’زمین جیسے دو اور سیاروں کی دریافت‘

130419135330_most-earth-like.jpg


ماہرین فلکیات نے خلائی دوربین کیپلر کی مدد سے دو ایسے سیارے دریافت کیے ہیں جو اب تک دریافت ہونے والے سیاروں میں زمین سے سب سے زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نئے سیاروں کی جسامت اور ان کا اپنے ستارے سے فاصلہ بھی مناسب ہے اور اس وجہ سے امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی سطح پر سیال حالت میں پانی تلاش کیا جا سکے۔
یہ سیارے بارہ سو نوری سال کے فاصلے پر واقع ہیں اور خلائی دوربین کی ٹیکنالوجی ابھی اس سطح پر نہیں پہنچی کہ ان سیاروں کی سطح کے بارے میں اس سے زیادہ معلومات حاصل کی جا سکیں۔
تاہم محققین نے سائنس میگزین کو بتایا ہے کہ اس دریافت پر وہ بہت خوش ہیں۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کی کیپلر دوربین کے ذریعے تحقیق کرنے والے ماہرینِ فلکیات کے سربراہ بلِ بورسکی کا کہنا ہے کہ’زندگی کے قابل سیاروں میں سے یہ اب تک کے سب سے بہترین امیدوار ہیں‘۔
حالیہ دو سیاروں ان پانچ سیاروں کے ایک گروپ کا حصہ تھے جو ایک ستارے کے گرد چکر لگا رہے ہیں اور یہ ستارہ ہمارے سورج سے قدرے چھوٹا، ٹھنڈا اور عمر میں بڑا ہے۔ اس ستارے کو کیپلر -62 کا نام دیا گیا ہے۔
ان دونوں سیاروں کو کیپلر باسٹھ ای اور کیپلر باسٹھ ایف کا نام دیا گیا ہے۔

130419122719_kepler_orbital_304x171_pa_nocredit.jpg

کیپلر خلائی دوربین سال دو ہزار نو سے کام کر رہی ہے اور اب تک اس نے ہمارے نظام شمسی سے باہر سو سے زائد نئے سیاروں کی موجودگی کا کھوج لگایا ہے

ان کو’سپر ارتھ‘ کا نام بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی جسامت ہماری زمین سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔
حجم کے علاوہ سائنسدانوں کے مطابق یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سیارے ہماری زمین کی طرح چٹانی ہیں یا برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ یہ یقینی طور پر مشتری اور نیپچون سے بہت چھوٹے لگیں گے۔
یہ دونوں سیارے اپنے ستارے سے ایک مناسب فاصلے پر گردش کر رہے ہیں اور اس کی وجہ سے ان تک قابل برداشت توانائی پہنچتی ہے اور یہ نہ تو زیادہ گرم اور نہ ہی زیادہ سرد ہیں۔
ماہرین فلکیات کی ٹیم کا کہنا ہے کہ مناسب ماحول ہونے کی وجہ سے یہ قیاس آرائی کرنا مناسب ہو گا کہ یہ پانی کی سیال شکل کو برقرار رکھنے کے قابل ہوں اور یہ عوامل زندگی کی پیشگی شرط کے طور پر قبول کیے جاتے ہیں۔
ان سیاروں کو دریافت کرنے والے گروپ میں شامل ایک ماہر فلکیات اور سیاروں پر سازگار ماحول کے حوالے سے ماہر لیسا کیٹنیگر کا کہنا ہے کہ’ کسی بھی سیارے پر زندگی کے بارے میں بیان ہمیشہ مفروضات پر مبنی ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ’چلیں اگر ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ کیپکر باسٹھ ای اور باسٹھ ایف بے شک چٹانی ہیں جس طرح سے ان کے رداس سے ظاہر کرتا ہے۔اس کےعلاوہ مزید فرض کرتے ہیں کہ ان پر پانی موجود ہے اور ان کی فضا زمین سے مماثلت رکھتی ہے جس میں نائٹروجن کا غلبہ ہے، اور یہ کاربن اور پانی پر مشتمل ہے۔‘
’اس صورت میں دونوں سیاروں پر سیال حالت میں پانی موجود ہونا چاہیے، کیپکر باسٹھ ایف پر سورج سے زمین کے مقابلے میں اپنے ستارے سے کم تابکاری پہنچتی ہو گی اور اس صورت میں وہاں زمین کے برعکس زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ کی بجائے مزید گرین ہاؤس گیسز کی ضرورت ہو گی تاکہ منجمد ہونے سے بچا جا سکے۔‘
لیسا کیٹنیگر کے مطابق’کیپلر باسٹھ ای اپنے ستارے سے نزدیک ہے اور اسے بادلوں کی ڈھال کی زیادہ ضرورت ہو گی تاکہ یہ اس قابل ہو سکے کہ اپنے ستارے سے پہنچنے والی تابکار شعاعوں میں سے کچھ کو منعکس کر سکے۔‘
دوربین کی موجود ٹیکنالوجی کے ذریعے ان تمام عوامل میں سے کسی کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں خلائی دوربینوں کی مدد سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ان سیاروں کے ستارے کی اندھا کر دینے والی روشنی کے پار ان سیاروں کی فضا کا جائزہ لیا جا سکے۔

بہ شکریہ بی بی سی اردو
 
Top