’نئی نسل بھی اتنی ہی بےوقوف ہے‘

منقب سید

محفلین
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام
130403000932_pakistani_youth_304x171_getty_nocredit.jpg

ہر زمانہ اپنے مسائل اور بیانیہ اسلوب ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے زمانی موازنہ ہی بے وقوفی ہے۔ نئی نسل سے ربط نہ رکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مجھ جیسوں کا خودساختہ خول برقرار رہتا ہے اور میں ماضی کے عصا سے ٹیک لگائے کمر پر ہاتھ دھرے کہہ سکتا ہوں کہ میاں ہم نے جو زمانہ گزار لیا وہ آج کے لمڈوں لپاڑوں کو کہاں نصیب۔
پڑھائی لکھائی ہوتی تھی ہمارے زمانے میں۔اب تو تعلیم کے نام پے گھاس کھودی جارہی ہے۔ ادب تو لکھا جا چکا ہمارے لڑکپن میں اب نہ وہ زبان رہی اور نہ وہ دماغ باقی ہیں۔ شاعری تو پڑھی ہے ہم نے۔ آج کا لڑکا مصرعہ چھوڑ ایک جملہ ہی درستی سے پڑھ دکھائے تو سمجھو معجزہ ہے۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔پتہ نہیں اس نسل کا کیا بنے گا۔
مگر اے میرے ہم عمر ادھیڑ عمرو اور بوڑھو یقین کر لو کہ تمہارے دورِ جوانی کی طرح اس نسل کو بھی کسی سرپرستانہ ترس کی محتاجی نہیں ہے۔
یہ لڑکے لڑکیاں بھی اتنے ہی باغی ، مایوس ، پرجوش ، صلح جو ، جھگڑالو ، زہین ، بےوقوف ، پڑھےلکھے ، جاہل اور درست و نادرست کی تمیز رکھتے ہیں جتنی تمیز میری یا میرے باپ یا دادا کی نسل کو تھی۔ نہ کم نہ زیادہ۔ یہ ہمارے تمہارے فلانے زمانے کا مسئلہ نہیں جینیات و سرشت کا معاملہ ہے۔
ہرن کا بچہ ہرن ہی ہوتا ہے اور ہاتھی کا بچہ کمزور بھی ہو تو ہاتھی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔
آج کا نوجوان بھی گردو پیش کو ایسے ہی محسوس کر رہا ہے جیسے ایک صدی پہلے سیالکوٹ کا ایک برخوردار فیض احمد یا ان سے بھی پہلے محمد اقبال نامی لڑکا محسوس کر رہا تھا۔
ہر زمانہ اپنے مسائل اور بیانیہ اسلوب ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے زمانی موازنہ ہی بے وقوفی ہے۔
کل ہی مجھے ایک نوجوان اتفاقاً ٹکرا گیا ۔دیکھنے میں ویسا ہی لاابالی سا جیسے ہر دور کے لڑکے بالے عموماً ہوتے ہیں۔اور پھر اس نے یہ نظم سنا دی۔
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خوشی محسوس ہوتی ہے
نہ کوئی غم ستاتا ہے ،
شکست و نارسائی کا کوئی ردِ عمل ان میں کبھی دیکھا نہیں جاتا،
خطِ غربت سے نیچے زندگی کو جھیلنے والے
یہ خود کو بے حسی کے آئینے میں دیکھنے والے
کوئی شکوہ نہیں کرتے
یہ خوف و ننگ و غربت پر کوئی جنبش ہی کرتے ہیں
نہ آوازہ اٹھاتے ہیں،
انہیں کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ مردہ ہیں
کہ ان کی روح ان کے جسم میں ہی مرچکی ہے
اور اب یہ لوگ زندہ لاش کی مانند جیتے ہیں
یہ شہرِ رم کے قبرستان کی گنتی کا حصہ ہیں
تعجب ہے کہ یہ لاشیں ہی جلسہ گاہوں کو آباد کرتی ہیں
ذرا سی دیر میں ان کے شکستہ اور مردہ جسم میں پھر جان پڑتی ہے
یہ اپنے ناخدا کی شان میں بیٹھی ہوئی آواز سے نعرے لگاتی ہیں
ترانوں کی لہک میں جھومتی ہیں اور گاتی ہیں
یہ مردے
بھول جاتے ہیں کہ اگلے سامراجی جانشینوں نے انہیں کیسے دبوچا تھا ،
ملی جب خلعتِ شاہی تو کیونکر روند ڈالا تھا
سمجھتے ہیں کہ اب کی بار تو ایسا نہیں ہوگا
ہوا تھا پہلے جیسے کم سے کم ویسا نہیں ہوگا۔
مگر افسوس کہ ان سامراجی جانشینوں کی بس اتنی سی حقیقت ہے
یہ اپنے نفس کی چوٹی پے بیٹھے گدھ ہیں
اور مردار کھاتے ہیں۔
( نعیم سمیر )

