ساحر یہ عشق عشق ہے

غزل قاضی

محفلین
نہ تو کارواں کی تلاش ہے ، نہ ہم سفر کی تلاش ہے
مرے شوقِ خانہ خراب کو تری رہ گزر کی تلاش ہے

( ب )
مرے نامراد جنوں کا ہے جو علاج کوئی تو موت ہے
جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر تلاش ہے

( ا )
ترا عشق ہے مری آرزو ، ترا عشق ہے میری آبرو
ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں ، مری عمر بھر کی تلاش ہے
دل عشق ، جسم ہے اور جان عشق ہے
ایمان کی جو پوچھو تو ایمان عشق ہے
ترا عشق کیسے میں چھوڑ دوں ، مری عمر بھر کی تلاش ہے

( پ )
وحشت دل رسن و دار سے روکی نہ گئی
کسی خنجر کسی تلوار سے روکی نہ گئی
عشق مجنوں کی وہ آواز ہے جس کے آگے
کوئی لیلیٰ کسی دیوار سے روکی نہ گئی
یہ عشق عشق ہے

وہ ہنس کے اگر مانگیں تو ہم جان بھی دے دیں گے
یہ جان تو کیا چیز ہے ، ایمان بھی دے دیں گے
عشق آزاد ہے ، ہندو نہ مسلمان ہے عشق
جس سے آگاہ نہیں شیخ و برہمن دونوں
اس حقیقیت کا گرجتا ہوا اعلان ہے عشق
عشق نہ پُچھے دین دھرم نوں عشق نہ پُچھے ذاتاں
عشق دے ہتھوں گرم لہو وِچ دبیاں لَکھک براتاں
یہ عشق عشق ہے

جب جب کرشن کی بنسی باجی ، نکلی رادھا سج کے
جان اجان کا دھیان بُھلا کے لوک لاج کو تَج
بن بن ڈولی جنک دلاری پہن کے پریم کی مالا
روشن جل کی پیاسی میرا ، پی گئی بِس کا پیالا
یہ عشق عشق ہے

اللہ اور رسول کا ، فرمان عشق ہے
یعنی حدیث عشق ہے قرآن عشق ہے
گوتم کا اور مسیح کا ارمان عشق ہے
یہ کائنات عشق ہے اور جان عشق ہے
عشق سرمد ، عشق ہی منصور ہے
عشق موسیٰ ، عشق کوہ ِ طور ہے
خاک کو بُت اور بُت کو دیوتا کرتا ہے عشق
انتہا یہ ہے کہ بندے کو خدا کرتا ہے عشق
انتہا یہ ہے کہ بندے کو خدا کرتا ہے عشق
یہ عشق عشق ہے

ساحر لدھیانوی

 
Top