" ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﯽ "

" ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﯽ "

ﻣﺎﻟﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺎ ﻧﻮﭨﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ

" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "

یہ جملے کیا ہیں بس ایسا لگتا ہے کاندھوں پر ایک بوجھ آن پڑا ہے مضطرب حواس مجتمع کرنے تک کا وقت کافی تکلیف دہ ہوتا ہے ......

کیا کہوں ذہن ہے کہ پیچھے کی جانب دوڑا چلا جا رہا ہے سوچیں ہیں کہ بےقابو ہیں ہلکی سی ٹیس ہے جو لاشعور کے کسی خانے میں رہ رہ کر اٹھتی ہے
ﺫﺭﺍ ﺣﺴﺎﺏ ﺗﻮ ﻟﮕﺎﺅﮞ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﺎﮦ ﺳﺎﻝ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﮮ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﮕﺮ
ﺍﺏ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ
صرف ایک ﻣﮑﺎﻥ ﮨﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ کہ جو اپنا نہیں ہے
ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﻞ ﺗﮏ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﮭﺎ ..
ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﯿﺎﮞ
ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﮔﮭﺮ کتنے
ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﺤﻠﮯ ...
ﮨﻢ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﻘﻞ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﮨﮯ ﻧﺎ
ﯾﮧ ﺩﮐﺎﻥ ﮐﺘﻨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﺎ سودا ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ
ﺳﻤﺠﮫ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ اور ماں کو کہیں کا سودا سمجھ آجاوے یہ کوئی آسان تو نہیں اب کون پچھلے محلے کی کسی دکان تک پریڈ کرے مشکل ہے
ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﺲ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
تعلیمی مشقت کی تکان اور پھر سفر کی صعوبتیں یہاں کتنی آسانی تھی اب کیا کروں کہاں جاؤں سمجھ نہیں آتی
ﯾﮩﺎﮞ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﺍﺣﻤﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﻓﺲ
ﺗﮏ ﻟﻔﭧ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ
صبح صبح کتنا مشکل لگتا ہے بس کی چھت یا پچھلے دروازے کے ساتھ لگے پائیدان سے لٹک کر آفس جانا اور پھر ٹرافک جام لوگوں سے تو تکار اور اس مشقت کے بعد آفس میں باس کی ڈانٹ ایسے ہی لگتی ہے جیسے کسی نے سخت سردی میں سر پر انتہائی بے رحمی سے یخ بستہ پانی انڈیل دیا ہو

ﯾﮧ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﭼﮭﺎ تھا ﺍﺳﮑﺎ ﻋﻼﺝ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻮﺍﻓﻖ بھی ﺁﺗﺎ تھا اسکی فیس بھی تو مناسب تھی اب پتہ نہیں کہاں گھر ملے اور کس طبیب سے واسطہ پڑے
کتنا موقع کا مکان تھا یہ بھی

اب پھر نوٹس آیا پڑا ہے
" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "

کبھی کبھی باغی دل کہتا ہے کیوں کر دوں کیسے کر دوں ابھی تو کچھ ہی دن گزرے ہیں لیکن دماغ سمجھاتا ہے پگلے نقل مکان خانہ بدوش بھی کہیں ٹکتے ہیں
اب ﭘﮭﺮ ﺗﻼﺵ ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﺤﻠﮯ
ﻋﺠﯿﺐ ﻋﺠﯿﺐ ﮔﻨﺪﮮ ﺑﺪﺑﻮ ﺩﺍﺭ ﮐﮭﻨﮉﺭ ﻧﻤﺎ ﻣﮑﺎﻥ
ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﻟﮕﺰﺭﯼ ﺑﻨﮕﻠﮯ
ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻢ ﺍﺗﻨﮯ ﻏﺮﯾﺐ ﻧﮩﯿﮟ
ﮨﻢ ﺍﺗﻨﮯ ﺍﻣﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
کچھ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﮧ ﮨﻢ ﻟﻮﺋﺮ ﻣﮉﻝ ﮐﻼﺱ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ
اور ایک پورا کرایہ اجنسی والے کی نظر کیا کیجئے اسکے بغیر مکان ملتا نہیں اعتبار جو نہیں رہا کسی کو کسی پر ....
سوچتا ہوں
ﮐﺘﻨﯽ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮩﺎﮞ ﭼﮭﻮﭨﻮ پیدا ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮍﮮ ﺑﮭﯿﺎ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺑﻦ ﮔﮱ ﺗﮭﮯ
ﺑﺲ کچھ ﻟﻤﺤﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﺌﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮱ ﻟﻮﮒ ﻧﯿﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺟﺴﮯ ﮨﻢ
ﺑﮍﯼ ﻣﺤﻨﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﺋﯿﻨﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺎﻟﮏ
ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺎ ﻧﻮﭨﺲ ﺁ ﺟﺎﮰ ﮔﺎ

" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "

ہاں ہاں کر دینگے ضرور کر دینگے چھری تلے سانس تو لو !
یہ گردش دوراں بھی نہ
کہیں ایک شعر پڑھا تھا نجانے کیوں یاد آگیا

مرجائینگے مرجائینگے کیوں سر پے کھڑی ہے
اے گردش دوراں تجھے کیا موت پڑی ہے

اے مالک مکان تجھے کیا موت پڑی ہے
کیا موت پڑی ہے ...............
......................
.................

سوچتا ہوں
ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺟﯽ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﭽﮭﻼ ﻣﺤﻠﮧ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺎ
ﭘﮍﻭﺱ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺟﯽ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﮭ

سامنے کی ہر چیز اپنے ساتھ یادوں کا ایک ریلا بہائے لاتی ہے
میں اماں ابّا بھیا چھوٹو سب گھر والے ہمیشہ ایسے ہی لڑتے ہیں
ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻟﻤﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ساتھ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ
ﯾﮧ ﭘﯿﻨﭩﻨﮓ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺘﻨﯽ ﺟﭻ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ
ﻗﺎﻟﯿﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﭽﮭﮯ ﮔﺎ.....
.........
کمرے کو دیکھ کر کتنی ہی یادیں سر اٹھاتی ہیں
ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺎﻓﻞ
ﺳﺠﺎﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ

ہاں
ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺍﻭﯾﺢ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺎﻟﮧ ﮐﮯ ہاتھ ﮐﮯ ﺑﻨﮯ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﮐﺘﻨﺎ ﻟﻄﻒ
ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﻗﺮﯾﺐ ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﺛﺮ
ﺍﻧﮕﯿﺰ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ

ﻣﮕﺮ
ﭘﮭﺮ اس ﻣﺎﻟﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﻧﮯ ﻧﻮﭨﺲ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ

" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "

کردینگے تمہارا مکان خالی گھر نہیں ہے یہ گھر تو اسے ہم نے بنایا تھا

ہر دفع کی کہانی اماں جھنجلا کر کہتی ہیں

ﯾﮧ ﺑﺮﺗﻦ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺧﺮﯾﺪﮮ ﺗﮭﮯ ﺷﻔﭩﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﭨﻮﭦ
گئے .. آہ ...
اور پھر اداسی سے

چلو اچھا ہوا ٹوٹ گئے
اور آجائینگے

میں جھنجلا کر بڑبڑاتا ہوں

ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺟﻮﮌ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺻﻮﻓﮧ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺷﺎﯾﺪ کچھ ﺩﻥ
ﺁﻓﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﺎ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻨﮕﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﭽﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﮰ
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﮑﻞ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮭﮍﯼ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ
ﺍﺱ ﻣﯿﺰ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﮕﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮔﻼ ﮔﮭﺮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﻣﯿﺰ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ
ﺍﺳﭙﺮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺳﺠﺎ ﮐﺮ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ
ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﺘﻨﯽ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺁﻓﺲ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺍﺳﭙﺮ ﻓﺎﺋﻠﯿﮟ ﺑﮑﮭﯿﺮﮮ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ
ﺍﭘﻨﺎ ﭘﮩﻼ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﭙﺮ ﮨﯽ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ

یادیں یادیں یادیں

اچانک کہیں ایک چڑیا چہچہاتی ہے
ﯾﮧ ﭼﮍﯾﺎ ﺟﺴﮑﻮ ﺭﻭﺯ ﺩﺍﻧﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺎﻧﻮﺱ
ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ......

اور ایک وہ چڑیا جو پہلے کبھی کسی مکان میں چھوڑ آیا سنا ہے اسکو اسکا چڑا مل گیا

چلو اچھا ہوا یہ دل بھی نہ عجیب ہے بےوقت دھڑکتا ہے کسی کے نام پر کیا کروں پاگل جو ہے نہ .........

