’دہشت گردی آج نہ روکی تو کل روکنا شاید ممکن نہ رہے‘

’دہشت گردی آج نہ روکی تو کل روکنا شاید ممکن نہ رہے‘

پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ اگر حکومت نے سخت ترین اقدامات کر کے دہشت گردی کو اب نہ روکا تو شاید کل وہ اسے روکنے کے قابل نہ رہ سکے۔

بدھ کی شام سینیٹ کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف نے 24 دسمبر کو اعلان کیے جانے والے 20 نکاتی قومی ایکشن پلان کے متعدد نکات دہرائے تاہم ان کی تقریر میں فوجی عدالتوں سے متعلق زیادہ وضاحت نظر آئی۔

انھوں نے بتایا کہ دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے مجوزہ فوجی عدالتوں کے لیے قانونی اور آئینی اقدامات کا خاکہ تیار کر لیا ہے اور اسے پارلیمینٹ سے منظور کروایا جائے گا۔

’مجھے یقین ہے کہ ہم پارلیمینٹ سے اس کی منظوری حاصل کر لیں گے، بلکہ پارلیمینٹیرینز خود اس کو منظور کریں گے کیونکہ یہ انہی کا بنایا ہوا خاکہ ہے۔‘

وزیراعظم نے بتایا کہ کس قسم کا قانون بنےگا، کس طرح کی عدالتیں اور کس قسم کی آئینی ترامیم اس کا فیصلہ ملک کی قومی قیادت اور نیشنل اسمبلی آئین اور جمہوریت کےاندر رہتے ہوئے کر رہی ہے کوئی ایک شخص اس کا فیصلہ نہیں کر رہا۔

’یہ سب کچھ اسی لیے ہے کہ پاکستان کے عوام کی زندگیوں کا تحفظ کیا جا سکے، اس قانون اور آئین کا کیا فائدہ ہوگا جو پاکستان کے عوام کی زندگیوں کا تحفظ نہ کرسکے، میں سجھتا ہوں کہ آئین کے دائرے میں رہ کر یہ کام کر رہے ہیں۔‘

وزیراعظم نے بتایا کہ حکومت دن اور رات کی تمیز کیے بغیر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کا نظام وضح کر رہی ہے اور مسلح افواج بھی اس حکمت عملی میں مصروف ہیں۔

’ ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت اور پوری قوم اس عہد میں شریک ہے کہ اب یہاں دہشت گردی کو پروان نہیں چڑھنے دیا جائےگا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے بنائی گئی متعدد کمیٹیوں کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں، ان پر عملی کام کیا جا رہا ہے اور وہ خود ان امور کی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کے حوالے سے گذشتہ سالوں میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ 16 دسمبر کے واقعے نے پوری قوم کو ایک جانب موڑ دیا ہے اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر باہر پھینکا جائے۔

وزیراعظم نے قومی ایکشن پلان کی منظوری اور کل جماعتی کانفرنس کے حوالے سے ایوان کو بتایا کہ ’معاملے کی سنگینی کو قومی لیڈر شپ نے محسوس کیا اور پھر کامل اتفاق رائے کے ساتھ اس جذبے کا اظہار ہوا کہ ریاست پوری قوت کے ساتھ دہشت گردی کےمکمل خاتمے کے لیے آگے بڑھے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور ملک کے غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے غیر معمولی حالات سے متعلق چند سوالات بھی اٹھائے۔

وزیراعظم نواز شریف کے بقول کیا یہ غیر معمولی حالات نہیں؟
  • پھول جیسے معصوم بچوں کو گولیوں سے چھلنی کردیا جائے
  • ڈیڑھ سو کے لگ بھگ معصوم بچے اپنی کتابوں کاپیوں اور بستوں سمیت خون میں نہلا دیے جائیں
  • اپنے بچوں کے بارے میں سہانے خواب دیکھنے والی مائیں عمر بھر کے لیے اپنے بچوں کی راہ تکتی رہ جائیں
  • نہ ہماری عبادت گاہیں محفوظ ہوں اور نہ ہی درسگاہیں، ہمارے ہوائی اڈے محفوظ ہوں نہ دفاعی تنصیبات
  • ہماری محب وطن اقلیتیں جنونی دہشت گردوں کا نشانہ بننے لگیں
  • ہمارے کھیل کے میدان سونے ہو جائیں
  • یہ غیر معمولی حالات نہیں کہ اپنے آئین اور مذہب سے بغاوت کرنے والے دہشت گرد پوری قوم کو یرغمال بنالیں
وزیراعظم نے کالعدم تحریکوں نے نام پیغام میں کہا کہ ’ کالعدم تحریکیں اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں کالعدم سمجھیں انھیں کسی بھی شکل میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی مسلح جھتے کو کام کرنے کی اور کسی بھی گروہ کو اپنے نظریات مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

وزیراعظم نواز شریف نے حکومت کے اس موقف کو دہرایا کہ میڈیا آزاد ہے لیکن اسے دہشت گردی کو فروغ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اپنے خطاب کے اختتام پر بھی وزیراعظم نے ملک میں غیر معمولی حالت کے پیش نظر غیر معمولی اقدامات کی ضرورت کو دہرایا ۔ ’ہم انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں لیکن ایسحے دہشت گردوں کے لیے اپنے معاشرے کو جنگل نہیں بنایا جا سکتا۔‘
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/12/141231_pm_senate_terrorism_hk
 
دہشتگردی اور انتہا پسندی موجودہ صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہےاور پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کو پھیلانے اور جاری رکھنے میں طالبان ، القاعدہ اور دوسرے اندورونی و بیرونی دہشت گردوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے،جو وزیرستان میں چھپے بیٹھے ہیں .غیر ملکی جہادیوں اور دوسرے دہشت گردوں کی وزیرستان میں مسلسل موجودگی اوران کی پاکستان اور دوسرے ممالک میں دہشت گردانہ سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی کےلئے بہت بڑا خطرہ بن گئی تھی۔50 ہزار کے قریب معصوم اور بے گناہ لوگ اپنی جان سے گئے،پاکستان کی اقتصادیات آخری ہچکیاں لے رہی ہے اور اسے 80 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا اور داخلی امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے۔ مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے۔فرقہ ورانہ قتل و غارت گری کا ایک بازار گرم ہے ۔ سکولوں ،مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے کئے جارہے ہیں اور انکو تباہ کیا جا رہا ہے اور افواج پاکستا ن اور پولیس اور تھانوں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔
خودکش حملے اور دہشتگردی اسلام میں حرام ہے۔اسلام میں ایک بے گناہ کا قتل تمام انسانیت کا قتل تصور ہوتا ہے۔ چندانتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔القائدہ،لشکر جھنگوی،بی ایل اے اور دوسرے دہشت گرد ملک میں دہشت گردی کو پھیلا رہے ہیں اور عدم استحکام میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ مسلم حکومت کے خلاف علم جنگ بلند کرتے ہوئے ہتھیار اٹھانا اور مسلح جدوجہد کرنا، خواہ حکومت کیسی ہی کیوں نہ ہو اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں۔طالبان اسلامی نظام لانے کے دعویدار ہیں مگر ان سے بڑا اسلام دشمن اور تعلیم دشمن کوئی نہ ہے اور نہ ہی انہوں نے اسلام کی کو ئی خدمت کی ہے بلکہ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان طالبان نے پہنچایا ہے۔
 
Top