تعارف یہ میڈیا تو دس فیصدی لوگوں کابھی نہیں ہے/ رویش کمار

یہ میڈیا تو دس فیصدی لوگوں کابھی نہیں ہے/ رویش کمار
وقت اشاعت: Tuesday 21 April 2015 02:51 pm IST
1429608111.PNG

"آمنے سامنے "

انٹر ویو: اشرف علی بستوی

ایشیا ٹائمز کے معزز قارئین ! این ڈی ٹی وی انڈیاکے مقبول ترین اینکر رویش کمار سے اشرف علی بستویکی خصوصی گفتگوملا حظہ فرمائیں۔ اس انٹر ویو میں ان کے صحافتی کیرئر، سماجی ایشوز کے تئیں ان کی دل چسپی ،نیوز چینلوں کا مسلم معاشرے کی خبروں اور ایشوز کے تئیں عدم دلچسپی کی اصل وجہ کے علاوہ صحافت کے میدان میں سرگرم نئی نسل اور آنے والے دنوں میں اس میدان میں قدم رکھنے والے نو جوانوں کے لیے پیغام ۔ موجودہ صحافت کو درپیش چیلنج اور ان سے نمٹنے کی متبادل کوششوں کی سمت ۔ یہ اور اس جیسے دیگر سوالات کا جواب جا ننے کی کوشش کی گئی ہے ۔اپنے پینل ڈسکشن میں اپنے ہر سوال کا سیدھا جواب طلب کر نے والے رویش کمار نے بڑی بے باکی سے ہر سوال کا کھل کر جواب دیا ہے ۔

سوال :آپ نے صحافت کب اور کیسے شروع کی؟

جواب: ہمارے استاذ نے ایک بار مجھ سے کالج میں کہا تھا کہ تمہیں صحافت کا پیشہ اختیار کر نا چاہیے ، بس یہیں سے میرا صحافتی سفر شروع ہو گیا ۔ 1995-96 سے ہی ہندی روزنامہ 'جن ستا ' اور کچھ دیگر اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ البتہ این ڈی ٹی وی میں ہی آکرباقاعدہ رپورٹنگ کی تربیت لی اور کام کرنا سیکھا ۔

سوال : سما جی مسائل سے متعلق خبروں تک پہونچنے کا آپ کا طریقہ اور سمجھ دوسروں سے با لکل مختلف ہے ، جبکہ دیگر چینلوں میں عام طور پریہ مزاج نہیں پایا جاتا، دلی کی چمک دمک کے درمیان عام لوگوں سے وابستہ معاشی ،سماجی اور سیاسی مسائل پر نظر رکھنا آپ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہے یہ کام کیسے انجام دیتے ہیں ؟ اور یہ سب کچھ کر نے کی آزادی آپ نے اپنے چینل سے کیسے حاصل کر لی ہے ؟

جواب: جی ہاں مجھے خود بھی یہ حیرت انگیز لگتا ہے کہ اگر میں کسی دوسرے چینل میں ہوتا تو کیا مجھے یہ سب کچھ کرنے کی اتنی جگہ مل پاتی ؟ شاید نہیں ملتی ! لیکن پتہ نہیں ! کیونکہ میں نے کسی دوسری جگہ نو کری کی ہی نہیں ہے تو پھر یقین کے ساتھ یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتا، اور پھر میں یہ کیسے کہہ دوں کہ دوسرے مجھے کرنے نہیں دیتے ۔ لیکن میں نے بھی تو یہاں ایک جگہ رک کر کام کیا اور ایک جگہ ٹھرکر کام کر نے کی بہت ساری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے ۔آپ ایک ہی جگہ پررہ گئے ، آپ نے اپنی صلا حیت کو لیکر کبھی بارگیننگ نہیں کی ،تو اس کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ دراصل بعض باتیں میری فطرت میں داخل ہیں ، یہ میری فطرت میں ہے کہ ہمیشہ کچھ نیا تلاش کرتا رہتا ہوں ، البتہ میں کچھ پہلے سے طے نہیں کرتا ۔ ہاں کسی چیز کے اس پہلو کو جسے سبھی لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں میں ذرا اس میں الگ پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، کسی منظر کے دوسرے پہلو کو دیکھنے کا میرا یہی نظریہ ہی مجھے دوسروں سے الگ کرتا ہے۔

20150416_163201.jpg


(انٹرویو کے بعد این ڈی ٹی وی کے دفتر میں رویش کمار کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(تصویر: ایشیا ٹائمز

