’میں نے زندگی کا انتخاب کیا، انھوں نے ہاتھ کاٹ دیا‘

’میں نے زندگی کا انتخاب کیا، انھوں نے ہاتھ کاٹ دیا‘
بھارت دنیا کی دسویں بڑی معیشت ہے لیکن وہاں دسیوں لاکھ ایسے مزدور ہیں جو غلامی سے قدرے بہتر حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک ایسا ہی مزدور دیالو نیال ہے جس نے جبری مشقت سے بھاگنے کی کوشش کی تو ٹھیکیدار کے حواریوں نے نیال کو مغوی بنا لیا۔
140711053833_bonded_labour_624x351__nocredit.jpg


ٹھیکدار نے دیالو کے بھائی سے اس سے دگنی رقم کا مطالبہ کیا جس کا اس نے صرف وعدہ کیا تھا۔ رقم ادا نہ کرنے پر ٹھیکیدار نے دیالو اور اس کے دوست نیلامبر کو تین چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے کو کہا: ’موت، ٹانگ یا ہاتھ۔‘ ٹھیکیدار کے غنڈوں نے کلہاڑی سے ان کے ہاتھ کاٹ کر انھیں جنگل میں پھینک دیا اور کہا اب تم ’آزاد‘ ہو۔
دیالو نیال کی کہانی ہاتھ کٹنے سے چھ روز پہلے شروع ہوتی ہے۔ دیالو نیال درجن بھر بے روزگار نوجوانوں میں سے ایک تھا جنھیں ایک ٹھیکیدار بھارتی شہر حیدرآباد میں ایک بھٹے پر جبری مزدوری کے لیے لے جا رہا تھا۔ جب دیالو نیال اور ان کے ساتھیوں کو حیدرآباد جاتے ہوئے راستے میں ٹرین سے بھاگنے کا موقع ملا تو دیالو نیال اور نیلامبر کے علاوہ تمام بھاگ نکلے۔
گذشتہ برس دسمبر کے اوائل میں دیالو کو اس کے ایک دوست نیلامبر نے بھٹے پر مزدوری سے متعلق بتایا۔ نیلامبر نے دیالو کو بتایا کہ وہ اگر اس بھٹے پر کام کرنے پر رضامند ہو تو انھیں دس ہزار روپے ایڈونس بھی مل سکتے ہیں۔ اس معاہدے کا بندوبست نیلامبر کے ایک پڑوسی بمل کروا رہا تھا۔ پھر ایک روز دیالو، نیلامبر اور بمل ایک بس میں سوار ہو کر اس ٹھیکیدار کے پاس پہنچے جس نے انھیں ملازمت دلوانی تھی۔
دیالو بتاتے ہیں: ’مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک امیر شخص ہے۔ اس کے پاس موٹر سائیکل ہے اور وہ ٹائی پہنتا ہے۔‘
’ان لوگوں کے لیے جیل کافی نہیں ہیں۔ انھیں پھانسی پر لٹکانا چاہیے‘
جب وہ ٹھیکیدار کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ انھیں رقم دکھاتا ہے لیکن دینےسےگریز کرتا ہے۔ دیالو ایڈونس کی رقم نہ ملنے کے باوجود مزدوری پر رضامند ہو جاتا ہے ۔اسے امید تھی کہ اسے وعدے کے مطابق رقم ملے گی۔
دوسرے روز ان 12 افراد کو چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور کے ریلوے سٹیشن پر لے جایا گیا۔ ٹھیکیدار انھیں کسی قریبی بھٹے پر بھیجنے کی بجائے آٹھ سو کلومیٹر دور حیدرآباد لے جا رہا تھا۔ گروپ میں شامل کچھ نوجوانوں نےحیدرآباد کے بھٹوں پر جبری مشقت کی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ انھوں نے بغاوت کا فیصلہ کیا۔
جب ٹرین ایک سٹیشن پر رکی تو نیال اور نیلامبر کے علاوہ تمام وہاں سے فرار ہوگئے۔ ٹھیکیدار نے اب حیدرآباد جانے کے بجائے رائے پور واپسی کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران اس نے موبائل فون پر کچھ دیر بات کی۔ جب وہ واپس رائے پور ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو ٹھیکیدار کے غنڈے سٹیشن پر نیلامبر اور دیالو کے منتظر تھے۔
دیالو بتاتے ہیں: ’جوں ہی ہم سٹیشن پر اترے تو ٹھیکیدار کے حواری وہاں موجود تھے۔ انھوں نے ہمارے منھ پر ہاتھ رکھ لیا تاکہ ہم شور نہ مچا سکیں۔‘
بمل جس نے دیالو نیال اور نیلامبر کی ٹھیکیدار سے ملاقات کروائی تھی، ریلوے سٹیشن سےغائب ہوگئے۔ دیالو اور نیلامبر کو ٹھیکیدار کی رہائش گاہ پر لے جایا گیا جہاں انھیں کچھ روز تک مغوی بنائے رکھا۔
دیالو بتاتے ہیں: ’انھوں نے ہمارے خاندان والوں کو فون کیا اور کہا کہ اگر ان کی رہائی چاہتے ہیں تو 20 ہزار روپے ادا کریں۔ ’وہ ہم پر اتنا تشدد کرتے تھے کہ ہمارے رشتہ دار ٹیلیفون پر ہماری چیخیں سن سکیں۔‘
جب دیالو اور نیلامبر کے خاندان ٹھیکیدار کے مطالبے کے مطابق 20 ہزار روپے کا بندوبست نہ کر سکے تو انھیں پانچ روز تک حراست میں رکھا گیا۔
