’تشدد کے خدوخال، کشمیر میں بھارتی ریاست‘
ریاض مسروربی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
’ظلم و ستم کے بیچ جانبداری ظالم کی طرفداری کے مترادف ہے اور خاموشی جابر کے ہی ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ جہاں بھی مرد وخواتین نسل، مذہب یا سیاسی آرزوؤں کی پاداش میں ستائے جائیں وہ کائنات کا مرکز ہونا چاہیے۔‘ امریکی دانشور اور سیاسی رضاکار ایلی ویزا کے اسی قول سے800 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ شروع ہوتی ہے جسے بدھ کو سرینگر میں جاری کیا گیا۔
رپورٹ کا عنوان ہے: ’تشدد کے خدوخال، جموں کشمیر میں بھارتی ریاست‘
اس رپورٹ کو انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائیٹیز نے دو سال میں تیار کیا ہے۔
ملٹری انٹیلیجنس کے 1781، انٹیلی جنسی بیورو یا آئی بی کے 364 اور ریسرچ اینڈ اینیلسز یا را کے 556 اہلکار جموں کشمیر کے 22 اضلاع میں سرگرم ہیں۔ رپورٹ میں فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے 267 سینیئر افسروں سمیت 972 اہلکاروں کو انسانیت کے مختلف جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ
26 سالہ شورش کے دوران یہ پہلا موقعہ جب کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اس نوعیت کی ہمہ جہت رپورٹ تیار کی گئی ہو۔ رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ کشمیر میں فوجی اور نیم فوجی اداروں کے بنیادی ڈھانچہ کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کل ملا کر کشمیر میں فی الوقت سات لاکھ سے زائد بھارتی فورسز موجود ہیں۔ ان میں پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔
رپورٹ میں زمینی سطح پر کی جانے والی تحقیق کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ ملٹری انٹیلیجنس کے 1781، انٹیلی جنسی بیورو یا آئی بی کے 364 اور ریسرچ اینڈ اینالیسز یا را کے 556 اہلکار جموں کشمیر کے 22 اضلاع میں سرگرم ہیں۔
اس رپورٹ میں 1080 حراستی ہلاکتوں 172 حراستی گمشدگیوں اور جنسی زیادتیوں اور حراست کے دوران جسمانی اذیتوں کے متعدد واقعات کی تفتیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے 267 سینیئر افسروں سمیت 972 اہلکاروں کو انسانیت کے مختلف جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے ۔
ان میں فوج کے ایک میجر جنرل، سات بریگیڈیئر، 31 کرنل، چار لیفٹنٹ کرنل، 115 میجر اور 40 کیپٹین شامل ہیں۔ عالمی حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ ان اشخاص کے بین الاقوامی سفر پر پابندی عائد کی جائے۔ اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ ایسے اہلکاروں کو قیام امن کی عالمی فورسز کا حصہ نہ بنایا جائے۔
رپورٹ میں شورش کے اوائل میں عسکریت پسندوں کی صفوں سے ہی انسداد تشدد کی ملیشیا بنانے کے فوجی آپریشن پر بھی وضاحت ہے۔
عسکریت پسندوں کے آپریشنز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہلال بیگ اور سجاد کینو جیسے کمانڈروں کی سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ نے ہی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مشیرالحق، او این جی سی کے سربراہ کے دورائے سوامی اور ہند نواز سیاستدان سیف الدین سوز کی بیٹی ناہیدہ سوز کا اغوا کیا تھا۔
رپورٹ میں عالمی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے مطالبے کو کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اس ان کے تحفظ سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کم از کم 12 ورکنگ گروپوں کے نمائندوں کو جموں و کشمیر میں حالات کے مشاہدے کی اجازت کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
جموں کشمیر میں موجود چھ ہزار گمنام قبروں کی تحقیقات کا مطالبہ بھی دہرایا گیا ہے۔ واضح رہے سنہ 2008 میں یورپی پارلیمنٹ میں ایک قرار داد کے ذریعے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس سے قبل بھی کولیشن آف سول سوسائیٹیز یا سی سی ایس نے کئی رپورٹیں جاری کی ہیں۔ گذشتہ برس 500 پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی فہرست پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی گئی۔ ان افسروں اور اہلکاروں کے مبینہ ظلم کے شکار افراد یا ان کے اہل خانہ کے شواہد پر مشتمل اس رپورٹ پر کافی بحث ہوئی۔
سی سی ایس کی تازہ رپورٹ میں جموں کشمیر کے چپے چپے میں قائم فوجی اور نیم فوجی کیمپوں کے ڈھانچہ سے متعلق اعداد وشمار اور سرگرمیوں کا احوال پیش کیا گیاہے۔ اس رپورٹ کے نگراں خرم پرویز کہتے ہیں: ’دراصل کشمیر کا فوجی جماو عالمی میڈیا سے اوجھل ہے۔ ٹی وی پر جو خطے دکھائے جاتے ہیں وہاں زندگی معمول کے مطابق لگتی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کی داستانیں تو دوردراز دیہات میں رقم ہورہی ہیں۔‘
خرم نے بتایا کہ عالمی اداروں اور بیرونی ممالک کے سفارتخانوں کے علاوہ یہ رپورٹ وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ ، کشمیر کے وزیراعلی مفتی محمد سعید اور فوجی سربراہوں کو بھی ارسال کی گئی ہے۔
