’’میٹر‘‘

’’میٹر‘‘
آپ پیٹرول بھروانے گئے۔ گاڑی پیٹرول پمپ کے یونٹ پہ لگائی۔ ملازم آیا۔ پوچھا
ہاں جی کتنے کا؟
دوہزارکا۔۔!!
گاڑی بند کردیں۔
اوکے کردی بند۔
بندہ گیا۔ لیوراٹھایا ٹنکی میں فٹ کیا۔ میٹرمیں دوہزار اوکے کردیا۔ آواز آئی
ہیلو بھائی جان۔۔۔۔!!!!!!!!
جی جی۔۔۔۔!!!
سر جی میٹر چیک کرلو۔
جی کرلیا چیک۔۔
کھرر پھرر پیٹرول بھردیاگیا۔ لیورنکالنے سے پہلے پھر آواز آئی۔
بھائی صاحب۔۔!!
جی جناب۔۔۔!!
میٹر دیکھ لیں دوبارہ۔
جی دیکھ لیا پورے دو ہزارکا ڈل گیا۔
پیسے پکڑائے،یہ جا وہ جا۔ آپ بے فکرہوکرگاڑی چلاتے رہے۔ اگلے دن دوپہر کو سامنے پیٹرول کے کانٹے پہ نظرپڑی تو کانٹے کا سر نیچے پاؤں اوپرتھے۔ آپ کے ہاتھوں کے موبائل اڑگئے۔ جلدی سے آپ نے حساب لگایا تو آپ کو ایک اندازہ ہوا، کہ بابو دو ہزار روپے میں تو میری گاڑی دو سوکلو میٹر چلتی ہے۔ آج صرف ایک سو بیس کلو میٹرچلی۔ کیسے۔۔؟؟
آپ کا متھا گھوما۔ فیوز اڑگیا۔ گاڑی موڑی اور کیسے کا جواب لینے زن زن پہنچ گئے پیٹرول پمپ۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھامینیجرکے دفترمیں جاگھسے۔ کہا
بھائی آپ لوگ یہاں بیٹھ فراڈ کررہے ہیں ہمارے ساتھ؟ چور بازاری لگارکھی ہے۔؟
سربیٹھیں تو سہی۔۔ ذرا آرام سے بتائیں ہواکیاہے۔
بھئی میں نے دوہزار کا پیٹرول ڈلوایا اور ابھی ختم،،؟؟ یہ کیا مذاق ہے؟
سر تو آپ نے گاڑی چلائی بھی توہوگی
ارے خاک چلائی ہے یار۔ دو چکر لگائے ہیں اور پیٹرول خلاص ہوگیا۔
اچھا۔۔؟ رکیں۔۔ ہیلو اپنا شکور۔۔۔!!! غفور کو بلانا ذرا۔۔
سین بدلا
غفورتم نے پیٹرول ڈالا تھا
جی صاحب
یہ تو کہہ رہے ہیں پیٹرول کم ڈالا تم نے۔پورے دوہزارکا نہیں ڈالا۔
نہیں صاحب میں نے تو دونوں مرتبہ میٹر دکھا دیاتھاان کو۔
پکی بات ہے؟
جی صاحب ان کے سامنے ہے سب۔ پوچھ لیں ان سے۔
چلو جاؤ غفور تم۔
اوکے سر۔
سین بدلا
دیکھیں سر! آپ کی گاڑی میں فالٹ ہوگا۔ آپ ٹیوننگ کروالیں اور ہاں پیٹرول فلٹر ضرور بدلوا لیں۔
آپ مقدمہ ہارگئے۔ کیونکہ لاجواب جو ہوگئے۔ اس لیئے کہ سامنے کی کاروائی مکمل ہے۔ میٹرآپ کے سامنے چلا دیاگیاتھا۔ اوپر سے پھرمینیجر نے پیغمبرانہ اخلاق میں بات کی۔ لہذا آپ نے سوچا اب کیا کریں ؟ کون متھا مارے گا۔۔ چلو جا کر گاڑی ٹھیک کروالیتے ہیں۔ آپ گئے۔ سب ٹھیک تھا،مگر اطمینان کیلئے فلٹربدلوالیا۔
