فراق ’روپ‘ رباعیات۔ فراق

الف عین

لائبریرین
فراق گورکھپوری کی منتخب رباعیات پیش ہیں، ممکن ہے کہ کچھ وارث کے انتخاب میں بھی شامل ہوں، لیکن تلاش میں اس دھاگے کو ایک ایک صفحہ کر کے دیکھنا پڑے گا۔ اس لئے الگ سے یہاں دے رہا ہوں۔ وارث کو شاید یاد ہو گی کہ کون کون سی رباعیاں وہاں شامل نہیں، ان کو وہاں کاپی کر دیا جائے۔ ای بک میں بناؤں گا تو خود بھی دیکھ لوں گا۔۔

نکھری نکھری نئی جوانی دمِ صبح
آنکھیں ہیں سکون کی کہانی دمِ صبح
آنگن میں سہاگن اٹھائے ہوئے ہاتھ
تلسی پہ چڑھا رہی ہے پانی دمِ صبح


چڑھتی جمنا کا تیز ریلا ہے کہ زلف
بل کھاتا ہوا سیاہ کوندا ہے کہ زلف
گوکل کی اندھیری رات دیتی ہوئی لو
گھنشیام کی بانسری کا لہرا ہے کہ زلف

تاروں کہ سہانی چھاؤں ، گنگا اشنان
موجوں کی جلو میں رنگ و بو کا طوفان
انگڑائیاں لے رہی ہو جیسے اوشا
یہ شانِ جمال، یہ جوانی کی اٹھان

انسان کے پیکر میں اتر آیا ہے ماہ
قد، یا چڑھتی ندی ہے امرت کی اتھاہ
لہراتے ہوئے بدن پہ پڑ جاتی ہے جب آنکھ
رس کے ساگر میں دوب جاتی ہے نگاہ


گنگا وہ بدن کہ جس میں سورج بھی نہائے
جمنا بالوں کی تان بنسی کی اڑائے
سنگم، وہ مکر کا آنکھ اوجھل لہرائے
تہِ آب سرسوتی کی دھارا بل کھائے


یہ رنگ یہ بو یہ بھیگا بھیگا ہوا نور
جھرمٹ میں گیسوؤں کے جیسے رخِ حور
لو دیتا ہے رات کے دھندلکے میں بدن
یا رودِ چمن میں جل رہا ہے کافور

ہے بسملِ ناز عشق نظارہ پرست
خلقت کے پہلے جیسے ہو صبح الست
یہ کہنی تک آستین چڑھانا تیرا
یہ سارےبدن کی بے حجابی سر دست


لرزش میں بدن کی باغِ جنت کی لہک
وجدان سیاہ کار گیسو کی لٹک
ہر عضو کے لوچ کا کچھ ایسا انداز
ست رنگ دھنُش میں جیسے آ جائے لچک

اٹھ اٹھ کے جھکی نگاہِ جاناں کیسی
ہوتی تھی ابھر ابھر کے پنہاں کیسی
فوارۂ خوں کا حال سینے میں نہ پوچھ
دل پر چلتی رہی ہیں چھُریاں کیسی


سوئ ہوئ تقدیر کو بیدار کریں
کھوئ ہوئ دنیا کو خبر دار کریں
جس آنکھ کی مستی ہے جہاں پر چھائ
ممکن ہو تو اس آنکھ کو ہشیار کریں


دل تھا کہ کوئ شمعِ شبستانِ حیات
اندھیرا ہوا بجھتے ہی، کہنے کی ہے بات
دل ہی تھا کہ جس کا ساتھ دینے کے لئے
بیٹھے ہوئے رویا کیے ہم رات کی رات


ہر جلوے سے اک درسِ نمو لیتا ہوں
چھلکے ہوئے صد جام و سبو لیتا ہوں
اے جانِ بہار، تجھ پر پڑتی ہے جب آنکھ
سنگیت کی سرحدوں کو چھو لیتا ہوں


ہونٹوں میں وہ رو کہ جس پہ بھنورا منڈلائے
سانسوں کی وہ سیج، جس پہ خوشبو سو جائے
چہرے کی دمک پہ جیسے شبنم کی ادا
مد آنکھوں کا کام دیو کو جو جھپکائے


گیسو بکھرے ہوئے گھٹائیں بے خود
آنچل لٹکا ہوا، ہوائیں بے خود
پر کیف شباب سے ادائیں بے خود
گاتی ہوئی سانس سے ادائیں بے خود


