’آن دی ریکارڈ‘ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔محمود جان بابر

130503103922_swat_green_chowk224.jpg

خونی چوک کے اردگرد موجود کاروبار کرنے والے لوگ اب بھی چار سال قبل کا وقت نہیں بھولے

وہ دونوں کہتے رہے اور میں سنتا رہا۔ مجھے ان کی باتیں سن کر کچھ عجیب سا لگ رہا تھا کہ میں نے تو مینگورہ میں دودن گزارنے کے دوران جو تاثر لیا وہ تو اس سے بالکل الٹ ہے جو یہ کہہ رہے ہیں۔
وہ تو یہ بتا رہے ہیں کہ یہاں اب خوف نامی کیفیت کا کوئی وجود نہیں اور یہ مسلح سکیورٹی اہلکاروں کی تیزی سے حرکت کرتی سائرن اور سیٹی بجاتی گاڑیاں کچھ نہیں کہہ رہیں اور یہ کہ انتخابات یہاں خوشحالی لائیں گے۔
اسی دوران مجھ سے ایک غلطی ہوگئی جس پر وہ مجھے چھوڑ کر چل دیے۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا جو آپ کہہ رہے ہیں میں اسے آپ کا نام لیے بغیر ہی ذرا اپنے پاس لکھ لوں۔ یہ سننا تھا کہ ان کے چہروں پرخوف چھا گیا اور وہ فوراً اپنی باتوں سے مکر گئے کہ انہوں نے تو کچھ کہا ہی نہیں۔
یہ سب کچھ جہاں ہوا وہ جگہ بھی تو کوئی عام نہیں تھی بلکہ اس جگہ سے وہ یادیں وابستہ ہیں کہ کوئی بھی انہیں آسانی سے بھلا نہیں پا سکتا۔
یہ سوات کے شہر مینگورہ کا گرین چوک تھا جو شورش کے دنوں میں ہر صبح ’جاسوسوں‘ یا طالبان کے ’دشمنوں‘ کی ذبح شدہ اور لٹکی ہوئی لاشوں کی بدولت خونی چوک کہلایا جانے لگا تھا اور ان لاشوں میں ایک بات مشترک یہ تھی کہ انہیں ہٹانے کی ’اجازت‘ کسی کو بھی نہ تھی۔
اس چوک کا جغرافیہ بھی کچھ ایسا ہے کہ یہ محفوظ پاکستان اور جنگ زدہ وادی سوات کے بیچ کی سرحد تھا۔ اس کے ایک جانب محفوظ پاکستان یعنی مینگورہ کے سہراب اور نشاط چوک سے ہوتے ہوئے سیدوشریف اور پھر اسی راستے سے بٹ خیلہ، درگئی، مردان، پشاور اور اسلام آباد واقع ہے جبکہ باقی دو جانب شورش سے متاثرہ فضاگٹ، خوازہ خیلہ، مدین، بحرین ، کالام اور تحصیل مٹہ، کبل اور پیوچار کی وادی واقع ہیں۔
130503103925_swat_green_chowk304.jpg

یہ چوک محفوظ پاکستان اور جنگ زدہ وادی سوات کے بیچ کی سرحد تھا

یہ سب باتیں چار سال پرانی ہیں لیکن اس خونی چوک کے اردگرد موجود کاروبار کرنے والے لوگ اب بھی اسے نہیں بھولے۔
وہ اس چوک کے دکاندار ہوں یا موچی، شربت فروش ہوں یا بزار یا پھر اشیائے خوردونوش کا کاروبار کرنے والے تاجر کوئی بھی اپنے احساسات اور امن کے لیے اپنی خواہشات کے بارے میں کچھ بھی ’آن دی ریکارڈ‘ بتانے کو تیار نہ تھا۔
مینگورہ کے گرین چوک پر اب لاشوں کی بجائے انتخابی بینر آویزاں ہیں جن میں دینی جماعتیں، تحریک انصاف، اے این پی، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے علاوہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی بھی شامل ہیں۔ تاہم کسی بینر پر بھی یہ یقین دہانی نہیں پائی جاتی کہ وہ جیتیں گے تو پھرکبھی یہاں کے لوگوں کو کسی کے ہاتھوں نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔
یہی وہ چیز ہے جو عام آدمی کے ذہن میں اس شک کو جنم دیتی ہے کہ ان ساری جماعتوں تو جیسے پتہ ہی نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے ورنہ تو وہ ضرور اس کے لیے آواز اٹھاتے یا پھر وہ جان بوجھ کر اپنے تحفظ کے لیے اسے نظرانداز کر رہی ہیں۔
اسی مینگورہ میں ایک شخص ایسا بھی ملا جسے شورش کی ذمے داری بعض اداروں اور طالبان نما قوتوں پر عائد کرنے کے جرم میں گولی لگی تھی اور وہ اب بھی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ رواں سال کا آخر ہو یا نئے سال کی شروعات سوات میں کچھ مقاصد کے حصول کے لیے جنگ کا ایک اور مرحلہ بھی تیار کیا گیا ہے۔ میں اس کا نام نہیں لکھ رہا کہ جب کوئی بھی اپنا نام بتانے کو تیار نہیں وہ بیچارہ کیوں نشانہ بنے۔

محمود جان بابر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سوات
 
Top