پھر پیٹرول پمپ گئے۔ پھر دوہزار کا پیٹرول ڈلوایا۔ حسب سابق گاڑی نے ایوریج زیادہ دے دیا۔ تیسری بار اور چوتھی باربھی یہی ہوا۔ آپ کو یقین ہوگیا کہ بابو کوئی گڑ بڑ توہے۔ مگر جب آپ آواز اٹھاتے ہیں تو جواب آتاہے ’’میٹر دیکھو‘‘۔ میٹر دیکھ کر گھر چلے جاتے ہیں۔ عقل مند لوگ آتے ہیں اور آپ کو مشورہ دیتے ہیں ’’ارے کچھ نہیں ہوتا، گاڑیوں کا پیٹرول ایوریج ہی یہی چل رہاہاہے۔ پانچ سال آپ خاموشی سے گزارتے ہیں۔ اچانک آپ ایس پی پردیومند کی طرح یقینِ کامل کیساتھ کہتے ہیں ’’ابیجیت! کچھ تو گڑ بڑ ہے‘‘۔۔ اس گڑبڑ کا یقین آپ کو سو فیصد ہوتاہے۔ پیج و تاب کھاتے ہیں۔ مگر جونہی اٹھتے ہیں، آواز آتی ہے ’’وہ رہا میٹر‘‘۔ آپ چپ۔۔۔!!
آپ کا صبر جواب دے جاتاہے۔آپ کہتے ہیں ’’ ارے بھاڑ میں گیا میٹر یار ہماری تو ایسی کی تیسی کردی اس نے‘‘۔ پھر بیچ میں شرفا آجاتے ہیں۔کہتے ہیں ’’آہاں! بدتمیزی نہیں۔ دیکھو پیٹرول پمپ کا مینیجرکتنا بااخلاق ہے۔ ذرا انسانوں کی طرح بات کرو۔ اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو کورٹ چلے جاؤ‘‘۔۔۔
مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو مسئلہ پتہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس فراڈ کا تعلق میٹر سے نہیں ہوتا۔ وہ یونٹ کے اندرکی ایک تیکنیک ہوتی ہے، جو نوٹ چھاپ رہی ہوتی ہے۔ اس تیکنیک کو آپ کورٹ میں ثابت نہیں کرسکتے۔ لہذا آپ کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں
یااپنی حلال کی کمائی اطمینان کیساتھ تیل کرتے رہیں
یا پھر کچھ ایسا کریں کہ پیٹرول پمپ میں ہونے والا فراڈ باقی کے صارفین کے سامنے بے نقاب ہوجائے ۔ یوں مالکان کو اندازہ ہوجائے کہ اگر ہم نے معاملات درست نہ کیئے تو ہم جائیں گے تیل لینے۔ کم ازکم کاروباری نقصان کے پیش نظرہی راہ راست پہ آجائیں گے۔
ہمارا ووٹ برسوں سے اہلِ ایماں کی طرح برت رہاہے۔ اِ دھر ڈالو اُدھر نکلتاہے۔ آواز اٹھاؤ تو سیانے میٹر کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔ بات کرو تو مینیجر اور ملازم کے بیچ میثاق جمہوریت چل رہا ہوتاہے۔
اتنی بات اب تک سمجھ سکاہوں۔ الیکشن کمیشن ایک میٹر ہے۔ اور ہم وہ دانشور گدھے ہیں جو اپنی ہی زیرو میٹر گاڑی کا فلٹر ڈھونڈتے پھررہے ہیں۔۔
پس چہ باید گرد؟ کریں تو کیا کریں۔۔؟
بشکریہ: فرنود عالم
 
Top