(کالم نگار کی تحریر محفلین کے ملاحظے کی نیت سے پیش کی جا رہی ہے بشکریہ بی بی سی لنک )
 

نایاب

لائبریرین
وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام

یہ کیسے لوگ ہیں جن کو خوشی محسوس ہوتی ہے
نہ کوئی غم ستاتا ہے ،
شکست و نارسائی کا کوئی ردِ عمل ان میں کبھی دیکھا نہیں جاتا،
خطِ غربت سے نیچے زندگی کو جھیلنے والے
یہ خود کو بے حسی کے آئینے میں دیکھنے والے
کوئی شکوہ نہیں کرتے
یہ خوف و ننگ و غربت پر کوئی جنبش ہی کرتے ہیں
نہ آوازہ اٹھاتے ہیں،
انہیں کچھ بھی نہیں ہوتا
یہ مردہ ہیں
کہ ان کی روح ان کے جسم میں ہی مرچکی ہے
اور اب یہ لوگ زندہ لاش کی مانند جیتے ہیں
یہ شہرِ رم کے قبرستان کی گنتی کا حصہ ہیں
تعجب ہے کہ یہ لاشیں ہی جلسہ گاہوں کو آباد کرتی ہیں
ذرا سی دیر میں ان کے شکستہ اور مردہ جسم میں پھر جان پڑتی ہے
یہ اپنے ناخدا کی شان میں بیٹھی ہوئی آواز سے نعرے لگاتی ہیں
ترانوں کی لہک میں جھومتی ہیں اور گاتی ہیں
یہ مردے
بھول جاتے ہیں کہ اگلے سامراجی جانشینوں نے انہیں کیسے دبوچا تھا ،
ملی جب خلعتِ شاہی تو کیونکر روند ڈالا تھا
سمجھتے ہیں کہ اب کی بار تو ایسا نہیں ہوگا
ہوا تھا پہلے جیسے کم سے کم ویسا نہیں ہوگا۔
مگر افسوس کہ ان سامراجی جانشینوں کی بس اتنی سی حقیقت ہے
یہ اپنے نفس کی چوٹی پے بیٹھے گدھ ہیں
اور مردار کھاتے ہیں۔
( نعیم سمیر )

(کالم نگار کی تحریر محفلین کے ملاحظے کی نیت سے پیش کی جا رہی ہے بشکریہ بی بی سی لنک )
اب تو پاکستان کی نوجواں نسل سے بات کرتے بھی ڈر لگتا ہے ۔۔
ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے دربدر ٹھوکریں کھاتے اپنے " والدین " کے سامنے شرمندگی کا شکار رہتے رہتے ان کے سینوں میں آگ نہیں بلکہ الاؤ جل رہے ہیں ۔
معاشرتی جبر میں پستے پستے بے حسی کی انتہائی حدوں پر پہنچتے اب یہ نوجواں نسل " حق نہ ملے تو لوٹ سہی " کی راہ پر نکلتی دکھائی دیتی ہے ۔
مجھے تو اب اپنے بیٹوں بھتیجوں بھانجوں سے بات کرتے بھی ڈر لگتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کیا ہم اور ہماری نسل بھی ہمارے بزرگوں کی طرح دھکے کھاتے واسطے رابطے تلاش کرتے گزر جائے گی ۔
کیوں نہ آسان راہ تلاش کریں ۔ یہ جو مردار کھانے والے گدھ ہیں ان کی حفاظت کے لیئے اک ہتھیار خرید لیں ۔ ان کے غلام بن نسلیں سنوار لیں ۔
ڈر لگتا ہے سچ میں ان کی باتیں سن کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں کہ میرے ملک کی دھرتی پر امن و سلامتی بھری بہاریں خوشحالی کے پھول کھلائیں ۔۔۔۔۔۔ آمین
 

