’شعریات اصلاح اردو کی ایک کوشش

نایاب

لائبریرین
کتاب: شعریات
مصنف: نصیر ترابی
عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
سب سے پہلے یہ وضاحت کر دی جائے کہ معروف شاعر نصیر ترابی کی مرتب کردہ یہ کتاب محض عروض یا صنائع بدائع کے مباحث پر مبنی حدائق البلاغت جیسی کوئی تصنیف نہیں ہے بلکہ یہاں شعریات کا مفہوم بنیادی طور پر وہی ہے جو صدیوں پہلے ارسطو نے بوطیقا میں استعمال کیاتھا۔
سنسکرت، لاطینی اور کلاسیکی یونانی جیسی حنوط شدہ زبانوں کے صرفی و نحوی اصول و ضوابط چونکہ منجمد اور متحّجر ہو کر ایک حتمی شکل اختیار کر لیتے ہیں جن میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا اس لیے اُن کا تجزیہ بھی آسان ہوتا ہے اور تدریس بھی۔ لیکن زندہ زبانوں کی صورتِ حال بہت مختلف ہے۔ اِن پر ایک طرف تو سیاسی، تجارتی اور معاشی سطح پر بین الاقوامی زبانیں اپنا اثر ڈالتی ہیں اور دوسری جانب روزمرہ استعمال کے میدان میں علاقائی بولیاں اِن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
یہ سوال لسانیاتی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا ہے کہ ایک قومی زبان کو کس حد تک اِن بین الاقوامی اور علاقائی دھاروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جاسکتا ہے۔
اہلِ فرانس نے اپنی زبان کو شُدھ رکھنے کی خاطر قومی سطح کی کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں جو فرینچ زبان میں داخل ہونے والے نامناسب الفاظ و محاورات کی چھانٹی کرتی رہتی ہیں۔
لیکن انگریزی والوں نے اپنی زبان کو دنیا بھر کی زبانوں اور ثقافتوں سے استفادہ کرنے کی چھوٹ دے رکھی ہے چنانچہ آج امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جزائر غرب الہند کی انگریزی اپنے مشترکہ خزینہء الفاظ کے ساتھ ساتھ مخصوص علاقائی لفظالی سے بھی مالا مال ہے۔ اور پاک و ہند میں استعمال ہونے والی انگریزی کو بھی ’انڈین انگلش‘ کے علیحدہ زُمرے میں تسلیم کر لیا گیا ہے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں پنپنے والی اُردو بھی ایک خود رو پودے کی طرح اپنے برگ و بار نکال رہی ہے اور اصولاً اُس کی نشو نما کے بارے میں کسی طرح کی پریشانی کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن عملاً صورتِ حال اس سے بہت مختلف ہے۔
کوئی بھی زبان جب اپنے ارتقاء کی اس منزل پہ پہنچ جاتی ہے جہاں اس کا ایک معیاری محاورہ متیعن ہو جاتا ہے تو پھر علاقائی دھارے اور عالمی اثرات اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اس میں تنوع اور رنگا رنگی پیدا کرتے ہیں، جیسا کہ انگریزی کی مثال میں ہم نے دیکھا ہے لیکن گیسوئے اُردو تو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے چنانچہ اس پر آرائش و زیبائش کے لئے پھُول پتیاں لگانا ایسا ہی ہے جیسے بال دھوئے بغیر اُن پر خوشبو چھڑک دی جائے یا گندے بالوں میں خوبصورت ریشمی ربن ڈال دیا جائے۔
اُردو کے بالوں میں کنگھی کرنے کی کوشش تو سترھویں صدی ہی سی جاری ہے۔ لیکن اصلاحِ زبان کا بِیڑا روائیتی طور پر وہی لوگ اُٹھاتے رہے ہیں جو شعر کو لسانی معائب سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ انسیویں صدی میں واحد استثناء غالباً انشااللہ خان انشا ہیں جن کی دریائے لطافت میں دلی کے گلی کوچوں کی بولی ٹھولی کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے اور عام آدمی کی بول چال کو حرفِ مطبوعہ کے مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے۔
نصیر ترابی کی شعریات اصلاحِ زبان کی اُنہی کوششوں کے سلسلے کی کڑی ہے جو نمودِ اُردو سے لیکر آج تک مختلف شکلوں میں جاری رہی ہیں۔ لیکن ماضی کے مصلحین کا مسئلہ اگر یہ تھا کہ گلی محلّے کی زبان کے اردوئے معلّیٰ پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، تو آج کا مصلحِ زبان واویلا کر رہا ہے کہ ایف ایم ریڈیو، ٹی وی چینلوں اور ڈائجسٹ ٹائپ کے رسالوں نے اردو کی شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے۔ چنانچہ نئی نسل کی توجہ صحتِ زبان کی طرف دلانا اشد ضروری ہے۔
نصیر ترابی کی تصنیف، شعر کی تعریف سے شروع ہوتی ہے۔ وہ شعر کہنے کےلیے پانچ عناصر کو ضروری قرار دیتے ہیں،
1 ) موزونیء طبع
2 ) شعری مطالعہ
3 ) زبان آشنائی
4 ) خیال بندی
5 ) مشقِ سخن
اسکے بعد وہ شاعر کی چار قسمیں گنواتے ہیں
1 ) بڑا شاعر
2 ) اہم شاعر
3) خوشگوار شاعر
4 ) محض شاعر
اُردو میں بڑے شاعر اُن کے نذدیک صرف پانچ ہیں:
میر، غالب، انیس، اقبال اور جوش۔
جبکہ اہم شاعروں میں وہ آٹھ نام گِنواتے ہیں:
یگانہ، فراق، فیض، راشد، میراجی، عزیز حامد مدنی، ناصر کاظمی اور مجید امجد۔
شعر و ادب کے ناقدین اس فہرست کو کاملاً مسترد کر سکتے ہیں یا اسکی ترتیب بدل کر اس میں ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن زبان و بیان کے ایک مبتدی اور شعر و سخن کے ایک نو آموز طالبِ علم کے لیے اس طرح کی واضح درجہ بندی اور دو ٹوک تقسیم بڑی حوصلہ بخش اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
کتاب کے دیگر اباب میں بھی مروجہ اصنافِ سخن، متروکہ اصناف، درست املا، تلفظ، تذکیرو ثانیت، واحد جمع، ُمنافات، مشابہ الفاظ، سابقے لاحقے، غلط العام الفاظ اور نافذہ اصطلاحات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے اور نصیر ترابی نے اپنے مخصوص خوشگوار اور چُلبلے انداز میں ان خشک قواعدی موضوعات کو بھی اتنا دلچسپ بنا دیا ہے کہ گرامر سے بیزار کسی شخص کو بھی یہ کتاب تھما دی جائے تو ختم کئے بغیر اُٹھ نہیں سکے گا۔
کتاب میں جا بجا مشاہیرِ اردو کی تصنیفات سے انتہائی بر محل اقتباسات درج کیے گئے ہیں جن سے کتاب کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔
 
Top