‘‘بنتِ حوا اور رادھا کی بیٹی’’

اس زمين پر ہوا پہلا قتل قابيل نے ہوس کا شکار ہو کر کيا ،اور يہيں سے اہلِ ہابيل پيچھے رہ گئے اور اہلِ قابيل بڑھتے گئے جو ہوس اور حسد کے دو دھاري خنجر سے بچے کچھے ہابيلوں کو آج تک مار رہے ہيں ،اہلِ قابيل کي آنکھوں ميں صنفِ نازک کيلئے بڑھتي ہوئي ہوس ،ان کي عزتوں کي طرف لپکتے ہوئے ہاتھ ، ہر بار یہ ثابت کرتے ہیں کہ انھیں یہ جرات صنفِ نازک کے نازک ہونے کی وجہہ سے نہیں ہوئی ،بلکہ یہ جرات انھیں پیچھے رہ جانے والے اہلِ ہابیل کی خاموشی نے بخشی ہے?انسان زلت کی کن پستیوں میں جا گرتا ہے،کیسے گند اور تعفن میں اپنے لئے دو گھڑی کا آرام ڈھونڈ سکتا ہے ،یہ دہلی میں ایک مظلوم لڑکی کے ساتھ ہوئے سلوک کو دیکھ کر پتا چلتا ہے،ایک ایسے معاشرے میں جہاں گناہ کرنے کیلئے چھپنا نہیں پڑتا،جہاں صرف روٹی کیلئے عورت اپنا جسم دن میں تین بار بیچتی ہے ،جہاں جنسی تسکین کو پورا کرنے کیلئے بے شمار مواقع موجود ہیں اس معاشرے میں ایک لڑکی کو بھرے شہر میں چلتی بس میں اپنی شہوت کیلئے استمعال کرنے والے انسان ہی ہیں?اور وہ بھی انسان ہیں جنھوں نے پورے دہلی کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،بھگوان کے ماننے والے ان برہمنوں اور شودروں نے ہندوستان کی تمام رادھائوں کو یہ اعتماد دیا ہے کہ وہ اکیلی نہیں ،ان کا عظیم احتجاج پوری دنیا کے انسانوں کیلئے پیغام ہے کہ زلیل ترین گناہ پر خاموش رہنا بھی قبیح ترین فعل ہے ?اسی طرح پاکستان میں بھی پھر ایک ہابیل ،قابیلوں کی سر کشی کا شکار ہو ا ہے ،شاہ زیب نے اپنی بہن کی طر ف اٹھنے والی غلیط نگاھوں کو جھکانا چاہا تو قابیلوں کا لشکر اس کی طرف بڑھا،اپنے جنوں اور سر کشی کے زعم میں ڈوبے ہوئے اس لشکر کے سر غنہ نے اسے ایک گولی سے ڈھیر کردیا ،یوں اک ہنستہ بولتا،بانکا نوجوان بنتِ حوا کی آبرو کیلئے مارا گیا??پیچھے رہ گئے اہلِ ہابیل ڈرے ڈرے ،سہمے سہمے،اپنی زات میں گم،بے حس،صرف افسوس کرتے رہے،نام نہاد سول سوسائٹی ہاتھوں میں چند پلے کارڈز اٹھائے پریس کلب کے سامنے جمع ہوگئی،لیکن کراچی کی وہ عوام جو رات 2 بجے بھی اپنے قائدکی پکار پر لبیک کہنے سے نہیں چوکتی وہ کہاں ہے،وہ ساری عوام کہاں ہے جو عمران خان کے جلسے میں مزارِ قائد پر جمع تھی،وہ عوام کہاں ہے جو جماعتِ اسلامی کی ریلییوں میں اسلام نافذ کرتی پھرتی ہے،وہ سب افراد کہاں ہیں جو چاند راتوں میں موٹر سائکلیں ڈوڑاتے پھرتے ہیں?شاہ زیب نے تو اپنی بہن کیلئے جان دے دی ،لیکن یہاں بنتِ حوا سوچنے لگی ہے اگر ہمارے ساتھ بھی کسی نے نازیبا حرکات کیں تو ہمیں خاموش ہی رہنا چاہیئے ورنہ ناحق ہمارے بھائی مارے جائیں گے اور پیچھے بولنے والا بھی کوئی نہ ہوگآجو دہلی میں ہوا اس سے زیادہ گھنائونے واقعات ہمارے یہاں پیش آچکے ہیں ،یہاں تو بنتِ حوا کو سر ِ بازار برہنہ پھرایا گیا ہے،لیکن کہیں کوئی ہلکا سا بھی احتجاج سامنے نہیں آیا،لباس میں ،بول چال میں شادی بیاہ میں ہندوانہ رسمیں مستعار لینے والے ان سے یہ بھی سیکھ لیں کے احتجاج کیسے کیا جاتا ہے،کیسے پرائے کی تکلیف کو اپنا سمجھا جاتا ہے، کیسے کسی دوسرے کیلئے اپنے مفادات چھوڑے جاتے ہیں، بھگوان کے ماننے والوں نے تو رادھا کی بیٹی کو اعتماد دے دیا، اللہ کو ماننے والے کب انسان ہونے کے رتبے کو پائیں گے، کب یہاں بھی بنتِ حوا قابیلوں
کے چنگل سے آزاد ہو پائے گی،خدا جانے????

سنا ہے،پڑوس سے جواں عزت کا جنازہ اٹھا ہے
سنا ہے،وہاں رادھا کی بیٹی کو کچلا گیا ہے
سنا ہے،وہاں بھگوان کو ماننے والے
انسان دکھائی دیتے ہیں
برہمن ہوں یا شودر
رادھا کی عزت کیلئے اکائی دکھائی دیتے ہیں
سنا ہے،وہ احتجاجاََ اپنے گھروں کو جاتے نہیں
اٹل ہیں اپنے ارادے میں
اپنے مقصد سے اکتاتے نہیں
کیا تم نے سنا ہے ؟

اک جنازہ ہمارے یہاں بھی اٹھا ہے
بنتِ حوا کی آبرو بچانے کیلئے
اک بھائی مر گیا ہے
چند اک ہزار خدا کو ماننے والے بھی
احتجاجاََ سڑکوں پر آتے نہیں
مسلمان بنے بیٹھے ہیں حجروں میں
شمشیر اٹھاتے نہیں،میدانِ جنگ کو جاتے نہیں
رادھا کی بیٹی کے تو محافط ہیں لاکھوں
یہاں بنتِ حوا اکیلی ہے

جلسوں کی زینت بننے والوں
!شاہ زیب کی بہن اکیلی ہے!


بہ شکریہ دی نیوز ٹرائیب
اصل آرٹیکل کا لنک
 

شمشاد

لائبریرین
بہت زبردست لکھا ہے۔ تُف ہے ہم سب پر جو کچھ نہیں کر سکتے۔

کہاں گئی ایم کیو ایم کراچی میں اور اے این پی کراچی میں اور پی پی پی کراچی میں۔

ہاں وہ تو سب کے سب اپنے الیکشنوں میں اور لانگ مارچ میں مصروف ہیں۔

وہ تو عدالت نے ڈنڈا دیا ہے تو پولیس نے تھوڑی دوڑ دھوپ کر لی ہے۔
 
Top