‏نعیم بیگ کا افسانہ " یو- ڈیم-سالا"۔۔ آواز: عابد علی بیگ‏

سرحدوں نے انسانیت کو بھی پاٹ دیا ہے ۔لیکن کیا انسانیت مر گئی ہے ۔ہم ہندوستانی پاکستانی کے درمیان (تہذیب ،ثقافت ،کلچر سبھی کچھ میں ) اس قدر مماثلت ہونے کے باوجود جتنی کھائی ہے ، کسی اور ملک اور قوم کے درمیان شاید ہی ہو ۔لیکن انسانیت ابھی مری نہیں ہے ۔اس کی مثالیں ہمیں ملتی رہتی ہیں ۔ایک کہانی جس نے مجھے رلا دیا ۔آپ بھی سنئے ۔مجھے تو بہت پسند آئی اس لئے شیر کیا ۔میں اکثر سوچتا ہوں یہ کھائی نہ ہوتی تو کتنا مزا آتا ۔۔۔۔خیر کہانی سنئے ۔۔۔۔
علم


" یو ۔ڈیم ۔سا لا "

از................................. نعیم بیگ

پام ڈیرہ بیچ کورنش پر شام کے سائے پھیل رھے تھے۔ نوجوان لڑکےاور لڑکیوں کا ایک ھجوم کورنش کی دیوار کے ساتھ ساتھ چہل قدمی میں مصروف تھا۔ سورج دور سمندر کے اس پار ٹھرے ھوئے پانی کے اندر آہستہ آہستہ آسمان کی وسعتوں پر نارنجی رنگ بکھیرتا ہوا غروب ھو رھا تھا۔ چھوٹے چھوٹے بادل ٹکڑیوں کی صورت میں قطار در قطار تیرتے ھوئے مشرق کی جانب سفر کر رھے تھے۔
کورنش کی تین فٹ اونچی اور کافی چوڑی دیوار پر بیٹھا ایک نوجوان اپنےسامنے اخبار کے چند صفحات پھیلائے پڑھنے میں مصروف تھا۔ پچھلے دو دن سے تو میں دیکھ رھا تھا کہ اس کا معمول تھا وہ شام ھونے سے پہلے اخبارات کا ایک پلندہ اٹھائے کورنش پر آ جاتا۔ پہلے وہ چند منٹ آہستہ آہستہ واک کرتا پھر برسک واک کرتے ھوئے کورنش کے دونوں طرف گھوم کر اپنی مخصوص جگہ پر آ کر بیٹھ جاتا اور اخبار کا مطالعہ کرتا۔
بظاھر شکل سے وہ انڈین لگتا تھا۔
پام ڈیرہ بیچ دبئی کے مشہور تجارتی علاقے ڈیرہ میں ھے۔
ایک طرف آسمان سے باتیں کرتی ھوئی بلند و بالا عمارتیں جن میں سب سے بڑی عمارت حیات ریجنسی نامی مشہور ھوٹل ھے۔ دوسری طرف سامنے نائف کا بازار اور تجارتی مرکز ۔ لہذا بیچ کورنش پر شام ھوتے ھی سینکڑوں رھائشی اور نوجوان سیاح آ جاتے۔ دوپہر کو البتہ گرمی ھونے کی وجہ سے یہ جگہ تقریباً سنسان ھی رھتی۔
آج جب میں نے اس نوجوان کو دوبارہ دیکھا تو میرے اندر تجسس نے انگڑائی لی اور میں آہستہ آہستہ چلتا ھوا اس کے قریب پہنچ گیا۔
"آپ کے پاس ماچس ھوگی۔" میں نےھچکچاتے ھوئے پوچھا۔
اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور انکار کرتے ھوئے سر ہلا دیا اور دوبارہ اخبار میں منہمک ھو گیا۔ میرا تجسس اور بڑھ گیا اور میں اچھل کر اس کے پاس ھی دیوار پر بیٹھ گیا۔
میں ابھی اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ کس طرح اس سے بات کی جائے کہ واک کرتے ھوئے قدرے ادھیڑ عمر کے ایک شخص نے اسے چلتے چلتے مخاطب کیا۔
"ھیلو اشوک۔"
نوجوان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور جواباً ایک مسکراھٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔
"سی یو ٹو مارو۔" یہ کہتا ھوا وہ شخص آگے نکل گیا۔
