالتی کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیشن کو یہ حق دیا جائے کہ اُس کی مرضی کے بغیر کوئی جج بھرتی ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی جج کو مستقل یا اُسے سپریم کورٹ میں ترقی دی جا سکتی ہے۔ہمارے کئی ممبران پارلیمنٹ اور سیاستدان اس سلسلے میں آئین کی اٹھارویں ترمیم کو بدلنا چاہتے ہیں۔اُن کی یہ بھی خواہش ہے کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے سو موٹو اختیارات پر قدغنیں لگائی جائیں تا کہ حکمرانوں کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ بادشاہوں کی طرح اس ملک کو اپنی خواہشات کے مطابق چلائیں، تا کہ جعلی ڈگری والوں، چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کو اس ملک کی قسمت سے کھیلنے کے لیے کھلی چھٹی دے دی جائے ۔ اپنی حمایت کے لیے وکلاء کی کچھ تنظیموں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔کسی بھی ایسی آئینی ترمیم جس کا مقصد عدلیہ کو کمزور کرنا یا اس کی آزادی کو سلب کرنا ہو،کو فوری طور پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کی supremacy کے نعرہ کو استعمال کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے جس طرح عدلیہ کے متعلق ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا وہ صرف اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی وجہ سے ہوا۔ اس لیے اب جیسا چاہیں آئین کو بدل دیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں آج بھی ایسے معزز جج حضرات موجود ہیں جو عدالت عظمیٰ کے اُس بنچ میں شامل تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کو عدلیہ سے متعلق اٹھارویں ترمیم میں کی گئی تبدیلیوں میں بہتری لانے کا حکم دیا تھا تا کہ عدلیہ کی آزادی کا تحفط کیا جا سکے۔ججوں کی تعیناتی کے ایک کیس میں پارلیمنٹ کی کمیٹی کی طرف سے ججز کمیشن کی سفارشات کو رد کرنے کے فیصلہ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر سپریم کورٹ پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ججوں کی تعیناتی میں دلچسبی لینے سے قبل پارلیمنٹ اور حکومت کو چاہیے وہ اپنے حالات پر غور کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولیس، سول سروس، کارپوریشنز اور دوسرے حکومتی اداروں میں میرٹ کے مطابق بہترین تعیناتیاں کی جائیں
 

قیصرانی

لائبریرین
عدلیہ کی آزادی پر ممکنہ حملے کی تیاری...کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔۔ انصار عباسی

پارلیمنٹ اپنے آپ کو سپریم منوانے کے لیے ایک بار پھر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تعیناتی میں اپنا پلہ بھاری کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے ایک ایسی آئینی ترمیم پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹی کو یہ آئینی حق حاصل ہو جائے گا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو رد کر سکے اور ججوں کی تعیناتی کے سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی کی رائے کو حتمی مانا جائے گا۔ ویسے تواس آئینی ترمیم پر کام گزشتہ پیپلز پارٹی کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا مگر اُس وقت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خوف سے’’ گو سلو ‘‘ کی پالیسی کو اپنایا گیا۔ سیاستدان سخت غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی رخصتی کے بعد وہ پاکستان کی آزاد عدلیہ کوماضی کی طرح ایک بار پھر اپنے قابو میں کر لیں گے۔ وہ شاید بھول رہے ہیں کہ 9 مارچ 2007 کو شروع ہونے والی آزاد عدلیہ کی تحریک نے پاکستان کی عدلیہ میں بہت سے افتخار محمد چوہدری پیدا کر دیے ہیں۔ اُن کے کام کرنے کے انداز مختلف ہو سکتے ہیں، وہ مزاج میں ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہوں گے لیکن جس آزادی کا مزہ ہماری عدلیہ چکھ چکی ہے، اُسے اب اُن سے چھیننا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو گا۔سپریم کورٹ تو آج بھی اُن ججوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ مل کر آزاد عدلیہ کے لیے جدوجہد کی، ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کیا اور اس ملک کو نڈر اور بے خوف عدلیہ کی صورت میں وہ تحفہ دیا جس کا ہم نے ماضی میں کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا۔ یہاں تو ہائی کورٹس کے جج حضرات بھی اعلیٰ حکمرانوں، ایجنسیوں، بڑے بڑے بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے پسینے نکال چکی ہے۔ گویا کہ عدلیہ ایک نئی ڈگر پر چل پڑی ہے۔ ڈراور خوف والی عدلیہ کا حال اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں۔ اب تو قانون کی حکمرانی، آئین کی پاسداری ، بنیادی حقوق کا حصول اور میرٹ کا قیام عدلیہ کی منشاء اور منزل ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ہم نے دیکھ لیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور حکومت میں شامل اُس کے اتحادیوں نے کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کے خلاف آزاد عدلیہ کے اقدامات کو جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کے خلاف ایک سازش ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ اُس تمام عرصہ میں پاکستان مسلم لیگ ن آزاد عدلیہ کے ساتھ رہی اوراس کے تمام اقدامات کو سراہتی رہی۔ مگر حکومت میں آنے کے بعد مسلم لیگ ن بھی عدلیہ سے متعلق کچھ بدلی بدلی دکھائی دے رہی ہے اور اشارے بھی مل رہے ہیں کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کی ممکنہ کوشش میں یہ جماعت بھی پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پارلیمنٹ میں موجود کچھ دوسری سیاسی طاقتوں کے ساتھ شامل ہو گی۔ اب تو عمران خان بھی اپنی مرضی کے فیصلے نہ ملنے پر عدلیہ کے متعلق بہکے بہکے بیان دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ہمارے سیاستدان عوامی ووٹ لے کر حق حکمرانی کیا حاصل کرتے ہیںکہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اُن کو ملک ٹھیکے پر دے دیا گیا۔ جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اصول، آئین، قانون اور میرٹ کی بات کرتے نہیں تھکتے۔حکومت میں آتے ہی سب کچھ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں،چاہے قانون قاعدہ جو مرضی کہے۔ اب تیاری ایک ایسے کھیل کی ہے جس میںپارلیمنٹ کو سپریم ثابت کرنے کے کے لیے عدلیہ کی آزادی پرایک شدید وار کا خطرہ ہے۔ آزاد عدلیہ کو اپنے رستے کی رکاوٹ سمجھنے والے ہمارے سیاستدان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ججوں کی تعیناتی کو اپنے ہاتھ میں لے کر وہ عدلیہ کو قابو میں لا سکتے ہیں۔ خواہش یہ ہے کہ عدالتی کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیشن کو یہ حق دیا جائے کہ اُس کی مرضی کے بغیر کوئی جج بھرتی ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی جج کو مستقل یا اُسے سپریم کورٹ میں ترقی دی جا سکتی ہے۔ہمارے کئی ممبران پارلیمنٹ اور سیاستدان اس سلسلے میں آئین کی اٹھارویں ترمیم کو بدلنا چاہتے ہیں۔اُن کی یہ بھی خواہش ہے کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے سو موٹو اختیارات پر قدغنیں لگائی جائیں تا کہ حکمرانوں کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ بادشاہوں کی طرح اس ملک کو اپنی خواہشات کے مطابق چلائیں، تا کہ جعلی ڈگری والوں، چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کو اس ملک کی قسمت سے کھیلنے کے لیے کھلی چھٹی دے دی جائے ۔ اپنی حمایت کے لیے وکلاء کی کچھ تنظیموں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔کسی بھی ایسی آئینی ترمیم جس کا مقصد عدلیہ کو کمزور کرنا یا اس کی آزادی کو سلب کرنا ہو،کو فوری طور پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ کی supremacy کے نعرہ کو استعمال کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے جس طرح عدلیہ کے متعلق ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا وہ صرف اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی وجہ سے ہوا۔ اس لیے اب جیسا چاہیں آئین کو بدل دیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں آج بھی ایسے معزز جج حضرات موجود ہیں جو عدالت عظمیٰ کے اُس بنچ میں شامل تھے جنہوں نے پارلیمنٹ کو عدلیہ سے متعلق اٹھارویں ترمیم میں کی گئی تبدیلیوں میں بہتری لانے کا حکم دیا تھا تا کہ عدلیہ کی آزادی کا تحفط کیا جا سکے۔ججوں کی تعیناتی کے ایک کیس میں پارلیمنٹ کی کمیٹی کی طرف سے ججز کمیشن کی سفارشات کو رد کرنے کے فیصلہ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے کر سپریم کورٹ پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکی کہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ججوں کی تعیناتی میں دلچسبی لینے سے قبل پارلیمنٹ اور حکومت کو چاہیے وہ اپنے حالات پر غور کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولیس، سول سروس، کارپوریشنز اور دوسرے حکومتی اداروں میں میرٹ کے مطابق بہترین تعیناتیاں کی جائیں
یہ آپ نے خود سے لکھا؟ :)
 
Top