’محض اتفاق ہے تو عجیب و غریب ہے‘

عین عین

لائبریرین
حسن مجتبیٰ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک

اگر گذشتہ دو دہائيوں کے دوران شمالی سندھ میں ہندو لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی کہانیاں اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ساری کہانیاں ایک دکھائی دیں گی۔
وہی ہزاروں کے ہجوم، تکبیر کے نعرے، کلاشنکوف اور جدید خود کارہتھیاروں کی فائرنگ، بھرچونڈی کے پیر کے ہاتھ میں ڈنڈا اور مذہب تبدیل کرنے کی تقریب کا وقوع پذیر ہونا۔
بھرچونڈی، مٹیاری اور امروٹ درگاہیں، رضاکارانہ یا جبری سے قطع نظر، تاریخی طور پر تبدیلیِ مذہب کے بڑے مرکز رہے ہیں۔ جب کہ آج بھی بھرچونڈی، امروٹ، لاڑکانہ، جیکب آباد اور کراچي اور تھرپارکر میں سامارو، سندھ میں ایسے مذہب تبدیل کرنے کے ایسے مراکز بتائے جاتے ہیں، جہاں ہر ماہ متعدد ہندو لڑکیوں کے مبینہ طور پر جبراً مذہب تبدیل کرنے کے واقعات ہوتے ہیں۔
اگر آپ گھوٹکی ضلع سندھ میں رہتے ہیں، اگر آپ کو زمین یا پلاٹ پر سے قبضہ چھڑوانا ہے، قبضہ کروانا ہے، اگر کسی نے کسی ہندو لڑکے یا لڑکی کا ‘مذہب تبدیل’ کروانا ہے تو آّپ بھرچونڈی کے پیروں سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ یہ جو کراچي میں تو‘نو گو ایریاز’ اب بنے ہیں، شمالی سندھ میں بھرچونڈی تب سے ‘نو گو ایریا’ ہے، جب یہ لفظ میڈیائي استعمال میں اتنا نہیں آیا تھا جتنا اب ہے۔ بھرچونڈی عام شہریوں یا پولیس انتظامیہ کے لیے ‘علاقہ غیر’ ہے۔
اسی بھرچونڈی کے ایک پیر عبد الحق عرف میاں مٹھو پی پی پی کے ایم این اے منتخب ہوتے آئے ہیں، میاں مٹھو جو گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے بیٹوں سمیت ہندو لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرانے کے بانی رہے ہیں۔ رنکل کماری کے اغوا اور پھر مذہب تبدیل کرنے اُس واقعے کی مبینہ سرپرستی میں بھی انہی کا نام لیا جاتا ہے، جس کی وڈیوز اب وبائی جرثوموں کی طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئي ہیں۔
انہی وڈیوز میں، ہجوم اور علاقے کے طاقتور پیروں کے نرغے میں گھری رنکل کماری کو اس کے حال پر چھوڑ کر پولیس کے ایک افسر کو بھاگتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
گذشتہ پچیس فروری کو میرپور ماتھیلو کے صوفی محلے میں ایک نوجوان ہندو لڑکی رنکل کماری اس وقت اپنے گھر سے غائب ہوگئی جب اس کے گھر والے گھر سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔
مجھے انیس سالہ رنکل کماری کے ماموں ڈاکٹر پون کمار نے ٹیلیفون پر میرپور ماتھیلو سے بتایا کہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ جب وہ ساری رات گھر نہیں آئي تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس نے گھر سے بھاگ کر اپنی مرضی سے جا کر شادی کرلی ہے لیکن ہم نے سوچا کم از کم اسے اپنے والدین سے تو ملایا جائے گا اور اس کے والدین یہ جاننا چاہیں گے۔
دوسرے روز اسے گھوٹکی سیشن کورٹ میں پیش کیا گیا جہاں کمرۂ عدالت میں وکلا اور عدالتی عملے کی موجودگی میں، رنکل کماری نے کہا کہ نوید شاہ اسے ورغلا کر، زبردستی اور دھوکے سے میاں مٹھو کے ہاں لایا ہے اور وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے لیکن جج نے لڑکی کا یہ بیان ریکارڈ نہیں کیا۔
دو دن بعد ہزاروں لوگوں کے ہجوم کے ساتھ، جن میں بہت سے مسلح بھی تھے، رنکل کماری پھر عدالت میں پیش کی گئی، جہاں اس کے وکیل اور کیس کے فریادی کے کسی کو بھی اس سے نہیں ملنے دیا گیا۔
تاریخ میں پہلی بار، دفعہ ایک سو چونسٹھ کا بیان کمرہ عدالت کے اندر سینکڑوں افراد اور باہر ہتھیاربند جتھوں اور نعرہ زن ہجوم کی موجودگی میں ریکارڈ کیا گیا۔
رنکل کماری کے والدین اور ہندو پنچایت کے وکیل محمد مراد لونڈ تھے جنہیں ان کے ساتھی وکلا نے طعنے دیے کہ وہ کیوں ‘کافروں’ کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔
دلہے’ کا سلمان تاثیر کے قاتل کی ممتاز قادری کی طرح استقبال کیا گیا۔ جج کو کمرہ عدالت میں موجود ساٹھ ستر وکلا اور ہجوم نے مبارک باد دی۔ ایک وکیل نے جج سے کہا ‘آپ کا بڑا امتحان تھا آپ اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے’۔
ہجوم اور وکلا پی پی پی ایم این اے میاں مٹھو کی قیادت میں کاروں جیپوں کے قافلے، کلاشنکوف کی کئي سو راؤنڈز اور نعرۂ تکبیر کے ساتھ روانہ ہوا۔ اب رنکل کماری کا نیا نام ‘فریال شاہ’ ہے۔
تقسیم کے فسادات کے دوران بھی سندھ سے ہندو برادری نے ہندوستان کے لیے اتنی تعداد میں نقل مکانی نہیں کی تھی جتنی اپنی لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنے کی وجہ سے کی ہے یا کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ان کے موقف کو شایع، نشر یا بیان نہیں کرتا۔ ایک ان کہی اور غیر مصدقہ کہانی تو یہ بھی ہے کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران سندھ میں ایک سو کے قریب نوجوان ہندو لڑکیوں نے جبراً تبدیلیِ مذہب اور اپنے اور والدین کے دہشت زدہ کیے جانے سے دل برداشتہ ہوکر خود کشیاں کی ہیں۔
 