ھوں تو میرا اندازہ ٹھیک ھی تھا۔ لڑکا انڈین نکلا میں نے دل میں سوچا-
یوں تو دبئی جیسے شہر میں ذات پات145برادری145رنگ و نسل145مذھب اور کسی بھی ملک کا شہری ھونا کوئی خاص بڑی بات نہیں ھے۔ یہاں صرف دو طبقات ھیں۔ ملکی اور غیر ملکی یعنی تارکین وطن۔ ملکی مالک و آقا ھیں اور تارکین وطن چاھے کسی بھی ملک سے ھوں ورکر ھیں۔ یہ سوچ کر اشوک مجھے کچھ اپنا اپنا سا لگا اور میں نے اپنی ھچکچاھٹ دور کرتے ھوئے خود ھی اس سے بات کرنے کی ٹھان لی۔ "اچھا تو تمارا نام اشوک ھے۔ کہاں کے رھنے والے ھو ؟ "
اشوک نے میری طرف دیکھا اور سمجھ گیا کہ میں بات کرنے کے لئے ابتدا کر رھا ھوں لہذا اس نے اخبار ایک طرف کھسکایا اور انگریزی میں بولا۔
"یس۔ آئی ایم اشوک۔ اشوک شری واستری پٹیل اینڈ آئی ایم فرام گجرات انڈیا۔"اعتماد اس کے لہجے میں نمایاں تھا۔ "آئی ایم سوری بٹ مجھ کو اردو نہیں آتا۔ "
"ڈو یو سپیک انگلش؟ اس نے مجھ سے پوچھا۔
سچ تو یہ ھے کہ ھمارے ھاں تھوڑی بہت انگریزی تو سبھی بول لیتے ھیں حالانکہ مجھ جیسے گرئجویٹ کو تو انگریزی فر فر آنی چاھئے لیکن ھمارے ھاں ایسا ماحول نہیں ھے۔ لہذا میں بھی ٹوٹی پھوٹی انگریزی ھی بول سکتا ھوں۔
چونکہ مجھے بات کرنی تھی لہذا میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کا ھی سہارا لیا۔
"یس آئی سپیک انگلش بٹ ویری لٹل۔ "
اشوک میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا ۔ "نو پرابلم145 چلے گا۔ "
"تم کدھر کا ھے؟ "
"میں پاکستان سے ھوں۔ "میرا لہجہ قدرے مایوسانا سا تھا۔
"وچ سٹی؟ "
"کالا پل کلوز ٹو لاھور "
"اوہ۔ یو فرام پنجاب۔ آئی لو پنجاب!"
"یس۔یس " میں نے فوراً اپنا اعتماد بحال کرتے ھوئے کہا۔
یہ سنتے ھی اشوک نے اپنا داھنا ھاتھ میری طرف مصافحہ کے لئے بڑھایا اور بولا۔ ویری نائس ٹو سی مائی فرینڈ۔۔۔ " اسے میرا نام جاننے کے لئے خاموش ھونا پڑھا۔
"میرا نام ۔ اوہ سوری مائی نیم از منظور علی" اور میں نے اپنا دایاں ھاتھ بڑھا کر اس کا ھاتھ تھام لیا۔ میں نے اس کے مصافحہ میں گرم جوشی کا ایک طوفان سا محسوس کیا اور سچ پوچھئے تو میرے اندر بھی کچھ ایسے ھی جذبات تھے۔ میں کافی دنوں سے دبئی میں رہ رھا تھا لیکن کسی اچھے انسان کی دوستی سے محروم تھا۔
پچھلے چند دنوں سے نوکری کی تلاش نے مجھے تقریباً ادھ موا ھی کر دیا تھا لیکن میں بھی ھمت ھارنے والے انسانوں میں سے نہ تھا لہذا کوشش جاری تھی وہ الگ بات کہ نوکری کی امید اب دن بدن مدھم ھوتی جا رھی تھی۔
"تم کیا کرتا ھے۔"
اشوک کے سوال پر میں خیالوں سے نکل آیا۔ میں نے ایک سگریٹ نکالی اور ماچس کے لئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
"بھائی صاحب۔ ماچس ھو گی۔" میں نے گزرتے ھوئے ایک شخص کو سگریٹ پیتے دیکھ لیا تھا۔ وہ شخص رکا اور مجھے سلگانے کے لئے اپنی سگریٹ پیش کر دی۔ میں نے اپنی سگریٹ سلگائی اسے شکریہ کہا اور دوبارہ اشوک کی طرف متوجہ ھو گیا۔
