’’شریف‘‘ طالبان

سویدا

محفلین
ماخذ: بی بی سی اردو
ہارون رشید

طالبان میں مختلف قوموں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد آغاز سےہی تھے۔ یہ کبھی بھی محض پشتون تحریک نہیں رہی تھی۔ ہاں پشتون اکثریتی ضرور تھی۔
لیکن آج کل کے اخبارات پڑھنے سے لگتا ہے یہ شدت پسند تحریک بھی ہماری دائمی نسلی تقسیم کا شکار ہوگئی ہے۔ بیرون ملک آپ چلے جائیں تو کہیں بھی آپ کی قوم یا مذہب کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کس قوم یا مذہب سے ہیں۔ ہاں شناخت کے لیے نام ضرور پوچھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں تو اچھا اگر آپ پشاور سے ہیں تو دوسرا سوال ایک پٹھان کا ہمیشہ یہی ہوگا: کیا خاص پشاور کے؟ اس کا مقصد اس بات کا تعین کرنا ہوتا ہے کہ آپ پٹھان ہیں یا پھر ہندکو بولنے والے۔ تقریباً یہی حال پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی ہے۔
اسی ذہنیت کا شکار آج کل طالبان کو بھی کیا جا رہا ہے۔ ہماری لوگوں کو ان کی قومیت اور زبان کی بنیاد پر جاننے کی کوشش سے وہ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پنجابی طالبان کے بعد خدشہ ہے کہ جلد سندھی اور بلوچی طالبان کے نام بھی سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ بھی کوئی اتنی زیادہ شاید حیران کن بات نہ ہو۔ لیکن اصل مسئلہ شروع ہوگا جب یہ تقسیم چوہدری طالبان، جٹ طالبان، جتوئی طالبان، ابڑو طالبان، شیخ طالبان، اچکزئی طالبان، وزیرطالبان، اور شریف طالبان جیسے نام سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ویسے شہباز شریف کے تازہ متنازعہ بیان کے بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو تو کم از کم یقین ہو چلا ہے کہ اس کا کوئی زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے۔
 

arifkarim

معطل
ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں امریکی مصنوعات یعنی اسلحہ و دیگر جنگی سامان کے علاوہ "ذہنیات و نظریات" بھی امپورٹ کئے جاتے ہیں!
 

دوست

محفلین
پنجابی طالبان ان کالعدم تنظیموں کو نام دیا گیا تھا جو فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث رہی ہیں اور جن کے جد امجد مرد جناب ضیاء الحق تھے۔ یہ اصطلاح سیاسی سے زیادہ تکنیکی تھی اور سوئے ہوئے اداروں کو جگانے کے لیے استعمال کی گئی۔ پنجاب میں آج بھی ان تنظیموں کی دامے درمے سخنے مدد کی جاتی ہے اور اداروں کے ساتھ ساتھ عوام بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں چونکہ یہ بھارت کے نام پر اپنی سیاست کرتے ہیں۔
 
Top