سوچتا ہوں

ﮐﺘﻨﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻤﺤﮯ
ﺳﺐ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﻮﮞ
ﯾﮧ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﮑﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎﮰ ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ
ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﮑﺎﻥ ﺗﮏ

ﺟﺐ ﺗﮏ ﻧﻮﭨﺲ ﻧﮧ ﺁ ﺟﺎﮰ

" ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ "

ﺣﺴﯿﺐ ﺍﺣﻤﺪ ﺣﺴﯿﺐ
 

الف عین

لائبریرین
اسد کے مبدل سے تبدیل کیا ہوا متن۔ لیکن یہ افسانہ محض آدھا اس مخصوص کی بورڈ سے لکھا گیا ہے۔

پھر ایک نقل مکانی "

مالک مکان کا نوٹس آ گیا

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

یہ جملے کیا ہیں بس ایسا لگتا ہے کاندھوں پر ایک بوجھ آن پڑا ہے مضطرب حواس مجتمع کرنے تک کا وقت کافی تکلیف دہ ہوتا ہے ......

کیا کہوں ذہن ہے کہ پیچھے کی جانب دوڑا چلا جا رہا ہے سوچیں ہیں کہ بےقابو ہیں ہلکی سی ٹیس ہے جو لاشعور کے کسی خانے میں رہ رہ کر اٹھتی ہے
ذرا حساب تو لگاؤں کتنے ماہ سال اس مکان میں گزرے جسے ہم نے گھر کر دیا تھا
مگر
اب پھر یہ
صرف ایک مکان ہی تو ہے کہ جو اپنا نہیں ہے
اجنبی کل تک جو اپنا اپنا تھا ..
لیکن یہ پہلی بار تو نہیں نجانے کتنی نقل مکانیاں
پہلے بھی تو کر چکے ہیں یاد نہیں کتنے گھر کتنے
علاقے کتنے محلے ...
ہم ایسے نقل مکانوں کی زندگی بھی عجیب ہے نا
یہ دکان کتنی اچھی ہے اسکا سودا میری ماں کو
سمجھ آتا ہے اور ماں کو کہیں کا سودا سمجھ آجاوے یہ کوئی آسان تو نہیں اب کون پچھلے محلے کی کسی دکان تک پریڈ کرے مشکل ہے
یہاں سے بس سیدھی میرے بھائی کے کالج جاتی ہے
تعلیمی مشقت کی تکان اور پھر سفر کی صعوبتیں یہاں کتنی آسانی تھی اب کیا کروں کہاں جاؤں سمجھ نہیں آتی
یہاں قریب ہی احمد صاحب رہتے ہیں جو مجھے آفس
تک لفٹ دیتے ہیں
صبح صبح کتنا مشکل لگتا ہے بس کی چھت یا پچھلے دروازے کے ساتھ لگے پائیدان سے لٹک کر آفس جانا اور پھر ٹرافک جام لوگوں سے تو تکار اور اس مشقت کے بعد آفس میں باس کی ڈانٹ ایسے ہی لگتی ہے جیسے کسی نے سخت سردی میں سر پر انتہائی بے رحمی سے یخ بستہ پانی انڈیل دیا ہو

یہ ڈاکٹر اچھا تھا اسکا علاج ہمیں موافق بھی آتا تھا اسکی فیس بھی تو مناسب تھی اب پتہ نہیں کہاں گھر ملے اور کس طبیب سے واسطہ پڑے
کتنا موقع کا مکان تھا یہ بھی

اب پھر نوٹس آیا پڑا ہے
" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

کبھی کبھی باغی دل کہتا ہے کیوں کر دوں کیسے کر دوں ابھی تو کچھ ہی دن گزرے ہیں لیکن دماغ سمجھاتا ہے پگلے نقل مکان خانہ بدوش بھی کہیں ٹکتے ہیں
اب پھر تلاش گلی گلی محلے محلے
عجیب عجیب گندے بدبو دار کھنڈر نما مکان
بڑے بڑے لگزری بنگلے
نہیں نہیں
ہم اتنے غریب نہیں
ہم اتنے امیر بھی نہیں
کچھ درمیانہ ہم لوئر مڈل کلاس ہیں جناب
اور ایک پورا کرایہ اجنسی والے کی نظر کیا کیجئے اسکے بغیر مکان ملتا نہیں اعتبار جو نہیں رہا کسی کو کسی پر ....
سوچتا ہوں
کتنی یادیں اس مکان میں بھی چھوڑے جاتے ہیں
یہاں چھوٹو پیدا ہوا تھا
یہاں بڑے بھیا کی شادی ہوئی تھی
یہاں کتنے اچھے دوست بن گئے تھے
بس کچھ لمحے اور پھر نئی جگہ نئے لوگ نیا مکان جسے ہم
بڑی محنت سے محبت سے گھر بنائینگے اور پھر مالک
مکان کا نوٹس آ جائے گا

