’ایک نہتا پولیس کے لیے فرشتہ‘

نایاب

لائبریرین
’ایک نہتا پولیس کے لیے فرشتہ‘
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد



پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جمعرات کو پانچ گھنٹوں سے زائد عرصے تک جاری رہنے والا ’ڈرامہ‘ اُس وقت اپنے انجام کو پہنچا جب زمرد خان نامی ایک نہتے شخص نے مسلح شخص کو قابو کرنے میں پہل کی جس کے بعد باقی کا کام مقامی پولیس کے اہلکاروں نے ملزم کی ٹانگوں پر گولی مار کر پورا کر لیا۔
ملزم سکندر نے پیپلز پارٹی کے رہنما زمرد خان پر فائرنگ بھی کی لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ نکلے۔
حافظ آباد کے رہائشی سکندر حیات نامی اس شخص نے جمعرات کی شام اسلحہ کے زور پر اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ لے کر اسلام آباد کے تجارتی مرکز بلیو ایریا کے قریب اپنا ’ڈیرہ‘ لگایا تو علاقے میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
شریعت کے نفاذ کے مطالبے میں سکندر حیات اکیلا نہیں تھا بلکہ اُس کی بیوی کنول بھی اُس کے ساتھ تھی۔ کنول کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہے اور مذہبی رجحان رکھتی ہے جبکہ ملزم سکندر مذہبی ہونے سے زیادہ جنونی ہے اور اور ماہر نفسیات کے پاس زیر علاج بھی رہا ہے۔
پانچ سے زائدگھنٹے تک ملزم سکندر اُس کی بیوی اور پولیس حکام کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے جس کے دوران متعدد بار ایسے مواقع بھی آئے جب ملزم اپنی بیوی بچوں سے کافی فاصلے پر پایا گیا لیکن پولیس نے اسے پکڑنے کی کوئی کوشش نہ کی۔
پولیس حکام کاموقف تھا کہ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ ملزم اور اُس کے اہلخانہ کو بھوک پیاس لگے گی تو وہ خود ہی پولیس کے سامنے ہتھیار پھینک دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ملزم کے خلاف کارروائی کرنے میں پولیس حکام ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے بھی دکھائی دیے اور بعض اعلیٰ پولیس افسران آپس میں یہ گفتگو کرتے ہوئے بھی سنائی دیے کہ اگر اُنہوں نے کوئی کارروائی کی تو ہو سکتا ہے کہ چیف جسٹس اس واقعہ کا از خود نوٹس لے لیں اور اُنہیں عدالت میں طلب کرلیا جائے اور کہیں اُنہیں (پولیس اہلکاروں) لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
اس گفتگو میں سنہ دو ہزار سات میں لال مسجد آپریشن کا بھی ذکر ہوا اور ان پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس آپریشن میں اُن کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن پھر بھی اُنہیں ابھی تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑ رہے ہیں۔

پھر شام رات میں تبدیل ہوئی اور پولیس نے پہلے تو سکندر کی گاڑی کے گرد قناتیں کھڑی کیں اور پھر میڈیا کو وہاں سے دور کرنا شروع کیا۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پولیس آپریشن کی تیاری کر رہی ہے لیکن اندھیرا ہونے کے کئی گھنٹے بعد بھی کسی آپریشن کے کوئی آثار دکھائی نہ دیے۔
ایسے میں وہاں سیاسی شخصیات کی آمد کا سلسلہ بھی جاری تھا اور انہیں میں سے ایک زمرد خان بھی تھے۔
سیاست کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اسلام آباد پولیس کی مشکل آسان کرنے والے زمرد خان کے نام سے ضرور واقف ہیں۔ سابق حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے زمرد خان پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو پر ہونے والے خودکش حملے کے وقت بھی ان کے ساتھ تھے۔
اس خودکش حملے میں جہاں لوگ حواس باختہ تھے مگر زمرد خان زخمی ہونے کے باوجود بینظیر بھٹو اور دیگر زخمیوں کو ہسپتال پہنچا رہے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق زمرد خان جب ملزم سکندر کے پاس جانے لگے تو ایس ایس پی آپریشن نے اُنہیں ایسا کرنے سے منع کیا لیکن وہ پھر بھی نہ صرف اس کی جانب چل دیے بلکہ وہاں پہنچ کر ایسی ’دلیری‘ کا مظاہرہ کر ڈالا جس میں خود ان کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا تھا۔
سکندر حیات تو پکڑا گیا اور ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق وہ بظاہر ایک ذہنی مریض ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایک مسلح شخص اسلام آباد میں داخل ہو کر پوری انتظامی مشینری کو مفلوج کر سکتا ہے تو اگر کبھی کالعدم تنظیموں کے مسلح گروہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا تو کیا پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اُنہیں قابو کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا پھر انہیں کسی نہتے جانباز کا انتظار ہوگا۔
 
Top