’’ نظام آباد ‘‘ ( اردو محفل پر میرا پہلا افسانہ) : م۔م۔مغل

مغزل

محفلین
”نظام آباد“

چہار جانب رات کا مہیب سناٹا طاری تھا رات کے سکوت میں کہیں کہیں آوارہ کتوں کے غول قوال پارٹی کی طرح الاپ چھیڑتے اور خاموش ہوجاتے ۔۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ۔۔ داد، نہ پاکر ایک بار پھرالاپ راگتے۔۔۔ اور آگے بڑھ جاتے ۔۔۔جھینگر اور مینڈک بھی موسیقی کو مذہب خیال کرتے ہوئے اپنے اپنے سر لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ دن پھر پانی کو ترستی خشک زمین پراس وقت ہر طرف کالک اور راکھ کے کیچڑ کی دبیز تہ بچھی ہوئی تھی جس میں کہیں کہیں سے اٹھتا دھواں رات کی سیاہ چادر اوڑھے سینہ کوبی میں مصروف تھا۔۔۔۔ ادھ جلے سرکنڈے اور خشک بالیوں کی باقیات چغلی کھارہی تھیں کہ یہاں کبھی گندم کی سنہری بالیاںشرمیلی ہوا کو چھیڑنے اور رقص کرنے میں بھرپور جوانی کی سرشاری کے گرم دن اور خنک شامیں گزارتی تھیں۔۔۔۔بوڑھی ہڈیوں پرکھال کا شکن آلودغلاف پہنے الف دین جھلنگاسی چار پائی پر نیم دراز تھا ۔۔۔۔رات کا دوسرا پہر تھا ۔۔۔ الف دین کی آنکھوں میں نیند اور خوابوں کی جگہ چمکتے ہوئے آنسو، بادلوں سے جھانکے والے تاروں سے رقابت کی حدیں متعین کرنے میں مصروف تھے۔۔ حساب کتاب جاری تھا ۔۔۔ ہوا کے تھپیڑے شراروں کو راکھ کے ڈھیر سے نکال کر اس کے چہرے کے قریب لاپھینکنے میں مصروف تھے۔۔ ۔۔ ضعیفی میں گالوں کی جگہ نمودار ہونے والے گڑھوں میں ٹھہر جانے والے شریرآنسواگلے سفر پر روانہ ہونے لگے تو الف دین اٹھ بیٹھا اور دھوتی کے پلو سے انہیں خشک کرڈالا۔۔۔۔۔ مویشیوں کو ہنکانے والا ادھ جلا”سوٹا“ابھی بجھا نہیں تھا۔ الف دین نے پائنتی کی طرف رکھے ہوئے حقے کو قریب کیا جو اس کے باپ سے اسے ترکے میں ملا تھا۔۔ خیر ترکے میں تو اسے بیمار ماں بھی ملی تھی اورزمیندار کا قرض بھی ۔۔۔گلا کھنکارتے ہوئے اس نے سلگتاہوا ”سوٹا“ حقے کے تاج پر رکھا اورگڑگڑا کر گرم کیا ۔۔ پھر نیم بے جان وجود کی رہی سہی طاقت آزماتے ہوئے کثیف دھویں کو پھیپھڑوں میں جمع کرنے لگا ۔۔ یو ں لگ رہا تھا جیسے وہ ارد گرد کا سارا دھواں اپنے پھیپھڑوں میں بھرنا چاہتا ہو۔۔۔۔اس کوشش میں اس پر کھانسی کا دورہ پڑگیا ۔۔وہ چھاتی کو دونوں ہاتھوں میں بھینچتے ہوئے دوہرا سا ہوگیا۔۔۔کھانسی تھمی تو وہ بان کی چارپائی پرگر کر گہر ی گہری سانسیں لینے لگااب سانسوں میں سسکیاں بھی در آئی تھیں۔۔ ۔۔۔ پوپھٹے کا عمل شروع ہوا تو ۔۔ اریب قریب کے درختوں پر آرام کرتے ہوئے پرندوں نے آنکھیں کھولی اور چہچہاناشروع کردیا۔۔گاؤں کے غیرت مند مرغے بھی اپنے سینے پیٹتے ہوئے ۔گاؤں کے باسیوں کو جگانے لگے۔۔ ۔۔۔ رات نے اپنا اسباب جمع کیا اور شرماتے ہوئے رخصت ہوئی ۔۔۔۔گاؤں میں دن جاگنے لگا تھا۔۔ سورج زمین کے سینے پر سائے تراشنے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔منظر واضح ہوچکا تھا ۔۔ الف دین کے کھیت سے اٹھنے والا دھواں رات بھر کے رقص کے بعد نڈھال ہوچکا تھا۔۔۔ٹن ٹن کھن کھن ۔۔ ہی ہ ہی یہہ۔۔ کی آوازوں کے ساتھ ہی چرواہے اپنے اپنے مال مویشی چراگاہ کی طرف لے جانے لگے۔۔قریب سے گزرنے والے دو ایک دیہاتیوں نے جلے ہوئے کھیت میں چارپائی پرپڑے ہوئے الف دین کو چور نظروں سے دیکھا اور آگے بڑھ گئے ۔نہ رکنا انسانی اور گاؤں کی روایات کے منافی تھا مگر رکنا چوہدری کے ظلم کو دعوت دینے کے مترادف تھا ۔۔گاؤں کے سب لوگ جانتے تھے کہ الف دین نے، چوہدری نظام کو اپنی زمین دینے سے انکار کردیا تھا۔۔۔