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

ہاں ہاں کر دینگے ضرور کر دینگے چھری تلے سانس تو لو !
یہ گردش دوراں بھی نہ
کہیں ایک شعر پڑھا تھا نجانے کیوں یاد آگیا

مرجائینگے مرجائینگے کیوں سر پے کھڑی ہے
اے گردش دوراں تجھے کیا موت پڑی ہے

اے مالک مکان تجھے کیا موت پڑی ہے
کیا موت پڑی ہے ...............
......................
.................

سوچتا ہوں
کتنی مشکل سے جی لگا تھا پچھلا محلہ وہاں کا
پڑوس وہاں کا ماحول کتنا اچھا تھا
اور کتنی مشکل سے یہاں جی لگایا تھ
ا
سامنے کی ہر چیز اپنے ساتھ یادوں کا ایک ریلا بہائے لاتی ہے
میں اماں ابّا بھیا چھوٹو سب گھر والے ہمیشہ ایسے ہی لڑتے ہیں
نہیں نہیں یہ الماری اس دیوار کے ساتھ ٹھیک نہیں
یہ پینٹنگ یہاں کتنی جچ رہی ہے
قالین یہاں بچھے گا.....
.........
کمرے کو دیکھ کر کتنی ہی یادیں سر اٹھاتی ہیں
اس کمرے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کتنی محافل
سجائی تھیں

ہاں
یاد ہے چھت پر رمضان میں تراویح کا انتظام کیا تھا
نیچے والی خالہ کے ہاتھ کے بنے پکوڑے کتنا لطف
دیتے تھے
قریب کی مسجد کے مولوی صاحب کا درس کتنا اثر
انگیز ہوتا تھا

مگر
پھر اس مالک مکان نے نوٹس بھیج دیا

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

کردینگے تمہارا مکان خالی گھر نہیں ہے یہ گھر تو اسے ہم نے بنایا تھا

ہر دفع کی کہانی اماں جھنجلا کر کہتی ہیں

یہ برتن کتنی محبت سے خریدے تھے شفٹنگ میں ٹوٹ
گئے .. آہ ...
اور پھر اداسی سے

چلو اچھا ہوا ٹوٹ گئے
اور آجائینگے

میں جھنجلا کر بڑبڑاتا ہوں

کتنے پیسے جوڑ کر یہ صوفہ لیا تھا شاید کچھ دن
آفس میں دوپہر کا کھانا نہیں منگایا کہ بچت ہو جائے
اب میں اپنی موٹر سائکل کہاں کھڑی کرونگا
اس میز کی کوئی جگہ نہیں اگلا گھر چھوٹا ہے
یہ میز کیسے چھوڑ دوں
اسپر تو میں اپنی کتابیں سجا کر امتحان کی تیاری
کرتا تھا
کتنی راتوں آفس کا کام اسپر فائلیں بکھیرے کرتا رہا
اپنا پہلا کمپیوٹر بھی تو اسپر ہی رکھا تھا

یادیں یادیں یادیں

اچانک کہیں ایک چڑیا چہچہاتی ہے
یہ چڑیا جسکو روز دانہ پانی ڈالتے تھے کتنی مانوس
ہو گئی تھی......

اور ایک وہ چڑیا جو پہلے کبھی کسی مکان میں چھوڑ آیا سنا ہے اسکو اسکا چڑا مل گیا

چلو اچھا ہوا یہ دل بھی نہ عجیب ہے بےوقت دھڑکتا ہے کسی کے نام پر کیا کروں پاگل جو ہے نہ .........

سوچتا ہوں

کتنی چیزیں کتنے لوگ کتنی باتیں کتنے لمحے
سب کیسے سنبھال کر رکھوں
یہ مکان میرا مکان نہیں
میں تو اپنا گھر اپنے کاندھوں پر اٹھائے نجانے کتنے
سالوں سے گلیوں گلیوں پھر رہا ہوں
ایک مکان سے دوسرے مکان تک

جب تک نوٹس نہ آ جائے

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

حسیب احمد حسیب
 
اسد کے مبدل سے تبدیل کیا ہوا متن۔ لیکن یہ افسانہ محض آدھا اس مخصوص کی بورڈ سے لکھا گیا ہے۔

پھر ایک نقل مکانی "

مالک مکان کا نوٹس آ گیا

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

یہ جملے کیا ہیں بس ایسا لگتا ہے کاندھوں پر ایک بوجھ آن پڑا ہے مضطرب حواس مجتمع کرنے تک کا وقت کافی تکلیف دہ ہوتا ہے ......

