15-غزل برائے اصلاح

ایک نئی غزل اصلاح کےلئے پیشِ خدمت ہے۔ اصلاح اور آراء سے نوازیئے!

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
ہمت بھی کہاں ہے کہ سہیں اور جفا اب
ہم نے تو بہت دیکھا اُسے دیکھا خدا اب

جس نے مجھے ہر دورِ مصیبت میں سنبھالا
وہ عُنصرِ یکجائی ہوا مجھ سے جدا اب

قصے جو ملیں گے تو کتابوں میں ملیں گے
بس نام ہی کی رہ گئی دُنیا میں وفا اب

ہم لوگ ہیں پہلے ہی محبت کے ستائے
تُو اور نہ اے گردشِ ایام ستا اب

ہر شخص نے چہرے پہ سجا رکھا ہے چہرا
ہر شخص نظر آتا ہے باہر سے جدا اب

ڈھا ڈھا کے ستم اپنے وفاداروں پہ صاحب
دُنیا میں کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو وفا اب

محترم سر الف عین اور دیگر
 
مطلع اور دوسرا شعر کچھ دو لخت ہیں یا واضح نہیں۔ باقی اغلاط سے پاک ہیں

سر مصرعہ یوں تھا:
ہمت بھی کہاں ہے کہ سہیں اور جفا اب
ہم نے تو بہت دیکھا اُسے دیکھے خدا اب

کیا یہ اب بھی دو لخت یا واضح نہیں ؟

اور اس کو یوں کر دیا ہے
جس صبر نے ہر دورِ مصیبت میں سنبھالا
وہ عنصرِ یکجائی ہوا مجھ سے جدا اب
 

الف عین

لائبریرین
ہاں دوسرا شعر اب واضح ہو گیا ہے۔ لیکن مطلع تو اب بھی سمجھا نہیں۔ اور دونوں مصرعوں کا باہمی ربط اب بھی مفقود محسوس ہوتا ہے
 
ہاں دوسرا شعر اب واضح ہو گیا ہے۔ لیکن مطلع تو اب بھی سمجھا نہیں۔ اور دونوں مصرعوں کا باہمی ربط اب بھی مفقود محسوس ہوتا ہے


بہت شکریہ سر، اب دیکھئے مطلع اور مزید ایک شعر

بس اور نہ دیکھیں گے ترے ناز و ادا اب
ہمت ہی کہاں ہے کہ سہیں جور و جفا اب
یا
ہمت ہی کہاں ہے کہ سہیں اور جفا اب

اس شہرِ پریشاں میں گرفتارِ جُنوں ہیں
افسوس کہ اپنا بھی سہارا نہ رہا اب
 

الف عین

لائبریرین
یہ اچھا مطلع ہو گیا ہے، اس مصرع کو رکھو
ہمت ہی کہاں ہے کہ سہیں اور جفا اب

دوسرا نیا شعر بھی درست ہے
 
Top