اس جرم کی پاداش میں ایک رات اس کی بوڑھی ماں کوپانی میں زہردیدیا گیا۔۔اور بوڑھی شاداں ۔۔ وقت سے پہلے بوڑھے ہوجانے والے بیٹے الف دین کو مزید بوڑھا کر کے ملکِ عدم روانہ ہوگئی۔۔۔اس پربھی بس نہ ہوا۔۔تو چوہدری اس کے کھیت کا پانی بند کردیتا ۔۔۔ اورکل رات الف دین کو جیسے تیسے گندم کی پکی ہوئی فصل سے ایک بالی بھی بچانے کا موقع نہ ملا ۔۔چوہدری نظام کے کارندوں نے اس کاپورا کھیت جلاکر خاکتسر کردیا تھا۔۔۔ ۔اب الف دین تھا اور اس کا جلا ہوا کھیت ۔۔ جس پر آنسو بہا کر وہ اسے پھر سے کاشت کرنا چاہتا تھا۔۔ تین دن تین راتیں الف دین نے اپنے کھیت کے ملبے پر گزاریں ۔۔وہ دن بھر بھوکا رہتا اور رات بھر اجڑے ہوئے کھیت کا ماتم کرتا ۔۔۔گاؤں میں ایک شخص اور تھا جو چوہدری نظام سے نہیں ڈرتا تھا۔۔ اور وہ تھا مولوی خیر دین۔۔جو اس کی دلجوئی کرتا اور اسے رات کا کھانا لادیتا تھا ۔۔۔الف دین کھانا کھاتے ہوئے شکر میں بھیگی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھتا ۔۔ اور کھانا زہر مار کھا لیتا۔۔۔مولوی خیردین گاؤں کے بچوںکو قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ چوہدری نظام کے گھرروز صبح قرآن کی تلاوت کرنے جاتا تھا اور وعظ و نصیحت کرتا ۔۔اس دوران چوہدرائن برآمدے میں بیٹھی روتی رہتی۔۔ چوہدری نظام کی شادی کوپندرہواں سال لگ چکاتھا لیکن خدانے اسے اولاد کی نعمت محروم رکھا تھا ۔۔ ایک رات الف دین، مولوی خیردین کا لایا ہوا کھانا کھانے کے بعد چھپتا چھپاتا ساتھ والے گاؤں پہنچا۔۔۔۔اور گاؤں کے چوہدری سے مدد کی درخواست کی۔ ۔۔ ۔چوہدری اسی وقت شہر سے لوٹا تھا۔۔۔چوہدری فریدنے پہلے تو چوہدری نظام سے حقِ دوستی نبھاتے ہوئے صاف انکار کیا لیکن جب الف دین نے اپنی پگڑی اس کے پیروں میں رکھی تو مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے بادلِ نخواستہ حامی بھر لی۔۔۔۔الف دین شکریہ کے آنسو اور چوہدری فرید کی دلائی ہوئی امید پر نئے خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ۔۔۔صبح تڑکے کے وقت اپنے کھیت کے ملبے پر واپس آگیا ۔۔۔ تھکا ہوا تو تھا جلد ہی نیند نے آلیا۔۔سورج تمازتیں بکھیرتاہوا سر پر آن پہنچا تو شور شرابے نے جاگنے پر مجبو ر کردیا۔۔اس نے گہری سی جماہی لیتے ہوئے آنکھیں ملیں اور سٹ پٹا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔۔ سامنے سے پندرہ بیس کے قریب لٹھ بردار آتے دکھائی دیئے سب نے اپنے چہروں پر ڈھاٹے باندھے ہوئے تھے۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا لٹھ برداروں نے اسے گھیرے میں لے لیا۔۔۔اور بغیر کچھ کہے سنے اسے لاٹھیوں کی زد پر رکھ دیا ۔۔۔۔الف دین ہزیانی انداز میں چیختا کبھی ادھر جاتا کبھی ادھر ۔۔کبھی سر پہ ہاتھ رکھتا ۔۔ کبھی پیر وں پہ ۔۔ اپنے آپ کو بچانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔ہاتھ جوڑے منتیں کرلیں۔۔ کہ ہوا کیا ہے ۔۔۔ سائیں میں نے کیا کردیا ۔۔۔لیکن کسی نے ایک نہ سنی۔۔۔زخموں سے چور الف دین جب مارکھاکھا کے بے سدھ ہو گیا تو ایک لٹھ بردار اسے بالوں سے گھسیٹتے ہوئے کھیت سے دورلے آیااور ایک بھار ی پتھر اٹھا کر اس کی ٹانگ پر دے مارا۔۔۔ بے سد ھ الف دین کے حلق سے ایک دل خراش چیخ نکلی۔۔۔۔اللہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ ٹانگ کی ہڈیاں کچومر بن گئی تھیں۔۔کچھ دیر اس کا لہولہان وجود تڑپتا رہا اور پھر ساکت ہوتا چلا گیا۔۔۔۔ لٹھ بردار نے ایک نظر الف دین پر ڈالی اور حقارت سے اس کے چہرے کی جانب تھوک دیا۔۔۔ہہنہ۔۔۔ چوہدری نظام کے آگے انکار کرتا ہے۔۔ تھووو۔۔۔اور واپس مڑ گیا۔۔دو چار لٹھ بردار کھیت میں پڑی چارپائی پر فاتحانہ انداز میں بیٹھ گئے اور باقی چوہدری کی حویلی کی طرف روانہ ہوگئے۔ ۔۔۔دور ایک درخت کی اوٹ سے دو آنکھیں یہ منظر دیکھتی رہیں ۔۔ اور پھر ڈبڈبا کررہ گئیں۔
