’’رات ‘‘کو شب بیداری

رات کو شب بیداری


10 مئی کے جسارت میں عبدالرحمن متوکل کا مضمون ’’آنسوئوں کی آگ‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس کے پہلے ہی جملے نے ہمیں اب تک چکرا کر رکھا ہوا ہے۔ مضمون نگار نے حوالہ بھی بے بدل ادیب انتظار حسین کا دیا ہے۔ جملہ یہ ہے ’’گرمی کا ذکر ہو تو انتظار حسین ’’بہا ایڑی سے چوٹی تک پسینہ‘‘ کی بات ضرور کرتے ہیں‘‘۔ ہم اس الجھن میں ہیں کہ یہ ممکن کیسے ہے؟ محترم انتظار حسین بلاشبہ ’’چوٹی‘‘ کے ادیب ہیں اور ادب میں برسوں سے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، لیکن یہ کام اُن کے لیے بھی ممکن نہیں ہے اِلاّ یہ کہ سر کے بل کھڑے ہوجائیں، تب ہی پسینہ ایڑی سے چوٹی کی طرف بہہ سکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سہو عبدالرحمن متوکل سے ہوا ہے، انتظار حسین ایسا کر بھی نہیں سکتے۔جسارت کی غلطی کا حوالہ اس لیے دیا ہے تاکہ دوسروں کی نکیر کرسکیں، ورنہ کوئی پلٹ کر کہہ دے گا کہ ’’ذرا بند قبا دیکھ‘‘۔ کراچی سے شائع ہونے والے ایک مؤقر جریدے کے مدیر کالم نگار بھی ہیں اور ہم انہیں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ تازہ شمارے (23 مئی) میں انہوں نے بھی ’’چیں بچیں‘‘ لکھا ہے۔ کاش وہ اس کا مطلب بھی سمجھا سکتے۔ اور یہ نام ’’ہاجرہ‘‘ جانے کب سے ہائے حطی (حلوے والی ح) سے حاجرہ ہوگیا۔ ہاجرہ ہجر اور ہجرت سے ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کا نام ہے جنہوں نے مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی اور صفا، مروہ کی سعی ان کی سنت کی پیروی میں کی جاتی ہے۔ جب کہ حاجرہ کا تعلق حجر یعنی پتھر سے ہوگا۔ عربی میں ’’حجری‘‘ کا مطلب پتھریلا، پتھر کا بنا ہوا، سنگین وغیرہ ہے۔ اب کسی خاتون کو حاجرہ لکھنے والے سوچ لیں کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ایک اور لفظ نظر سے گزرا ’’اگل دان‘‘۔ یہ اگال دان ہے۔ ’اگال‘ پان کی پیک یا اگلی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔منافع خوری کے ساتھ زبردستی ناجائز بھی لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ناجائز ہے، کیونکہ منافع خوری تو بجائے خود جائز نہیں۔ البتہ اگر بات صرف منافع کی ہو تو اس کے ساتھ جائز یا ناجائز لگانا ٹھیک ہے۔ اسی طرح ناجائز ذخیرہ اندوزی ہے۔ ذخیرہ اندوزی کو عربی میں ’’احتکار‘‘ کہا گیا ہے اور اس حکم کے ساتھ کہ ’’لااحتکار فی الاسلام‘‘
26 مئی کے جسارت میں ادارتی صفحہ پر ایک دلچسپ جملہ نظر سے گزرا: ’’رات کو شب بیداری‘‘۔ ہوسکتا ہے جیکب آباد میں دن کو بھی شب بیداری ہوتی ہو۔ نواب مرزا داغ دہلوی نے، جن کا دعویٰ تھا کہ ’’اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ‘‘ برسر مشاعرہ یہ شعر پڑھا:وصل کی شب اور اتنی مختصردن گنے جاتے تھے جس دن کے لیےکسی نے طنزاً تعریف کی: واہ استاد، شب اور دن کے لیے! یہ تضاد آپ ہی کا حق ہے۔ داغ کو غلطی کا احساس ہوا تو پہلے مصرع میں رات کو دن کردیا یعنی ’’وصل کا دن اور اتنا مختصر‘‘۔ تو یہ بھول چوک تو استادوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ کسی غزنوی یا جیکب آبادی سے ہوگئی تو کیا ہوا۔ ہم یہ نشاندہی کرچکے ہیں کہ ’’ایما‘‘ مذکر ہے پھر بھی خود جسارت میں یہ مونث ہوجاتا ہے۔ نوجوان ادیب و شاعر صفدر علی خان صفدر ایک ادبی رسالہ ’’انشا‘‘ کے نام سے نکالتے ہیں۔ صفدر علی خان کی طرح رسالہ بھی پرکشش ہے۔ تازہ شمارے (جنوری تا جون 2014ئ) میں ان کی ایک دلچسپ ’’واسوخت‘‘ شائع ہوئی ہے جس کا ایک مصرع ہے ’’کالی مائی کی طرح کل موئی تُو بھی تو ہے‘‘۔ بھائی صفدر، ’’کل موئی‘‘ کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ ’’کل مونہی یا کل منہی‘‘ ہے یعنی کالے منہ والی۔ ایک مضمون میں کئی جگہ ’’خرد برد‘‘ ہے۔ یہ مضمون نگار کی غلطی ہے لیکن مدیر کے لیے تصحیح لازم تھی۔ ادبی رسالے میں یہ سہو قارئین کے لیے سند بن سکتا ہے۔ ایک خاتون کے کلام میں ’’پولیس کا تھانیدار اور گائوں کا پینڈو‘‘ پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ خواتین کو چھوٹ ملنی چاہیے۔ لیکن کیا کسی اور محکمہ میں بھی تھانیدار ہوتا ہے؟ پولیس کی جگہ آسانی سے ’’علاقے‘‘ کہا جا سکتا تھا۔ اور بھئی پینڈو تو پنڈ سے ہے اس لیے گائوں کا پینڈو کہنا مناسب نہیں۔ یہ اور بات کہ بہت سے شہری بھی ’’پینڈو‘‘ ہوسکتے ہیں کہ یہ ایک کیفیت ہے۔ ہم چونکہ شاعر نہیں اس لیے اس باب میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ہم نے شمارہ نمبر 20 میں سمیحہ راحیل کے مضمون میں ایک مصرع ’’سوئے مادر آ کہ تیمارت کند‘‘ کے بارے میں خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ سوئے ما۔ درآ یعنی میری طرف آ ہے۔ اس پر صدر بازار لاہور چھائونی سے جناب طفیل نسیم نے پکڑ کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’آپ کا خیال غلط ہے کیونکہ لفظ ’’ما‘‘ جمع متکلم ہے، چنانچہ مصرع یوں ہونا چاہیے ’’سوئے ما۔ درآ کہ تیمارت کنیم‘‘۔ لیکن اس طرح شعر کے دونوں مصرعے نہ تو ہم قافیہ رہیں گے اور نہ ہی ہم وزن۔‘‘ طفیل نسیم صاحب، آپ کا شکریہ، ہمارا خیال ہے کہ ہم فارسی پر ہاتھ نہ ڈالیں تو اچھا ہے۔اب ایک اور خط صادق آباد سے ہمارے پرانے کرم فرما شیخ اللہ بخش ایڈووکیٹ کا۔ لکھتے ہیں: ’’میں نے محسوس کیا ہے کہ پہلے کی نسبت آج کا لکھاری املا میں بہت غلطیاں کررہا ہے۔ ایف ایس سی اور بی ایس سی والوں کی انگریزی بھی ایف اے، بی اے والوں کے معیار کی ہوتی ہے۔ لیکن ان کے استادوں کا کہنا ہوتا ہے کہ تم مدعا بیان کردو، گرامر اور املا کی طرف توجہ مت دو۔ ہمارے اہلِ قلم بھی بس لکھے جارہے ہیں۔‘‘بھائی، اردو کے بارے میں بھی تو یہی کہا جاتا ہے کہ ’’سمجھ تو آگئی ناں‘‘۔ بے شک بات سمجھ میں آجاتی ہے اور یہ کام ایک ان پڑھ بھی بخوبی کرلیتا ہے، بس خواندہ اور ناخواندہ، شائستہ اور غیرشائستہ کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ اور شائستگی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مقفع، مسجع زبان بولی جائے جیسے کوئی شائستہ زمیندار اپنی زمینوں پر گیا اور گائوں والوں سے پوچھا: ’’اے اہلِ قریہ، امسال تمہاری کشت زار پر تقاطر امطار کی کیا کیفیت رہی؟‘‘ کسانوں میں سے کسی نے کہا ’’میاں صاحب دعامانگ رہے ہیں، آمین کہو آمین۔‘‘شیخ اللہ بخش نے فرائیڈے اسپیشل میں املا کی کچھ غلطیوں کی نشاندہی کی مثلاً تقرری، ناراضگی وغیرہ۔ استحصال کا لفظ تو اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب اس کی اصلاح دشوار ہے اور اس کی جگہ ’’استیصال‘‘ میں مزہ بھی نہیں آتا۔ زیادہ پرانی بات نہیں جب استحصال کے ساتھ بالجبر بھی لازم تھا، تب ہی مفہوم واضح ہوتا تھا۔ یعنی کوئی چیز جبراً حاصل کرنا۔ یہ بات پہلے بھی واضح کی جا چکی ہے۔ استیصال لکھیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے، کہاں پائی جاتی ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ جب صادق آباد کے ایک وکیل صاحب کو اردو زبان کی صحت سے دلچسپی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سدھار کی گنجائش ہے اور بہت سے ماہرین لسانیات اصلاح میں لگے ہوئے ہیں۔انجمن ترقی اردوکے زیراہتمام ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ بڑی پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ مئی 2014ء کے شمارے میں معروف ادیب اور ماہر لسانیات ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے بڑے اچھے ترجمے پیش کیے ہیں، یعنی ’’حروف کاری‘‘ اور ’’حروف چینی‘‘ اور اسی مناسبت سے حرف کار اور حروف چین۔ ممکن ہے یہ الفاظ ابھی نامانوس لگیں لیکن رائج کردیے گئے تو جس طرح کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ عام ہوگئے ہیں، یہ بھی ہوجائیں گے۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ انگریزی کے جو الفاظ عام فہم ہوگئے ہیں ان کو ایسے ہی رہنے دیا جائے ورنہ ترجمہ اور بھی مشکل ہوجائے گا۔ یہ خیال کسی حد تک صحیح ہے، لیکن اس خیال کے سہارے انگریزی کے بے شمار الفاظ اب اردو میں بلاتکلف در آئے ہیں جنہیں ’’گھس پیٹھیا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اگرکہیں روک نہ لگائی گئی تو اردو غائب ہوجائے گی اور دوسری قومیں حیران ہوکر پوچھیں گی کہ کیا اس قوم کی اپنی کوئی زبان نہیں؟ پروفیسر شمیم اختر نے بتایا ہے کہ اردو کے بڑے معروف قلمکار نے اپنے مضمون میں کریڈیبلٹی (CREDIBILITY) کا لفظ استعمال کیا جب کہ اردو میں اس کے لیے ’’ساکھ‘‘ بہت مناسب بلکہ انسب ہے۔ یقین و اعتبار بھی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ لیکن وہ حقانی قلم کار مان کر نہیں دیے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک اردو میں انگریزی کا تڑکا نہ لگایا جائے قاری پر رعب نہیں پڑتا۔ گفتگو میں بھی قابلیت کے اظہار کے لیے انگریزی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کوئی انگریز ایسا نہیں کرے گا۔ اس میں کچھ صحافیوں کی سہل پسندی اور سہل انگاری بھی شامل ہے کہ متبادل تلاش نہیں کرتے ۔ اب تو ’’ممبران‘‘ بھی عام ہوگیا ہے جو نہ اردو ہے نہ انگریزی۔ اس آدھا تیتر، آدھا بٹیر کے مقابلے میں ارکان یا اراکین کیا برا ہے! ہمیں یاد آیا کہ جب ’’اوور ہیڈ برج‘‘ بننے شروع ہوئے تھے تو ہمارے ایک ساتھی حسن عسکری فاطمی نے، جو اب مرحوم ہوگئے، اس کا ترجمہ ’’بالائے سرپُل‘‘ کیا تھا۔ لیکن یہ ترجمہ سر کے اوپر سے گزر گیا اور رائج نہ ہوسکا۔ ایسے ترجمے رائج تب ہوں جب ذرائع ابلاغ ان کو اپنائیں۔ ٹارگٹ کلنگ ہمارے معاشرے میں نئی اصطلاح ہے مگر اب بچے بھی جانتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ اس کی جگہ ’’اہدافی قتل‘‘ رائج کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام ذرائع ابلاغ کا ہے کہ زبان کا تحفظ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کو عدالتِ عظمیٰ کہنے اور لکھنے میں کیا امر مانع ہے؟ اب تو جسٹس جواد خواجہ نے بھی اردو میں فیصلے لکھنے اور لکھوانے شروع کردیے ہیں۔ یعنی قومی زبان کا تحفظ بھی اب عدالت عظمیٰ کرے گی۔


http://fridayspecial.com.pk/21376
 
Top