کیا کہوں ذہن ہے کہ پیچھے کی جانب دوڑا چلا جا رہا ہے سوچیں ہیں کہ بےقابو ہیں ہلکی سی ٹیس ہے جو لاشعور کے کسی خانے میں رہ رہ کر اٹھتی ہے
ذرا حساب تو لگاؤں کتنے ماہ سال اس مکان میں گزرے جسے ہم نے گھر کر دیا تھا
مگر
اب پھر یہ
صرف ایک مکان ہی تو ہے کہ جو اپنا نہیں ہے
اجنبی کل تک جو اپنا اپنا تھا ..
لیکن یہ پہلی بار تو نہیں نجانے کتنی نقل مکانیاں
پہلے بھی تو کر چکے ہیں یاد نہیں کتنے گھر کتنے
علاقے کتنے محلے ...
ہم ایسے نقل مکانوں کی زندگی بھی عجیب ہے نا
یہ دکان کتنی اچھی ہے اسکا سودا میری ماں کو
سمجھ آتا ہے اور ماں کو کہیں کا سودا سمجھ آجاوے یہ کوئی آسان تو نہیں اب کون پچھلے محلے کی کسی دکان تک پریڈ کرے مشکل ہے
یہاں سے بس سیدھی میرے بھائی کے کالج جاتی ہے
تعلیمی مشقت کی تکان اور پھر سفر کی صعوبتیں یہاں کتنی آسانی تھی اب کیا کروں کہاں جاؤں سمجھ نہیں آتی
یہاں قریب ہی احمد صاحب رہتے ہیں جو مجھے آفس
تک لفٹ دیتے ہیں
صبح صبح کتنا مشکل لگتا ہے بس کی چھت یا پچھلے دروازے کے ساتھ لگے پائیدان سے لٹک کر آفس جانا اور پھر ٹرافک جام لوگوں سے تو تکار اور اس مشقت کے بعد آفس میں باس کی ڈانٹ ایسے ہی لگتی ہے جیسے کسی نے سخت سردی میں سر پر انتہائی بے رحمی سے یخ بستہ پانی انڈیل دیا ہو

یہ ڈاکٹر اچھا تھا اسکا علاج ہمیں موافق بھی آتا تھا اسکی فیس بھی تو مناسب تھی اب پتہ نہیں کہاں گھر ملے اور کس طبیب سے واسطہ پڑے
کتنا موقع کا مکان تھا یہ بھی

اب پھر نوٹس آیا پڑا ہے
" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

کبھی کبھی باغی دل کہتا ہے کیوں کر دوں کیسے کر دوں ابھی تو کچھ ہی دن گزرے ہیں لیکن دماغ سمجھاتا ہے پگلے نقل مکان خانہ بدوش بھی کہیں ٹکتے ہیں
اب پھر تلاش گلی گلی محلے محلے
عجیب عجیب گندے بدبو دار کھنڈر نما مکان
بڑے بڑے لگزری بنگلے
نہیں نہیں
ہم اتنے غریب نہیں
ہم اتنے امیر بھی نہیں
کچھ درمیانہ ہم لوئر مڈل کلاس ہیں جناب
اور ایک پورا کرایہ اجنسی والے کی نظر کیا کیجئے اسکے بغیر مکان ملتا نہیں اعتبار جو نہیں رہا کسی کو کسی پر ....
سوچتا ہوں
کتنی یادیں اس مکان میں بھی چھوڑے جاتے ہیں
یہاں چھوٹو پیدا ہوا تھا
یہاں بڑے بھیا کی شادی ہوئی تھی
یہاں کتنے اچھے دوست بن گئے تھے
بس کچھ لمحے اور پھر نئی جگہ نئے لوگ نیا مکان جسے ہم
بڑی محنت سے محبت سے گھر بنائینگے اور پھر مالک
مکان کا نوٹس آ جائے گا

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

ہاں ہاں کر دینگے ضرور کر دینگے چھری تلے سانس تو لو !
یہ گردش دوراں بھی نہ
کہیں ایک شعر پڑھا تھا نجانے کیوں یاد آگیا

مرجائینگے مرجائینگے کیوں سر پے کھڑی ہے
اے گردش دوراں تجھے کیا موت پڑی ہے

اے مالک مکان تجھے کیا موت پڑی ہے
کیا موت پڑی ہے ...............
......................
.................