چوہدری نظام کی حویلی میںایک جشن کا سا سماں تھا ۔۔ ۔۔ صبح صبح ساتھ والے گاؤں کے چوہدری ، چوہدری فرید نے اپنے ملازم کے ہاتھ ڈاکٹری رپوٹیں بھجوائیں تھی اور مبارکباد کہلا بھیجی کہ مبارک ہواللہ نے تمھارے دن پھیر دیئے ہیں۔۔ ۔میری دعا کے کہ مولا تمھیں نر بچہ دے ۔۔ جو تمھارا وارث ہو۔۔۔۔ چوہدری نظام یہ خبر سن کر جھوم اٹھا اورحویلی میں دیوانہ وار ناچنے لگا۔۔۔اس نے ملاز م کوجیب سے تین لال لال نوٹ نکال کردیئے اور فرید کیلئے اپنے اصطبل سے عربی نسل کی سیاہ گھوڑی اور ایک من دیسی گھی ، اور اونچے شملے والی پگڑی بھجوائی ۔۔ اور کہا کہ چوہدری فرید سے کہنا کہ تم نے جو خبر مجھے سنائی ہے اس سے اس کا حق ادا نہیں ہوتا، موسم کچھ ٹھیک ہوجائے توشیندور میلے میں جائیں گے۔۔ملازم دونوں ہاتھ کھڑے کرکے دعائیں دیتا ہوا رخصت ہوا ۔۔۔ تو چوہدری نظام حویلی کے وسیع و عریض دالان سے گردن اکڑائے لمبے لمبے ڈگ بھرتاہوا اپنے کمرے میں پہنچاجہاں چوہدرائن چہرے پر استعجاب و حیرت کی ملی جلی کیفیت میں مسلسل چھت کو گھور رہی تھی۔چوہدری نظام کمرے میں داخل ہو اتویک دم ہڑبڑا اٹھی۔۔۔ اوڑھنی درست کرتے ہوئے بولی ۔۔ چوہدری جی خیریت یہ باہر شور شرابا کیسا تھا اور رپوٹوں کا کیا ہوا؟جواباً چوہدری نے اسے خوشخبری سنائی اور مبارکباد دی۔۔۔چوہدرائن کے چہرے پر ایک عجیب بے تاثر رنگ آکرٹھہر گیا۔۔۔وہ کافی دیر یونہی بیٹھی رہی تو چوہدری کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں بولا یہ کیا منھ بنائے بیٹھی ہو ۔۔۔کچھ ہار سنگھار کرلو ۔۔۔ اورخیرن کے ساتھ کھیتوں میں چلی جاؤ۔۔ ۔۔ تمھیں تازہ ہوا کی ضرورت ہے۔۔۔۔ چوہدرائن نے اثبات میں سر ہلایااور آگے بڑھ گئی ۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ حویلی کی ملازمہ خیرن کے ہمراہ سبز لہلاتے کھیتوں میںکسی ہرنی کی طرح قلانچیں بھر رہی تھی۔۔۔ وہ شادی کے بعد آج پہلی بار حویلی سے باہر آئی تھی۔۔۔یونہی موسم اور سبزے سے اٹھکیلیاں کرتے کرتے وہ کافی دور نکل آئی ۔۔۔ تو خیرن نے اسے واپس چلنے کو کہا۔۔۔ ابھی وہ مڑنے کو ہی تھی کے حویلی کی جانب سے اسے پندرہ بیس نقاب پوش آتے دکھائی دیئے۔۔وہ اور خیرن وہیں دبک کے بیٹھ گئیں۔۔۔ نقاب پوش ان کے پاس سے گزرتے ہوئے الف دین کے جلے ہوئے کھیت کی طرف جارہے تھے تین افراد جنہوں نے منھ نہیں چھپائے تھے۔۔وہ کرمو ، ولایت اور خدابخش تھے ۔۔ اس نے کو پہچان لیا تھا یہ حویلی کے پرانے ملازم تھے۔۔۔وہ وہیں ایک درخت کی اوٹ میں بیٹھ کر یہ سارامنظر دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ نقاب پوشوں نے الف دین کو مار مار کر ادھموا کردیا تھا۔۔۔۔ پھر ایک شقی القلب اسے گھسیٹ کر باہر لایا اور ٹانگوں پر بھاری پتھر دے مارا۔۔۔ چوہدرائن نے بڑی مشکل سے اپنی چیخ روکی ۔۔۔ لیکن ایک چیخ فضا میں پہلے ہی گونج چکی تھی۔۔۔۔۔ اس کی ہرنی جیسی کاجل آلود آنکھوں میں موتی آکر ٹھہر گئے۔۔۔ وہ کافی دیر تک ساکت و جامد بیٹھی رہی۔۔۔۔ ۔ کہ خیر ن اسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے واپس حویلی لے آ ئی ۔۔۔چوہدرائن کے حواس بحال ہوئے تو وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر کے ۔۔۔۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔۔ جانے کب تک روتی رہی کہ اس دوران اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔ دروازہ پیٹنے کی آوازوں نے اسے جاگنے پر مجبور کیا تو اس وقت اندھیرا ہورہا تھا۔۔ ۔۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر مسہری پر تقریباً گر سی گئی ۔۔ اس کا سر درر کے مارے پھٹا پڑرہا تھا۔۔ بڑی مشکل سے اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔۔ تو خیرن دودھ کا گلاس لیئے گھڑی تھی وہ مڑی اور مسہری کی طرف بڑھ گئی۔
الف دین کوہوش آیا تو اس نے خود کو ایک کمرے میں پایا ایک طرف اگر بتیاں سلگ رہی تھیں۔۔۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور کراہ کر رہ گیا۔۔ٹانگوں نے اس کے وجود کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا تھا ا س کا پورا وجود کپڑے کی پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد کمرے کے دروازے پر آہٹ ہوئی تو اس نے آنکھیں موند لیں۔۔۔۔کمرے میں خیرن اور اس کی بیٹی داخل ہوئیں تھی۔۔ ان کے ہاتھوں میں کھانا اور پھل تھے۔۔ ۔۔ خیرن کی بیٹی نے الف دین کو ہلایا ۔۔۔” بابا اٹھ۔۔ بابا او بابا۔۔اٹھ“ ۔۔ الف دین بے سدھ پڑا رہا ۔ ۔۔۔ خیرن کی بیٹی نے ماں سے پوچھا ۔۔ بے بے ۔۔ دینو بابا کو ادھر کون لایا ہے۔۔؟؟
۔۔۔ چوہدرانی جی نے رشید کو بھیجا تھا وہ لایا ہے۔۔۔خیرن نے رازدارانہ انداز میں بتایا۔۔۔ پر بے بے۔۔۔ خیرن کی بیٹی بولنے لگی تو ماں نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ ہاں ہاں ۔۔ بس ۔۔ چوہدرانی نے چوہدری جی سے کہا کہ اسے خواب میں بڑے مرشد کی زیارت ہوئی ہے ۔۔ انہوں نے پیار کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری کو کہو کہ اگر بیٹا چاہیئے تو الف دین کی خدمت کر۔۔ ۔ فیر بے بے ؟؟ خیرن کی بیٹی بات کاٹتے ہوئے بولی۔۔چوہدری جی پہلے تو انکار کیا ۔۔۔ پھر چوہدرانی کو کہا ۔۔۔ تم ہی کرو خدمت ۔۔۔ لیکن جلدی دفع کردینا یہاں سے۔۔خیرن نے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔اور بیٹی کے ہمراہ کمرے سے باہر چلی گئی۔
چوہدرائن دو ایک بار کمرے سے ہوگئی تھی۔۔۔ خیرن نے اسے آکر بتایا تھا کہ الف دین کوئی بات نہیں کرتا کھانا کبھی کھا لیتا ہے کبھی پھینک دیتا ہے۔۔بس کمرے کی چھت کو گھور تا رہتا ہے۔۔۔دو ایک دن مزید گزرے تو ۔۔چوہدرائن نے الف دین کو شہر بھجوایا کہ اس کا علاج کیا جاسکے ۔۔۔۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ الف دین کی ایک ٹانگ کاٹ دی گئی ہے، ٹانگ میں زہر پھیل چکا تھا ۔۔ اور ٹانگ کاٹنا مجبوری تھی۔۔ چوہدرائن ،رشید کے ساتھ ایک بارالف دین کو دیکھنے اسلام آباد کے ہسپتال بھی آئی تھی مگر الف دین دنیا سے بے خبر چھت کو گھورتا رہا ۔۔۔۔۔۔چوہدرائن کافی دیر اس کے قریب کھڑی رہی اور آنسو بہاتی رہی۔۔۔۔ اور پھر واپس لوٹ گئی۔الف دین کی ٹانگ کے زخم بھر گئے تو اسے ہسپتال سے فارغ کردیا گیا ۔۔۔ رشید جب اسے دیکھنے آیا تو پتہ چلا کہ الف دین یہاں سے جاچکا ہے ۔۔ ۔رشید نے اس کا پتہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔۔۔ اور واپس گاؤں پلٹ گیا۔اسی رات چوہدرائن کے پیٹ میں شدیددرد اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چوہدری نظام کی آنکھوں میں خوف اور وارث کی دم توڑتی امیدوں کو تنہا چھوڑ کر ملکِ عدم روانہ ہوگئی۔