ساجد

محفلین
مذہب کے نام پہ جہالت کا کاروبار ۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارے وہ علماء جو شدت پسندی کی حمایت سے انکار کرتے ہیں وہ بھی ایسے معاملے کو عدالتوں میں کیوں نہیں اٹھاتے؟۔ آخر ہم کب تک اپنے لوگوں اور اپنے گھر کو آگ لگا کر دنیا میں تماشا بنتے رہیں گے؟۔
 
میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ مذہب میں شدت پسندی ممنوع ہے اعتدال میں رہ کر کام کیا جائے تو بہتر ہوتا ہے ابو جہل حضور پاک کو سچا کہتا تھا لیکن ساری زندگی اسلام قبول نہیں کیا
 
بات یہ ہے کہ اسللام سے قبل جو جاہلیت تھی وہ اب بھی کئی جگہ پر قائم ہے جس کو کلچرل کا نام دے کر اوڑھ لیا گیا ہے
 

عین عین

لائبریرین
امت والا اس پر بھی کوئی رپورٹ لکھے شاید! اور کوئی "امتی" یہاں لٹکا دے اسے، لیکن شاید ایسا نہ ہو۔ بہرحال یہ ہم ہیں۔ عیسائی مشنری اور یورپی طرز فکر پر تو بہت بات ہوتی ہے، ہم اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ یہاں کیا نہیں ہو رہا۔ اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ اتنی ہی سخت اور طویل جتنی کہ عیسائی مشنری کے ’معصوم مسلمانوں‘ کو ورغلا کر اپنے ساتھ ملا لینے پر ہوتی ہے۔
 