سوال: ہم نے آپ کو متعدد بار لائیو رپورٹنگ کرتے دیکھا ہے کہ آپ آس پاس کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر اور جذبات میں آئے بغیر ، کسی کا رنگ اختیار کر لینے کے بجائے ، ہمیشہ غیر جانب دار رہ کر اپنے ناظرین کو بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کرتے دیکھتے جاتے ہیں کہ آج اسٹیج سے کیے گئے یہ وعدے اور دعوے یاد رکھیں گے۔ اس کا ایک منظر ہم نے 28 دسمبر 2013 کو اروند کیجری وال کی پہلی حلف برداری تقریب کی رپورٹنگ کے وقت دیکھا تھا ۔ گویا اپنے ناظرین کو نصیحت کرنے انہی ایجوکیٹ کرنے کا آپ کا یہ انداز ہے ؟

جواب : دیکھیے یہ بھی تربیت کی وجہ سے ہی ہے ، ایسے منظر تو ہم نے اپنی اس چھوٹی سی عمر میں بہت دیکھے ہیں ، ہم سے زیادہ عمر کے لوگوں نے اور بھی دیکھا ہے ۔ جب کوئی لیڈر حلف لے رہا ہوتا ہے تو اس وقت ہرطرف مسرت و شادمانی کا ماحول ہوتا ہے ، پارٹی کار کنوں کے لیے خوشی کا موقع ہوتا ہے ۔ یہ سبھی پارٹیاں کرتی ہیں ۔ میرا ماننا ہے کہ لوگوں کو ووٹ دینے کے بعد سے سیاسی پارٹیوں سے تھوڑا خود کو الگ کر لینا چاہیے ، نیز انہیں اب ایک شہری کا کردار اختیار کر لینا چاہیے اور یہ باقاعدہ اعلان کر دینا چاہیے کہ اب آج کے بعد سے ہم کسی کے حامی نہیں ہیں ، سرکار کے کام کاج پر نظر رکھنا چاہیے پھر اسی حا لت میں اگلے پانچ سال تک رہنا چاہیے ، اپنے آس پاس ہونے والی تبدیلیوں پر باریک بینی سے نظر رکھنا چاہیے ملک اور ریاست میں ہونے والی تبدیلیوں کا سختی سے جائزہ لیتے رہنا چاہیے ۔ دراصل کسی لیڈر کو اس کا شوق پورا کرنے کے لیے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جاتا ہے ۔اسے کام کرنے کی ایک ذمہ داری دی جاتی ہے۔

لیکن آج کل الیکشن کے اس عمل کو بہت زیادہ متاثر کن اور جاذب نظر بنانے کے لیے غیر ضروری چھوٹی چھوٹی اسکیموں کا بینر و پوسٹر لگا نے کی ہورڈنگیں لگائی جاتی ہیں ، سیاست میں سادگی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے آپ اس کے بجائے اپنے کام کے ذریعے لوگوں تک پہونچیں یہ بھی تو رابطہ کا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے ۔ اب تو سیاسی ریلیوں کے اشتہاربھی ایف ایم چینلوں پر دیے جانے لگے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟ سبھی پارٹیا ں اس معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی دیکھی جاتی ہیں ۔ عوام کے پیسے کو اگر دو اسپتال کو ٹھیک کرنے میں لگا دیں اور اسی کو نمونے کے طور پر پورے شہر کو دکھا دیں تو کیا یہ کم بڑٰی بات ہوگی ؟ لوگوں کوتو تھوڑا خبر دار رہنا سیکھنا چاہیے کہ ملک کے عوام اپنے جذبات میں سیاست کا تناسب جتنا کم رکھیں گے ان کے حق میں اتنا ہی اچھا ہو گا۔

سوال : آج سے کوئی ڈھائی برس قبل آپ نے نیوز لا نڈری ڈاٹ کام کو دیے گئے اپنے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ 'مجھے ' لٹینس زون ' کی 'لال پتھر پترکاریتا ' میں کو ئی دل چسپی نہیں ہے میں نے این ڈی ٹی وی کے اس آفر کو کو منع کر دیا تھا " ایسا کیوں ؟ جبکہ موجودہ صحافت میں پارلیا مینٹ رپورٹنگ کو تو صحافت کی معراج تصور کیا جا تا ہے ؟