الف دین ہسپتا ل کی دی ہوئی بیساکھیاں سنبھالڑکھڑاتا ہواباہر نکل آیا ۔۔۔۔اور سڑک کے کنارے چلنے لگا۔۔۔کچھ دور ہی گیا تھا کہ ایک ٹیکسی والے نے ازراہِ ہمدردی اسے ساتھ بٹھا لیا ۔۔۔۔اور چل پڑا۔۔ ۔۔ الف دین ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھاحیرت سے اس بھاگتی دوڑتی نئی دنیا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔اونچی اونچی عمارتیں ۔۔ لمبی لمبی گاڑیاں،بڑی بڑی پکی سڑکیں الف دین کیلئے نئی دنیا ہی تھی۔۔۔ٹیکسی ڈرائیور نے بیک ویو مرر سے اسے ارد گرد کے ماحول میں منہمک دیکھا تو پوچھا۔۔۔ بابا کہاں جاؤگے ؟۔۔ ۔۔ لیکن جواب نہ پاکر خاموش ہوگیا ۔۔۔تھوڑی دیر میں اس نے ٹیکسی ایک بڑی مسجد کے سامنے روکی اور کہا ۔۔۔ بابا میں نماز پڑھ کے آیا اورگاڑی سے اتر کر مسجد میں داخل ہوگیا۔۔الف دین نے کچھ نہ کہا ۔۔۔اس نے مسجد کا جائزہ لینا شروع کیا ۔۔ اتنی بڑی مسجد تو اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔ گاؤں کی مسجد تو اتنی چھوٹی تھی کہ بمشکل چالیس پچاس افراد نماز پڑھ سکتے ۔وہ جائزہ لے ہی رہا تھا کہ ا س کی نظریں مسجد کے مینار پر ٹھہر گئیں۔۔۔مینار پر بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے تھے ۔۔۔بابا کیا دیکھ رہے ہو؟۔۔ ٹیکسی ڈرائیور واپس آچکا تھا اس نے الف دین کو مسجد کے مینار پر نظریں جمائے دیکھا تو پوچھا۔۔۔ جواباً الف دین خاموش رہا۔۔۔۔ ٹیکسی ڈرائیور نے گہری سانس لی اور دروازہ کھول کر اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ اور الف دین کے چہرے نظریں جمائے خاموش بیٹھا رہا ۔۔۔ جیسے تمہید باندھ رہا ہو۔۔۔ پھر دونوں نشستوں کے درمیان سے رکھی ہوئی پانی کی بوتل اٹھائی اور ڈھکن کھول کر الف دین کی طرف بڑھا دی۔۔۔۔۔ الف دین نے بوتل تھامی اور منھ سے لگالی۔۔۔ٹیکسی ڈرائیور نے ہنکار بھری اور گویا ہوا۔۔۔۔۔” اس مسجد پر گولیاں اور بم برسائے گئے ہیں ۔۔۔اس کے ساتھ ایک مدرسہ بھی ہے کئی دن تک بم اور گولیاں برسائی گئی ہیں۔۔ سیکڑوں بچیاں بھی جل مری تھیں“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الف دین نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔بوتل منھ سے ہٹائی اور پھر منھ سے لگالی۔۔۔” ان کا قصور اتنا تھا کہ یہ ملک میں دشمن کا نہیں اللہ کا قانون چاہتے تھے۔۔۔“ ڈارئیور ایک بار پھر بولا۔۔۔”لیکن طریقہ۔۔۔ ڈرائیور نے ہنکار بھر ی۔۔۔۔اور ٹیکسی چلادی۔۔۔ آگے سڑک بند تھی ۔۔۔ جگہ جگہ نیلی وردیوں والے لوگ کھڑے تھے ۔الف دین نے دروازے کو ہاتھ مارا۔۔ا ور کھولنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ٹیکسی ڈرائیور نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا تو الف دین باہر نکل آیا اور لنگڑاتا ہوا بھیڑ میں گم ہوگیا۔۔ٹیکسی ڈرائیور نے کندھے اچکائے اور چپ ہورہا۔
چوہدری نظام ۔۔بیوی کی موت کے بعد نڈھال ہوگیاتھا۔۔مہینے ڈیڑھ کے بعد چوہدری فرید اس سے ملنے آیا ۔۔۔ چوہدری نظام حویلی کے دروازے پر نظریں جمائے گم سم بیٹھا تھا۔۔۔۔ چوہدری فرید نے اسے دلاسہ دیا ۔۔۔ اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔۔یار نظام ۔۔۔ یاد آیا آجکل یہ کالی وردی والے جگہ جگہ جلسے جلوس کرتے پھر رہے ہیں۔۔۔کل میں اسلام آباد میںتھا۔۔۔ بھئی بڑا ہی رش لگایا ہوا تھا انہوں نے۔۔۔ایک جج کو حکومت نے کیا ہٹایا ۔۔۔ یہ سارے کے سارے کووںکی طرح کائیں کائیں کرتے پھر رہے ہیں۔۔۔کہتے ہیں انصاف کا بول بالا ہوگا۔۔۔۔ تو ہی بتا یار کبھی ایسا ہوا ہے آج تک ۔۔۔۔” سائیں جی ان کے جج کے ساتھ کون سا انصاف ہوا ہے“ چوہدری فرید کے ملازم نے درمیان میں لقمہ دیا، جبکہ پاس بیٹھے رشید کی آنکھیں بھیگ گئی ۔۔۔۔چوہدری نظام سر نیہواڑے خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا ۔۔چوہدری فریدایک بار پھر گویا ہوا ۔۔۔اور جو کل مار پڑی ہے وکیلوں کو ۔۔۔پولیس نے جو ڈنڈے اور جوٹھڈے مارے ۔۔۔یار میں تو کہتاہوں چل چلئے۔۔۔ ۔تیرا دل بھی بہل جائے گا ۔۔۔سیر سپاٹا بھی ہوجائے گا۔۔۔چوہدری نظام نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