arifkarim

معطل
اب تو پاکستان کی نوجواں نسل سے بات کرتے بھی ڈر لگتا ہے ۔۔
ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے دربدر ٹھوکریں کھاتے اپنے " والدین " کے سامنے شرمندگی کا شکار رہتے رہتے ان کے سینوں میں آگ نہیں بلکہ الاؤ جل رہے ہیں ۔
معاشرتی جبر میں پستے پستے بے حسی کی انتہائی حدوں پر پہنچتے اب یہ نوجواں نسل " حق نہ ملے تو لوٹ سہی " کی راہ پر نکلتی دکھائی دیتی ہے ۔
مجھے تو اب اپنے بیٹوں بھتیجوں بھانجوں سے بات کرتے بھی ڈر لگتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کیا ہم اور ہماری نسل بھی ہمارے بزرگوں کی طرح دھکے کھاتے واسطے رابطے تلاش کرتے گزر جائے گی ۔
کیوں نہ آسان راہ تلاش کریں ۔ یہ جو مردار کھانے والے گدھ ہیں ان کی حفاظت کے لیئے اک ہتھیار خرید لیں ۔ ان کے غلام بن نسلیں سنوار لیں ۔
ڈر لگتا ہے سچ میں ان کی باتیں سن کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں کہ میرے ملک کی دھرتی پر امن و سلامتی بھری بہاریں خوشحالی کے پھول کھلائیں ۔۔۔۔۔۔ آمین

یہ نوجوان نسل اور بیروزگاری کا مسئلہ صرف پاکستان جیسے پسماندہ ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔ یورپی ممالک میں بھی آجکل یہی صورتحال ہے۔
http://www.statista.com/statistics/266228/youth-unemployment-rate-in-eu-countries/

اگر نوجوان کسی بھی معاشرے کے مستقبل کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور سب سے زیادہ بیروزگاری کا شکار بھی یہی ہیں تو اسکا قصوروار وہ خود ہیں یا انکے وہ بزرگ جو انہیں اس بے بس معاشرے میں لیکر آئے؟ :)
 

x boy

محفلین
سب بیکار کی باتیں ہیں میمن اور گجراتیوں سے پوچھو کہ انکے نوجوان بیروزگار ہیں یا نہیں۔۔
 

نایاب

لائبریرین
یہ نوجوان نسل اور بیروزگاری کا مسئلہ صرف پاکستان جیسے پسماندہ ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔ یورپی ممالک میں بھی آجکل یہی صورتحال ہے۔
http://www.statista.com/statistics/266228/youth-unemployment-rate-in-eu-countries/

اگر نوجوان کسی بھی معاشرے کے مستقبل کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور سب سے زیادہ بیروزگاری کا شکار بھی یہی ہیں تو اسکا قصوروار وہ خود ہیں یا انکے وہ بزرگ جو انہیں اس بے بس معاشرے میں لیکر آئے؟ :)
جیدے گھر دانے اہودے کملے وی سیانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرہ بے بس نہیں ہے معاشرے کو رواں رکھنے کے ذمہ دار معاشرے کی بجائے اپنے گھر سنوارنے میں مصروف ہیں ۔
جوانوں کو اس معاشرے میں لانے والے بزرگ اپنے خون پسینے کی کمائی لگا جوانوں کو ڈگری کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں ۔
جوان محنت کرتے شاندار کامیابی بھی حاصل کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جب روزگار کے لیئے نکلتے ہیں تو علم ہوتا ہے یہ معاشرہ تو صرف " فون کال اور پرچی پہ چل رہا ہے ۔
یہ ڈگری یہ ڈپلومہ تو کاغذ کا بیکار ٹکڑا ہے ۔۔۔۔
سو اس معاشرے سے بھاگ پردیس پہنچتے ہیں ۔ اور وطن سے چھٹی آئی گاتے روتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

arifkarim

معطل
سو اس معاشرے سے بھاگ پردیس پہنچتے ہیں ۔ اور وطن سے چھٹی آئی گاتے روتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ آجکل پردیس کے حالات وہ پہلے والے نہیں کہ قابل ڈگری پر نوکری مل جائے۔ آجکل یہاں بھی معاشی بحران کی وجہ سے قابل نوکریاں نہیں ملتیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
اب تو پاکستان کی نوجواں نسل سے بات کرتے بھی ڈر لگتا ہے ۔۔
ڈگریاں ہاتھوں میں پکڑے دربدر ٹھوکریں کھاتے اپنے " والدین " کے سامنے شرمندگی کا شکار رہتے رہتے ان کے سینوں میں آگ نہیں بلکہ الاؤ جل رہے ہیں ۔

حق!
سید سرکار۔
 
Top