دیالو بتاتے ہیں کہ چھٹے روز ان کے اغوا کار زبردست شراب نوشی کر رہے تھے۔ ٹھیکیدار اور اس کے پانچ لوگ دیالو اور نیلامبر کو جنگلوں میں لے گئے۔
دیالو بتاتے ہیں: ’ٹھیکیدار کے لوگوں نے پہلے ہم پر تشدد کیا۔ انھوں نے مجھے گردن سے پکڑا اور کہا زندگی بچانی ہے، ٹانگ بچانی ہے، یا ہاتھ۔ ہم نے ہاتھ کی قربانی دینے کا فیصلہ کیا۔‘
بھارتی حکومت کے اہلکار ملک میں جبری مشقت کی موجودگی سے انکاری ہیں
دیالو مزید کہتے ہیں: ’انھوں نے میرے سامنے کلہاڑے سے نیلامبر کا ہاتھ کاٹا۔ پھر انھوں نےمیرا ہاتھ ایک پتھر پر رکھا اور کلہاڑے کے ایک وار سے کاٹ کر ہاتھ اٹھا کر جنگل میں پھینک دیا۔ ہمیں کہا کہ اب تم آزاد ہو۔‘
دیالو نیال بتاتے ہیں کہ اس موقعے پر مجھے لگا کہ میں مر جاؤں گا۔ ہم نے خون روکنے کے لیے دوسرے ہاتھ کا استعمال کیا اور ایک ندی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اپنےگاؤں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں پہلے ایک شاپنگ بیگ کی مدد سے خون کو بہنے سے روکا اور پھر ڈاکٹر سے مدد لی۔
اب دیالو ایک فلاحی ادارے کے پروگرام انٹرنیشنل جسٹس مشن کے ساتھ بحالی کے ساتھ منسلک ہیں۔ دیالو کے علاوہ 150 اور افراد اس فلاحی ادارے کے بحالی کے پروگرام کا حصہ ہیں۔ ان تمام افراد کو جبری مشقت سے رہا کروایا گیا ہے۔
ان لوگوں میں بچے، عورتیں اور مرد ہیں۔ مردوں پر جسمانی تشدد کیا گیا تھا، عورتوں کو ریپ کیاگیا۔ وہاں ایک عورت نے بتایا کہ ان کے شوہر کو چلتی ٹرین سے دھکا دے کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
بھارت میں 1976 میں بنائے گئے قانون کے تحت جبری مشقت پر پابندی ہے۔ لیکن اس قانون پر نہ تو عمل ہوتا ہے اور اگر ہو بھی تو وہ جبری مشقت کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس قانون کے تحت پانچ سال کی قانونی چارہ جوئی کے بعد جبری مشقت پر مجبور کرنے والے کو صرف 30 ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن بھارتی حکومت ملک میں جبری مشقت کے واقعات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
آندھرا پردیش کے لیبر کمشنر ڈاکٹر اے اشوک نے بی بی سی کے نامہ نگار ہمفری ہکسلے کے سامنے دعویٰ کیا کہ آندھرا پردیش کی حدود میں جبری مشقت نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر اے اشوک نے حیدرآباد کے باہر رانگا ریڈی کے قریب بھٹوں کو ایک مثالی قرار دیا ۔لیکن فلاحی ادارے انٹرنیشنل جسٹس مشن کے بحالی کے پروگرام میں شریک ایک سو پچاس افراد میں سے بعض انھیں مثالی بھٹوں سے آئے ہیں جنہیں آندھرا پردیش کے لیبر کمشنر مثالی قرار دے چکے ہیں۔
یہ صرف میری غلطی نہیں تھی۔ یہ ہم سب کا اجتماعی فیصلہ تھا: بمل
دیالو اور نیلامبر کے مقدمے میں کچھ گرفتاریاں ہوئی ہیں اور وہ اب حراست میں ہیں۔ دیالو اور نیلامبر کو جبری مشقت کے ٹھیکیداروں کے چنگل میں پھنسانے والے بمل بھی گرفتار ہوا لیکن اب ضمانت پر باہر آ چکا ہے۔
بمل نے بی بی سی کو بتایا :’ہاں یہ ٹھیک ہے کہ دیالو کو میں نے بھرتی کیا تھا لیکن اغوا اور تشدد میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔‘
بمل کہتے ہیں:’یہ صرف میری غلطی نہیں تھی۔ یہ ہم سب کا اجتماعی فیصلہ تھا۔ میں دیالو سے معافی مانگنا چاہوں گا تاکہ ہم اچھے پڑوسی کے طور پر رہ سکیں۔‘
البتہ دیالو بمل کے ساتھ کسی مصالحت کے لیے تیار نہیں ہیں: ’ان لوگوں کے لیے جیل کافی نہیں ہیں۔ انھیں پھانسی پر لٹکانا چاہیے۔‘
دیالو نیال کی اب مستقبل پر نظر ہے: ’میں شادی کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرا اپنا خاندان ہو۔‘ لیکن یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں اپنے کٹے ہوئے بازور پر پڑتی ہیں اور اس کا رنگ بدل جاتا ہے۔ دیالو کو معلوم ہے کہ جس معاشرے کا وہ حصہ ہے وہاں کٹے ہوئے بازو کے ساتھ بیوی ڈھونڈنا اور نئی زندگی شروع کرنا بہت ہی مشکل ہے۔
دیالو نیال کہتے ہیں: ’میں کبھی ان لوگوں کو معاف نہیں کر سکتا۔‘
 
Top