سڑک پر کالے کپڑے والے آدمیوںکے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ تارکول کی بنی کی بنی ہوئی سیاہ سڑک کالے کوٹوں میںملبوس لوگوں کی وجہ سے مزید سیاہ نظرآہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے سڑک پر شبِ تار اتر آئی ہو۔۔۔۔۔سڑک کے کنارے ایک گیارہ بارہ برس کا بچہ بیٹھا تھا۔۔جگہ جگہ سے پھٹے میلے کپڑے ، بکھرے بال، پاؤں میں ٹوٹی ہوئی ہوائی چپل اس بچے کی مالی حالت اور گھریلو مجبوریوں کا رونے کو کافی تھے۔۔۔بچہ بڑے انہماک سے ایک پرانے سے برش سے جوتوں پرپالش کی سیاہی ملنے میں مصروف تھا۔۔۔اس کے قریب ہی ایک کتا جسم پر بیٹھنے والی مکھی سے لڑنے میں مصروف تھا مکھی بار بار اٹھتی اور ہر بار جگہ بدل کر بیٹھنے کی کوشش کرتی ۔۔۔کتے کیلیے شاید یہی کارِ جہاں تھا۔۔۔ وہ دائرہ وار گھومتا اور شریر مکھی کو اپنے بھیانک جبڑوں میں کچلنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔۔بابو جی ۔۔۔ یہ لو ۔۔۔۔ بچے کی آواز آئی ۔۔ وہ چم چم کرتے جوتوں کو جوڑا ایک جانب بڑھا رہا تھا۔۔۔ایک سیاہ ملبوس میں مقید شخص نے جوتے پہنتے ہوئے ۔۔جیب میں ہاتھ ڈالا اور سکے تلاشنے لگا۔۔ کوئی سکہ اور چھوٹا نوٹ نہ پاکر سو کا نوٹ بچے کے ہاتھ میں تھمادیا۔۔۔ ” شکریہ۔۔۔یہ لو منے ۔۔۔ “ اس کی آواز خاصی بھاری تھی لیکن لہجہ انتہائی میٹھا۔۔۔بابو جی ۔۔ آپ میرے پہلے گاہگ ہو ۔۔۔۔ ”کھلا نہیں ہے”۔۔ ۔۔بچے نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ اس گود سے پالش کی خالی ڈبیہ لڑھکتی ہوئی کچھ دور جا رکی۔۔۔۔” تو کیا ہو ا۔۔ تم سارے رکھ لو“ ۔۔۔ اس نے بچے کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔۔ ”پر بابوجی۔۔۔“ بچے نے کچھ کہنا چاہا ۔۔۔۔مگر وہ شخص جاچکا تھا۔
سڑک پردونوں جانب بڑے بڑے پنڈال بنائے گئے تھے جو، اب خالی ہوچکے تھے۔۔۔۔۔ اکا دکا لوگ نظر آرہے تھے ۔۔۔ جو واپسی کی تیاری کررہے تھے۔۔۔کالے کوٹوں میں ملبوس افراد ۔۔۔۔۔ائیر کنڈیشنڈ بڑی بڑی بسوں ، کاروں اور ویگنوں میں بیٹھ کر واپس جاچکے تھے۔۔۔ گوٹھوں ، قصبوں ، گاؤں دیہاتوں اور شہر کے مضافات سے پیدل چل کر آنے والے ۔۔۔راستے بھر کی تھکن ، سورج کی تپش سے کھولتی ہوئی کھوپڑیوںاور پیروں کے چھالوں کو اپنے اپنے کاندھوں پر لادے واپسی کیلئے روانہ ہوچکے تھے ۔۔۔۔وہ جب آئے تھے تو ۔۔۔ بڑی امیدیں لے کر۔۔۔ لیکن جاتے ہوئے ان کے شل وجود ۔۔۔۔اپنی اپنی حیثیت میں اندر ہی اندر سلگتے ہوئے آتش فشاں بن چکے تھے جس سے اب دھواں اٹھنے کوتھا۔
سڑک کے اطراف بچھی ہوئی خار دار تار کے پیچھے فٹ پاتھ پر ایک مفلوک الحال شخص دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔۔۔ اس کے ہاتھ میں پالش کی ڈبیا تھی اس نے جوتوں کے تسموں اور لکڑی کی مدد سے ترازو کے پلڑے بنائے اور ہاتھ اٹھا کے اپنی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔۔ پس منظر میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے نصب مجسمے کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی ترازو تھا۔۔۔۔۔ یہ الف دین تھا۔


