’یہ جمہوریت ہے نافرمانی یا ناراضگی نہیں‘

130505205413_pti_supporter224.jpg

ان انتخابات میں بچے والدین کی مرضی کے مطابق امیدوار نہیں چن رہے

پاکستان میں ماضی میں ہونے والے عام انتخابات کےموقع پر کنبے کے سربراہ یا بزرگ کی مرضی سے ووٹ دینے کا رجحان دیکھا جاتا رہا ہے لیکن 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں یہ رجحان بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔
اس مرتبہ ایک ہی گھر کے مکین کسی ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دینے پر متفق نظر نہیں آ رہے۔ جہاں بیوی ووٹ دینے کے معاملے پر شوہر کی ’باغی‘ ہیں وہیں ایسے بچے بھی ہیں جو والد یا والدہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ان کی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے دیں۔
2008 کے انتخابی نتائج کا نقشہ
پاکستان کے انتخابات 2013: خصوصی ضمیمہ

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انیس سو ستّر کے انتخابات کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب آزاد انداز میں ووٹ دینے کا رحجان پنپتا نظر آ رہا ہے۔
صائمہ اسد بھی ان خواتین میں ایک سے ہیں جو ووٹ دینے کے معاملے پر اپنے شوہر کے فیصلے سے اختلاف کر رہی ہیں۔ وہ خود تحریک انصاف کی حمایت کررہی ہیں جبکہ ان کے شوہر کا تعلق مسلم لیگ نون کے ساتھ ہے۔
صائمہ اسد کا کہنا ہے کہ جب سے ان کی شادی ہوئی وہ اسی جماعت کو ووٹ دیتی تھیں جس جماعت کو ان کے شوہر ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن اس بار وہ ایسا نہیں کر رہیں۔ ان کے بقول انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق اس جماعت یا امیدوار کو ووٹ دیں گی جو ملک کی بہتری کے لیے کام کرے گا۔
ان انتخابات میں بچے بھی والدین کی رائے سے اتفاق نہیں کر رہے اور وہ اپنے والدین کی مرضی کے برعکس اپنی پسند کے امیدوار یا جماعت کو ووٹ دے رہے ہیں۔
لاہور کے نوجوان وقاص بھلی کو بھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے ۔وقاص کے والد تحریک انصاف کی حمایت کررہے ہیں جبکہ وہ خود مسلم لیگ نون کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔
وقاص بھلی کا کہنا ہے کہ میڈیا کی وجہ سے اب ہر ایک کو اپنی رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اب ووٹ دیتے وقت گھروالوں کی رائے کے علاوہ دیگر باتوں کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔
ان کے بقول اسی کو جمہوریت کہتے ہیں اور اس میں نافرمانی یا ناراضگی والی کوئی بات نہیں ہے۔
جس طرح ان انتخابات میں کچھ بچے والدین کی مرضی کے مطابق امیدوار نہیں چن رہے اسی طرح کچھ بہن بھائی بھی انتخابی اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں۔
ثناء خان کے بھائی اور ان کی بہن تحریک انصاف کو ووٹ دے رہے ہیں لیکن خود نثاء خان مسلم لیگ نون کی حامی ہیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دے دیں گی کیونکہ انتخابات کا مطلب ہی ووٹ کے ذریعے اپنی رائے یا پسند کا اظہار ہے۔
سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ گھرانے امیدواروں اور جماعتوں کے چناؤ میں بٹ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے 1970 کے انتخابات میں اس طرح کا رحجان نظر آیا تھا تاہم بعد میں ووٹ ’پرو بھٹو‘ اور ’اینٹی بھٹو‘ میں تقسیم ہوگیا تھا۔
سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عکسری رضوی کہتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے یہ رحجان اچھا ہے کہ لوگ سوچ کر ووٹ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اس رحجان میں جوش کا عنصر غالب ہے حالانکہ اس رحجان میں خوش مندی اور منطق کی ضرورت ہے۔
سہیل وڑائچ نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ووٹ دینے کا جو رحجان ان انتخابات میں نظر آرہا ہے اور وہ زیادہ دیر نہیں چلے گا اور انتخابات کے بعد نئی سمت اور راہوں کا تعین ہوگا۔
عبادالحق
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
 
Top