’وار آن ٹیرر کا خیال ایک غلطی‘

برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ یعنی ’وار آن ٹیرر‘ کا خیال اور فوجی کارروائی پر اتنا زور دینا ایک ’غلطی‘ تھی۔
برطانوی اخبار گارڈین میں اپنے ایک مضمون میں ڈیوڈ ملی بینڈ لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے دنیا میں مختلف قسم کے شدت پسندوں کو مغرب کے خلاف متحد ہونے میں مدد ملی۔
خیال رہے کہ ڈیوڈ ملی بینڈ کا یہ مضمون دنیا میں ’وار آن ٹیرر‘ کا آغاز کرنے والے امریکی صدر جارج بش کی عہدۂ صدارت سے سبکدوشی سے پانچ دن قبل سامنے آیا ہے۔

ملی بینڈ کے مطابق خطرے سے نمٹنے کا صحیح طریقہ قانون اور حقوقِ انسانی کی بالادستی میں تھا نہ کہ انہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے میں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے ’وار آن ٹیرر‘ کی اصطلاح نے دہشتگردی سے نمٹنے کے اصول تو طے کر دیے لیکن صحیح مقصد ہونے کے باوجود یہ خیال غلط فہمی پیدا کرنے والا ثابت ہوا۔

یاد رہے کہ ’وار آن ٹیرر‘ کی اصطلاح سب سے پہلے امریکی صدر بش نے واشنگٹن اور نیویارک پر دہشتگرد حملوں کے بعد بیس ستمبر 2001 کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے استعمال کی تھی۔
ملی بینڈ لکھتے ہیں کہ یہ ایک وسیع معانی رکھنے والی اصطلاح تھی جس کےنتیجے میں ایک ایسے متحد دشمن کا خاکہ تشکیل پا گیا جو کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی صورت میں موجود تھا جبکہ حالات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھے۔

برطانوی وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کوئی ادارہ یا نقطۂ نظر نہیں بلکہ یہ ایک مہلک طریقہ اور منصوبہ ہے۔ ان کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف دہشتگرد گروہوں کو مختلف مقاصد کے لیے کام کرنے والے مختلف گروہ سمجھا جائے اور یہ کہ یہ مان لیا جائے کہ یہ جنگ اعتدال پسندی اور انتہا پسندی یا اچھائی اور برائی جیسی دو طاقتوں کے درمیان نہیں ہے کیونکہ اسے ایسا سمجھنا ایک ’غلطی‘ ہے۔

ڈیوڈ ملی بینڈ کے مطابق ’تاریخ دان ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کہیں اس اصطلاح نے فائدے سے زیادہ نقصان تو نہیں پہنچایا‘۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اصطلاح نے’اس تصور کو جنم دیا کہ دہشتگردی کا صحیح اور بنیادی جواب فوجی طاقت کا استعمال ہی ہے یعنی کہ شدت پسندوں کا کھوج لگا کر انہیں ہلاک کر دیا جائے‘۔

ملی بینڈ کے مطابق اس کی جگہ درحقیقت دنیا کو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی’تعاون‘ کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے منتخب صدر باراک اوبامہ کی جانب سے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کی بندش کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے برطانوی وزیرِ خارجہ لکھتے ہیں کہ وقت آ چکا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حقوقِ انسانی اور شہری آزادی کا بول بالا ہو۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2009/01/090115_miliband_wot_zs.shtml
 

arifkarim

معطل
اسوقت یورپ و امریکہ کی سالمیت کو سب سے زیادہ خطرہ انکے سیاست دان اور سرمایہ دار برادری یعنی پرائوییٹ بینکرز سے ہے۔ جو سب ملکر پوری دنیا کو لوٹ رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کیخلاف خود ساختہ جنگ جیتنے کیلئے شروع ہی نہیں کی گئی، بلکہ اسکا مقصد صرف عوام کےبنیادی حقوق چھیننا اور ان پر اپنے مرضی کے قوانین مسلط کرنا ہے۔ الحمد للہ، امریکی عوام میں اب کچھ بیداری پیدا ہو گئی ہے اور مجھے امید ہے کہ یورپی اقوام بھی اس ’’برین واشنگ‘‘ سے جلد آزاد ہو جائیں گی۔ کہا جاتا ہے کہ تیسری دنیا میں کرپشن ہے لیکن جب یہاں‌مغرب کے نظام کا گہرہ مطالعہ کریں تو آپکو معلوم ہوگا کہ اگر ہمارے حکمران اپنے ملک کیساتھ اربوں کی کرپشن کرتے ہیں تو یہ مغربی حکمران پوری دنیا کیساتھ کھربوں کھربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں!
 
Top