۔۔۔۔۔اکادمی ادبیات کی بیوروکریسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر ظہور احمد اعوان

Dilkash

محفلین
اکیڈیمی ادبیات کی بیوروکریسی
میں کسی زمانے میں خط بہت لکھا کرتا تھا اس لئے میرے قریبی بے تکلف دوستوں نے میرا نام ابن خطوطہ بروزن ابن بطوطہ رکھ چھوڑا تھا۔ خیر اب تو ہم وہاں پہ ہیں جہاں ہم کو اپنی خبر بھی نہیں آتی۔ میں نے آج کالم اسلام آباد کے ایک قومی ادارے کے بارے میں لکھنا ہے جس کا کام پاکستان میں علم و ادب کی خدمت اور اس کی بڑھوتری کے لئے کام کرنا ہے۔ اتفاق سے میں اس ادارے کا لائف ممبر ہوں اس کالم کے پڑھنے کے بعد شاید یہ ادارہ اپنے ضوابط میں ترمیم کرکے حیات ادیبوں سے بھی تاحیات ممبر کی علیحدگی و استرداد کے اختیار حاصل کرلے۔

اس ادارے کے سربراہ بہت بڑے سیاسی لیڈر ہیں اور بقول شخصے آصف علی زردار ی کی ناک کے بال۔ 1994-95ء میں جب بے نظیر بھٹو شہید کی دوسری حکومت تھی تو موصوف اس کے سربراہ تھےٗ اس دور میں بڑے اچھے اچھے اور بڑے بڑے کام ہوئے۔ اس زمانے میں افتخار عارف اس کے ڈی جی تھے۔ جن کے حسن انتظام کی وجہ سے ادارے کی ساکھ محترم سمجھی جاتی تھی اور اقربا پروری کا دور دور تک نشان نہ تھا۔

اس زمانے میں 1994ء میں پاکستان کے ادیبوں کی ایک قومی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ اتفاق سے میں بھی اس میں شریک تھاٗ اس کانفرنس کی روداد میں نے دھوپ چھاؤں اور ہوا کے نام سے لکھی تھی اور اس ادارے سے کہا تھا کہ اسے شائع کردیں۔ مگر جواب ندارد۔ پھر اگلے سال ایک عالمی کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر سے بڑے بڑے ادیب شامل ہوئے ۔

اتفاق سے اس کانفرنس میں میں بھی شریک تھا اور اس کی رپورتاژ جہاں نما کے نام سے لکھا اور اکیڈیمی ادبیات سے درخواست کی کہ اسے چھاپ دیا جائے مگر آئیں بائیں شائیں کرکے مجھے ٹال دیا گیا۔ اب پی پی پی کی تیسری حکومت نے اسی شخص کو چیئرمین مبارک بنا کر ادیبوں شاعروں کی پوری قسمت انہیں سونپ دی ہے۔

میں پھر اپنی رپور تاژیں لے کر ان کے پاس گیا کہ اب تو ان کو اکیڈیمی کی طرف سے چھاپ دیا جائے کہ یہ ان کا ہی بے بی ہے کہا گیا کہ فنڈز نہیں ہیں ۔ طوعاً و کرحاً اس کتاب میں دونوں رودادوں کو میں نے دو ترقی پسند کانفرنس کے نام سے شامل کیا اور فخر زمان صاحب سے کہا کہ پیسہ تو میں خرچ کر چکا ہوں۔ آپ براہ کرم اور نہیں تو اس کی سو کاپیاں ہی خریدلیں۔ چیئرمین صاحب نے حاتم طائی کی قبر کو چومتے ہوئے50کاپیاں خریدنے کا حکم جاری فرمایا۔ میں نے اپنے خرچے پر یہ50کاپیاں بھی اکیڈیمی کو بھجوادیں۔ ایک سال گزر گیا ہزار لکھت پڑھت اور ابن خطوطہ بننے کے باوجود نہ کتابوں کا سراغ لگا نہ اس کی رقم ادا کی گئی۔

جب بھی اسلام آباد فون کرو کہا جاتا ہے صاحب ملک سے باہر ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ اکیڈیمی صرف باہر کے لوگوں کے لئے قائم کی گئی ہے اس کے بعد کتابوں کی ادائیگی کیلئے متعلقہ افسر کسی سولنگی صاحب کو باربار فون کرتا ہوں۔ وہ چیئرمین کے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے شاید اپنی نشست پر بیٹھتے ہی نہیں ایک دفعہ بات ہوئی تو فرمایا چیک تیار ہے دستخط باقی ہیں۔