جواب: دراصل میرے لیے تو 'معراج ' کوئی اچھی اسٹوری ہے، وہ جہاں کہیں بھی ملے میں اس کی تلاش میں رہتا ہوں، ایسا میری فطرت کے خلاف ہے مجھے ایسی جگہوں پر جا کر کچھ حاصل کرنا پسند نہیں ہے ۔ کیونکہ ان مقامات پر بس وہی دس بارہ لوگوں سے ملنا وہاں کی ہلچل پر نظر رکھنا ہوتا ہے اج کس نے کیا کہا ، کیا نہیں کہا وغیرہ ۔۔۔ حالا نکہ یہ بھی پیشے ورانہ کام ہے ۔ جب میں پرانے لوگوں کو دیکھتا تو خود سے یہ سوال کرتا کہ کیا میں انہی کے جیسا بن جاوں اور میں با لکل ان کے جیسا نہیں بننا چاہتا تھا ، جہاں یہ سب ہوتا ہے کہ کس نے کیا کہا ، کس کی کیا حرکت ہے ، کسی کی ذاتی دلچسپی کیا یہ سب کچھ سمجھنے اور لکھنے میں مجھے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ آپ کتنے بڑے سیاست داں ہیں اس کا صحیح اندازہ آپ کی زمینی کار کردگی طے کرتی ہے ، اس لیے آئیے ہم زمین پر چل کر دیکھ لیتے ہیں کہ اپ نے کیا کیا ہے ، کتںا کام ہوا ہے ۔ اسی لیے ایسی جگہوں پر میرا دل نہیں لگا ، مجھے یہ خواہش نہیں ہوتی کہ میں گاڑی سے جا رہا ہوں اورلوگ مجھے سلام کریں ۔ بلکہ میری تو خواہش یہ ہوتی ہے کہ مجھے کم سے کم لوگ پہچا نیں ۔ میرے نزدیک ایک رپورٹر کے لیے آئیڈیل یہی ہے کہ وہ دنیا کو د یکھے دنیا اس کو نہ دیکھے ۔

سوال : ہندوستانی مسلم سوسائٹی کی مین اسٹریم میڈیا خصو صا نیوز چینلوں سے شکایت یہ ہے کہ ان سے متعلق زیا دہ تر خبریں نظر انداز کر دی جاتی ہیں ، یا تو بہت کم دی جاتی ہیں اور پھر یہ بھی ہے کہ اس میں منفی پہلو زیادہ حاوی رہتا ہے ، اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟

جواب : سمجھنے کی بات یہ کہ اس مسئلے کی جڑ میں سیاسی مفاد کار فرما ہے مسلم معاشرہ ہو دلت یا کوئی اور کمزور طبقہ سبھی کی میڈیا سے یہی شکایت ہے ۔ یہی شکایت اعلیٰ طبقے کے لوگ بھی کر سکتے ہیں کہ ہماری شبیہ خراب کی جارہی ہے حا لا نکہ یہی طبقہ میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے اس پر اپنا اثر رکھتا ہے ۔ یہ صورت حال صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے ایک خاص طریقے کی شبیہ گڑھی جاتی ہے ۔ لیکن ایسی بات بھی نہیں ہے کہ صرف یہی ایک تصویر ہے اسی میڈیا میں ان سب کی مزمت کرنے والے مسلم رائٹر بھی ہیں ، ہندو ، سکھ اور عیسائی لکھنے اور بولنے والے بھی ہیں ، لیکن شبیہ بگا ڑنے کی یہ مہم ختم نہیں ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ اس میں کام کرنے والے لوگ ہیں ان کے درمیان وہی کشمکش ہے جو ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے ، اور پھر اس میں ایک بڑا رول اڈیٹر کا ہو جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے رپورٹر یا لکھنے والے کو گائیڈ کرتا چلے کہ وہ خبر لکھتے وقت کسی طرح کی خاص شبیہ نہ ابھرنے دے ۔ سچ مچ یہ صورت حال بہت تکلیف دہ ہے میں اس تکلیف کو اگر مسلمان اور دلت ہوتا تو زیادہ محسوس کر پاتا۔ اس وقت جب ایک شخص یا ایک طبقے کو ایک خاص پہچان دیکر الگ کر دیتے ہیں اور پھر جب بات کرتے ہیں کہ آپ تو ایسے ہیں اور ایسے ہی ہوں گے تو اس سے اس سماج یا فرد پر کیا گزرتی ہو گی اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس تکلیف تو ہوتی ہے ، یہ لڑائی جاری رہے گی ۔