ہم کہتے ہیں کہ باہر والے اچھے ہیں جھوٹ نہیں بولتے خالص اشیاء ملتی ہیں تو ہم ان کی اچھی باتیں کیوں نہیں پکڑتے
 

شعیب صفدر

محفلین
اس کہانی سے اصل پردہ 12 تاریخ یا ممکنہ اُس دن جب لڑکی سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہو کر اپنا بیان دے گی اُٹھے گا!!! باحیثیت وکیل میں ایسے کئی واقعات و قصے دیکھ چکا ہو جب لڑکے و لڑکیاں محبت کے دھوکے میں مذہب تبدیل کر لیتے ہیں اور ایسا وہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں مگر بعد میں محبت کا بخار اُترنے پر پرانے عقیدے کو لوٹ جاتے ہیں۔
 
اگر يہ خبر درست ہے تو ..... يہاں بات شدت پسندى كى نہيں جہالت كى ہے۔ قرآن كريم واضح طور پر اعلان كر چكا ہے لا اكراہ في الدين جبرا تبديلى مذہب ہو ہی نہيں سكتى تو پھر يہاں مذہب كا كيا ذكر؟
باقى باتيں اس خبر كے فالو اپ اور عدالتى تحقيق سے واضح ہوں گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ ان میں سے ہیں جو تھوڑے سےدنیوی فائدے کے لیے آیتیں بیچ دیتے ہیں۔ اور نہیں جانتے کہ اس کا عذاب کتنا شدید ہو گا۔
 
دنيا ميں يہ دوسرے مخلص دين داروں کے ليے عذاب ہوتے ہيں ۔ كيا كيا چہرے ہیں ماسک کے پیچھے۔ منافقين كو واقعى الدرك الاسفل من النار ميں ہونا چاہیے۔
 

عسکری

معطل
امت والا اس پر بھی کوئی رپورٹ لکھے شاید! اور کوئی "امتی" یہاں لٹکا دے اسے، لیکن شاید ایسا نہ ہو۔ بہرحال یہ ہم ہیں۔ عیسائی مشنری اور یورپی طرز فکر پر تو بہت بات ہوتی ہے، ہم اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ یہاں کیا نہیں ہو رہا۔ اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ اتنی ہی سخت اور طویل جتنی کہ عیسائی مشنری کے ’معصوم مسلمانوں‘ کو ورغلا کر اپنے ساتھ ملا لینے پر ہوتی ہے۔
اس کا دماغ خراب ہوا ہے کیا اپنی دوکان بند کرائے ھھھھھھھھھھھھھ امت والا اس کا توڑ سوچ رہا ہے ابھی تاکہ اسے ہی غلط بنا دیا جائے :D یہ سب جہالت اور غنڈہ گردی مذہبیت اب ہمارا خاصہ بن چکا ہے ۔اپنے فعل و عمل سے مسلمان کرنے کی بجائے کلاشنکوف کا استمال کیا جا رہا ہے سستا اور آسان راستہ ھھھھھھھھھھھھھھھ:biggrin:
 

غفران محسن

محفلین
نہ۔۔ نہ۔۔ بابا۔ ایسے کیسے ہو سکتا؟۔۔۔ مسلمان وعدے کا پکا اور قول کا سچا ہوتا ۔۔۔۔وہ بھلا کسی کا زبردستی مذہب تبدیل کیوں کر کرائے گا۔ ۔۔۔اور تو اور جب مسلمانوں نے یہ ملک بنایا تو دوسروں کے لئے جھنڈے میں بھی سفید رنگ رکھ چھوڑا ۔ ۔۔۔اسلام تو اللہ کا سچا مذہب وہ لڑکی خود ہی آئی ہو گی دائرہ اسلام میں۔۔۔۔ یہ بی بی سی والے تو ہیں ہی یہودی ان کی بات کا بھلا کاہے کو یقین کریں ہم۔۔۔۔
 

