’معافی مانگیں گے نہ ڈرون حملے رکیں گے‘‘ ناٹو سپلائی سفارشات منظور کرنیوالے اب قوم کو جواب دیں

گزشتہ ہفتے کئی ہفتوں کی بحث و تمحیص کے بعد بالآخر پارلیمانی دفاعی کمیٹی نے متفقہ طور پر اس بات کی منظوری دے دی کہ امریکہ اور اس کی اتحادی ناٹو فورسز کی پاکستان کے راستے سپلائی کھولی جائے لیکن اس کے لئے 26 نومبر 2011ء کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے حوالے سے امریکہ کو معافی مانگنا ہو گی، ایسا دوبارہ نہ کرنے کی یقین دہانی کروانا ہو گی۔ ڈرون حملے بند کرنے ہونگے اور جو سپلائی جائے گی، اس سے اسلحہ کو خارج کیا جائے گا اور اس کے بعد تمام معاہدے تحریری ہونگے۔
ناٹو سپلائی کی سب سے بڑی مخالف جمعیت علمائے اسلام سمیت بالآخر پارلیمانی کمیٹی نے جو سفارشات منظور کیں ان کا جواب امریکہ نے فوری طور پر دیا کہ سلالہ چیک پوسٹ حملے پر کوئی معافی نہیں مانگی جائے گی اور ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے۔
خود کو قوم کا نمائندہ اور منتخب کنندہ کہنے والوں کو اب تو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ جس فیصلے کو آزاد ملک کا فیصلہ سمجھ کر ہمیں بے وقوف بنا رہے تھے اس کا بھرم امریکہ نے فوری طور پر کھول کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں تو اپنے اراکین پارلیمنٹ کی عقل و خرد اور سمجھ بوجھ پر حیرانی ہوتی ہے کہ انہیں یاد کیوں نہیں کہ 2008ء اور اس کے بعد بھی انہوں نے پارلیمنٹ کے ذریعے ہی اس طرح متفقہ طور پر امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جمہوریت کے دعویدار امریکہ نے اس مطالبے اور قرارداد کو جوتے کی نوک پر رکھا تھا اور آج تک اس نے بے شمار حملے کر کے ہزاروں بے گناہ پاکستانی شہید کر ڈالے۔ پاکستانی قوم کی شاید یادداشت کمزور ہے یا نہ ہونے کے برابر کہ انہیں یاد نہیں۔ یہ وہی امریکہ ہے کہ جس نے 1971ء میں ہمیں بھارت سے بچانے کے لئے اپنا چھٹا بحری بیڑا روانہ کیا تھا جو 40 سال بعد بھی پاکستان نہیں پہنچ سکا۔ یہ وہی امریکہ ہے کہ جس نے پاکستان پر کئی دہائیوں سے عائد پابندیاں ابھی تک ختم نہیں کیں، پاکستان سے پیسے لئے 20 سال گزر گئے لیکن اس رقم کے ایف سولہ طیارے نہ ملے۔ اب ان میں سے چند دیئے تو اس وقت جب یہ ’’کھٹارا‘‘ بن چکے ہیں۔ امریکہ کی جنگ میں شریک ہو کر ہمارے ملک کے 40 ہزار سے زائد لوگ ابدی نیند سو گئے۔ 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا اور آج معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ اب اسی امریکہ سے دوبارہ رابطے استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس سے سو فیصد تباہی ہی ہمارے حصے میں آئے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی ہماری عزت و کامرانی اسی راستے میں ہے جو طالبان نے اختیار کیا تھا۔ آج امریکہ پاکستان کے حکمرانوں کو تو جوتے مارتا ہے لیکن طالبان کے جوتے سیدھے کرتا بلکہ پائوں چاٹتا ہے کہ کسی طرح واپسی کا راستہ دے دو۔ امریکہ بھاگنے والوں کو اور بھگاتا ہے لیکن جو ڈٹ جائے اس کے سامنے لیٹ جاتا ہے۔ جن لوگوں کا ایمان اللہ کی ذات پر ہو تو ان کا اللہ ان کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور جو امریکہ سے ڈرتے اور لمحہ لمحہ، لحظہ لحظہ مرتے رہیں وہ یقینا ذلت و رسوائی کا شکار ہو کر ہی دنیا میں جیتے اور پھر تاریخ کا بدنام حصہ بن جاتے ہیں۔ امریکہ سے نمٹنے کا طریقہ طالبان نے ہمیں سکھا اور سمجھا دیا ہے۔ اللہ کرے یہ طریقہ سمجھ آ جائے تو معاملات حل ہو جائیں گے، وگرنہ ذلت ہی مقدر میں رہے گی۔

بشکریہ۔۔۔۔۔ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔۔ علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 
Top