سوال : جب ایک شخص دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہوتا ہے تو ہمارا میڈیا مستقل خبریں نشر کرتا ہے اور جب وہ عدالت سے باعزت بری ہوتا ہے تو اس وقت ہمارے چینلوں اور اخباروں کو کیا ہو جا تا ہے ، عدالت سے باعزت بری ہونے والے کے ساتھ میڈیا خود کو کیوں نہیں کھڑا کر پاتا ، گرفتاری کے بعد گھنٹوں پینل ڈسکشن نشر کرنے والے یہ چینل بے قصوروں کی باعزت رہائی پر کیوں مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ؟

جواب: کچھ معاملات میں جیسے اکشر دھام اور احمدآباد دھماکوں کے الزام سے جب کچھ لوگ بری کیے گئے تھے تو اس کی رپورٹنگ ہوئی تھی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات کو ہماری سیاست خاطر میں نہیں لاتی ، کہ اس معاملے کو لیکر سماج کے پاس جائے ، اگر ہر واقعے کو ہندو مسلمان کے نظریے سے دیکھنے کے بجائے قانون کے نظریے سے دیکھیں تو کیا ہی اچھا ہوتا ہے ۔ جی ہاں یقینی طور پر ایسے ایشوز کو اٹھانے ان پر بات کرنے کے لیے موجودہ میڈیا میں گجنائش ذرا کم ہے ۔ کئی بار مجھے بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ میڈیا تو دس فیصد لوگوں کابھی نہیں ہے ۔ یہ بات آگے تب بڑھے گی جب ہندوستانی سماج کے سبھی لوگ مشترکہ طور پر اسے لیکر آگے بڑھیں اسے ڈبیٹ کا حصہ بنائیں ،آپ کی یہ بات درست ہے کہ بعض واقعات میں میڈیا میں اس کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن ایک خامو شی نما ہوتا ہے بات آئی گئی اور ہو گئی کا انداز اپنا یا جاتا ہے ، بس اپنے ریکارڈ میں درج کرلینے تک کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ ایسے موقعوں پر نہ تو میڈیا اور نہ ہی سیاست موقع کا فائدہ اٹھا کر معاشرے میں فرقہ وارنہ ذہنیت کے خلاف کھڑے ہوتی ہے باعزت بری ہونے کی ان خبروں کے سہارے فرقہ پرست قوتوں پر حملہ کیا جا سکتا تھا ، لیکن ایسا ہو تا نہیں ہے ۔

سوال: موجودہ دور میں صحافت کو درپیش چیلنج کیا ہیں؟

جواب : ہر دورمیں صحافت کو دشواریوں کا سامنا رہا ، صحافت کا کوئی زریں دور کبھی نہیں رہا ،ہر دور میں اچھی اور بری صحافت کر نے والے لوگ رہے ہیں اور صحافت میں ہمیشہ جدو جہد کر نے والے بھی رہے ہیں ۔ ہم تو لکھنا چاہتے ہیں لیکن جس پلیٹ فارم پر لکھنا چاہتے ہیں وہ کسی اور کا ہے ، یہ کشمکش جاری رہتی ہے ۔ کوئی ایسا دورماڈل کے طور پر نہیں رہا ہے جسے صحافت کا پیما نہ قرار دیا جا سکے ۔ اگر آپ کوئی پیما نہ بنا بھی لیں تو نشریاتی ادارہ تو کوئی اور چلا رہا ہے اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور جب اس کے مفادات متا ثر ہوں گے تو وہ پیما نہ بھی ٹوٹے گا کوئی بھی ادارہ نہیں چاہتا کہ ایسا کوئی نظام قائم ہو جائے ، کوئی بااختیار اڈیٹر آجائے ، یہ سب دشواریاں تو ہیں لیکن اس کے باوجود میں نہیں مانتا کہ معاشرے میں میڈیا کی ضرورت کبھی ختم ہو جائے گی۔ امید افزا بات یہ ہے کہ تمام تر مسائل و دشواریوں کے باوجود آج بھی کچھ لوگ سوال کرنے کی جگہ نکال ہی لیتے ہیں اور عوام کے اعتماد کو کسی نہ کسی درجے میں اب بھی بر قرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

سوال: آپ نے ایک بار اپنے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ میں نے اس پیشے میں پندرہ برس گزار لیے ہیں جو اب خراب ہو گیا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے آپ کے لہجے میں بے اطمینانی کی کیفیت اور کرب کا اظہار دکھا ئی دے رہا تھا ایسا کیوں ؟