احباب سے بے لاگ تبصرے کی توقع کے ساتھ اجازت
والسلام و علیکم
 

الف عین

لائبریرین
ابھی سرسرئ طور سے دیکھا ہے، وقت کہاں رہتا ہے محمود میاں!! فرصت میں دیکھوں گا اور کہو گے تو ’سمت‘ میں بھی لے لیا جائے گا۔
 

مغزل

محفلین
ابھی سرسرئ طور سے دیکھا ہے، وقت کہاں رہتا ہے محمود میاں!! فرصت میں دیکھوں گا اور کہو گے تو ’سمت‘ میں بھی لے لیا جائے گا۔

آداب
(ایک بار پھر ۔۔۔۔۔۔ اس لیئے کہ ایک مراسلہ روانہ کیا تھا جو 500 ایرر کی نذر ہوگیا )

میں بڑی شدت سے منتظرہوں آپ کے تفصیلی تبصرے اور تنقید کیلئے۔
مزید یہ کہ ۔۔ میری یہاں پر پیش کی جانے والی تحریر/ تخلیق پر آپ کو کلی اختیار حاصل ہے۔
آپ جو مناسب خیال کیجئے ۔۔ اسے جہاں چاہیں پیش کرسکتے ہیں۔
دیگر احباب بھی فورم کے حوالے سے اس بات کے مجاز ہیں۔

والسلام
 

مغزل

محفلین
محمود مغل خوب اٹھان ہے ماشا اللہ
مبارک ہو

آداب خاور بھائی۔
میں نے خصوصی تکلیف دی تھی کہ آپ افسانے پر چونکہ گہری نظر رکھتے ہیں
لہذا ۔۔ اس کے عیوب و محاسن پر بات کریں گے ۔۔ یہ تشنگی بہرکیف باقی ہے۔
الف عین ۔وارث ۔جیہ اور دیگر نثر پر نظر رکھنے والوں سے ایک بار پھر یہی استدعا ہے۔

واضح رہے کہ اردو محفل پر پہلا افسانہ ہے ۔۔
وگرنہ اس سے پہلے لگ بھگ ساٹھ افسانے لکھ چکا ہوں۔
دعا کیجئے کہ اسے کتابی صورت میں لانے کی کوشش ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
مغل بھائی!
آداب!