سوچتا ہوں
کتنی مشکل سے جی لگا تھا پچھلا محلہ وہاں کا
پڑوس وہاں کا ماحول کتنا اچھا تھا
اور کتنی مشکل سے یہاں جی لگایا تھ
ا
سامنے کی ہر چیز اپنے ساتھ یادوں کا ایک ریلا بہائے لاتی ہے
میں اماں ابّا بھیا چھوٹو سب گھر والے ہمیشہ ایسے ہی لڑتے ہیں
نہیں نہیں یہ الماری اس دیوار کے ساتھ ٹھیک نہیں
یہ پینٹنگ یہاں کتنی جچ رہی ہے
قالین یہاں بچھے گا.....
.........
کمرے کو دیکھ کر کتنی ہی یادیں سر اٹھاتی ہیں
اس کمرے میں اپنے دوستوں کے ساتھ کتنی محافل
سجائی تھیں

ہاں
یاد ہے چھت پر رمضان میں تراویح کا انتظام کیا تھا
نیچے والی خالہ کے ہاتھ کے بنے پکوڑے کتنا لطف
دیتے تھے
قریب کی مسجد کے مولوی صاحب کا درس کتنا اثر
انگیز ہوتا تھا

مگر
پھر اس مالک مکان نے نوٹس بھیج دیا

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

کردینگے تمہارا مکان خالی گھر نہیں ہے یہ گھر تو اسے ہم نے بنایا تھا

ہر دفع کی کہانی اماں جھنجلا کر کہتی ہیں

یہ برتن کتنی محبت سے خریدے تھے شفٹنگ میں ٹوٹ
گئے .. آہ ...
اور پھر اداسی سے

چلو اچھا ہوا ٹوٹ گئے
اور آجائینگے

میں جھنجلا کر بڑبڑاتا ہوں

کتنے پیسے جوڑ کر یہ صوفہ لیا تھا شاید کچھ دن
آفس میں دوپہر کا کھانا نہیں منگایا کہ بچت ہو جائے
اب میں اپنی موٹر سائکل کہاں کھڑی کرونگا
اس میز کی کوئی جگہ نہیں اگلا گھر چھوٹا ہے
یہ میز کیسے چھوڑ دوں
اسپر تو میں اپنی کتابیں سجا کر امتحان کی تیاری
کرتا تھا
کتنی راتوں آفس کا کام اسپر فائلیں بکھیرے کرتا رہا
اپنا پہلا کمپیوٹر بھی تو اسپر ہی رکھا تھا

یادیں یادیں یادیں

اچانک کہیں ایک چڑیا چہچہاتی ہے
یہ چڑیا جسکو روز دانہ پانی ڈالتے تھے کتنی مانوس
ہو گئی تھی......

اور ایک وہ چڑیا جو پہلے کبھی کسی مکان میں چھوڑ آیا سنا ہے اسکو اسکا چڑا مل گیا

چلو اچھا ہوا یہ دل بھی نہ عجیب ہے بےوقت دھڑکتا ہے کسی کے نام پر کیا کروں پاگل جو ہے نہ .........

سوچتا ہوں

کتنی چیزیں کتنے لوگ کتنی باتیں کتنے لمحے
سب کیسے سنبھال کر رکھوں
یہ مکان میرا مکان نہیں
میں تو اپنا گھر اپنے کاندھوں پر اٹھائے نجانے کتنے
سالوں سے گلیوں گلیوں پھر رہا ہوں
ایک مکان سے دوسرے مکان تک

جب تک نوٹس نہ آ جائے

" ایک مہینے میں گھر خالی کر دو "

حسیب احمد حسیب
نوازش استاد محترم آپ کی رہنمائی پر انتہائی مشکور ہوں
یہاں میں نے گوگل ٹرانسلیٹ استعمال کیا ہے مبدل اپلیکیشن استعمال کرکے دیکھتا ہوں
 
تعصب کے غاروں سے آنے والی بوڑھی چمگادڑ ، میرے مراسلوں کو مضحکہ خیز قرار دے رہی ہے۔ شاید اسے امید ہے کہ اپنی غلاظت کی اِن اُلٹیوں سے وہ توجہ حاصل کر سکے گی۔

:p:grin::biggrin:

:laughing::laughing::chill:
 
Top