جواب: جی ہاں ! صحیح معنوں میں اب اس پیشے میں میرا دل نہیں لگتا ہے ، پریشان تو ہوں لیکن بہت غور و فکر کے بعد یہ نکل کر آتا ہے کہ اس کا حل میرے پاس نہیں ہے ۔ ہم اچھا لکھ سکتے ہیں کوئی ہمیں اچھا لکھنے کا موقع فراہم کردے لیکن اس کا انفراسٹریکچر ہمارے پاس تو نہیں ہے ۔ اور جب مجھے اپنے حدود کا احساس ہوتا ہے تو پھر یہی خیا ل ذہن میں آتا ہے کہ اگر میرے پاس کوئی موقع ہوتا تو میں اسے چھوڑ کر چلا جاتا لیکن مجھے سیاست بھی نہیں کرنی ہے ، میرے 'من ' کی بات یہ ہے کہ میرا دل با لکل بھی اب اس صحافت میں نہیں لگ رہا ہے ۔

سوال : صحافت کے میدان میں سرگرم نئی نسل کی رہنمائی کے لیے آپ کا پیغام ؟

جواب: صحافت کے میدان میں کیریر بنانے کے خواہش مند وں سے میں کہنا چاہوں گا کہ پڑھیں ، پڑھیں اور خوب پڑھیں ۔ جو کچھ وہ جانتے ہیں اسے کبھی بھی مکمل نہ ما نیں روزانہ اپنی جانکاری کو اپڈیٹ کرتے رہیں ، نئی نئی کتابوں کا مطالعہ کریں ، لوگوں سے ملیں اور ہر خبر کے دوسرے پہلو کو تلاش کر تے رہیں ۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم روایتی موجودہ میڈیا کا متبادل تلاش کریں ویب سائٹ اور بلاگس کے ذریعے ہی سہی اپنے خیالات و احساسات کو عام کریں بہتر چیزوں کو عوام تک پہونچانے کا کام کسی حد تک Alternative Media سے کیا جا سکتا ہے ۔ اگر روزانہ اخباروں کی رپورٹنگ پر ہی ایک تجزیہ اپنے بلاگ یا ویب سائٹ پر پیش کردیں تو اس سے کچھ لوگوں تک تو بات پہونچ جائے گی ۔ انسا نی سماج کو کوئی میڈیا کوئی سیاسی جماعت ایک دن میں نہیں بدل سکتی یہ بہت طویل عمل ہے ۔ اس پیشے میں وہی لوگ آئیں جو دل سے آنا چاہتے ہوں جن کا اعتماد زمانے کے اتار چڑھاو سےمتزلزل نہ ہو ، وہ نئے نئے علاقوں میں جائیں نئے نئے سبجیکٹس تلاش کریں خود جا نیں اور پھر اس کے بارے میں سماج کو بھی بتائیں یہ باتیں ایک صحافی کے مزاج میں پیوست ہو نا چاہیے ۔

سوال : آج سے کوئی چودہ برس قبل جب میں نے اس پیشے میں قدم رکھا تھا اس وقت میرے علاقے کے ایک سینئر جر نلسٹ نے مجھ سے کہا تھا ‘سنو میاں’ بنا کھائے ،بنا پائے اور بنا سوئے اگر کام کرنے کا جذ بہ ہے تبھی صحا فت کے میدان میں قدم رکھنا ؟

جواب: میں اس طرح کے کسی بے نیاز صحافی کی خواہش نہیں کرتا ، جب سب لوگ کمائی کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں اس کے بدلے کچھ امید رکھتے ہیں تو صحافی کا بھی یہ حق ہے ۔ ایک صحافی پھٹے حال رہے اس کے بدن پر ٹھیک سے کپڑے نہ ہوں اس کے چپل پھٹے ہوئے ہوں یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ ایک صحافی کو بھی اچھی زندگی گزارنے کا حق ہے اور اس کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی طرح پرورش کرے ان کے لیے بہتر تعلیم کا نظم کرے ، اسے بھی اچھی زندگی میسر ہو ، لیکن ہاں ان سب کے درمیان وہ اپنے کام میں دل چسپی لینے والا ذہنی طور پر تیز طرار اورپکا نشانے باز ہو ۔ اسے یہ اچھی طرح معلوم ہو کہ اسے کب اور کس طرح اپنا تیر چلانا ہےاور یہ کرتے وقت خیال رکھے کہ اس کاکوئی نہیں ہے ، یہ سماج یہ سرکاریں اور یہ ادارے صحافی کے ساتھ نہیں ہیں۔ میدان صحافت کا یہ سپاہی 'ابھمنیو' کی طرح اکیلے میدان جنگ میں گھرا ہوا ہے ۔

- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2015/04/8935_#sthash.7bjneGVw.dpuf
 
Top