’راہ راست‘ نہ ’راہ نجات‘۔۔۔۔۔۔ صرف اعلان برٱت

راجہ

محفلین
نہ تو سوات آپریشن ہمارے لئے ”راہ راست “ تھا اور نہ ہی وزیر ستان آپریشن ہمارے لئے ”راہ نجات“ ہو سکتا ہے۔ہماری نجات اگر ہے تو صرف اور صرف ” اعلان برٱت “ میں۔ امریکہ سے برٱت ، امریکی پالیسیوں سے برٱت ، ملکی مفاد کے خلاف تمام فیصلوں سے برٱت ، اور ان تمام دوستوں سے برٱت جو ہماری خود مختاری کے خلاف ہیں، ہماری سالمیت کے لئے خطرہ ہیں،اور ہمارے ایٹمی اثاثے ان کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔

جب سے دہشت گردی کا تعویز ہم نے گلے میں ڈالا ہے تب سے اس’ جن ‘نے وہ کرتب اور کرشمے دکھائے ہیں کہ ہر ذی روح حیران و پریشان ہے۔ ہم نے تو یہ سمجھا کہ یہ الہ دین کا چراغ ہے، جب جی چاہے رگڑو اور ڈالر کی برسات شروع۔ ابتداء میں تو یہ ’جن‘ باعث رحمت ہی لگا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس نے پر پھیلانے شروع کر دئیے۔ وہ کرتب دکھائے کہ اب وطن عزیز کی ہر کوچہ و گلی لہو لہان ہے، ہر فرد نوحہ خواں ہے۔ کوئی شہر ، کوئی محلہ، کوئی ادارہ اور کوئی تجارتی مرکز محفوظ نہیں۔ اہم عسکری اداروں اور تربتی مراکز پر آئے روز حملے ہو رہے ہیں، حفاظت کے ذمہ دار خود حفاظت کے لئے سرگرداں ہیں۔ اور اب ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے بھی بند۔

اکیسویں صدی ہے، دنیا ترقی کی نئی منازل طے کر رہی ہے ۔ اور ہمارا حال یہ ہے کہ پہلے سے موجود اثاثوں کو بموں اور بارود سے اڑا رہے ہیں۔ کہیں دھماکے کر کے، کہیں خود کش حملوں کی صورت میں اور رہی سہی کسر آپریشن کے ذریعے تباہی پھیلا کر۔


صفحہ ہستی پر بسنے والے ممالک کے حالات پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائیے ، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سب سے زیادہ غیر مستحکم، غیر یقینی اور قابل رحم حالت اگر کسی ملک کی ہے تو پاکستان ہے۔ اور اس کی واحد وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ یہ جنگ خالصتا امریکہ کی ہے۔ لیکن ہم نے یک طرفہ دوستی کے بندھن کو مضبوط کرنے کے لئے اسے اپنی جنگ قرار دے دیا اور اپنا سب کچھ اس میں جھونک دیا۔ امریکہ یہ جنگ اپنی سلامتی کے لئے لڑ رہا ہے اور ہم نے اپنی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔

اور اب صورتحال یہ ہے کہ امریکہ، جس کی یہ جنگ ہے ،ہر طرح سے پر سکون ہے، کوئی تعلیمی ادارہ تباہ نہیں ہوا، کسی یونیورسٹی میں دھماکے نہیں ہو رہے، جی ایچ کیو محفوظ ہیں، پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے تربیتی مراکز پر حملے نہیں ہو رہے، ہوٹلوں اور تجارتی مراکز کو دھمکیاں نہیں مل رہیں۔اور پاکستان کی حالت کا تذکرہ ہو چکا ہے۔بلکہ یوں کہنا زیادہ مبنی بر حقیقت لگتا ہے کہ آج پاکستان ایک آزاد ، خودمختار ملک ہونے کے باوجود افغانستان سے بھی بدتر حالات سے گزر رہا ہے۔

قوموں کی زندگی میں بعض فیصلے غلط ہو جاتے ہیں، لمحوں کی خطا پر صدیوں کی سزا ملتی ہے ،متاع کارواں لٹتا رہتا ہے ۔ مگر تشویش ناک صورتحال تب ہوتی ہے جب کارواں کے دل سے احساس زیاں ختم ہو جائے اور لوٹنے والوں میں اپنوں کا نام آجائے۔

ّّّاب تو حالات مزید ابتری کی جانب گامز ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پاک فوج کی جانب سے وزیرستان میں شروع کئے جانے والے آپریشن ”راہ نجات“ کا جواب دینے کے لئے افغانستان میں جہادی تنظیموں کا ایک اجتماع ہوا ہے، اس میں طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر بر سر پیگار تنظیموں نے شرکت کی، اور اس آپریشن کا مقابلہ کرنے کے لئے ”معرکہ خیرو شر“ کا آغاز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اور یہ بھی طے ہوا کہ پاکستانی طالبان کی مدد کے لئے سرحد پار سے کمک آئے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ بیت اللہ محسود کے قتل کا بدلہ لینے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

اور اس خبر کی سچائی پر حال میں ہونے والے سارے واقعات شاہد عدل ہیں۔ شانگلہ ، کوہاٹ، پشاور، جی ایچ کیو اور پھر لاہور، یہ سارے کے سارے واقعات جس تسلسل کے ساتھ رونما ہوئے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اجلاس میں طے پانے والے امور پر کام شروع ہو چکا ہے۔دوسری طرف دیرینہ دوست امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ جن میں بے گناہ شہری درجنوں کے حساب سے مر رہے ہیں۔
تین ہاتھی کشتی کر رہے ہیں اور پاکستانی عوام گھاس کی طرح مسلی جا رہی ہے۔ طالبان کے دھماکوں اور خود کش حملوں کا نشانہ عوام، پاک فوج کے آپریشن سے تباہ ہونے والے عوام اور امریکہ بہادر کے ڈرون حملوں میں مرنے والے بھی عوام۔ نقصان تمام صورتوں میں عوام ہی کا ہے۔

وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ دوسروں کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنا نقصان کرنے کے بجائے ہم اپنا راستہ خود تلاش کریں۔ اس دلدل سے نکلنے کی ”راہ راست“ اور ”راہ نجات“ کا تعین ہم خود کریں۔ کوئی بھی راہ منتخب کرنے سے پہلے اپنے حالات کا جائزہ لیں، اپنے نفع و نقصان کا تعین کریں، ملکی سالمیت اور خود مختاری کو مد نظر رکھیں۔ ورنہ اگر ہم دوسروں کی جنگ کو اپنی جنگ کہتے رہے، اور ان کی بنائی ہوئی لکیریں پیٹتے رہے تو آپریشن ”راہ راست“ سراسر گمراہی اور آپریشن ”راہ ئجات “ سرا سر تباہی بن جائے گا۔

سوات میں آپریشن”راہ راست“ ہوا۔ دوسروں کے کہنے پر ہوا اور ان کے بتائے ہوئے طریقہ کار کے مطابق ہوا۔ اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ لاکھوں بے گھر، ہزاروں یتیم اور بیوہ، سینکڑوں زخمی اس کے ابتدائی ثمرات ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں جو مجرم معاشرے کو ملے ہیں وہ اضافی بونس ہے۔ اب وزیرستان میں آپریشن ”راہ نجات“ شروع ہوا ہے۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے اور ملک بھر میں دھماکوں کی سیریز شروع ہو چکی ہے۔ یہ دھماکے جہاں ایک طرف اس آپریشن کا رد عمل ہیں وہیں ہمارے لئے یہ انتباہ بھی ہیں کہ جسے آپ ”راہ نجات “ سمجھ بیٹھے ہیں وہ راستہ تباہی کا ہے۔

ایک فیصلہ غلط کیا اور پھر غلطیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تا حال ہم غلطیوں پے غلطیاں کئے جا رہے ہیں، دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنوں کو مار رہے ہیں۔ اور نتیجتا اپنے ادارے تباہ کروا رہے ہیں۔فوج اور عوام میں دوریاں بڑھا رہے ہیں، لیکن سوچنے کی فرصت نہیں۔

اب ایک ہی راستہ ہے اس دلدل سے نکلنے کا اور وہ ہے ”اعلان برٱت“۔ ملکی و عوامی مفاد کے خلاف ہر چیز سے اعلان برٱت ، غیر ملکی فیصلوں سے اعلان برٱت ، دوسروں کی جنگ سے اعلان برٱت ، یک طرفہ دوستیوں سے اعلان برٱت ، خودمختاری کے منافی امداد سے اعلان برٱت اور سب سے اہم ہے امریکہ سے ” اعلان برٱت “۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، پانی سر سے گزر جائے ، چڑیاں کھیت چگ جائیں اور ہمارے پاس سوائے افسوس کے کوئی چارہ نہ ہو۔۔
 

arifkarim

معطل
صفحہ ہستی پر بسنے والے ممالک کے حالات پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائیے ، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سب سے زیادہ غیر مستحکم، غیر یقینی اور قابل رحم حالت اگر کسی ملک کی ہے تو پاکستان ہے۔ اور اس کی واحد وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ یہ جنگ خالصتا امریکہ کی ہے۔ لیکن ہم نے یک طرفہ دوستی کے بندھن کو مضبوط کرنے کے لئے اسے اپنی جنگ قرار دے دیا اور اپنا سب کچھ اس میں جھونک دیا۔ امریکہ یہ جنگ اپنی سلامتی کے لئے لڑ رہا ہے اور ہم نے اپنی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔
دہشت گردی کیا ہے جناب؟ کیا عراق پر امریکی حملہ دہشت گردی نہیں تھا؟ کیا پاکستان پر ڈرون حملے دہشت گردی کی زد میں نہیں آتے؟
مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ، میڈیا کی بنائی ہوئی خود ساختہ اصطلاحات اور انکے لیبلوں پر اتنا یقین کر لیتے ہیں کہ دائرہ حقیقت سے بالکل باہر نکل جاتے ہیں۔۔۔۔ اگر پاکستان 9/11 کے وقت امریکہ کی خود ساختہ جنگ کا حصہ دار نہ بنتا تو آج کے حالات خاصے مختلف ہوتے۔ بزدلی مشرف نے دکھائی اور اسکا خمذیادہ عوام کو بھگتنا پڑا۔۔۔ اور یہی ہر قوم کی تاریخ ہے۔
خیر الحمدللہ پاکستان میں 9/11 سے پہلے بھی کئی بار بازاروں وغیرہ میں بم دھماکے ہوتے رہے ہیں، جن کو اس "زمانہ" میں تخریب کاری کا نام دیا جاتا تھا۔ آج یہ نام امریکہ کے تعاون سے دہشت گردی بن گیا ہے۔ مسائل وہی ہیں: نا انصافی اور دجالی نظام حکومت۔ اور نتائج بھی وہی ہیں: بم دھماکے اور تخریب کاریاں۔ بس نام یا لیبل میں فرق آگیا ہے :)
 
Top