مکھڑا دیکھیں تو ماہ پارے چھپ جائیں
خورشید کی آنکھ کے شرارے چھپ جائیں
رہ جانا وہ مسکرا کے ترا کل رات
جیسے کچھ جھلملاتے تارے چھپ جائیں


پیکر ہے کہ چلتی ہوئی پچکاری ہے
فوارۂ انوارِ سحر جاری ہے
پڑتی ہے فضا میں سات رنگوں کی پھوار
آکاش نہا اٹھتا ہے، بلہاری ہے


رخسار پہ زلفوں کی گھٹا چھائ ہوئ
آنسو کی لکیر آنکھوں میں لہرائ ہوئ
وہ دل امڈا ہوا، وہ پریمی سے بگاڑ
آواز غم و غصے سے بھرّائ ہوئ


دوشیزۂ فضا میں لہرایا ہوا روپ
آئینۂ صبح میں جھلکتا ہوا روپ
یہ نرم نکھار، یہ سجل دھج، یہ سگندھ
رس میں ہے کنوار پنے کے ڈوبا ہوا روپ

تو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے
دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے
سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں
سکھ شانتی کی گویا تو ہری کھیتی ہے


کس پیار سے دے رہی ہے میٹھی لوری
ہلتی ہے سڈول بانہہ گوری گوری
ماتھے پہ سہاگ، آنکھوں میں رس، ہاتھوں میں
بچے کے ہنڈولے کی چمکتی ڈوری


گل ہیں کہ رخِ گرم کے ہیں انگارے
بالک نین سے ٹوٹتے ہیں تارے
رحمت کا فرشتہ بن کے دیتی ہے سزا
ماں ہی کو پکارے اور ماں ہی مارے


جس درجہ سکوں نما ہیں ابرو کے ہلال
خیر و برکت کے دھَن لٹاتی ہوئی چال
جیون ساتھی کے آگے دیوی بن کر
آتی ہے سہاگنی سجائے ہوئے تھال


پریمی کے ساتھ کھانے کا وہ عالم
پھلکے پہ وہ ہاتھ، جسمِ نازک میں وہ خم
لقمے کے اٹھانے میں کلائی کی لچک
دل کش کتنا ہے منھ کا چلنا کم کم


آنسو سے بھرے بھرے وہ نینا رس کے
ساجن کب اے سکھی تھے اپنے بس کے
یہ چاندنی رات، یہ برہ کی پیڑا
جس طرح پلٹ گئی ہو ناگن ڈس کے


جب جلوہ نما چاند لبِ بام ہوا
جب ساغرِ شب چھلکتا ہوا جام ہوا
تو سامنے آیا کہ مری آنکھوں کو
اس پردۂ دیدار میں الہام ہوا


سنبل کے تر و تازہ چمن ہیں زلفیں
بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں
خود خضر یہاں آ کے بھٹک جاتے ہیں
ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں


گنگا میں چوڑیوں کے بجنے کا یہ رنگ
یہ راگ، یہ جل ترنگ، یہ رو، یہ امنگ
بھیگی ہوئ ساڑی سے کوندے لپکے
ہر پیکرِ نازنیں میں کھنکتی ہوئ چنگ


چہرے پہ ہوائیاں، نگاہوں میں ہراس
ساجن کے برہ میں روپ کتنا ہے اداس
مکھڑے پہ دھواں دھواں لتاؤں کی طرح
بکھرے ہوئے بال ہیں کہ سیتا بن باس


لہروں میں کھلا کنول نہائے جیسے
دوشیزۂ صبح گنگنائے جیسے
یہ روپ، یہ لوچ، یہ ترنم، یہ نکھار
بچہ سوتے میں مسکرائے جیسے


چھپتے تارے، سحر کی آہٹ کم کم
سینے میں افق کے کپکپاہٹ کم کم
بستر سے ترا وہ منھ اندھیرے اٹھنا
تازہ پیکر میں لہلہاہٹ کم کم
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ اعجاز صاحب، فراق کی خوبصورت رباعیات شیئر کرنے کیلیے۔ کلاسیکی عہد کے بعد، فراق کا واقعی ایک اہم رباعی گو کی حیثت سے نام ہے، افسوس کہ پذیرائی کا حق ادا نہیں ہوا زمانے سے۔