ریاض مسروربی بی سی اردو ڈاٹ کام، سری نگر
’ظلم و ستم کے بیچ جانبداری ظالم کی طرفداری کے مترادف ہے اور خاموشی جابر کے ہی ہاتھ مضبوط کرتی ہے۔ جہاں بھی مرد وخواتین نسل، مذہب یا سیاسی آرزوؤں کی پاداش میں ستائے جائیں وہ کائنات کا مرکز ہونا چاہیے۔‘ امریکی دانشور اور سیاسی رضاکار ایلی ویزا کے اسی قول سے800 صفحات پر مشتمل وہ رپورٹ شروع ہوتی ہے جسے بدھ کو سرینگر میں جاری کیا گیا۔
رپورٹ کا عنوان ہے: ’تشدد کے خدوخال، جموں کشمیر میں بھارتی ریاست‘
اس رپورٹ کو انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائیٹیز نے دو سال میں تیار کیا ہے۔
ملٹری انٹیلیجنس کے 1781، انٹیلی جنسی بیورو یا آئی بی کے 364 اور ریسرچ اینڈ اینیلسز یا را کے 556 اہلکار جموں کشمیر کے 22 اضلاع میں سرگرم ہیں۔ رپورٹ میں فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے 267 سینیئر افسروں سمیت 972 اہلکاروں کو انسانیت کے مختلف جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ
26 سالہ شورش کے دوران یہ پہلا موقعہ جب کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اس نوعیت کی ہمہ جہت رپورٹ تیار کی گئی ہو۔ رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ کشمیر میں فوجی اور نیم فوجی اداروں کے بنیادی ڈھانچہ کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کل ملا کر کشمیر میں فی الوقت سات لاکھ سے زائد بھارتی فورسز موجود ہیں۔ ان میں پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔
رپورٹ میں زمینی سطح پر کی جانے والی تحقیق کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ ملٹری انٹیلیجنس کے 1781، انٹیلی جنسی بیورو یا آئی بی کے 364 اور ریسرچ اینڈ اینالیسز یا را کے 556 اہلکار جموں کشمیر کے 22 اضلاع میں سرگرم ہیں۔
اس رپورٹ میں 1080 حراستی ہلاکتوں 172 حراستی گمشدگیوں اور جنسی زیادتیوں اور حراست کے دوران جسمانی اذیتوں کے متعدد واقعات کی تفتیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے 267 سینیئر افسروں سمیت 972 اہلکاروں کو انسانیت کے مختلف جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے ۔
ان میں فوج کے ایک میجر جنرل، سات بریگیڈیئر، 31 کرنل، چار لیفٹنٹ کرنل، 115 میجر اور 40 کیپٹین شامل ہیں۔ عالمی حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ ان اشخاص کے بین الاقوامی سفر پر پابندی عائد کی جائے۔ اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ ایسے اہلکاروں کو قیام امن کی عالمی فورسز کا حصہ نہ بنایا جائے۔
رپورٹ میں شورش کے اوائل میں عسکریت پسندوں کی صفوں سے ہی انسداد تشدد کی ملیشیا بنانے کے فوجی آپریشن پر بھی وضاحت ہے۔
عسکریت پسندوں کے آپریشنز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہلال بیگ اور سجاد کینو جیسے کمانڈروں کی سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ نے ہی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مشیرالحق، او این جی سی کے سربراہ کے دورائے سوامی اور ہند نواز سیاستدان سیف الدین سوز کی بیٹی ناہیدہ سوز کا اغوا کیا تھا۔
رپورٹ میں عالمی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے مطالبے کو کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اس ان کے تحفظ سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کم از کم 12 ورکنگ گروپوں کے نمائندوں کو جموں و کشمیر میں حالات کے مشاہدے کی اجازت کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
جموں کشمیر میں موجود چھ ہزار گمنام قبروں کی تحقیقات کا مطالبہ بھی دہرایا گیا ہے۔ واضح رہے سنہ 2008 میں یورپی پارلیمنٹ میں ایک قرار داد کے ذریعے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس سے قبل بھی کولیشن آف سول سوسائیٹیز یا سی سی ایس نے کئی رپورٹیں جاری کی ہیں۔ گذشتہ برس 500 پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی فہرست پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی گئی۔ ان افسروں اور اہلکاروں کے مبینہ ظلم کے شکار افراد یا ان کے اہل خانہ کے شواہد پر مشتمل اس رپورٹ پر کافی بحث ہوئی۔
سی سی ایس کی تازہ رپورٹ میں جموں کشمیر کے چپے چپے میں قائم فوجی اور نیم فوجی کیمپوں کے ڈھانچہ سے متعلق اعداد وشمار اور سرگرمیوں کا احوال پیش کیا گیاہے۔ اس رپورٹ کے نگراں خرم پرویز کہتے ہیں: ’دراصل کشمیر کا فوجی جماو عالمی میڈیا سے اوجھل ہے۔ ٹی وی پر جو خطے دکھائے جاتے ہیں وہاں زندگی معمول کے مطابق لگتی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کی داستانیں تو دوردراز دیہات میں رقم ہورہی ہیں۔‘
خرم نے بتایا کہ عالمی اداروں اور بیرونی ممالک کے سفارتخانوں کے علاوہ یہ رپورٹ وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ ، کشمیر کے وزیراعلی مفتی محمد سعید اور فوجی سربراہوں کو بھی ارسال کی گئی ہے۔