اس بات کو بھی نو ماہ گزر چکے ہیں۔ مجھے کسی اندر کے آدمی نے بتایا کہ سارا بجٹ صاحب کے غیر ملکی دوروں پر خرچ ہو جاتا ہے اس کے بعد کسی غریب ریٹائرڈ مصنف کے لئے کیا بچے۔ میں مایوس بلکہ سخت مایوس ہوگیاٗاب پوچھنا ہی چھوڑ دیا ہے بلکہ یہ50کاپیاں ان کی حمیت گوارا کرے تو مفت میں دان کرنے کو تیار ہوں۔ کتابیں بے شک نہ بھیجیں میرے کسی خط یا ٹیلی فون کا جواب تو دیں اس ادارے کا ایک ماہانہ رسالہ بھی چکنے رنگیں کاغذ پر چھپتا ہے۔ جس میں 500میں سے 490تصویریں جناب چیئرمین صاحب کی ہوتی ہیں چیئرمین صاحب ہاتھ ملا رہے ہیں اس میں کون سی نئی بات ہے۔

چیئرمین صاحب ناک کھجلا رہے ہیں اب ناک کھجلانا ہی ہے ۔نتھنوں میں انگلیاں ڈال کرچوہے تو نہیں نکالنے۔ ایک ہی آدمی کی اتنی تصویریں دیکھ کر جی اوبھنے لگتا ہے۔ اس ادارے کا ایک سب آفس پشاور میں بھی قائم ہے جس کے سربراہ بستر سے لگے ایک رائیٹر کی بیمار پرسی کے لئے کئی دفعہ پھولوں کے ساتھ ان کے گھر آچکے ہیں میں نے وصیت کردی ہے کہ میرے بعد اکیڈیمی کی کسی تعزیتی تقریب یا ریفرنس میں ہرگز شرکت نہ کی جائے اور یہ رقم بھی بچا کر صاحب اعلیٰ کے غیر ملکی دوروں پر خرچ کی جائے جس کا ٹھیکہ یا بیع نامہ وہ اپنے نام لکھوا چکے ہیں۔

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیستٗ افتخار عارف صاحب کو میں نے جتنے خط لکھے ان سب کا جواب انہوں نے دیا اس نے بھی شاید میرا نام ابن خطوطہ رکھ چھوڑا ہے میں ان کا مشکور ہوں۔ کتاب جائے جہنم میں آخر میں نے اپنے خرچے پر 70کتابیں تو چھاپی ہیں ایک اور سہی مگر عام اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے۔

اگر کتاب طلب کرکے اس کی قیمت نہیں دینی تو مجھے اس مضمون کا خط لکھ دیں میں رو دھو کر چپ ہو جاؤں گا۔ مگر اس ادارے کے بارے میں سوچتے ہوئے اس قسم کے درجنوں سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں جن کو میں نے درج کررکھا ہے علالت میں افاقہ ہوا تو کبھی اسے پوری طرح ضبط تحریر میں لاؤں گا۔ مجھے ادیب برادری سے یہی کہنا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔

بھٹو صاحب کے عہد میں فیض احمد فیض کی نگرانی میں اس ادارے کا ڈول ایک کالے ہاتھی کی صور ت میں ڈالا گیا۔مگر بعد میں اس پر اس قدر سفیدی تھوپی گئی کہ یہ سفید ہاتھی بن گیا ہے۔ اکیڈیمی کا دفتر مجھے تو اقوام متحدہ کا ہیڈ کوارٹر نظر آتا ہے جہاں بان کی مون سے بات کرنے کے لئے اس سے کم پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس ادارے کے ہر عہدے اور سرگرمی سے میں دستبردار ہو چکا ہوں۔ صرف تاحیات ممبر شپ باقی ہے۔

اس کی واپسی میرے نہیں ان کے اختیار میں ہے وہ جب چاہیں یہ لے لیں اس سے مجھے کون سے تمن ملتے ہیںٗ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ موصوف چیئرمین صاحب بائیں بازو کے بڑے انقلابی دانشور کہلاتے ہیں ہوں گے۔ مگر فاناںٗ پالوفریریٗ سارتر اور مارکس کی کتابیں میرے تکیے کے نیچے اس وقت سے پڑی رہتی تھیں جب میں ایف اے کا طالب علم تھا اور برازیل کے مشہور دانشور آنجہانی پالو فریری سے ملنے والا پاکستان میں میں پہلا طالب علم ہوں۔ میرے ساتھ اس کی ایک بڑی تصویر اب بھی میرے ڈرائنگ روم میں لگی ہے۔

Dated : 2010-09-11 00:00:00
 
Top