پرنٹ ورژن کی مہربانی سے ہمیں بھی خیر سے آپ کی نفیس تحریر سے مستفیض ہونے کا موقع مل ہی گیا۔ ماشاء اللہ بہت ہی عمدہ افسانہ ہے اور بہت جم کے لکھا ہے آپ نے۔ اندازِ بیاں بھی بہت خوب ہے اور روایتی افسانے سے جا ملتا ہے کچھ آپ کا اپنا اسلوب بھی مشکل پسندی کی طرف مائل ہے۔ افسانے کا مرکزی خیال بہت عمدہ ہے اور اُسے جس بھرپور انداز میں آپ نے پیش کیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ (آمین)
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ احمد
تبصرے ، پزیرائی اور نقد و نظر کیلئے ۔
مجھے امید تھی کہ تم جلد آؤ گے ۔۔ اور واقعی تم آگئے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ اگر اجازت ہوتو ۔۔ stanvirپر بھی پیش کردوں
لیکن وہاں معاملہ رومن کے رونے تک ہی محدود ہے۔ اور پھر ان دنوں
وہاں ۔۔ ببولانِ دشت اور بگولانِ عشق (ہم تم اور وہ) کے سوا ہوتا ہی کون ہے۔
کیا کہتے ہو۔ ؟؟
محبتوں کیلئے ایک بار پھر ممنون ہوں
(دوستوں کا شکریہ کیا ادا کرنا :grin:)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت شکریہ احمد
تبصرے ، پزیرائی اور نقد و نظر کیلئے ۔
مجھے امید تھی کہ تم جلد آؤ گے ۔۔ اور واقعی تم آگئے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ اگر اجازت ہوتو ۔۔ Stanvirپر بھی پیش کردوں
لیکن وہاں معاملہ رومن کے رونے تک ہی محدود ہے۔ اور پھر ان دنوں
وہاں ۔۔ ببولانِ دشت اور بگولانِ عشق (ہم تم اور وہ) کے سوا ہوتا ہی کون ہے۔
کیا کہتے ہو۔ ؟؟
محبتوں کیلئے ایک بار پھر ممنون ہوں
(دوستوں کا شکریہ کیا ادا کرنا :grin:)

ہاں یہ تو بات ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اب میری بھی رومن سکرپٹ سے جان نکلتی ہے، لیکن آپ پھر بھی اردو سکرپٹ میں ہی امیج کی شکل میں پوسٹ کر دیجے۔ کم سے کم ہم اپنے حصے کا کام تو کر ہی لیں آگے اللہ مالک ہے۔
 

خاورچودھری

محفلین
آداب خاور بھائی۔
میں نے خصوصی تکلیف دی تھی کہ آپ افسانے پر چونکہ گہری نظر رکھتے ہیں
لہذا ۔۔ اس کے عیوب و محاسن پر بات کریں گے ۔۔ یہ تشنگی بہرکیف باقی ہے۔
الف عین ۔وارث ۔جیہ اور دیگر نثر پر نظر رکھنے والوں سے ایک بار پھر یہی استدعا ہے۔

واضح رہے کہ اردو محفل پر پہلا افسانہ ہے ۔۔
وگرنہ اس سے پہلے لگ بھگ ساٹھ افسانے لکھ چکا ہوں۔
دعا کیجئے کہ اسے کتابی صورت میں لانے کی کوشش ہے۔

آپ کی زبان دانی اور قابلیت کا میں معترف ہوں بھائی۔اس تفصیل کی کیا ضرورت تھی۔ دراصل میں‌خود کو اس بات کا اہل نہیں‌سمجھتا کہ آپ کے افسانے کا تنقیدی جائزہ پیش کروں۔ مجھے پسند آیا ۔اس لیے لکھ دیا تھا۔
محمد احمد صاحب نے اچھا تبصرہ کیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
سارے افسانے ٹائپ ہو چکے ہیں کیا محمود؟ اگر ہاں تو مکمل فائل/ فائلیں مجھے بھیج دو۔ ان کا ای بک ورژن تو پہلے چھپ ہی جائے!!
 
Top