اگر کبھی اردو رباعیات کی کوئی ای بُک بنی تو یقیناً یہ رباعیات بھی بہت معاون ثابت ہونگی۔
 

الف عین

لائبریرین
مزید کچھ۔۔۔۔
کھنچنا ہے عبث بغل میں بانہوں کو تولے
کھو جانے کا ہے وقت تکلف نہ رہے
ہنگامِ وصال، کر سنبھلنے کی نہ فکر
سو سو ہاتھوں سے میں سنبھالے ہوں تجھے

گہوارۂ صد بہار، ہر موجِ نفس
یہ رنگِ نشاط تیرے ہاتھوں کا ہے حبس
نظریں ہیں کہ رہ رہ کے نہا اُٹھتی ہیں
ہر عضو بدن سے وہ چھلکتا ہوا رس


موتی کی کان، رَس کا ساگر ہے بدن
درپن آکاش کا سراسر ہے بدن
انگڑائی میں راج ہنس تولے ہوئے پر
یا دُودھ بھرا مان سرو ور ہے بدن


یہ رُوپ کے گرد سات رنگوں کی پھوار
جیسے مدھم سروں میں خود گائے ملہار
پڑتا ہے فضا میں عکسِ جسمِ رنگیں
یا قوس قزح کے جھلملاتے ہیں شرار
 

الف عین

لائبریرین
بھول ہوئی زندگی کی دُنیا ہے کہ آنکھ
دوشیزہ بہار کا فسانا ہے کہ آنکھ
ٹھنڈک، خوشبو، چمک، لطافت، نرمی
گلزارِ ارم کا پہلا تڑکا ہے کہ آنکھ


تاروں کو بھی لوریاں سناتی ہوئی آنکھ
جادو شبِ تار کا جگاتی ہوئی آنکھ
جب تازگی سانس لے رہی ہے دمِ صبح
دوشیزہ کنول سی مسکراتی ہوئی آنکھ!


چنچل آنکھوں میں گنگناتی ہوئی شام
گردش میں نظر کی تھرتھراتی ہوئی شام
وہ پھوٹی جھٹپٹے کے تارے کی کرن
پلکوں کی اوٹ کنمناتی ہوئی شام

چلمن میں مژہ کی گنگناتی آنکھیں
چوتھی کی دلہن سی کچھ لجاتی آنکھیں
جوبن رس کی سدھا لٹاتی ہر آن
پلکوں کی اوٹ مسکراتی آنکھیں


چھلکاتی ہیں پریم کی گلابی آنکھیں
صد میکدہ در بغل شرابی آنکھیں
ہر شام چراغ شبنمستانِ جمال
ہر صبح چمن چمن گلابی آنکھیں


راتوں کی جوانیاں نشیلی آنکھیں
خنجر کی روائیاں کٹیلی آنکھیں
سنگیت کی سرحدوں پہ کھلنے والے
پھولوں کی کہانیاں رسیلی آنکھیں

اُمڈی بدمست کالی زلفوں کی گھٹا
اہلِ دل کا جنوں صحرا صحرا
لہکا ہوا سینہ لڑکھڑاتی ہوئی چال
اُٹھتی ہوئی موجِ حسن دریا دریا


جمنا کی تہوں میں دیپ مالا ہے کہ زلف
جوبن شبِ قدر نے نکالا ہے کہ زلف
تاریک اور تابناک شامِ ہستی
زندانِ حیات کا اُجالا ہے کہ زلف


آنکھوں کے جھکاؤ میں ہے خلوت کی اُمنگ
سینے کے تناؤ میں پکھاوج کی ترنگ
ہشیار و مست آنکھیں ہیں جوبن چت چور
مستی میں شرابور خود آگاہ بدن
 

الف عین

لائبریرین
آنکھوں کے جھکاؤ میں ہے خلوت کی اُمنگ
سینے کے تناؤ میں پکھاوج کی ترنگ
ہشیار و مست آنکھیں ہیں جوبن چت چور
مستی میں شرابور خود آگاہ بدن


آ جاتا ہے گات میں سلوناپن اور
چنچل پن، بال پن، اُتیلاپن اور
کٹتے ہی سہاگ رات دیکھیں جوالے
بڑھ جاتا ہے رُوپ کا کنواراپن اور