عین عین

لائبریرین
یہاں کے "حقیقی" "مسلمانوں" کی "نذر" سے یہ لڑی نہیں گزری ابھی تک۔۔۔۔ خیر آمد ہوتی ہو گی۔ انتظار کرتے ہیں
 

حماد

محفلین
اس کہانی سے اصل پردہ 12 تاریخ یا ممکنہ اُس دن جب لڑکی سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہو کر اپنا بیان دے گی اُٹھے گا!!! باحیثیت وکیل میں ایسے کئی واقعات و قصے دیکھ چکا ہو جب لڑکے و لڑکیاں محبت کے دھوکے میں مذہب تبدیل کر لیتے ہیں اور ایسا وہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں مگر بعد میں محبت کا بخار اُترنے پر پرانے عقیدے کو لوٹ جاتے ہیں۔

مذہبی انتہا پسند جو عام حالات میں محبت کی شادیوں کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔ اور سندھ میں تو کاری قرار دیکر قتل کر دینے کی بھی رسم ہے۔ ذرا دیکھئے کسطرح رنکل کماری کے کیس میں جشن منا رہے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
میرا خیال تھا کہ شائد سندھ میں اتنی انتہا پسندی نا ہوتی ہو کیونکہ یہ صوفیائے کرام کی سرزمین ہے لیکن یہاں تو کچھ اور تصویر نظر آ رہی ہے۔
 

عین عین

لائبریرین
نوید شاہ کو نہیں جانتی تھی، رنکل کماری

رنکل کماری عرف بی بی فریال نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مسلم ہونے سے پہلے نوجوان نوید شاہ کو جانتی نہیں تھی۔ اس سے پہلے وہ یہ کہہ چکی ہیں کہ انہوں نے نوید شاھ سے محبت کی شادی کی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے اغوا کے مقدمے میں رنکل کماری کو پیر کے روز عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ عدالت میں پیش ہونے سے ایک روز قبل رنکل اور نوید شاہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کی، اس موقعے پر بھرچونڈی پیروں کے لوگ بھی موجود تھے۔
رنکل کا دعویٰ تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، مگر اب ان پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ بقول ان کے وہ اپنی سہیلیوں سے اسلام کے بارے میں سنتی تھیں اور ٹی وی چینلز پر اسلامی پروگرام دیکھتی تھیں جس سے متاثر ہوکر انہوں نے مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
رنکل عرف بی بی فریال صحافیوں کو کسی ایک بھی اسلامی کتاب کا نام نہیں بتا سکیں جو انہوں نے پڑھی ہو، تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے سورہ اخلاص پڑھی تھی۔ ان سے جب یہ سورۃ ترجمے کے ساتھ پڑھنے کو کہا گیا تو وہ اس کا جواب نہیں دے سکیں۔
رنکل کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھرچونڈی والوں کو ٹیلیفون کیا جو آکر اسے لے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھا، جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں بھرچونڈی پیروں کا نمبر کس نے دیا تو رنکل کا کہنا تھا کہ ان کی ایک دوست نے دیا تھا۔
رنکل کماری کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلم ہونے سے پہلے نوید شاہ کو نہیں جانتی تھیں، مسلم ہونے کے بعد انہوں نے نوید سے شادی کی۔ یاد رہے کہ رنکل کے والدین کی جانب سے دائر ایف آئی آر کے مطابق نوید شاہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے رنکل کو لے گیا ہے۔
رنکل کماری سے تلخ سوال پوچھنے پر صحافیوں کے درمیان بحث شروع ہوگئی اور بعض صحافی رنکل کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو اسے تسلیم کرنے کی تلقین کرتے رہے۔
رنکل عرف فریال بی بی کا کہنا تھا کہ اس کا نوید شاہ کے ساتھ نکاح ہوچکا ہے، اس پر والدین خوامخواہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ عدالت میں بھی یہ بیان دیں گی کہ اسے دارالامان نہیں شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔
اسی پریس کانفرنس کے دوران بھرچونڈی پیروں کے خاندان کی مخصوص ٹوپی پہنے ہوئی ایک شخص نے ایک تحریری چٹ رنکل کے حوالے کی۔
نوید شاہ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے عدالت پر اثر انداز نہیں ہو رہے تو ان کا کہنا تھا کہ ہاں کیا کریں ان پر بہت دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
اس مختصر پریس کانفرنس کے موقعہ پر نوید شاہ کا کوئی رشتے موجود نہیں تھا۔ پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی مخصوص بھرچونڈی ٹوپی پہنی ہوئی شخص رنکل کو صحافیوں کے سامنے بازو پکڑ کر کھینچاتا ہوا باہر لے گیا، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں تو اس کا کہنا تھا کہ وہ بھائی ہیں ۔
بعض نیوز چینلز کے صحافیوں نے رنکل سے الگ بات کرنے کی کوشش مگر لڑکی کو ایک کار میں سوار کیا گیا جس کے آگے ایک پولیس موبائیل تھی اور یہ لوگ روانہ ہوگئے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی رنکل کماری کے مبینہ اغوا کا نوٹس لیا تھا اور اسے چھبیس مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ بھرچونڈی پیر مرضی سے بیاہ کے شدید مخالف رہے ہیں مگر رنکل اور نوید شاہ کے معاملے میں بھرپور حمایتی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
بی بی سی کی اس خبر کا لنک :
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/03/120309_rinkle_kumari_sa.shtml
 