"ابھی تک کچھ نہیں۔ " میں نے مسکراتے ھوئے جواب دیا۔
"اوہ- ویری بیڈ بٹ نو پرابلم۔ دونوں ایک ساتھ ڈھونڈے گا۔ " تب مجھے احساس ھوا کہ وہ اخبار کا مطالعہ اتنی باقاعدگی سے کیوں کرتا ھے۔
"اپنا سٹوری بولو ؟"
لمحے بھر کے لئے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رھا ھے پھر ایک چھماکہ سا ھوا۔
"میری سٹوری کچھ خاص نہیں۔ لاھور کے قریب کالا پل ھمارا گاؤں ھے ۔ ماں باپ دونوں بوڑھے ھو چکے ھیں۔ ماں بیمار رھتی ھے ایک بہن اور چھوٹا بھائی۔ میں سب سے بڑا ھوں۔ شروع میں باپ کے ساتھ
کھیتی باڑی کی پھر منڈی کا کام کیا پھر لاھور سے گریجوئشن کی اور دو سال نوکری ڈھونڈتا رھا۔ گزارہ تو چلتا تھا لیکن مستقبل نہ تھا۔ ایک دوست کے مشورے پر یہاں چلا آیا۔ باپ نے بیل کی جوڑی بیچ دی اور پیسے دئیے۔ اب سوچتا ھوں کہ اگر یہاں معاملہ نہ بنا تو آگے کیا ھو گا۔"
"بس اپنی تو یہی کہانی ھے۔ فصل کی بوائی کے دن آنے والے ھیں بیل نہ ھوئے تو ابا کھیت کیسے بوئیں گے فِل الحال تو یہی فکر ھے۔"
"سیم ڈیم سٹوری!" اشوک نے قدرے منہ بنا کر کہا۔
"تم بولو۔ تماری کیا کہانی ھے؟" میں نے مسکرا کر پوچھا۔
"سورت معلوم ھے؟"
"سورت؟" میں نے انکار میں سر ھلایا۔
"او-کے آئی ٹیل یو۔"
"گجرات میں سورت کے نام کا ایک بڑا شہر ھے احمد آباد کے قریب ھے زیادہ تر کاروباری لوگ رھتے ھیں۔ ھم لوگ بھی ادھر رھتا ھے۔"
مائی فادر ٹیلر ماسٹر ھے اینڈ آئی ہیٹ دس جاب۔"
"سو آئی ٹولڈ مائی فادر۔ آئی ول ناٹ ورک ایز ٹیلر ماسٹر۔ آئی ڈِڈ مائی ماسٹرز فرام احمدآباد۔ بٹ یو نو اِن انڈیا نو جاب اٹ آل۔پھر مدر بولا آئی گِو یو مائی جیولری یو گو ٹو دبئی۔ پھر ھم یہاں آ گیا۔ "
"یہ سیکنڈ منتھ ھے سٹل نو جاب۔ "
"تو پھر اب گزارہ کیسے کرتے ھو؟ " میں نے پوچھا۔
"ایک دوست کو بیڈ سپیس کا پیسہ دیا فار ٹو منتھ۔ ادھر رہتا ھے۔ شام کو ایک ھوٹل والے سے بات کیا ھے۔ ادھر نائٹ میں اب رات کو دس بجے جائے گا اس کے ھوٹل کا سارا برتن دھوئے گا پھر وہ رات کا کھانا دے گا اور صبح کا ناشتہ۔ بس اب تو ایسے ھی گزارہ کرتا ھے۔"
"تو سارا دن کیا کرتے ھو۔" میں نے رنجیدگی سے پوچھا۔
"بس جاب کا تلاش۔ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ۔ شام کو کورنش پر آ جاتا ھے۔ گلف نیوز میں جاب تلاش کرتا ھے اور اپنا بھوک اور پیاس کو رات تک روک کر رکھتا ھے۔"
"بس اب ٹائیم ھونے والا ھے۔ کچھ دیر میں جائے گا کام کرے گا اور کھانا کھائے گا۔"
میں نے کچھ دیر سوچتے ھوئے اس سے کہآ۔
"کیا میں بھی تمارے ساتھ چل سکتا ھوں۔ آئی وِل شیر یور ورک۔"
اشوک نے کچھ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا۔
"یو۔ڈیم سالا کل رات سے بھوکا پیاسا ھے اور بولتا نہیں ھے۔"
اور آگے بڑھ کر اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ ھم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تیر رھے تھے۔
 
آخری تدوین:
Top