’کیسی ہیں‘

تیلے شاہ

محفلین
حضرت علی علیہ السلام سے ایک قول یہ بھی منسوب ہے کہ بے وقت کا مذاق دشمنی کا سبب بن سکتا ہے۔اس قول کی حقانیت مجھ پر یہ خبر پڑھ کر کھلی کہ سندھ اسمبلی کے بھرے اجلاس میں حکمران اتحاد کے ایک رکن ایشور لعل نے حزبِ اختلاف پیپلزپارٹی کی جواں سال رکنِ اسمبلی شازیہ مری کو ایک سلپ پر یہ لکھ کر بھیج دیا ’’ کیسی ہیں”۔

اس پر شازیہ مری کے کوئی پانچ ساتھی ارکانِ اسمبلی نے ایشور لعل کی پٹائی کرکے جواب دیا ’’ ایسی ہیں”۔اس واقعے کے بعد اسپیکر نے ایشور لعل سمیت چھ ارکانِ اسمبلی کی رکنیت عارضی طور پر معطل کردی۔

بظاہر سلپ پر کسی خاتون کو کیسی ہیں لکھ کر بھیج دینا کوئی جرم نہیں ہے۔خاتون حاضِر جوابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ
آپ کیسی ہیں خیریت سے ہیں
یہ کوئی حال پوچھنا نہ ہوا

لیکن ایشور لعل اس سے پہلے بھی غالباً اسی طرح سے خواتین کا حال پوچھنے کے عادی بتائے جاتے ہیں۔ثابت یہ ہوا کہ حرف مردہ نہیں ہوتے۔لکھنے کا انداز، لہجہ،نیت، پس منظر، گردوپیش کے حالات اور آپ کا سابقہ ریکارڈ یہ سب کا سب جملے کے ڈی این اے میں شامل ہوتا ہے۔

اگر میں سپاٹ لہجے میں کسی جاننے والی خاتون سے پوچھوں کہ آپ کیسی ہیں تو نارمل جواب یہ ملے گا کہ خدا کا شکر ہے۔آپ سنائیں آپ کیسے ہیں۔اگر میں کسی اجنبی خاتون سے پوچھوں کہ آپ کیسی ہیں تو غالب امکان ہے کہ وہ مجھے سرتا پاؤں گھور کر ایک کڑوی سی شکل بنا کر نظر انداز کردیں گی یا پھر ایک ناپسندیدہ مسکراہٹ میرے منہ پر دے ماریں گی۔لیکن اگر میں اپنے لہجے کو ذرا سا گھمبیر بنا کر، فقرے کو لمبا کھینچتے ہوئے آواز میں لچک ڈال کر پوچھوں کیسسسسسی ہںںںںںںںںںیں۔تو کوئی بھی خاتون کنفیوز ہوسکتی ہیں اور جواب میں آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے سے لے کر چانٹے تک کچھ بھی آ سکتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں ایک طلبا تنظیم کے کارکن نے حریف تنظیم کی ایک خوبرو کارکن ( آج کل خاتون ایک سرکردہ سیاسی شخصیت ہیں) سے بہت ہی آہستگی سے کہا تھا ’’گاڑی لاوے کیا”۔یہ جملہ اتنا بڑا ایشو بنا کہ اس کارکن کو خاتون سے تحریری معافی مانگنا پڑی۔

یہ وہ دور تھا جب یونیورسٹی کے بد چلن پرہیز گاروں میں مصطفی زیدی کی یہ لائنیں خاصی مقبول تھیں۔
ایسا کرنا کہ احتیاط کے ساتھ
اسکے ہاتھوں سے ہاتھ ٹکرانا
اور اگر ہوسکے تو آنکھوں میں
بس دوچار اشک بھر لانا
عشق میں اے مبصرینِ کرام
یہی تکنیک کام آتی ہے
اور یہی لے کے ڈوب جاتی ہے

کیا ایشور لعل ایم پی اے کو کسی نے بھی اس مشہور طوطے کا قول نہیں سنایا کہ
اڑنا نہ آتا ہو تو پنگا نہیں لینا چاہیے

“بی بی سی اردو ڈاٹ کام“
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت عمدہ جناب۔ لیکن یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ
موضوع کی تفصیل: وسعت اللہ خان
سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ مضمون وسعت اللہ خان صاحب کا لکھا ہوا ہے یا وہ راوی ہیں؟ کچھ بات سمجھ نہیں آئی۔
بےبی ہاتھی
 

تیلے شاہ

محفلین
جی یہ وسعت اللہ صاحب کی تصنیف ہے
اور وہ بی بی سی کے نمائندے ہیں
اگلی بار مکمل تفصیل رکھوں گا
 
Top