نکھرا ہوا رنگ، کیا سہانا ہے سمئے
لرزاں ہے بدن کی گنگناتی ہوئی نے
ہر عضو کی نرم لو میں مدھم جھنکار
پو پھٹتے ہی بھیرویں کی آنے لگی لے

مہتاب میں سرخ انار جیسے چھوئے
یا قوسِ قزخ لچک کے جیسے ٹوٹے
وہ قد ہے کہ بھیرویں سنائے جب صبح
گلزارِ شفق سے نرم کونپل پھوٹے


یہ رُوپ کے گرد سات رنگوں کی پھوار
جیسے مدّھم سروں میں خود گائے ملہار
پڑتا ہے فضا میں عکسِ جسم رنگیں
یا قوسِ قزح کے جھلملاتے ہیں شرار
 

الف عین

لائبریرین
نغمے کی الاپ ہے کہ قامت کا تناؤ
کہتا ہے ہر عضو پینگ شعلوں کی چڑھاؤ
آ آ کے راگنی کھڑی ہوتی ہے
دیکھے کوئی سجل بدن کا یہ رچاؤ

آنکھوں میں کنمنا رہی ہے بجلی
وہ دھج کہ ہو جیسے راگنی آ کے کھڑی
وہ رُوپ کہ جیتا جاگتا جیون سوپن
وہ رنگ اوشا کے جیسے اَدھرونیہ ہنسی


اُن انکھڑیوں میں سرور، ہلکا ہلکا
مکھڑے میں بہاگ راگ دہکا دہکا
جیسے دیوی کھڑی ہو جھرمٹ مارے
ماتھے کا چندر لوک دمکا دمکا

منہ اُٹھائے ہرن کے بچے ّ کومل لوچن
پو پھٹنے کی جھنکار لیے مدھر بچن
کمیت ہے اساوری** کہ الکوں کی لٹیں
دیپک*** کا نرم راگ سکمار بدن

انگ انگ کی لوج میں وہ شانِ تسخیر
جھم جھم بجتی ہوئی کمر کی زنجیر
ہنگامِ وصل پینگ لیتا ہوا جسم
بے لاگ ہنڈول راگ کی ہے تصویر


قامت ہے کہ انگڑائیاں لیتی سرگم
ہو رقص میں جیسے رنگ و بو کا عالم
جگمگ جگمگ ہے شبستانِ ارم
یا قوسِ قزح لچک رہی ہے پیہم!
 

الف عین

لائبریرین
یہ نقرئی آواز ! یہ مترنم خواب
تاروں پر پڑ رہی ہو جیسے مضراب
لہجے میں یہ کھنک یہ رَس یہ جھنکار
چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہِ آب

آواز پہ سنگیت کا ہوتا ہے بھرم
کروٹ لیتی ہے نرم لے میں سرگم
یہ بول سریلے تھرتھراتی ہے فضا
اَن دیکھے ساز کا کھنکنا پیہم


جس طرح اساروی کے دل کی دھڑکن
جیسے پچھلے پہر کا مہکا ہوا بن
جیسے کھلتے کنول کے سینے کی اُمنگ
چھلکا پڑتا ہے مد میں ڈوبا جوبن


حمّام میں عریانیِ تن کا عالم
پیکر کا دھندلکے میں جھلکنا کم کم
اِک ہلکی تھرتھری سی سر سے پا تک
شبنم سے دھُلی شفق بھی کھاتی ہے قسم

مدھ۔ ماس میں جیسے جاگ اُٹھتا ہے چمن
جس طرح پھٹا پڑے پھبکتا ہوا بن
ہشیار و مست آنکھیں ہیں جوبن چت چور
مستی میں شرابور خود آگاہ بدن
 

الف عین

لائبریرین
آنکھیں کہ کھلے کنول میں جلتے ہیں دیے
رخسار کہ نرم بھیرویں کے شعلے
ظلمات کی منجدھار خم گیسو میں
ہونٹوں کے گوشوارے کوندے کے سرے

۔۔ ماخذ: شکیل الرحمٰن، فراق کی جمالیات
 

اسد مقصود

محفلین
غنچے کو نسیم گدگدائے جیسے
مطرب کوئی ساز چھیڑ جائے جیسے
یوں پھوٹ رہی ہے مسکراہٹ کی کرن
مندر میں چراغ جھلملائے جیسے
 
Top