باسم

محفلین
ڈاکٹر لتا، آشا اور رنکل کماري شوہروں کے ساتھ جانے پر رضا مند، پوليس
اسلام آباد … اسلام قبول کرنے والي ہندو خواتين ڈاکٹر لتا، آشا اور رنکل کماري شوہروں کے ساتھ جانے پر رضا مند ہوگئي ہيں، تينوں خواتين کي شوہروں سے ملاقات کرادي گئي، تينوں خواتين پوليس کي حفاظت ميں بکتر بند گاڑي کے ذريعے سپريم کورٹ سے روانہ ہوگئيں. سندھ پوليس کے مطابق ڈاکٹر لتا، آشا اور رنکل کماري کي ان کے شوہروں سے ملاقات کرادي ہے اور وہ تينوں اپنے شوہروں کے ساتھ جانے پر رضا مند ہيں. پوليس کا کہنا ہے کہ تينوں نو مسلم خواتين کو شوہروں کے ساتھ روانہ کرديا جائے گا، وہ جہاں جانا چاہيں انہيں سيکيورٹي فراہم کي جائے گي. واضح رہے کہ سپريم کورٹ نے اسلام قبول کرنے والي صوبہ سندھ کي 3خواتين کو اپني مرضي سے جانے کي اجازت ديتے ہوئے پوليس کو ان کي مکمل حفاظت کرنے کا حکم ديا تھا. عدالت نے آج حکم ديا کہ تينوں خواتين ، عدالتي رجسٹرار آفس جاکر آزادانہ طور پر بتاديں کہ وہ اپنے سسرال جانا چاہتي ہيں يا پھر والدين کے پاس واپس جانے کي خواہشمند ہيں.
جنگ اردو 18 اپریل 2012

تینوں ہندو لڑکیوں کو ان کی مرضی سے رہنے دیا جائے، سپریم کورٹ-ڈی ڈبلیو
ہندو والدین سپریم کورٹ سے بھی ناراض۔ بی بی سی

 
Top