یہ سبق شہر کے لڑکوں کو پڑھایا جائے - سلیم بیتاب

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یہ سبق شہر کے لڑکوں کو پڑھایا جائے​
اپنی ہر سوچ کو پاگل نہ بنایا جائے​
آشیاں اپنا ہی آجائے نہ اس کی زد میں​
دیکھ کر بحث کا طوفان اٹھایا جائے​
دیکھ کر اس کو نگاہیں نہ جھکائی جائیں​
اپنے احساس کو مجرم نہ بنایا جائے​
مجھ کو یوں ظلمتِ زنداں میں چھپانے والے​
میں ہو مجرم، تو مرا جرم بتایا جائے​
جی میں آتا ہے کہ یہ تجربہ بھی کر دیکھیں​
جیت کر اس کو پھر اک بار گنوایا جائے​
مدّتیں گزری ہیں دنیا سے جسے بھاگے ہوئے​
اب تو اس شخص کو خوابوں سے بلایا جائے​
دیدنی ہوتا ہے وہ لمحۂ سفاک کہ جب​
اپنے افکار کو سولی پہ چڑھایا جائے​
آپ کی ضد سے نہ بُجھ جائے چراغِ دانش​
سوچ کر فلسفی کو زہر پلایا جائے​
آج بیتابؔ فصیلوں کی ضرورت کیا ہے
شہر کو شہر کے لوگوں سے بچایا جائے
سلیم بیتابؔ​
 
Top