’’ راستے گھر نہیں جانے دیتے ‘‘----------- تبصرہ نگار: عین عین

مغزل

محفلین
نوجوان شاعر’’ کاشف حسین غائر‘‘ کے شعری مجموعے
’’ راستے گھر نہیں جانے دیتے ‘‘
پر ’’ عین عین ‘‘ کا مفصل تبصرہ​

پیش نظر شعری مجموعے کی صورت میں ادبی افق پر ابھرنے والے رنگ خوش نما ہی نہیں بلکہ تازگی اور فرحت کا احساس بخشتے ہیں اور غزل کے میدان میں امکانات کی نوید سناتے ہیں۔ نوجوان شاعر کاشف حسین غائر کا نام ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ ناقدان سخن اور ادب پرور حلقوں میں اپنی حیثیت منواچکا ہے یہ اس کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اردو ادب میں روایت کی پاس داری کرتے ہوئے اپنے لیے نئے راستے کا انتخاب کرنے اور نئی ادبی جہتوں کی دریافت کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے تخلیق کار جو اپنی توانا فکر، خوب صورت اور لطیف جذبوں اور احساسات کو شعری بندشوں میں برت رہے ہیں ان کی شاعری اپنے عہد سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں یہ رویہ عام ہے کہ نوجوان قلم کار صاحب کتاب ہونے کے لیے بے چین رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بازار میں ہرروز کوئی شعری مجموعہ بکنے کے لیے آجاتا ہے جو اہل علم تو ایک طرف معمولی سے ادبی ذوق رکھنے والے کسی قاری کی توجہ کا باعث بھی نہیں بنتا۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن انہی کے درمیان کاشف جیسے خوب صورت تخلیق کار بھی موجود ہیں۔ اس کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ وہ اپنے فن کو برتنے اور خیال کو لفظوں میں سمونے کا ہنر بہ خوبی جانتا ہے۔ اس کتاب میں شامل غزلیں، شاعر کی فنی پختگی، تازہ کاری اور شگفتگی کا مظہر ہیں یہ ندرت خیال، جذبات اور احساسات کی شدت دھیما پن اور روانی اس شاعری کا نمایاں وصف ہیں۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے یہ شاعری صرف داخلی محسوسات کی کار فرمائی ہے تاہم اس کی شاعری کا کینوس محدود نہیں ہے۔ اسے زندگی کا مکمل ادراک ہے۔ وہ شعور کی حدوں سے پرے خیالی پیکر تراش کر اپنے اندر کا دکھ ان سے بیان کرنے اور شکوے شکایات میں ضرور گم ہے لیکن حقیقت سے دور نہیں ہے۔ وہ اپنے عہد کے مسائل اور معاشرے کی ترجمانی کرنے سے لاشعوری طور پر تو دور رہا ہے لیکن بعض جگہ اس نے دو مصرعوں میں پوری کائنات کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے وہ اپنی بات کو سادگی سے بیان کرنے کا عادی ہے۔ زبان کی سلاست، روانی اور مختصر بحروں کے ساتھ اس نے غزل کو ایک نیا آہنگ عطا کیا ہے۔ یہ اس کی پہلی کتاب ہے اور شاید اس کے ذریعے وہ خود پر منکشف ہونے اور دوسروں سے اپنا تعارف کروانے کے عمل سے گزرا ہے۔ ابھی اسے بہت سا سفر طے کرنا ہے اور یقیناً وہ اپنے ہم عصروں کے لیے شعر و ادب کی دنیا میں ایک معتبر حوالہ بنے گا۔ اس کا سنجیدہ انداز بیان اور بلند خیالی اسے موجودہ دور کے معتبر ناموں کے درمیان منفرد اور نمایاں کرتی ہے۔ اس کے کلام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ زندگی اور محبت میں آنے والے اتار چڑھاؤ اذیت اور کرب کو محسوس تو بہت شدت سے کرتا ہے مگر اس کا اظہار اس انداز سے کرتا ہے کہ اس میں چبھن اور تکلیف کا احساس بہت نظر آتا کم ہے۔ سوزدروں اور باطنی کشمکش کا اظہار کرتے ہوئے اس نے انفرادیت قائم رکھی ہے۔ جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اسے اپنی ذات پر مکمل اعتماد ہے۔ اس نے روایت سے انحراف نہیں کیا ہے لیکن اس کے تخیل نے مانوس لہجے میں جو شاعری کی ہے اس کا ذائقہ نیا ضرور ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس نے روایت اور جدّت کو اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ اشعار میں سمویا ہے۔ کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب اور کتابت معیاری ہے۔
(تبصرہ: عارف عزیز)
 
Top